قبر پرستی دنیا میں کیسے پھیلی

تالیف: سید محمد داود غزنوی حفظ اللہ

قبر پرستی دنیا میں کیونکر پھیلی
اسباب و وجوه
اس فتنہ عظیمہ سے روکنے کے وسائل و ذرائع
آج اگر کوئی مسلمان کی تمام موجودہ تباہ حالیوں اور بدبختیوں کو دیکھنے کے بعد یہ سوال کرے کہ ان کا کیا علاج ہو سکتا ہے تو اس کو امام مالک رحمہ اللہ کے الفاظ میں ایک جملہ کے اندر جواب ملنا چاہئے کہ :
لا يصلح اٰخر هذه الأمة الا بما صلح به اولها
یعنی امت کے آخری عہد کی اصلاح کبھی نہ ہو سکے گی، تاوقتیکہ وہی طریقہ اختیار نہ کیا جائے جس سے اس کے ابتدائی عہد نے اصلاح پائی تھی۔
اور وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ کتاب وسنت کی طرف رجوع کیا جائے اور ہر اس دعوت کو جو الله تعالیٰ کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئے، اسے دلی قبولیت کے ساتھ سناجائے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ
” ترجمہ:مسلمانو! الله تعالی اور اس کا رسول جب تمہیں بلائیں تو ان کی دعوت پر لبیک کہو کہ ان کی دعوت حیات بخش ہے۔ “ [الانفال 24]
یہ صلاحیت اور آمادگی اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ الله تعالی اور اس کے رسول کی محبت اور ان کے احکام کی عزت و حرمت دنیا کی تمام محبتوں اور عزتوں پر غالب ہو اور ان کی محبت دل کی گہرائیوں میں اس طرح نشیمن بنا چکی ہو کہ اعزہ و اقارب کی محبت، امراء و سلاطین کی عزت و حرمت، غرض دنیا کی ہر وہ چیز جس میں کچھ بھی محبوبیت ہو۔ الله تعالی اور اس کے رسول کے مقابلہ میں کوئی قدرو قیمت نہ رکھتی ہو۔ حتی کہ محبت کی کوئی ایسی شکل جو انسانی نفس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے تجویز کرے، مگر الله تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے دیار محبت کے خلاف سمجھے تو اس کو بھی شیطانی وسوسہ سمجھ کر فورا چھوڑ دے تو اس کے بعد محب صادق کو الله بزرگ و برتر کی محبوبیت کا یقینا شرف حاصل ہوا ہے۔
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
ترجمہ:” یعنی اگر تم الله تعالی سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اس سے تم محبوب الہی بن جاؤ گے۔‘‘ [ آل عمران 31 ]

سلف صالحین کی مساعی جمیلہ
یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ اسلام کا ابتدائی عہد یمن و برکت اور ہدایت و سعادت کی دولت سے مالا مال اور ہر قسم کی بدعات و رسوم کی آمیزش سے پاک و صاف تھا۔ کیونکہ سلف صالحین، صحابہ کرام، محدثین اور ائمہ دین رحمہم اللہ نے اسلام کی حقیقی تعلیم کو ہر قسم کی خارج گمراہیوں اور غیر دینی اثرات و اختلاطات سے محفوظ رکھنے کے لیے ہر طرح کی کوشش فرمائی۔ وہ اس چیز کو سمجھ چکے تھے کہ آج اسلام کی نشوونماء اجتمائی کا ابتدائی دور ہے اور اس کے سرچشمے پھوٹ پھوٹ کر بہ رہے ہیں اور ایک تنکا بھی اگر ان کی راہ میں آگیا تو ڈر ہے یہی تنکے جمع ہو کر ایک دن بڑی بڑی نہروں کے سرچشموں کو بند کردیں گے وہ اسلام کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہو گئے۔ ان کی مثال اس جانباز عاشق کی سی تھی جو اپنے معشوق
کے تلوؤں میں ایک کانٹے کی چبھن بھی دیکھتا ہے تو اس زور سے چیختا ہے گویا اس کے پہلو میں خنجر نے شگاف کر دیا۔ وہ اس ایک ایک تنکے اور مٹی کے ایک ایک ذرے کو اسلام کی راہ ہٹانے کے لیے اپنی عزیز سے عزیز متاع قربان کر دینے کے لیے آمادہ رہتے تھے۔ اگر اس وقت صدیق امت اور خلیفہ اسلام (سیدنا ) ابوبکر رضی اللہ عنہ، سیدنا فاروق اعظم، عمر اور دوسرے صحابہ کرام اور ان کے بعد محدثین و ائمہ دین رحمہ اللہ علیہم کے دلوں کو الله تعالی اپنے الہام سے معمور نہ کر دیتا اور وہ ایک داخلی جہاد عظیم سے ان تمام فتنوں اور بدعتوں کا سد باب نہ فرما دیتے تو آج دنیا میں اسلام کی بھی وہی حالت ہوتی جو دنیا کے تمام محرف اور مسخ شده مذاہب کی نظر آ رہی ہے اور اس کی حقیقی تعلیمات کو بھی طرح طرح کی بدعات و محدثات کا سیلاب بہا کر لے گیا ہوتا اور آج ڈھونڈنے سے بھی ان کا پتہ نہ چلتا۔
سلف نے اسلام کے جن اہم اور بلند مقاصد کی بناء پر بدعات ومحدثات اور خارجی گمراہیوں کا جس قوت اور سرفروشی سے مقابلہ کیا اور کسی شکل کو بھی اس میں گوارا نہ کیا۔ تو واقعات نے ثابت کردیا کہ وہ یکسر صحیح و واقعی تھے، ہم دیکھ رہے ہیں کہ انہی مسائل نے بالآخر اسلام کی حقیقی تعلیم کو طرح طرح کی خارجی ضلالتوں سے آلودہ کیا اور افسوسں کہ مسلمان ان فتنوں سے نہ بچ سکے جو ان سے پہلی قوموں میں موجب ضلالت ہو چکے تھے۔

فتنہ قبور
مسلمانوں میں جن مسائل نے اختلاف و تحریف کی بنیادیں رکھی ہیں اور ان کو کتاب و سنت کی صراط مستقیم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسوہ حسنہ سے انحراف کی راہ دکھائی۔ ایک اہم مسئلہ مقبروں کی تعمیر اور وہاں خشوع وخضوع کے ساتھ دعائیں مانگنا اور قبور مزارات کو تقرب الی اللہ اور قبولیت دعا کا بہترین مقام سمجھنا۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد رشید حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہما نے اس موضوع پر اپنی متعدد تصانیف میں نہایت شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ آج میں چاہتا ہوں کہ ان اہم اور لطیف مباحث میں سے چند آپ کے سامنے کسی قدر اختصار کے ساتھ پیش کروں۔

قبر پرستی کیونکر پھیلی
اس سلسلہ میں سب سے پہلے اس پر غور کرنا چاہیے کہ دنیا میں قبر پرستی کیسے پھیلی؟اس کے اسباب و وجوہ کیا ہیں اور ان کا انسداد کیسے کیا جا سکتا ہے، سب سے پہلے یہ فتنہ نوح علیہ السلام کی قوم میں پیدا ہوا، جیسا کہ قرآن کریم میں نوح علیہ السلام کی مساعی تبلیغ توحید کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا :
قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا ‎ ﴿٢١﴾ ‏ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ‎ ﴿٢٢﴾ ‏ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ‎ ﴿٢٣﴾
ترجمہ:” نوح علیہ السلام نے کہا اے میرے رب میری قوم نے میری نافرمانی کی اور اس شخص کی پیروی کی جس کو اس کے مال و اولاد نے سوائے خسارہ کے کچھ فائدہ نہیں پہنچایا (یعنی اپنے مال داروں کا کہا مانا ) اور انہوں نے بڑے مکر و فریب سے کام کیا اور کہا کہ ہرگز اپنے معبودوں کو نہ چھوڑنا اور نہ ہی ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر رضی اللہ عنہم کو چھوڑنا (یہ نوح علیہ السلام کی قوم کے بتوں کے نام ہیں)۔“ [سوره نوح، آيت 23، 21]

? سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور بہت سے صحابہ کرام اور تابعین رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ یہ نوح علیہ السلام کی قوم کے صالح لوگوں کے نام ہیں۔ جب وہ فوت ہو گئے تو لوگوں نے ان کی قبروں پر بیٹھنا شروع کر دیا اور دعا ء و عبادت کے لیے ان کو بہترین مقام سمجھنا شروع کر دیا، کچھ عرصہ بعد ان کی تصویریں بنائی گئیں، پھر فرط عقیدت میں تصویروں کی جگہ ان کا مجسمہ اور بت بنانے شروع کر دیئے حتی کہ اس حد سے بڑھی ہوئی عقیدت مندی نے ان کو بتوں مجسموں کی عبادت پر آمادہ کر لیا۔

? صحیحین میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے ملک شام کے ایک گرجہ اور اس میں جو تصاویر تھیں ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ان سب میں جب کوئی صالح اور نیک فوت ہو جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس کی تصور وہاں رکھتے اور یہ لوگ اللہ تعالی کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔ [ بخاري شريف ]

? صحیح مسلم میں سیدنا جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا:
الامن كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم وصالحيهم مساجد فلا تتخذوا القبور مساجد فانما انهاكم عن ذلك. [مسلم شريف ]
دیکھو! تم سے پہلی امتوں نے انبیاء اور صلحاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا تھا۔ تم قبروں کو عبادت گاہ نہ بناؤ میں تم کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع کرتا ہوں۔
اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس فتنے سے بچنے کی تاکید فرمائی۔ اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی طریقوں سے امت کو اس فتنہ سے بچانے کی کوشش کی۔

شیطانی تعلیم کے درجہ بدرجہ اسباق
لیکن اس سے پہلے کہ ان طریقوں کو بیان کیا جائے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ سے محفوظ رہنے کے لیے فرمائے ہیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس بات کا تذکرہ ہو جائے کہ شیطان یا شیطانی جماعتیں کس طرح لوگوں کو آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ اس فتنہ میں مبتلا کرتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جیسے جیسے امت کتاب و سنت سے محروم ہوتی چلی گئی ایسے ہی شیطان اور اس کے متبعین کا اقتدار و تسلط بڑھتا گیا اور اس کے مکر و فریب میں نادان اور ہے بے خبر لوگ مبتلا ہوتے گئے۔ شیطان کی فریب کارانہ چالیں یا اس کی درجہ بدرجہ تعلیم پہلے بیان کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ تمام طریقے بیان کیے جائیں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتنہ سے بچنے کے لیے ارشاد فرمائے ہیں۔

پہلا سبق
سب سے پہلے شیطان اپنے مرید کو یہ سکھاتا ہے کہ قبر کے پاس دعا کرنا چاہیے۔ چنانچہ شیطان کا مرید قبر کے پاس جا کر عاجزی اور دل سوزی سے دعا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قبر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی عاجزی اور ذلت کی وجہ سے اس کی دعا قبول کر لیتا ہے، کیونکہ اگر وہ اس سوز و گداز سے دکان، شراب خانه حمام یا بازار میں بھی دعا کرتا تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول کر لیتا ہے۔ جبکہ جاہل آدمی تو یہی سمجھتا ہے کہ اس دعا کی قبولیت میں قبر کا بڑا دخل ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی ہرلاچار شخص کی دعا قبول کرتا ہے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اللہ تعالیٰ جس کی دعا قبول کرتا ہے اس سے راضی ہوتا ہے اور اس کو دوست رکھتا ہے یا اس کے فعل کو پسند کرتا ہے کیونکہ الله تعالی تو نیک و بد، مومن و کافر، ہر ایک کی دعا قبول کرتا ہے۔
بہت سے لوگ ایسی دعا مانگتے ہیں جس میں وہ حد شریعت سے تجاوز کر جاتے ہیں یا شرک کرتے ہیں یا دعا میں ایسے سوال کرتے ہیں جو ناجائز ہیں اور ان کی ساری یا بعض مرادیں پوری ہو جاتی ہیں اور وہ یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ان کا یہ عمل الله تعالی کے نزدیک بھی پسندیدہ ہے اور ان کی حالت اس شخص کی سی ہو جاتی ہے جس کو الله تعالى مال اور اولاد سے ڈھیل دیتا ہے اور وہ یہی سمجھتا رہتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے خوش ہو کر اس کو ہر طرح کی بھلائی پہنچاتا ہے۔
چنانچہ الله تعالیٰ فرماتا ہے:
فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ
ترجمہ:”جب ان نافرمانوں نے نصیحت الٰہی کو فراموش کر دیا تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے۔“ [ سوره انعام، آيت 44]
دعا دو قسم کی ہے ایک تو عبادت ہے جس پر دعا کرنے والا ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ دوسری کسی حاجت کا سوال ہے جو پوری تو ہو جاتی ہے لیکن وہ دعا کرنے والے کے لیے باعث تکلیف بن جاتی ہے۔ پس اللہ تعالی اس کی دعا قبول کر لیتا ہے لیکن جو اس نے اللہ تعالی کے حقوق ضائع کرنے اور اس کی حدود کو توڑنے کی جرأت کی ہوتی ہے اس کے بدلہ میں اس کو عذاب بھی کرتا ہے۔ الغرض شیطان آہستہ آہستہ اپنے مکر کے جال میں انسان کو پھنساتا ہے اور اس کو کہتا ہے کہ قبر کے پاس بہت اچھی طرح دعا کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ اس جگہ دعا کرنا مسجد میں اور سحر کے وقت (جس وقت میں دعا کی قبولیت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی ہے ) دعا کرنے سے بہتر ہے، جب شیطان یہ سبق ازبر کرا لیتا ہے تو پھر دوسرا سبق شروع ہوتا ہے۔

دوسرا سبق
اب وہ اس کو کہتا ہے کہ جو کچھ مانگنا ہے اس قبر والے بزرگ کے طفیل مانگو اور اللہ تعالیٰ کو اس مقرب بندہ کی قسم دوتو تمہاری دعا ضرور قبول ہوگی۔ اور یہ پہلے سبق کے مقابلہ میں زیادہ برا فعل ہے کیونکہ الله تعالی کی شان اس سے بلند ہے کہ اس کو کسی بندہ کی قسم دی جائے یا کسی بندہ کے طفیل اس سے کچھ مانگا جانئے۔

تیسرا سبق
جب اس شخص کے دل میں یہ بات ذہن نشین ہو جاتی ہے کہ اس بزرگ کی قسم اللہ تعالیٰ کو دینے اور اس کے طفیل یا اس کے حق سے دعا مانگنے میں اس کی بہت عزت اور تعظیم ہے اور حاجات کے پورا کرنے میں یہ زیادہ موثر ہے تو پھر شیطان اس کو تیسرا سبق پڑھاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا اب ایک بزرگ سے مانگو اور اسی کی نذرو نیاز دیا کرو۔

چوتھا سبق
پھر اس کے بعد دوسرا درجہ یہ ہے کہ اس بزرگ کی قبر کو بت بنایا جائے اور اس پر بیٹھا جائے اس پر قندیل اور شمع جلائی جائے اور اس پر پردے لٹکائے جائیں اور اس پر مسجد بنائی جائے اور سجدہ اور طواف اور بوسہ دینے اور ہاتھ لگانے اور اس کا قصد کرنے اور اس کے پاس جانور ذبح کرنے سے اس کی عبادت کی جائے۔

پانچواں سبق
پھر صرف ایک درجہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ لوگوں کو اس کی عبادت کی طرف بلایا جائے، اس پر میلے لگائے جائیں اور اعمال حج اس جگہ اس قبر والے کے لیے ادا کئے جائیں (بلکہ حج بیت اللہ سے اس کے میلے کو بہتر سمجھا جائے، چنانچہ بہت جاہل کہتے ہیں کہ خواجہ اجمیر شریف کے ایک میلہ کے کرنے سے سات حج کا ثواب ملتا ہے، وغیرہ وغیر نعوذ باللہ ) اور ان کو یہ سمجھایا جائے کہ یہ سب امور ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بہت مفید ہیں۔
شیخ ابن قیم رحمہ اللہ ”اغاثہ “میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں۔
قبروں کے پاس جو بدعات کی جاتی ہیں ان کے کئی درجات ہیں۔ سو شریت سے بہت دور یہ ہے کہ انسان مردہ سے اپنی حاجت طلب کرے اور اس سے فریاد رسی چاہے جیسا کہ بہت لوگ کرتے ہیں اور لوگ بت پرستوں کی جنس سے ہیں، اس لیے بعض اوقات شیطان اس مردہ کی شکل میں ان کے سامنے آتا ہے جیسا کہ بت پرستوں کے سامنے بھی ان کے معبود کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ پس جب کوئی بت پرست اپنے معبود کو جس کی و تعظیم کرتا ہے، بلائے تو شیطان اس کی شکل اختیار کر کے اس کے سامنے موجود ہوتا ہے اور یہ بعض غائب امور کے متعلق ان سے کلام کرتا ہے کیونکہ شیطان بنی آدم کے گمراہ کرنے میں مقدور بھر کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ سورج اور چاند اور ستاروں کی پوجا کرتے ہیں اور ان کو پکارتے ہیں، ان کے سامنے بھی شیطان انسانی شکل میں آ کر کلام کرتا ہے اور بعض باتیں بتا جاتا ہے اور وہ لوگ اس کو ستاروں کی روحانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ درحقیقت وہ شیطان ہوتا ہے اگر وہ بعض مقاصد میں انسان کی مدد بھی کرتا ہے لیکن اس کو اس سے کئی گنا نقصان بھی پہنچا دیتا ہے۔
اس طور پر قبروں کے پاس قبر پرستوں پر بھی کئی حالات ظاہر ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کرامات ہیں اور درحقیقت وہ شیطان کا فریب ہوتا ہے مثلاً جس مردہ کی کرامت کا لوگوں کو گمان ہوتا ہے جب کوئی مرگی والا مریض اس کی قبر کے پاس لا کر ڈالا جاتا ہے تو جن (شیطان )اس سے اتر جاتا ہے تا کہ لوگوں کو گمراہ کرے۔

فتنہ قبر پرستی کے انسداد کیلئے وسائل و ذرائع
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فتہ عظیمہ سے اپنی امت کو بچانے کے لیے جو وسائل وذرائع بیان فرمائے ہیں، اب انہیں بیان کیا جا تا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ آج امت مسلمہ کو اس طوفان سے بچانے کے لیے اگر کوئی ذریہ ہو سکتا ہے تو وہ وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

پہلا ذریعہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں کو مساجد بنانے سے روکنے کے متعلق صحیح مسلم میں سیدنا جندب بن عبد الله الجبلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ :
? میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی وفات سے پانچ روز پیشتر سنا کہ آپ فرماتے تھے خبردار جو لوگ تم سے پہلے تھے وہ اپنے انبیاء علیہم السلام کی قبروں کو مساجد بناتے تھے۔ خبردار ! قبروں کو مسجد میں نہ بنانا میں تم کو اس سے منع کرتا ہوں۔

? صحیحین ( بخاری اور مسلم ) میں ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرض میں جس سے آپ عہدہ براء نہ ہوئے فرمایا، یہود اور انصاری پر اللہ تعالی کی لعنت ہو انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا دیا۔ اس سے آپ اپنی امت کو ان افعال سے ڈراتے تھے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر اس بات کا خطرہ نہ ہوتا تو آپ کی قبر کھلی جگہ بنائی جاتی، لیکن اس بات کا خطرہ تھا کہ وہ بھی مسجد نہ بنائی جائے، یہ خطرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے کھلے میدان میں بنائے جانے سے روکنے کی وجہ سے ہے، کیونکہ آپ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں موضع دفن کی نسبت اختلاف ہوا۔ حتی کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اسی جگہ دفن کیے جاتے ہیں جہاں وہ وفات پائیں، چونکہ یہ انبیاء علیہم السلام کا خاصہ ہے اس لیے آپ کو ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے حجرہ میں دفن کیا گیا اور جیسے کہ رواج تھا صحرا میں دفن نہ کئے گئے، تا کہ آپ کی قبر پر نماز نہ پڑھی جائے اور لوگ اس کو مسجد نہ بنالیں، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر عمر میں قبروں کو مساجد بنانے سے روکا، پھر اہل کتاب میں سے ان لوگوں پر جنہوں نے ایسا کیا لعنت کی تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان افعال سے باز رہے۔
اسی صحیح اور صریع سنت کی متابعت کی بناء پر عامہ طوائف نے قبروں پر بنائے مسجد سے صریح طور پر اور صاف الفاظ میں روکا ہے۔ اور امام احمد امام مالک اور امام شافعی رحمہ اللہ کے اصحاب نے اس کی حرمت پر تصریح کی ہے اور بعض علماء نے اس کو مطلقا مکروہ کہا ہے۔ لیکن ان علماء پر حسن ظن کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی اس کراہت کو کراہت تحریمی ہی سمجھا جائے۔
کیونکہ ہم ان پر یہ گمان نہیں کر سکتے کہ وہ ایسے فعل کو جس کی نہی اور اس کے فاعل کے ملعون ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم حد تواتر کو پہنچ گیا ہو، جائز قرار دیں۔

دوسرا ذریعہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں پر چراغ جلانے سے روکنا۔ امام احمد رحمہ اللہ علیہ اور اہل سنن نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ :
? نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں اور ان پر مساجد بنانے والوں اور ان پر چراغ جلانے والوں پر لعنت کی ہے، میں جس فعل پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لعنت کریں، تو وہ کبیرہ گناہ ہوتا ہے اور فقہا نے ایسے فعل کو صراحة حرام کہا ہے۔
ابو محمد مقدسی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر قبروں پر چراغ جلانا مبارح ہوتا تو اس کے فاعل پر لعنت نہ کی جاتی، حالانکہ اس پرلعنت کی گئی ہے، پس اس میں ایک تو مال بے فائدہ ضائع ہوتا ہے، دوسرا تعظیم قبور میں افراط ہے جو بتوں کی تنظیم کے مشابہ ہے۔ اسی لیے علماء نے کہا کہ قبروں پر شمع چراغ جلانے یا تیل دینے کی نذر جائز نہیں، کیونکہ یہ نذر معصیت ہے اور بالاتفاق اس نذر کا پورا کرنا جائز نہیں۔ نیز کہا کہ اس غرض سے کسی چیز کوقبروں پر وقف کر دینا بھی جائز نہیں، کیونکہ یہ وقف صحیح نہیں اور اس کو نافذ کرنا حلال نہیں۔

تیسراور ذریعہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں کو پختہ بنانے اور اس پر عمارت بنانے سے روکا ہے، صحیح مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
? نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر عمارت بنانے سے منع فرمایا۔ علماء نے کہا ہے کہ اس میں دو عورتوں کی ممانعت کا احتمال ہے۔ ایک یہ کہ ان پر پتھروں یا ان کی مانند اور چیزوں سے بنا کرنا۔ دوسرا یہ کہ ان پر خیمہ وغیرہ نصب کرتا۔ ان دونوں صورتوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، کیونکہ ان میں کوئی فائدہ نہیں، اس کا مال بھی بے فائدہ ضائع ہوتا ہے اور نیز یہ اہل جاہلیت کا فعل ہے۔

چوتھا ذریعہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں پر کتابت کرنے ( لکھنے ) سے منع کرنا۔
? سنن ابی داؤد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پختہ کرنے اور ان پر لکھنے سے منع فرمایا۔

پانچواں ذریعہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں پر ان کی کھدائی سے نکلی ہوئی سے زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا۔
? سنن ابی داؤد میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو پکا کرنے، ان پر لکھنے اور ان پر زائد مٹی ڈالنے سے منع فرمایا۔

چھٹا ذریعہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا قبر کے پاس نماز پڑھنے سے منع فرمانا۔
? صحیح مسلم میں سیدنا مرثد الغنوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قبروں کے اوپر نہ بیٹھو اور نہ ان کی طرف نماز پڑھو اور سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام زمین مسجد ہے، سوائے مقبرہ اور حمام کے، اس حدیث کو امام احمد رحمہ اللہ علیہ اور اہل سنن نے روایت کیا ہے۔
اس بارہ میں نہی اور سخت ممانعت کی روایت کثرت سے آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قبروں کو نماز کے لیے مخصوص کرنے میں بت پرستوں کے ساتھ مشابہت ہے جو بتوں کی تعظیم کے لیے ان کے آگے سجدہ کرتے اور ان کا قرب حاصل کرتے ہیں۔ اور ہم اوپر ذکر کر آئے ہیں کہ بت پرستی کی ابتداء اسی فتنہ قبور سے ہوئی تھی۔ اور اسی لیے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب پرلعنت کی۔ کیونکہ انہوں نے اپنے انبیا علیہ السلام کی قبروں کومساجد بنایا۔
شیخ ابن القیم رحمہ علیہ اغاثة اللہفان میں اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ جس کی وجہ سے شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے قبروں پر مساجد بنانے سے منع فرمایا یہ وہ علت ہے جس نے بہت کی امتوں کو یا تو شرک اکبریا اس سے کم درجہ کے شرک میں مبتلا کیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے شخص کی قبر کے ساتھ شرک کرنا جس کی نسبت انسان کا خیال صلاحیت اور نیکی کا ہو انسان کو زیادہ مائل کرتا ہے بہ نسبت اس کے شرک کے کسی درخت یا پتھر کے ساتھ، اسی لیے تم دیکھو گے کہ بہت سے لوگ قبروں کے پاس خشوع اور خضوع اور گریہ زاری کرتے ہیں اور دل سے ایسی عبادت کرتے ہیں جو مسجد میں نہیں کرتے اور نہ پچھلی رات میں ایسی عبادت کرتے ہیں بعض ان میں سے قبروں کے آگے سجدہ کرتے ہیں اور اکثر قبروں کے پاس نماز ادا کرنے میں ایسی برکت کے امیدوار ہوتے ہیں، جس کی امید نہیں مسجد میں ادا کی ہوئی نماز سے نہیں ہوتی۔ اسکی خرابی کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عقیدہ کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکا اور قبرستان میں مطلقا نماز ادا کرنے سے روک دیا۔ خواہ وہاں نماز پڑھنے والے کا قصد قبر کے پاس نماز ادا کر نے کا نہ ہو اور نیز آپ نے طلوع اور غروب اور استوائے شمس کے وقت نماز کے ادا کرنے سے منع فرمایا، کیونکہ یہ ایسے اوقات ہیں جن میں مشرکین سورج کی عبادت کرتے ہیں۔ پس اپنی امت کو ان اوقات میں نماز سے بالکل منع کر دیا اگرچہ ان کا ارادہ مشرکین کا سانہ ہو۔
اگر کوئی شخص قبر کے پاس اس نیت سے نماز ادا کرے کہ اس جگہ میں نماز ادا کرنے میں برکت ہوئی تو یہ الله تعالی اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی سراسر دشمنی اور آپ کے دین کی مخالفت اور ایسے دین کا گھڑنا ہے جس کا اللہ تعالی نے حکم نہیں دیا، کیونکہ عبادات کی بنا موافقت سنت اور اتباع رسول ہے۔ ابتدا اور خواہش نفسانی پر نہیں، سو بلا شک تمام مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے اور یہ انہوں نے اپنے ہی ان کے دین سے بد یہی اور ضروری طور سے معلوم کیا ہے کہ مقبرہ کے پاس نماز منع ہے، چہ جائیکہ اس کو زیادہ باعث تبریک و بہبودی سمجھا جائے۔

ساتواں ذریعہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا قبروں کا ہموار کرنے کا حکم دینا۔
یہ مسلم میں ابوالہیاج اسدی رحمہ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ :
?مجھے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کیا میں تجھے اس کام پر نہ بھیجوں جس پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بھیجا تھا اور وہ یہ تھا کہ جو تصویر دیکھے اسے مٹا دے اور جو اونچی قبر دیکھے اسے ہموار کر دے۔

آٹھواں ذریعہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبروں کو عید (میلہ کی جگہ )بنانے سے منع فرمانا :
?سنن ابی داؤد میں اسناد حسن سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ (یعنی ان میں نوافل پڑھا کرو) اور میری قبر کو عید (میلہ کی جگہ ) نہ بنانا اور مجھ پر درود بھیجتے رہنا، کیونکہ تمہارا درود مجھ کو پہنچ جائے گا تم جہاں کہیں بھی ہو گے۔

?اور مسند ابی یعلی موصلی میں علی بن حسین (زین العابدین) سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس ایک دریچہ کے پاس آتا، اس میں داخل ہوتا اور دعا کرتا ہے تو آپ نے اسے منع فرمایا اور کہا کیا میں تمہیں ایک حدیث سناوں جو میں نے اپنے والد (سیدنا حسین رضی اللہ عنہ) سے سنی اور انہوں نے میرے دادا سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے سنی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی،” آپ نے فرمایا میری قبر کو عید نہ بنانا اور نہ اپنے گھروں کو قبریں، تمہارا سلام جہاں کہیں تم ہو، مجھے پہنچ جاتا ہے۔ “

?اور کہا سعید بن منصور نے خبر دی ہم کو سیدنا عبد العزيز بن محمد نے، انہوں نے کہا ہم کو خبر دی سہیل بن ابی سہیل نے کہا کہ حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب ( رضی اللہ عنہم ) نے قبر شریف کے پاس دیکھا۔ انہوں نے مجھے سیدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر سے بلایا اور وہ رات کا کھانا کھا رہے تھے اور فرمایا آؤ کھانا کھاؤ، میں نے کہا مجھے خواہش نہیں، پھر انہوں نے فرمایا میں نے تمہیں قبر کے پاس کیوں دیکھا؟ میں نے کہا میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے فرمایا کیا تو اسی لیے مسجد میں داخل ہوا تھا پھر فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرے گھر کو عید اور اپنے گھر کو قبریں نہ بناؤ اور مجھ پر درود بھیجو، تمہارا درود مجھ کو پہنچتا ہے تم جہاں کہیں تم ہو۔ سو تم اور اندلس کے رہنے والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس اعتبار سے بالکل برابر قرب رکھتے ہیں۔
پس جب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر سيد القبور ہے اور روئے زمین کی تمام قبروں سے افضل ہے اور آپ نے اس کوعید ( میلہ کی جگہ ) بنانے سے منع فرمایا ہے تو کسی اور قبر کے متعلق نہی بطریق اولی ہوگی، خواہ کسی ولی کی شہید کی یا کسی اور نبی کی ہی کیوں نہ ہو۔
پھر اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور نہی ملا دی اور فرمایا کہ اپنے گھروں کوقبر میں نہ بناؤ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے اس بات پر کہ اپنے گھروں میں نفل نمازیں اہتمام سے پڑھا کرو تا کہ وہ بمنزلہ قبور نہ بن جائیں اور ساتھ ہی قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا اور اس امر کے ساتھ ہی یہ حکم دیا کہ مجھ پر درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود جس جگہ تم ہو مجھے پہنچ جاتا ہے اور یہ حکم دے کر اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ تمہارا درود وسلام نزدیک و دور سے مجھے پہنچ جاتا ہے۔ پس نہیں کوئی ضرورت نہیں کہ تم قبر کو عید ( میلہ گاہ) بناؤ۔

اس تحریر کو اب تک 58 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply