سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شیطان ڈرنا

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ 83۔ شیطان کے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ﷜ سے ڈرنے کی دلیل کیا ہے ؟ جواب : سیدنا بریده رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی غزوے کے لیے گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس لوٹے تو ایک سیاہ فام بچی آ کر کہنے لگی: اے اللہ کے رسول ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سالم واپس لے آیا تو میں آپ کے سامنے دف بجاؤں گی اور گیت گاؤں گی (اب میں ایسا کر سکتی ہوں) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کہا: إن كنت نذرت تي فاضربي وإلا فلا ”اگر تم نے نذر مان لی ہے تو دف بجالے اور اگر نذر نہیں مانی تو نہ بجانا۔ “ چنانچہ اس نے دف…

Continue Readingسیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شیطان ڈرنا

اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کی فضیلت

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ «باب فضل المتحابين فى الله » اللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کی فضیلت ❀ « عن أبى هريرة قال، قال رسول الله إن الله تبارك و تعالي يقول يوم القيامة أين المتحابون بجلالي اليوم أظلهم فى ظلي يوم لا ظل الأظلي. » [صحيح: رواه مالك فى الشعر 10 ومسلم 2566: 37] حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری عظمت کے لیے آپس میں محبت کرنے والے کہاں ہیں؟ آج میں انھیں اپنے سایہ میں جگہ دوں گا، جس دن میرے سایے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔“ ❀ «عن أبى إدريس الخولاني رحمه الله قال: دخلت مسجد دمشق، فإذا فتى براق الثنايا، وإذا الناس معه، إذا اختلفوا فى شيء أسندوه إليه، وصدروا عن قوله، فسألت عنه، فقيل: هذا معاذ…

Continue Readingاللہ کے لیے آپس میں محبت کرنے والوں کی فضیلت

زکر کے فضائل قران و حدیث کی روشنی میں

تالیف : ابوعمار عمر فاروق سعیدی حفظ اللہ ذکر، اذکار اور دعاؤں کا بیان دعا عبادت ہے : حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”دعا عبادت ہے“ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی : وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ ” تمہارے رب نے فرمایا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔ وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے۔ “ [ 40-غافر:60 ] نیند سے جاگنے کی دعا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تہجد کے لیے رات کو جاگتے تو درج ذیل دعا پڑھتے : اللهم لك الحمد انت نور السموات والارض ومن فيهن ولك الحمد…

Continue Readingزکر کے فضائل قران و حدیث کی روشنی میں

باب علم

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سیدنا علی رضی اللہ عنہ داماد رسول، حلیفہ چہارم اور شیر خدا ہیں۔ زبان نبوت سے انہیں بہت سے فضائل و مناقب نصیب ہوئے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو بات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے باسند صحیح ہم تک پہنچ گئی ہے، ان کی حقیقی فضیلت و منقبت وہی ہے۔ من گھڑت، ’’ منکر“ اور ’’ ضعیف“ روایات پر مبنی پلندے کسی بھی طرح فضائل و مناقب کا درجہ نہیں پا سکتے۔ ایک ایسی ہی بات کا تذکرہ ہم یہاں پر کر رہے ہیں ؛
أنا مدينة العلم، وعلي بابها
’’ میں علم کا شہر ہوں اور علی (رضی اللہ عنہ) اس کا دروازہ ہیں۔“
عوام الناس میں مشہور ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے، مگر حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ اصول محدثین کے مطابق یہ روایت پایہ صحت کو نہیں پہنچتی۔ اس کی استنادی حیثیت جاننے کے لیے اس سلسلے میں مروی تمام روایات پر تفصیلی تحقیق ملاحظہ فرمائیں ؛
روایت نمبر :

سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أنا دار الحكمة، وعلي بابها
’’ میں حکمت کا گھر ہوں اور علی ( رضی اللہ عنہ ) اس کا دروازہ ہیں۔“ [سنن الترمذي : 3723، تهذيب الآثار للطبري، مسند علي، ص : 104]

تبصرہ :
اس روایت کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ :
➊ اس میں محمد بن عمر بن عبداللہ رومی راوی جمہور محدثین کے نزدیک ”ضعیف“ ہے، جیسا کہ :
◈ امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه ضعف. ”اس میں کمزوری پائی جاتی ہے۔“ [الجرح والتعديل لابن أبى حاتم : 8؍22]
◈ امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
شيخ لين . ”یہ کمزور راوی ہے“۔ [الجرح و التعديل لا بن ابي حاتم 22/8]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يقلب الـأخبار، ويأتي من الثقات بما ليس من أحاديثهم، لا يجوز الاحتجاج به بحال
”یہ حدیثوں کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور ثقہ راویوں سے منسوب کر کے وہ روایت کو کسی بھی صورت دلیل بنانا جائز نہیں۔ “ [المجروحين : 94/2]
یاد رہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے وہم کی بنا پر یہ جرح محمد بن عمر کے والد کے حالات میں ذکر کر دی ہے اور محمد بن عمر کو الثقات [71/9] میں ذکر کر دیا ہے۔
◈ اس سلسلے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
غلط ابن حبان فلينه، وانما اللين ابنه محمد بن عمر
”امام ابن حبان رحمہ اللہ نے غلطی کی بنا پر عمر بن عبداللہ کو کمزور قرار دے دیا ہے، دراصل اس کا بیٹا محمد بن عمر کمزور راوی ہے۔ ‘‘ [ميزان الاعتدال : 698/4]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس کی حدیث کو کمزور قرار دیا ہے۔ [تقريب التهذيب : 6169]
➋ اس میں شریک بن عبداللہ روای بھی موجود ہے۔ جس کے بارے میں :
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (more…)

Continue Readingباب علم

سورج کی واپسی

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

سیدنا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کے لیے سورج کے پلٹ جانے کے متعلق روایات کا علمی اور تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا۔ وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ آپ نے فرمایا : علی ! کیا آپ نے نماز پڑھی ہے انہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ نے دعا کی : اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی فرمانبرداری میں مشغول تھے، ان کے لیے سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کا بیان ہے، میں نے سورج کو غروب ہوتے بھی دیکھا، پھر سورج کے غروب ہوجانے کے بعد اسے طلوع ہوتے بھی دیکھا۔ “ [السنة لابن أبي عاصم : 1323، مختصرا، مشكل الآثار للطحاوي : 9/2، المعجم الكبيرللطبراني : 152,147/24، تاريخ دمشق لابن عساكر : 314/42]

تبصره :
اس کی سند ’’ضعیف “ ہے، کیونکہ :
ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی بن ابوطالب راوی ’’مجہول الحال “ ہے۔
سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ [الثقات : 3/6] کے کسی نے اسے ثقہ نہیں کہا۔
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليس بذٰلك المشهور فى حاله۔ ’’اس کا حال مجہول ہے۔ “ [البداية والنهاية : 89/6]
◈حافظ ہیثمی رحمہ اللہ اس کی بیان کردہ ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
فيه من لم اعرفهم .
’’اس روایت میں ایسے راوی ہیں، جن کو میں نہیں پہچانتا۔ “ [مجمع الزوائد : 185/9]
لیکن ایک مقام پر امام ابن حبان کی توثیق پر اعتماد کرتے ہوئے ان کو ثقہ کہا ہے۔ [مجمع الزوائد : 297/8]
یہ تساہل پر مبنی فیصلہ ہے، جیسا کہ اہل علم جانتے ہیں۔
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس میں دوسری وجہ ضعف یہ بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت حسین بن علی بن ابی طالب جو کہ امام زین العابدین رحمہ اللہ کی ہمشیرہ ہیں وہ ہیں تو ثقہ، لیکن یہ معلوم نہیں کہ انہوں نے یہ روایت سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سنی ہے یا نہیں ؟ [البداية والنهاية : 89/6]
◈ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولا سماع إبراهيم من فاطمة، ولا سماع فاطمة من أسمائ، ولا بد فى ثبوت هٰذا الحديث من أن يعلم أن كلا من هٰؤلائ عدل ضابط، وأنه سمع من الآخر، وليس هٰذا معلوما .
’’نہ ابراہیم کا فاطمہ سے اور نہ فاطمہ کا سیدہ اسما رضی اللہ عنہا سے سماع ثابت ہے۔ اس حدیث کے ثبوت کے لیے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اس کے تمام راوی عادل و ضابط ہیں یا نہیں، نیز انہوں نے ایک دوسرے سے سنا ہے یا نہیں۔ مگر اس روایت کے راویوں کے متعلق یہ بات معلوم نہیں ہو سکی۔ “ [منهاج السنة النبوية : 189/4]
تنبیہ : بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے، بے حقیقت بات ہے۔
——————
روایت نمبر

سیدہ اسما بنت عمیس رضی اللہ عنہا ہی سے مروی ہے :
إن النبى صلى الله عليه وسلم صلى الظهر بالصهباء، ثم أرسل عليا عليه السلام فى حاجة فرجع، وقد صلى النبى صلى الله عليه وسلم العصر، فوضع النبى صلى الله عليه وسلم رأسه فى حجر علي، فلم يحركه حتٰي غابت الشمس، فقال النبى صلى الله عليه وسلم : ’اللهم، إن عبدك عليا احتبس بنفسه علٰي نبيك، فرد عليه شرقها‘، قالت أسماء : فطلعت الشمس حتٰي وقعت على الجبال وعلي الـأرض، ثم قام علي، فتوضأ وصلي العصر، ثم غابت، وذٰلك فى الصهبائ، فى غزوة خيبر .
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صہبا نامی جگہ پر نماز ظہر ادا کی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اپنے کسی کام بھیجا۔ جب وہ واپس آئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ادا فرما چکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک ان کی گود میں رکھا۔ انہوں نے حرکت نہ کی، (کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند میں خلل نہ آ جائے )، یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی : اے اللہ ! تیرے بندے علی نے اپنے آپ کو تیرے نبی کے لئے روکا ہوا تھا، لہٰذا ان پر سورج کو لوٹا دے۔ سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سورج اوپرآ گیا، یہاں تک کہ اس کی روشنی پہاڑوں اور زمین پر پڑنے لگی۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، وضو کیا اور عصر کی نماز پڑھی۔ پھر سورج غروب ہو گیا۔ یہ واقعہ غزوۂ خیبر کے موقع پر صہبا نامی جگہ پر پیش آیا۔ “ [مشكل الآثار للطحاوي : 1068، المعجم الكبير للطبراني : 145,144/24]

تبصره :
اس کی سند بھی ’’ضعیف “ ہے، جیسا کہ :
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کا ضعف و سقم یوں بیان کرتے ہیں :
وهٰذا الإسناد فيه من يجهل حاله، فإن عونا هٰذا وأمه لا يعرف أمرهما بعدالة وضبط، يقبل بسببهما خبرهما، فيما هو دون هٰذا المقام، فكيف يثبت بخبرهما هٰذا الـأمر العظيم الذى لم يروه أحد من أصحاب الصحاح، ولا السنن، ولا المسانيد المشهورة، فالله أعلم، ولا ندري أسمعت أم هٰذا من جدتها أسمائ بنت عميس أو لا . (more…)

Continue Readingسورج کی واپسی

دربار نبوت میں محبوب ترین کون

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری حفظ اللہ

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کائنات میں سب سے زیادہ محبوب ہستی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تھی۔ اس مضمون کے آخر میں صحیح و صریح احادیث نبویہ کی روشنی میں تفصیلاً یہ بات بیان کر دی گئی ہے۔
بعض لوگ ان صحیح و صریح احادیث کے خلاف حدیث الطیر پیش کرتے ہیں۔
آئیے اس روایت پر اصولِ محدثین کے مطابق تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
حدیث انس رضی اللہ عنہ :

➊ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہے :
إن النبى صلى الله عليه وسلم كان عنده طائر، فقال : ’اللهم ائتني بأحب خلقك إليك يأكل معي من هٰذا الطير‘، فجائ أبو بكر، فرده، وجاء عمر، فرده، وجاء علي، فأذن له .
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک (پکا ہوا) پرندہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی : اے اللہ ! اپنےاس بندےکو بھیج دے، جو تجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے، وہ میرے ساتھ اس پرندے کا گوشت کھائے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے، تو انہیں بھی واپس بھیج دیا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے،، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ ‘‘ [الكبرٰي للنسائي : 107/5، ح : 8398، خصائص على بن أبي طالب للنسائي : 10]

تبصرہ :
یہ ’’ ضعیف ‘‘ اور ’’ منکر ‘‘ روایت ہے، کیونکہ :
➊ اس کا ایک راوی مسہر بن عبدالملک کمزور راوی ہے۔ [تقريب التهذيب لابن حجر : 6667]
اس کے بارے میں :
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فيه بعض النظر .
’’ اس پر بعض محدثین نے کلام کی ہے۔ ‘‘ [التاريخ الصغير : 250/2]
◈ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولمسهر غير ما ذكرت، و ليس بالكثير .
’’ مسہر نےاس کے علاوہ بھی روایات بیان کی ہیں، مگر یہ کثیرالروایہ نہیں ہے۔ ‘‘ [الكامل فى ضعفاء الرجال : 458/6]
◈ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے الثقات [197/9] میں ذکر کے لکھا ہے :
يخطئ ويهم .
’’ یہ راوی غلطیوں اور اوہام کا شکار تھا۔ ‘‘
◈ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ’’ لین ‘‘ (کمزور راوی )کہا ہے۔ [المقتنٰي فى سرد الكنٰي : 5419]
◈ نیز انہوں نے اسے ليس بالقوي (قوی نہیں ہے) بھی کہا ہے۔ [المغني فى الضعفاء : 658/2]
واضح طور پر اسے صرف حسن بن حماد نصیبی وراق نے ثقہ کہا ہے۔ [مسند أبي يعلٰي : 4052، الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي : 457/6، وسنده صحيح]
↰ جمہور محدثین نے اس روایت کو ’’ ضعیف ‘‘ کہا ہے۔ اس روایت کی بہت ساری سندیں ہیں۔ وہ ساری کی ساری ’’ ضعیف ‘‘ ہیں۔
ذیل میں ہر ایک سند کے ضعف کو واضح کیا جاتا ہے۔
——————

طريق السدي عن أنس . . . .
[سنن الترمذي : 3721، مسند أبي يعلٰي : 4052، العلل المتناهية لابن الجوزي : 229/1]

تبصرہ :
یہ ’’ منکر ‘‘ روایت ہے، کیونکہ :
اس کا راوی عبیداللہ بن موسیٰ عبسی اگرچہ صحاح ستہ کا راوی ہے اور ثقہ ہے، لیکن محدثین کرام نے اس کی اس خاص روایت پر کلام کر رکھی ہے۔
◈ امام ابن سعد رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
كان ثقة صدوقا، إن شاء الله، كثير الحديث، حسن الهيئة، وكان يتشيع، ويروي أحاديث فى التشيع منكرة، فضعف بذٰلك عند كثير من الناس .
’’ یہ ان شاءاللہ ثقہ و صدوق اور کثیرالحدیث راوی ہے۔ یہ خوش شکل اور شیعہ
بھی ہے۔ تشیع میں منکر روایتیں بیان کرتا ہے، اسی بنا پر بہت سے محدثین نے اس کو ضعیف قرار دے دیا ہے۔ ‘‘ [الطبقات الكبرٰي : 368/6]
↰ یوں یہ روایت ’’ منکر ‘‘ ہی ہے۔ (more…)

Continue Readingدربار نبوت میں محبوب ترین کون

باب خیبر کا معاملہ

تحریر : ابن الحسن محمدی

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت و بسالت کا انکار کوئی کافر ہی کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہترین قوت بھی عطا فرمائی تھی۔ وہ بلاشبہ شیر خدا تھے۔
حقیقی ہیرو کو کسی جھوٹی فضیلت و منقبت کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن ہمیشہ سے لوگوں کا یہ چلن رہا ہے کہ وہ اپنی من پسند شخصیت کے بارے میں جھوٹی باتیں مشہور کر دیتے ہیں، جو اکثر اوقات اس شخصیت کی سیرت کو نکھارنے کی بجائے لوگوں کے ذہنوں میں اس کا غلط تصور بٹھاتی ہیں۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی ایک ایسی ہی بات مشہور ہے۔ وہ یہ کہ خیبری دروازہ جسے
بہت سارے لوگ مل کر بھی نہیں اٹھا سکتے تھے، انہوں نے اکیلے ہی اٹھا کر پھینک دیا تھا۔ یہ واقعہ غیر ثابت اور غیر معتبر ہونے کے ساتھ ساتھ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک مافوق الفطرت مخلوق ہونے کا تصور بھی پیدا کرتا ہے۔
اس سلسلے میں کل چار روایات آتی ہیں ؛ تین اہل سنت کی کتب میں اور ایک روافض کی کتب میں۔ آئیے اصولِ محدثین کی روشنی میں ان سب کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
روایت نمبر

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام سیدنا ابورافع سے منسوب ہے :
خرجنا مع على حين بعثه رسول الله صلى الله عليه وسلم برأيته، فلما دنا من الحصن؛ خرج إليه أهله فقاتلهم، فضربه رجل من يهود، فطرح ترسه من يده، فتناول على بابا كان عند الحصن، فترس به نفسه، فلم يزل فى يده وهو يقاتل، حتٰي فتح الله عليه، ثم ألقاه من يده حين فرغ، فلقد رأيتني فى نفر معي سبعة؛ أنا ثامنهم، نجهد علٰي أن نقلب ذٰلك الباب، فما نقلبه .
’’ہم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ( خیبر کے قلعہ کی طرف ) نکلے، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دے کر بھیجا تھا۔ جب ہم قلعہ کے پاس پہنچے، تو قلعہ والے لوگ باہر آئے، ان کے ساتھ لڑائی شروع ہوئی، ایک یہودی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی ڈھال ہاتھ سے گر گئی۔ انہوں نے قلعہ کا دروازہ اکھیڑ کر اس سے ڈھال کا کام لیا۔ وہ دروازہ دورانِ قتال مستقل طور پر ان کے ہاتھ میں رہا، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں فتح عطا فرما دی۔ جنگ سے فارغ ہو کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ہاتھ سے پھینک دیا۔ میں نے دیکھا کہ سات آدمیوں نے، جن کے ساتھ آٹھواں میں تھا، اس دروازے کو ہلانے میں ایڑھی چوٹی کا زور لگا دیا، لیکن ہم اسے ہلا بھی نہیں سکے۔ “ [مسند الإمام أحمد :8/6، دلائل النبوة للبيهقي :212/4، سيرة ابن هشام : 350، 349/6، تاريخ دمشق لابن عساكر : 111/42]

تبصره :
یہ سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ اس میں :
بعض أهله ’’مبہم“ اور ’’مجہول“ لوگ ہیں۔
شریعت ہمیں نامعلوم افراد سے دین اخذ کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔
◈ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رواه أحمد، وفيه راو لم يسم .
’’اسے امام احمد نے روایت کیا ہے، اس میں ایک ایسا راوی ہے جس کا نام ذکر نہیں کیا گیا۔ “ [مجمع الزوائد : 152/6]
دلائل النبوة کی سند میں عبداللہ بن حسن کا واسطہ گر گیا ہے، اسی لئے :
◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي هٰذا الخبر جهالة وانقطاع ظاهر .
’’اس روایت میں جہالت اور واضح اقطاع موجود ہے۔ “ [البداية والنهاية : 191/4]
——————
(more…)

Continue Readingباب خیبر کا معاملہ

انت منی

❀ سیدنا برا بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :
أنت مني، وأنا منك ” آپ مجھ سے اور میں آپ سے ہوں۔ “ [صحيح البخاري : 4251]
↰ اس حدیث سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی منقبت و فضیلت ثابت ہوتی ہے، مگر اس فضیلت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ منفرد نہیں ہیں، بلکہ کئی دوسرے صحابہ کرام بھی اس میں شریک ہیں، جیسا کہ :
➊ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الأشعريين إذا أرملوا فى الغزو، أو قل طعام عيالهم بالمدينة؛ جمعوا ما كان عندهم فى ثوب واحد، ثم اقتسموه بينهم فى إنائ واحد بالسوية، فهم مني، وأنا منهم .
’’جب قبیلہ اشعر کے لوگوں کا جہاد کے موقع پر توشہ کم ہو جاتا ہے، یا مدینہ میں قیام کے دوران ان کے بال بچوں کے لئے کھانے کی کمی ہو جاتی ہے، تو جو بھی توشہ ان کے پاس جمع ہوتا ہے، وہ اس کو ایک کپڑے میں جمع کر لیتے ہیں، پھر آپس میں ایک برتن سے برابر تقسیم کر لیتے ہیں۔ چنانچہ وہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ “ [صحيح البخاري : 2486، صحيح مسلم : 2500]➋ سیدنا جلییب رضی اللہ عنہ جو ایک غزوہ میں جرأت و بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے سات کفار کو واصل جہنم کرنے کے بعد شہید ہو گئے تھے، ان کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
هٰذا مني، وأنا منه، هٰذا مني، وأنا منه .
’’یہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ یہ مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ “ [صحيح مسلم : 2472]➌ سیدنا یعلیٰ بن مرہ ثقفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
حسين مني، وأنا منه .
’’حسین ( رضی اللہ عنہ ) مجھ سے اور میں ان سے ہوں۔ “ [مسند الإمام أحمد :172/4، الأدب المفرد للبخاري :364، سنن الترمذي : 3775، وقال : حسن، سنن ابن ماجة :144، المعجم الكبير للطبراني : 274/22، ح : 702، المستدرك للحاكم : 194/3،ح : 4820، وسنده حسن]

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ [6971] نے ’’صحیح“ اور امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد“ کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’صحیح “ قرار دیا ہے۔
❀ ایک روایت میں حسين مني، وأنا من حسين کے الفاظ بھی ہیں۔

الحاصل :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی کو اپنی طرف اور خود کو کسی کی طرف منسوب کرنا بڑی فضیلت کی بات ہے البتہ یہ فضیلت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کئی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی حاصل۔ اس بنا پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بلا فصل قرار دینے کی کوشش کرنا سود مند نہیں۔
(more…)

Continue Readingانت منی

زیارت قبر نبوی فضیلت و اہمیت، حصہ دوئم

اس تحریر کا حصہ اول یہاں ملاحضہ کیجیے
تحریر: غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کی فضیلت و اہمیت پر مبنی بہت سی روایات زبان زد عام ہیں۔ ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تحقیقی جائزہ پیش خدمت ہے :
روایت نمبر

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من زار قبري، وجبت له شفاعتي ”جو شخص میری قبر کی زیارت کرے گا، اس کے لیے میری سفارش واجب ہو جائے گی۔“ [سنن الدارقطني : 278/2، ح : 2669، شعب الإيمان للبيهقي : 490/3، ح : 5169، مسند البرار كشف الأستار : 57/2، ح 1197]

تبصرہ : اس کی سند ”ضعیف“ ہے، اس کے بارے میں :
➊ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فإن فى القلب منه، أنا أبرا من عهدته
”میرے دل میں اس کے بارے میں خلش ہے۔ میں اس کی ذمہ داری سے بری ہوں۔“ [لسان الميزان لابن حجر : 135/6]
◈ نیز اس روایت کو امام صاحب نے ”منکر“ بھی قرار دیا ہے۔ [أيضا]
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی ساری بحث ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ومع ما تقدم من عبارة ابن خزيمة، وكشفه عن علة هذا الخبر، لا يحسن أن يقال : أخرجه ابن خزيمة فى صحيحه إلا مع البيان.
”امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی عبارت بیان ہو چکی سے، نیز انہوں نے اس روایت کی علت بھی بیان کر دی ہے، اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے یہ کہنا درست نہیں کہ اس روایت کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ ہاں ! وضاحت کر کے ایسا کہا جا سکتا ہے۔“ [ايضا]
◈ حافظ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وهو فى صحيح ابن خزيمة وأشار الي تضعيفه .
یہ روایت صحیح ابن خزیمہ میں ہے، لیکن امام صاحب نے اس کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔“ [المقاصد الحسنة فى بيان كثير من الأحاديث المشتهرة على الألسنة : 1125]
➋ امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيها لين ”اس میں کمزوری ہے۔“ [الضعفاء الكبير : 170/4]
➌ حافظ بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فهو منكر ”یہ روایت منکر ہے۔“ [شعب الإيمان للبيهقي : 490/3]
➍ حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ [المجموع شرح المهذب : 272/8]
➎ حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : وهو حديث منكر ”یہ حدیث منکر ہے۔“ [تاريخ الإسلام : 212/11، وفي نسخة : 115/11]
➏ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وهو مع هذا حديث غير صحيح ولا ثابت، بل هو حديث منكر عند ائمة هذا الشان. ضعيف الاسناد عندهم، لايقوم بمثله حجة، ولا يعتمد علي مثله عند الاحتجاج الا الضعفاء في هذا العلم
یہ حدیث نہ صحیح ہے نہ ثابت۔ یہ تو فن حدیث کے ائمہ کے ہاں منکر اور ضعیف الاسناد روایت ہے۔ ایسی روایت دلیل بننے کے لائق نہیں ہوتی۔ علم حدیث میں ناپختہ کار لوگ ہی ایسی روایات کو اپنی دلیل بناتے ہیں۔“ [الصارم المنكي فى الرد على السبكي، ص : 30]
➐ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : (more…)

Continue Readingزیارت قبر نبوی فضیلت و اہمیت، حصہ دوئم

امام ابو حنیفہ، امام یحییٰ بن معین کی نظر میں

تحریر: غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری امام الجرح والتعدیل یحیٰی بن معین رحمہ الله (233-158ھ) سے ابوحنیفہ (150-180ھ )کے متعلق جو اقوال وارد ہوئے ہیں، ان پر تبصرہ پیش خدمت ہے : ➊ احمد بن صلت حمانی کہتے ہیں کہ جب ابوحنیفہ کے بارے میں امام یحیٰی بن معین سے پوچھا گیا کہ وہ حدیث میں ثقہ تھے تو آپ نے کہا: نعم، ثقة، ثقة، كان والله أورع من أن يكذب، وهوأجل قدرامن ذلك . ” ہاں، وہ ثقہ ہیں، وہ ثقہ ہیں۔ وہ جھوٹ بولنے سے بری تھے، ان کی شان اس (جھوٹاہونا )سے بلند تھی۔ “ [تاريخ بغداد للخطيب : 450-449/13 ] تبصرہ : یہ قول موضوع (من گھڑت) ہے۔ یہ احمد بن صلت کی کارستانی ہے، جو بالاجماع جھوٹا اور وضاع (من گھڑت روایات بیان کرنے والا) تھا۔ اس کے بارے میں : ◈ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں…

Continue Readingامام ابو حنیفہ، امام یحییٰ بن معین کی نظر میں

خلیفہ بلا فصل کون؟ حدیثِ سفینہ کی وضاحت

تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری

[arabic-font]

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ۔ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ  

[/arabic-font]

(النور:٢٤/٥٥)

”اللہ تعالی نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو ضرور زمین میں خلافت عطا کرے گا، جیساکہ اس نے ان لوگوں کو خلافت عطا کی تھی، جو ان سے پہلے تھے اور وہ ان کے لئے ضرور ان کے اس دین کو طاقت دے گا، جس کو اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے اور وہ ضرور ان کے خوف کے بعد امن لائے گا، وہ میری عبادت کریں گے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے۔۔۔

امام عبدالرحمن بن عبدالحمید المہریؒ (م۲۹۱ھ)فرماتے ہیں:

[arabic-font]

أری ولا یۃ أبی بکر و عمر رضی اللہ عنھما فی کتاب اللہ و عزّو جلّ،یقول اللہ:( وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ۔۔۔۔)

[/arabic-font]

(النور:٢٤/٥٥)

میں سید نا ابوبکر اور سید نا عمر کی خلافت کو قرآن کریم میں دیکھ رہا ہوں ، اللہ تعالی فرماتے ہیں: (more…)

Continue Readingخلیفہ بلا فصل کون؟ حدیثِ سفینہ کی وضاحت

آب زم زم کی برکت

سید نا ابو ذر غفاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ آپ  یہاں (حرم) میں کب سے ہیں ؟ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ تیس دنوں سے یہاں ہوں ، آپ ﷺ نے فرما یا، تیس دنوں سے  یہاں ہو؟ میں نے کہا ، جی ہا ں ! آپ ﷺ نے پوچھا، آپ کا کھانا کیا تھا ؟ میں نے کہا، آبِ زمزم کے علاوہ میرا کوئی کھانا پینا نہیں تھا، یقیناً میں موٹا ہوگیا ہوں ، میرے پیٹ کی سلوٹیں ختم ہوگئی ہیں ، میں نے اپنے کلیجے  میں بھو ک کی وجہ سے لاغری اور کمزوری تک محسوس نہیں کی ، کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرما یا :انّھا مبارکۃ ، وھی طعام وشفاء سقم۔ " آب ِ زمزم بابرکت پانی ہے ، یہ کھانا بھی ہے اور بیماری کی…

Continue Readingآب زم زم کی برکت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت

اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوہریرہؓ کو نبی کریم ﷺ کی دعا کی وجہ سے عظیم حافظہ عطا فرمایا تھا ۔ ایک دفعہ مروان بن الحکم الاموی نے ان کچھ حدیثیں لکھوائیں اور اگلے سال کہا کہ وہ کتاب گم ہوگئی ہے ، وہی حدیثیں دوبارہ لکھوادیں۔ انہوں نے وہی حدیثیں دوبارہ لکھوا دیں۔ جب دونوں کتابوں کو ملایا گیا تو ایک حرف کا فرق نہیں تھا۔ [المستدرك للحاكم ۵۱۰/۳ و سنده حسن، الحديث: ۳۲ ص۱۳، ۱۴ ] سیدنا ابوہریرہؓ جب حدیثیں بیان کرتے تو سب سے پہلے فرماتے: ابوالقاسم الصادق المصدوق (سچے)رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من كذب عليّ متعمدًا فليتبوأ مقعده من النار. جس نے جان بوجھ کر مجھ سے جھوٹ بولا تو وہ اپنا ٹھکانا (جہنم کی ) آگ میں بنا لے ۔ [ مسند احمد ۴۱۳/۲ ح ۹۳۵۰ و سنده صحيح] آپ اللہ کی قسم کھا کر فرماتے تھے کہ…

Continue Readingسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے محبت

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی و مناقب

تحریر: حافظ شیر محمد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! ہر مومن جو میرے بارے میں سن لیتا ہے ، مجھ سے محبت کرتا ہے ۔ ابوکثیر یحییٰ بن عبدالرحمٰن السحیمی نے پوچھا: آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟ انہوں نے فرمایا: میری ماں مشرکہ تھی ، میں اسے اسلام (لانے) کی دعوت دیتا تھا اور وہ اس کا انکار کرتی تھی ۔ ایک دن میں نے اسے دعوت دی تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسی باتیں کر دیں جنہیں میں ناپسند کرتا تھا ۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور روتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساراقصہ بتا دیا ۔ میں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ میری ماں کی ہدایت کے لئے دعا کریں تو رسول اللہ صلی اللہ…

Continue Readingسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے حالات زندگی و مناقب

End of content

No more pages to load