کیا شیطان نبی کریمﷺ کی صورت میں آ سکتا ہے؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

61۔ شیطان انسانی جسم کے کون سے حصے میں رات گزارتا ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا استيقظ أحدكم من منامه فتوضا فليستنثر ثلاثا، فإ الشيطان يبيت على خشومه
”جب تم میں سے کوئی بیدار ہو اور وضو کرے تو تین مرتبہ ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان اس کی ناک کی ہڈی پر رات گزارتا ہے۔ “
——————

62۔ خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ (شیطانی قدم) کیا ہیں ؟
جواب :
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
يَأَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
اے لوگو! ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں حلال، پاکیزہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔‘‘ [البقرة: 168]
جب الله تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ اس کے علاوہ کوئی الہٰ نہیں اور وہ مخلوق کو پیدا کرنے میں تنہا ہے تو یہ بھی بیان کر دیا کہ وہ ہی تمام مخلوقات کا رازق ہے، پھر بہ طور احسان ذکر فرمایا کہ اس نے مخلوق (انسان) کے لیے حلال اور پاکیزه اشیا کھانا مباح کر دیا ہے اور حرام چیزوں سے فائدہ اٹھانے کو حرام کہا ہے۔
إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ یہ شیطان سے نفرت اور اس سے بچنے کے لیے ارشاد فرمایا، کیونکہ ہر معصیت و نافرمانی خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو؟ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کے پیچھے مت چلو، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔“ [البقرة: 208]
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا کہ وہ اسلام کے تمام احکامات کو اختیار کریں، جن چیزوں کا حکم دیا گیا ہے، به حسب استطاعت پورا کریں اور منع کرده چیزوں سے رک جائیں۔
ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً
یعنی اسلام میں ( اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے ) مکمل داخل ہو جاؤ۔
وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ
یعنی اطاعت والے کام کرو اور جس چیز کا شیطان حکم دیتا ہے اس سے کنارہ کشی اختیار کرو۔
إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
یعنی وہ تمہارا واضح دشمن ہے۔
——————

63۔ کیا شیطان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں آ سکتا ہے ؟
جواب :
شیطان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل و صورت اختیار نہیں کر سکتا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تسموا باسمي ولا تكتنوا بكنيتي، ومن رآني فى المنام فقد رآني، فإن الشيطان لا يتمثل فى صورتي، ومن كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده بين النار
”میرے نام جیسا نام رکھ لیا کرو، مگر میری کنیت جیسی کنیت نہ رکھو، جس نے خواب میں مجھے دیکھا، اس نے مجھے ہی دیکھا ہے، کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا اور جس نے جان بوجھ کر مجھ پر افترا باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم کو بنا لے۔ “
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من رآني فى المنام فسيراني فى اليقظة، أو كأنما رآني فى اليقظة، لا يتمثل الشيطان بي
”جس نے مجھے خواب میں دیکھا، وہ حالت بیداری میں بھی مجھے دیکھ لے گا، یا فرمایا کہ اس نے مجھے حالت بیداری میں دیکھا، شیطان میری شکل اختیار نہیں کر سکتا۔“
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف:
➊ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لمبے تھے اور نہ پست قد ہی۔
➋ بال کانوں سے نیچے گردن تک تھے اور سیاہ تھے۔
➌ آنکھیں موٹی اور سیاہ تھیں اور پلکیں لمبی۔
➍ چہرہ سفید اور چاند سے روشن تھا، اس میں کوئی داغ نہیں تھا۔
➎ داڑھی گھنی، اس میں سترہ سے میں بال سفید تھے۔
➏ سینے پر تھوڑے سے بال تھے، جیسا کہ پیٹ پر ایک لکیر ہو۔
➐ آپ کے کندھے گوشت سے پر تھے۔
➑ ہتھیلی بڑی اور ریشم سے زیادہ تر تھی۔
➒ دانتوں میں کشادگی تھی۔
➓ تیز چلتے اور اچھی چال تھی۔
⓫ آپ کی خوشبو عمدہ اور دل صاف تھا۔
⓬ جب بات کرتے تو بڑے بارونق ہوتے۔
⓭ جب خاموش ہوتے تو آپ پر وقار چھا جاتا۔
——————

64۔ کیا ڈراؤ نے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا رأى أحدكم الرؤيا يكر هها فليبصق عن يساره ثلاثا، وليستعذ بالله من الشيطان ثلاثا، وليتحول عن جنبه الذى كان عليه
”جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو تین مرتبہ بائیں طرف تھوک دے، شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور پہلو بدل لے۔ “
سیدنا ابو قیادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
الرؤيا الصالحة من الله، والحلم من الشيطان، فمن رأى شيئا يكرهه فلينفث عن شماله ثلاثا، وليتعود من الشيطان فإنها لا تضره وإن الشيطان لا يتراءى بي
”نیک خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جھوٹے شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں تو جو شخص ناپسندیدہ خواب دیکھے، وہ بائیں جانب تین مرتبہ تھوکے اور شیطان سے پناہ مانگے، اس طرح وہ خواب اس کو کوئی نقصان نہیں دے گا اور بلاشبہ شیطان میری صورت میں نظر نہیں آ سکتا۔ “
ایک دوسری روایت میں ہے:
وإذا رأى ما يكره فليتعوذ من شرها وشر الشيطان ويتفل عن يساره ثلاثا، ولا يحدث بها أحدا فإنها لن تضره
”جب کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھے تو اس سے اور شیطان سے پناہ مانگے اور تین مرتبہ بائیں جانب تھوک دے اور وہ خواب کسی کو نہ بتائے تو وہ اسے کبھی ضر نہیں دے گی۔ ‘‘ “
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک آدمی نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آ کر کہا: یا رسول اللہ ! میں نے خواب میں اپنا سر کٹا ہوا دیکھا ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا:
إذا لعب الشيطان بأحدكم فى منامه فلا يحدث به الناس
”جب شیطان تم میں سے کسی کے ساتھ خواب میں کھلواڑ کرے تو وہ لوگوں کو نہ بتائے۔ “
ایسے خواب شیطان کے تکلیف پہنچانے کی انواع میں سے ہیں، ان میں انسان سمجھتا ہے کہ کوئی چیز مجھے تکلیف دے رہی ہے۔ لیکن وہ چیخ پکار اور کلام نہیں کر سکتا، جیسا کہ کسی چیز نے اس کی حرکت کو ہی روک دیا اور اس کی آواز کو بند کر دیا ہے۔ یہ فقط بعض لمحات کے لیے ہوتا ہے۔ اس کا علاج درج ذیل ہے:
➊ سونے سے قبل وضو کرنا۔
➋ ہتھیلیوں میں تین بار سورت اخلاص، فلق اور ناس پڑھ کر انہیں جسم کی ممکنہ حد تک پھیرنا۔
بسم الله پڑھ کر چار پائی کو کپڑے سے جھاڑنا یا سونے سے پہلے رومال وغیرہ سے جھاڑ دینا۔
➍ 33 مرتبہ سبحان الله ، 33 مرتبہ ا لحمد لله اور 34 مرتبہ الله اكبر پڑھ کر سونا۔
➎ سونے کے اذکار پڑھ کر سونا۔
➏ ابتداء دائیں کروٹ ہو کر لیٹنا۔
➐ بار بار اذان کہنا۔
——————

65۔ کیا شیطان عورتوں سے جماع کر سکتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لو أن أحدكم إذا أراد أن يأتي أهله قال: باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا؛ فإنه إن يقدر بينهما ولد فى ذلك لم يضره الشيطان أبدا
” اگر تم میں سے کوئی اپنی اہلیہ کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو کہے: اللہ کے نام کے ساتھ، اے اللہ ! ہم سے شیطان کو دور کر اور جو تو (اس نطفے سے) ہم کو اولاد عطا کرے، اس سے بھی شیطان کو دور رکھنا اگر اس نطفے سے ان کے مقدر میں اولاد ہوئی تو اسے شیطان بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ “
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شیطان میاں بیوی کے ملاپ کے وقت وہاں موجود ہوتا ہے، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بچنے کی دعا سکھا رہے ہیں۔
——————

66۔ کیا شیطان دن کو سوتا ہے ؟
جواب :
نہیں !
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے :
قيلو فإن الشيطان لا يقيل
” قیلولہ کیا کرو، بے شک شیطان قیلولہ نہیں کرتا۔“
نماز ظہر سے عصر تک سونا سنت ہے، کیونکہ شیطان اس وقت میں نہیں سوتا۔
——————

67۔ کیا جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ ۚ سَأُرِيكُمْ آيَاتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ ﴿٣٧﴾
انسان سراسر جلد باز پیدا کیا گیا ہے، میں عنقریب تمہیں اپنی نشانیاں دکھاؤں گا، سو مجھ سے جلدی کا مطالبہ نہ کرو۔‘‘ [ الأنبياء: 37]
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَيَدْعُ الْإِنسَانُ بِالشَّرِّ دُعَاءَهُ بِالْخَيْرِ ۖ وَكَانَ الْإِنسَانُ عَجُولًا ﴿١١﴾
اور انسان برائی کی دعا کرتا ہے اپنے بھلائی کی دعا کرنے کی طرح اور انسان ہمیشہ سے بہت جلد باز ہے۔ [الإسراء: 11 ]

امام قرطبی خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَجَلٍ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ انسان جلد بازی پر مرکب ہے اور فطرتی طور پر جلد باز ہے معرفت وتبصرے میں ٹھہراؤ اور تامل کی ضرورت ہوتی ہے، جبکہ جلد بازی اس میں آڑ ہے اور جلد بازی کے وقت شیطان اپنا شر انسان پر وہاں سے رائج کرتا ہے، جہاں سے اسے پتا بھی نہیں ہوتا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
التاني من الله، والله من الشيطان، وما من أحد أكثر معاذير من الله، وما من شيء أحب إلى الله من الحمد
بردباری اللہ تعالیٰ کی طرف سے، جبکہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے اور اللہ سے بڑھ کر کوئی عذر قبول کرنے والا نہیں اور حمد سے زیادہ محبوب چیز اللہ کے ہاں کوئی نہیں۔“
——————

68۔ کیا استحاضے کا خون شیطان کی وجہ سے آتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیده حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ مجھے شدید قسم کا مرض استحاضہ تھا۔ میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی، تاکہ آپ کو اس کے متعلق آگاہ کروں اور مسئلہ دریافت کروں، چنانچہ میں نے انھیں اپنی بہن زینب بنت جحش کے گھر پایا تو میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! مجھے شدید قسم کا استحاضہ لاحق ہے، آپ اس بارے میں مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ اس نے تو مجھے نماز روزے ہی سے روک رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أنعت لك الكرسف فإنه يذهب الدم
”میں تجھے روئی استعمال کرنے کا مشورہ دیتا ہوں، کیونکہ وہ خون روک دے گی۔ “
انھوں نے عرض کی : وہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر لنگوٹ کس لے۔ (اس نے کہا ) وہ اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر لنگوٹ کے نیچے کوئی کپڑا رکھ لے۔ انھوں نے کہا: معاملہ اس سے زیادہ شدید ہے، میں تو پانی کی طرح خون بہاتی ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سامرك بأمرين أيهما صنعت، أجزأ عنك، فإن قويت عليهما فأنتم أعلم
”میں تمہیں دو امور کا حکم دیتا ہوں، تم نے ان میں سے جو بھی کر لیا وہ تجھ سے کفایت کر جائے گا، اگر تم دونوں کی طاقت رکھو تو پھر تم اپنی حالت کے متعلق بہتر جانتی ہو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
إنما هي ركضة من الشيطان فتحيضي ستة أيام أو سبعة أيام فى علم الله، ثم اغتسلي، فإذا رأيت أنك قد طهرت واستنقات فصلي أربعا وعشرين ليلة، أو ثلاثا وعشرين ليله وأيامها، وصومي وصلي، فإن ذلك يجيزئك، وكذلك فافعلي كما تحيض النساء، وكما يطهرن لميقات حيضهن وطهرن، فإن قويت على أن تؤخري الظهر، وتعجلي العصر، ثم تغتسلين حين تطهرين، وتصلين الظهر والعصر جميعا، ثم تؤخرين المغرب، وتعجلين العشاء ثم تغتسلين وتجمعين بين الصلاتين فافعلي، وتغتسلين مع الصبح وتصلين، وكذلك فافعلي وصومي إن قويت على ذلك
” یہ تو ایک شیطانی بیماری ہے، تم معمول کے مطابق اپنے آپ کو چھے یا سات دن حائضہ شمار کر لیا کرو، پھر غسل کرو حتیٰ کہ جب تم دیکھو کہ تم پاک صاف ہو گئی ہو تو تئیس یا چوبیس دن نماز پڑھو اور روزہ رکھو، یہ تمھارے لیے کافی ہوگا اور تم ہر ماہ اسی طرح کیا کروں جس طرح حیض والی عورتیں اپنے مخصوص ایام میں اور اس سے پاک ہونے کے بعد کرتی ہیں اور اگر تم یہ طاقت رکھو کہ نماز ظہر کو موخر کر لو اور عصر کو جلدی کر لو، پھر غسل کر کے ظہر اور عصر کو اکٹھی پڑھ لو، اسی طرح مغرب کو موخر کر لو اور عشاء کو مقدم کر لو، پھر غسل کر کے دونوں نمازیں اکٹھی پڑھ لو، پس ایسے کیا کرو اور نماز فجر کے لیے غسل کرو اور روزہ رکھو۔ اگر تم ایسا کر سکو تو ایسا ہی کرو۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وهو أعجب الأمرين إلى
”اور دونوں امور میں سے مجھے یہ (غسل کر کے نماز جمع کرنا) زیادہ پسندیدہ ہے۔“
——————

69۔ کیا طلاق کی نوبت شیطان کی وجہ سے پیش آتی ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
طلاق کی نوبت شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
إن عرش إبليس على البحر، فيبعث سراياه فيفيون الناس، فأعظمهم عنده منزلة أعظمهم فتنة، يجىء أحدهم فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، ثم يجيء أحدهم فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين امرأته فيدنيه ويقول: نعم أنت .
” بے شک ابلیس اپنا تخت سمندر پر رکھتا ہے، پھر وہ لشکروں کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روانہ کرتا ہے تو اس کے نزدیک جو سب سے زیادہ گمراہ کرتا ہے، وہ سب سے عظیم ہوتا ہے، ان میں سے ایک آ کر کہتا ہے: میں نے فلاں فلاں کام کیا ہے تو ابلیس کہتا ہے: تو نے تو کچھ نہیں کیا، پھر ایک دوسرا آ کر کہتا ہے: میں نے اس (مرد) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا، جب تک اس (مرد) کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہیں ڈال دی، تو وہ (ابلیس) اسے اپنے قریب کر لیتا ہے اور کہتا ہے: ہاں تو نے کام کیا ہے۔ “
اس روایت سے معلوم ہوا کہ میاں بیوی کے درمیان طلاق شیطان کے بہکاوے اور مکروفریب کی وجہ سے ہوتی ہے۔ اس لیے اے بھائی ! فوراً طلاق کی نوبت پر نہ اتر آیا کرو، بلکہ درج ذیل امور کو اختیار کیا کرو :
➊ بارہا بیوی کو اچھی نصیحت کرو۔
➋ اگر وہ باز نہ آ ئے تو اس سے بستر الگ کر لے، مگر گھر کو نہیں چھوڑنا، یعنی گھر ہی میں اس سے الگ ہو جاؤ۔
➌ اگر وہ اس کا اثر بھی نہ قبول کرے تو ہلکی مار مارو۔
➍ پھر بھی معاملہ درست نہ ہو تو پھر اس کے گھر والوں سے ایک فیصل لے آو، کیونکہ قرآن مجید اس بات کی تلقین کرتا ہے :
فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ ۖ
”سو انہیں نصیحت کرو اور بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ اور انہیں مارو۔“ [ النساء: 34 ]
ان میں سے کوئی حربہ کارگر ثابت نہ ہو تو پھر طلاق آخری حل ہے۔
——————

70۔ کیا تبرج ( اجنبی مردوں کے سامنے آراستہ ہو کر نکلنا ) شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
إِن يَدْعُونَ مِن دُونِهِ إِلَّا إِنَاثًا وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا ﴿١١٧﴾ لَّعَنَهُ اللَّـهُ ۘ وَقَالَ لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿١١٨﴾ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ۚ وَمَن يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِّن دُونِ اللَّـهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُّبِينًا ﴿١١٩﴾ يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ ۖ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿١٢٠﴾
”وہ اس کے سوا نہیں پکارتے مگر مؤنثوں کو اور نہیں پکارتے، مگر سرکش شیطان کو۔ جس پر اللہ نے لعنت کی اور جس نے کہا کہ میں ہر صورت تیرے بندوں سے ایک مقرر حصہ ضرور لوں گا۔ اور یقیناً میں انھیں ضرور گمراہ کروں گا اور یقین میں انھیں ضرور آرزوئیں دلاؤں گا اور یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقینا وہ ضرور چوپاؤں کے کان کاٹیں گے اور یقیناً میں انھیں ضرور حکم دوں گا تو یقیناً وہ ضرور اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت بدلیں گے اور جو کوئی شیطان کو اللہ کے سوا دوست بنائے تو یقیناً اس نے خسارہ اٹھایا، واضح خسارہ۔ وہ انھیں وعدے دیتا ہے اور انھیں آرزوئیں دلاتا ہے اور شیطان انھیں دھوکے کے سوا کچھ وعدہ نہیں دیتا۔“ [النساء: 117 – 120]
ان آیات کریمات کے الفاظ وَإِن يَدْعُونَ إِلَّا شَيْطَانًا مَّرِيدًا کا مطلب یہ ہے کہ شیطان عورتوں کی عبادت کا حکم دیتا ہے اور اس کو ان کے لیے حسین و مزین کرتا ہے اور وہ حقیقت میں شیطان ہی کی پوجا کر رہے ہوتے ہیں، کیونکہ شیطان کے حکم سے وہ ایسا کرتے ہیں تو شیطان کی بات مان کر غیر کی عبادت گویا شیطان ہی کی عبادت ہے۔
اللہ تعالی کا فرمان: لَّعَنَهُ اللَّـهُ کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے دھتکارا اور اپنی رحمت سے دور کر دیا اور اپنے پڑوس سے بھی نکال دیا تو ابلیس نے کہا: لَأَتَّخِذَنَّ مِنْ عِبَادِكَ نَصِيبًا یعنی ایک معین مقدار کو گمراہ کروں گا اور اپنا ساتھی بناؤں گا۔
نَصِيبًا مَّفْرُوضًا کی تفسیر میں مقاتل بن حیان فرماتے ہیں کہ ایک ہزار میں سے 999 جہنم کی طرف لے جاؤں گا اور ایک جنت کی طرف جائے گا۔ (ابلیس نے کہا) وَلَأُضِلَّنَّهُمْ اور میں انھیں حق سے گمراہ کروں گا۔ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ میں ترک توبہ کو ان کے لیے آراستہ کروں گا، امیدوں کا وعدہ دلاؤں گا اور انھیں تسویف (لیکن تھوڑی دیر ٹھہر کر توبہ کرتا ہوں) کا حکم دوں گا۔ یاد رکھیے تسویف (یعنی یہ کہنا کہ بعد میں توبہ کر لوں گا یا بعد میں نیک کام کر لوں گا، ابھی کون سا بوڑھا ہو گیا ہوں) یہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے۔
وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُبَتِّكُنَّ آذَانَ الْأَنْعَامِ یعنی وہ کان کو چیرا لگائیں گے اور اس کو بہ طور علامت استعمال کریں گے، جیسا کہ سائبہ، بیرہ اور وصیلہ جانور ہیں۔
وَلَآمُرَنَّهُمْ فَلَيُغَيِّرُنَّ خَلْقَ اللَّـهِ ۚ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس سے مراد جانوروں کو خصی کرنا ہے۔ ایک دوسرے قول کے مطابق اس سے وثم، (یعنی جسم میں تل بنانے کے لیے گوشت کرید کر سرمہ بھر دینا ) مراد ہے۔ ایک اور قول کے مطابق اس سے ’’دین‘‘ مراد ہے، لیکن وہ اللہ کے دین کو بدل دیں گے۔
عياض بن حمار مجاشعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بےشک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن خطبہ ارشاد فرمایا، آپ کے بیان میں سے ایک یہ امر تھا:
ألا إن ربي أمرني أن أعلمكم ما جهلتم وما علمني يومي هذا، كل مال نحلته عبدا حلال، وإني خلقت عبادي حنفاء كلهم، وإنهم أتتهم الشياطين فاجتالهم عن دينهم، وحرمت عليهم ما أحللت لهم، وأمرتهم أن يشركوا بي ما لم أنزل به سلطانا
”خبردار! اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آج اس (اللہ) نے جو مجھے سکھایا ہے، جو تمھیں نہیں پتا وہ تم کو سکھاؤں، ہر مال جو میں نےکسی بندے کو دیا ہے، حلال ہے، میں نے اپنے تمام بندوں کو ملت اسلامیہ اور توحید پر پیدا کیا ہے، شیطان ان کے پاس آ کر انھیں ان کے دین سے پھیر دیتے ہیں، میری حلال کردہ اشیا کو ان پر حرام کرتے ہیں اور انھیں شرک کرنے کا حکم دیتے ہیں، حالاں کہ میں نے اس بارے میں کوئی دلیل (حکم) نازل نہیں کی۔“
——————

یہ تحریر اب تک 37 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply