تقدیر پر ایمان

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا أَنْتَ لَاقٍ
” تم نے جو کچھ کرنا ہے۔ اس کے متعلق قلم لکھ کر خشک ہو چکا ہے۔ “ [صحيح بخاري/النكا ح : 5076 ]
فوائد :
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول ! میں جوان آدمی ہوں اور مجھے اپنے متعلق زنا کا اندیشہ ہے جبکہ میرے پاس شادی کے لئے کچھ بھی نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے پھر وہی بات عرض کی۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے، بار بار میں نے یہ بات دہرائی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم نے جو کچھ کرنا یا تمہارے ساتھ جو کچھ ہونا ہے اس کے متعلق قلم لکھ کر خشک ہو چکا ہے۔“ [صحيح بخاري/النكا ح : 5076 ]
اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر کو بیان کیا ہے۔ تقدیر کے معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چیزوں کی ایجاد سے پہلے ہی انہیں معلوم کر لیا اور ان کا اندازہ کر کے ان کی کارکردگی کو لوح محفوظ میں لکھ دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو پیدا فرمایا اور اس کی تقدیر مقرر فرمائی۔ “ [الفرقان : 2]
تقدیر کے دو مراتب حسب ذیل ہیں :
➊ کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے یا آئندہ ہونے والا ہے۔ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔
➋ اللہ تعالیٰ نے اپنے علم کے مطابق تمام اشیاء اور ان کی کارکردگی کو لوح محفوظ میں لکھ دیا ہے۔
ان دونوں مراتب کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :
”کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے۔ یہ سب کچھ لکھی ہوئی کتاب میں محفوظ ہے۔“ [الحج : 70]
اس آیت کریمہ میں اللہ کے کمال علم اور اسے تحریر میں لانے کا ذکر ہے جسے حدیث میں بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کی پیدئش سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں جبکہ اس کا عرش پانی پر تھا۔ [صحيح مسلم /القدر : 6748 ]

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply