میرے لیے اللہ اور اس کا رسول کافی ہیں ، روایت کی وضاحت

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : آج کل مختلف مقامات پر سٹیکرز لگے نظر آ رہے ہیں جب پر لکھا ہے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ میرے لیے اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کافی ہیں۔ “ وضاحت کریں کہ یہ کون سی روایت ہے اور اگر ہے تو کس موقع پر کہا گیا ؟
جواب : قرآن حکیم میں اللہ تعالی نے یہ بات کئی جگہ سمجھائی کہ ہمیں اللہ ہی کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے فرمایا :
﴿فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّـهُ لَا إِلَـهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ﴾
’’ اگر یہ سب لوگ منہ موڑ جائیں تو آپ کہہ دیں کہ مجھے اللہ کافی ہے جس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، میں نے اس پر توکل کیا اور وہ عرش عظیم کا رب ہے۔ “ [9-التوبة:129]

ایک اور مقام پر فرمایا :
﴿وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّـهِ فَهُوَ حَسْبُهُ﴾
’’ جو اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اسے کافی ہو جاتا ہے۔ “ [64-الطلاق:3]

ایک دوسرے مقام پر فرمایا :
﴿لَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ﴾
’’ کیا اللہ اپنے بندوں کو کافی نہیں۔ “ [39-الزمر:36]

الغرض اللہ تعالی پر ایمان، توکل، اسے اپنے تمام امور میں کافی سمجھنا اسلامی عقیدہ ہے، بعض لوگ اس سے منحرف ہو جاتے ہیں اور قرآن و حدیث کے دلائل میں تحریف کا ارتکاب کرتے ہیں، جس کی ایک مثال یہ ہے جس کی طرف آپ نے توجہ دلائی ہے۔

اصل روایت یہ ہے :
’’ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا، اس دوران میرے پاس کچھ مال آ گیا، میں نے سوچا کہ آج کے دن میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اگر سبقت لے لی تو سبقت لے سکتا ہوں۔ کہتے ہیں میں اپنا آدھا مال لے کر آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’ تو نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ؟“ میں نے کہا: اسی کی مثل اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس جو کچھ تھا وہ لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ’’ اے ابوبکر ! تم نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ؟“ تو انہوں نے کہا: ابقيت لهم الله ورسوله
’’ میں نے ان کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (کی رضا مندی) کو باقی رکھا۔ “
[ترمذي۔ كتاب المناقب : باب رجاء صلى الله عليه وسلم ان يكون ابوبكر ممن يدعي من جميع ابواب الجنته : 3675، حاكم : 1 / 414]

* شارحین حدیث نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس جملے ابقيت لهم الله و رسوله کی شرح رضا هما سے کی ہے یعنی ’’ اللہ اور اس کے رسول کی رضا مندی“۔ جیسا کہ ملا علی قاری حنفی نے مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ [10/ 379] اور علامہ عبدالرحمن محدث مبارکپوری نے تحفتہ الاحوذی [10/ 154] میں ذکر کیا ہے۔ لہٰذا اسے غلط رنگ دے کر بیان کرنا درست نہیں ہے۔ ہر مسلمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت رکھتا ہے اور وہی کام کرنا پسند کر تا ہے جسے اللہ نے پسند کیا یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ جو مقام صدیقیت پر فائز تھے، انہوں نے بھی صدقہ کرتے وقت جو سب کچھ دے دیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی میں دیا۔ اسی طرح کہا کہ گھر میں اللہ اور اس کے رسول کی رضا ہی چھوڑی ہے۔ والله اعلم !

 

اس تحریر کو اب تک 32 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply