موئے زیر ناف کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

ماہنامہ السنہ جہلم جواب: مردوزن کی شرم گاہ اور اس کے گرد اگنے والے بال زیر ناف کہلاتے ہیں ، انہیں صاف کرنا فطرت ہے ۔ طبی اعتبار سے کئی فوائد بھی ہیں ، ان کی کم سے کم مدت مقرر نہیں ، البتہ زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے ۔ چالیس دنوں سے تجاوز جائز نہیں ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: وقت لنا فى قص الشارب ، وتقليم الأطفار ، ونتف الإبط ، وحلق العانة ، أن لانترك أكثر من أربعين ليلة ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیں لینے ، ناخن کاٹنے ، بغل کے بال اکھاڑنے اور زیر ناف بال صاف کرنے کی آخری حد چالیس دن رکھی ہے کہ اس سے زیادہ تاخیر نہ کی جائے ۔“ [صحيح مسلم: ٢٥٨] فتاوی عالمگیری میں لکھا ہے: ألأفضل أن يقلم أظفاره ويحفي شاربه ويحلق عانته…

Continue Readingموئے زیر ناف کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

عذر کے پیش نظر صرف چادر میں بھی نماز قبول ہو جاتی ہے

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: سَأَلْنَا جَابِرًا عَنِ الصَّلَاةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ؛ فَقَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ ، فَحِبُّتُهُ لَيْلَةٌ لِبَعْضِ أَمْرِي، فَوَجَدْتُهُ يُصَلِّى وَعَلَى ثَوبٌ وَاحِدٌ فَاشْتَمَلْتُ بِهِ وَصَلَّيْتُ إِلَى جَانِبِهِ ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ: مَا السُّرَى يَا جَابِرُ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِحَاجَتِي فَلَمَّا فَرَغْتُ قَالَ: مَا هَذَا الْإِشْتِمَالُ الَّذِي رَأَيْتُ ؟ قُلْتُ: كَانَ ثَوْبًا قَالَ: فَإِنْ كَانَ وَاسِعًا فَالْتَحِفُ بِهِ وَإِنْ كَانَ ضَيِّقًا فَاتَّزِرُبِهِ حضرت سعید بن حارث سے روایت ہے اس نے بیان کیا کہ ہم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا : ”میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا ، ایک رات میں اپنے ایک کام کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وسلم…

Continue Readingعذر کے پیش نظر صرف چادر میں بھی نماز قبول ہو جاتی ہے

ایک کپڑے میں نماز پڑھنا درست ہے

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: لَا يُصَلِّي أَحَدُكُمْ فِي الثَّوبِ الْوَاحِدِ لَيْسَ عَلَى عَائِقِهِ مِنْهُ شَيْءٌ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم میں سے کوئی بھی اس حال میں ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھے پر کوئی چیز نہ ہو ۔ “ [مسلم] تحقیق و تخریج : بخاری : 359 ، مسلم : 516 فوائد : ➊ ایک کپڑے میں نماز پڑھنا درست ہے شرط یہ ہے کہ کندھے ننگے نہ ہوں ۔ ➋ ننگے سر نماز پڑھنا درست ہے جبکہ ایک کپڑا ہوا اگر زیادہ ہوں تو بہتر ہے کہ سر کو ڈھانپ کر نماز اداکی جائے ۔ ویسے مومن کے لیے اچھی بات یہ ہے…

Continue Readingایک کپڑے میں نماز پڑھنا درست ہے

سفید، زرد اور چھوٹا لباس پہننا

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ سوال : ① خالص سفید، زرد اور سرخ رنگ میں باپردہ لباس پہننے کا کیا حکم ہے ؟ ② اتنا چھوٹا لباس پہننا کہ جس سے پاؤں بھی ننگے رہیں شرعاً کیا حکم رکھتا ہے ؟ جواب : عورت کے لئے کسی بھی رنگ کا لباس پہننا جائز ہے۔ ہاں ایسا رنگ جو مردوں کے ساتھ مخصوص ہو عورت نہیں بن سکتی، کیونکہ ایک دوسرے کی مشابہت اپنانے والے مرد اور عورتیں ملعون قرار دیئے گئے ہیں۔ عورت کے لئے ایسا لباس زیب تن کرنا ضروری ہے جو اس کے تمام بدن کو ڈھانپ سکے۔ اگر وہ غیر مردوں کے پاس ہو تو اس کے لئے بدن کا کوئی حصہ کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔ نہ چہرہ، نہ ہاتھ اور نہ پاؤں۔ ہاں بوقت ضرورت جسم کا کوئی حصہ کھل جائے مثلاً کوئی چیز پکڑتے یا…

Continue Readingسفید، زرد اور چھوٹا لباس پہننا

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا ينظر الله إلى من جر ثوبه خيلا ‏‏‏‏ [ متفق عليه] ”ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف دیکھے گا نہیں جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ کھینچا۔ “ [متفق عليه] ، [بلوغ المرام : 1249] تخریج : [بخاري : 5791، 5783] ، [مسلم : اللباس 43] ، [بلوغ المرام : 1249] دیکھئے [تحفة الاشراف 466/5، 347/5، 215/6] مفردات : الخيلاء تکبر یہ مصدر ہے۔ گھوڑوں کو خيل اس لئے کہتے ہیں کہ ان کی چال میں تکبر پایا جاتا ہے۔ [قاموس] فوائد : ”دیکھے گا نہیں“ کا مطلب یہ ہے کہ رحمت اور محبت کی نظر سے نہیں دیکھے…

Continue Readingٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا

سیاہ خضاب کی شرعی حیثیت

تحریر: ابن الحسن محمدی

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سر یا ڈاڑھی کے سفید بالوں کو رنگ دینے کا حکم فرمایا ہے۔ یہ حکم استحباب پر محمول ہے۔ حدیث میں اس استحبابی عمل کو سیاہ خضاب سے سرانجام دینے کی ممانعت آئی ہے۔ اس ممانعت کا کیاحکم ہے ؟ سیاہ خضاب حرام ہے یا خلاف ِ اولیٰ ؟ یہ مضمون اسی بارے میں مفصل تحقیق پر مبنی ہے۔ قارئین کرام اس مضمون سے کماحقہ استفادہ کرنے کے لیے بطور تمہید تین باتیں یاد رکھیں۔

ایک یہ کہ قرآن و سنت کا وہی فہم معتبر ہے جو سلف صالحین، یعنی صحابہ و تابعین اور ائمہ دین سے لیا جائے۔ سلف صالحین ساری امت سے بڑھ کر قرآن و سنت کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے تھے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ قرآن و سنت کا کوئی حکم فرضیت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے مستحب سمجھتے رہے ہوں اور شریعت کی کوئی ممانعت حرمت کے لیے ہو اور سلف صالحین اسے خلاف اولیٰ ہی کا درجہ دیتے رہے ہوں۔ اسی طرح اس کے برعکس معاملہ ہے۔ اسی لیے بعد میں آنے والے لوگوں کا فہم دین اگر اسلاف امت کے خلاف ہو تو مردود ہو گا۔ زبانِ نبوی سے اسلافِ امت کو خیرالقرون کا جو لقب ملا ہے، اس کا یہی تقاضا ہے۔

دوسرے یہ کہ قرآن و سنت کا ہر حکم فرضیت کے لیے ہوتا ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا استحباب پر محمول ہونا ثابت ہو جائے اور ہر ممانعت حرمت کے لیے ہوتی ہے، الایہ کہ کسی قرینے سے اس کا محض کراہت پر محمول ہونا ثابت ہو جائے۔

تیسرے یہ کہ دلیل صرف کتاب و سنت ہے، البتہ کتاب و سنت کو سمجھنے کے لیے جس طرح لغت اور دیگر علوم و فنون کی ضرورت ہے، اس سے کہیں زیادہ صحابہ و تابعین کے فہم کو مدنظر رکھنا لازمی ہے۔ کسی مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ نصوصِ شرعیہ کو سمجھنے کے لیے اہل لغت کی بات تو مانتا رہے، لیکن اسلاف ِ امت کے قول و فعل کو نظر انداز کرتا رہے۔ بعض لوگ لغت اور اصولِ فقہ جیسے علوم سے کتاب و سنت کے اوامر و نواہی کا درجہ متعین کرنے کو عین شریعت سمجھتے ہیں لیکن صحابہ و تابعین اور ائمہ دین کے فہم و عمل کے ذریعے ایسا کرنے کو ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔ یہ انصاف پر مبنی بات نہیں۔

اسی لیے اہل حدیث کا منہج یہ ہے کہ کتاب و سنت کے وہی معانی سمجھے جائیں جو اسلاف ِ امت نے سمجھے ہیں۔ جس حکم شرعی کو اسلاف فرض کا درجہ دیتے تھے، اس کو اہل حدیث فرض کا درجہ دیتے ہیں اور جس کو اسلاف مستحب سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث مستحب ہی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جس ممانعت کو اسلاف حرام کا سمجھتے تھے، اس کو اہل حدیث حرام ہی قرار دیتے ہیں اور جس کو اسلاف صرف خلاف اولیٰ سمجھتے تھے، اس پر اہل حدیث بھی خلاف ِ اولیٰ ہی کا حکم لگاتے ہیں۔ اہل حق نہ تو سلف سے ایک قدم آگے بڑھتے ہیں، نہ ایک قدم پیچھے رہتے ہیں۔ یہی مسلک اہل حدیث ہے۔

اس تمہیدکے بعد ہمارے لیے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں سیاہ خضاب لگانے کی گنجائش موجود ہے۔ اس بارے میں ممانعت حرمت پر دلالت نہیں کرتی۔ اسلاف امت کا فہم و عمل یہی بتاتا ہے۔
(more…)

Continue Readingسیاہ خضاب کی شرعی حیثیت

End of content

No more pages to load