مسئلہ تقدیر

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔ اس مسئلہ کی وضاحت سے ہماری تشفی فرما دیں۔
جواب : تقدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص شرعاً منع ہے، کیونکہ اس کے متعلق بحث و تکرار سے اجر کی محرومی، بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ایک حدیث میں ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على اصحابه وهم يختصمون في القدر فكانما يفقا في وجهه حب الرمان من الغضب فقال : بهذا امرتم او لهذا خلقتم ؟ تضربون القرآن بعضه ببعض بهذا هلكت الامم قبلكم
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ مسئلہ تقدیر پر بحث کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اس قدر غصے میں آ گئے کہ معلوم ہوتا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم اس کا حکم دیے گئے ہو یا تم اس کام کے لیے پیدا کئے گئے ہو ؟ اللہ کے قرآن کی بعض آیات کو بعض کے ساتھ ٹکڑاتے ہو ؟ (یاد رکھو ! ) اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں۔“ [ابن ماجه، باب فى القدر : 85، منصف عبدالرزاق : 11/ 216، 20367، مسند احمد 2/ 178]
↰ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر و شر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا [ 76-الإنسان:3]
’’ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔“

✿ ایک اور مقام پر فرمایا : (more…)

Continue Readingمسئلہ تقدیر

حجراسود اور حضرت عمر رض کی دعوت توحید

((انّ عمر بن الخطّاب رضی اللہ عنہ قال للرّکن؛ أما واللّٰہ انّی لأعلم أنک حجر، لا تضرّ ولا تنفع ، ولولا أنی رأیت رسول اللّٰہ صلّی اللہ علیہ وسلم استلمک ما استلمک، فاستلمہ، ثمّ قال؛ ما لنا و للرّمل ؟انّما کنّا راءینا المشرکین ، وقد أھلکھم اللّٰہ، ثمّ قال ؛ شییٔ صنعہ النّبیّ صلی اللہ علیہ وسلم، فلا نحبّ أن نّترکہ.))                "سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رکن (حجرِ اسود) سے مخاطب ہو کر فرمایا، یقیناً میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے ، نفع  و نقصان کا مالک نہیں، اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی تجھے بوسہ نہ دیتا، پھر آپ نے اس کو بوسہ دیا، پھر فرمایا، ہمیں رمل سے کیا واسطہ تھا، ہم تو صرف مشرکین کو دکھانے کےلئے ایسا کرتے تھے ، اللہ نے ان کو…

Continue Readingحجراسود اور حضرت عمر رض کی دعوت توحید

عقیدہ تقدیر برحق ہے؍مردہ بچے کی نمازِ جنازہ

تحریر : حافظ زبیر علی زئی وعن ابن مسعود قال : حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق : إنّ خلق أحدكم يجمع فى بطن أمه أربعين يوماً نطفةً ، ثم يكون علقةً مثل ذالك ، ثم يكون مضغةً مثل ذالك ، ثم يبعث الله إليه ملكاً بأربع كلماتٍ : فيكتب عمله و أجله ورزقه و شقي أو سعيد ، ثم ينفخ فيه الروح ، فوالذي لا إلٰه غيره ! إن أحدكم ليعمل بعمل أهل الجنة حتيٰ ما يكون بينه و بينها إلا ذراع ، فيسبق عليه الكتاب ، فيعمل بعمل أهل النار فيدخلها ، فإن أحدكم ليعمل بعمل أهل النار حتيٰ ما يكون بينه و بينها إلا ذراع ، فيسبق عليه الكتاب ، فيعمل بعمل أهل الجنة فيد خلها [متفق عليه] سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے…

Continue Readingعقیدہ تقدیر برحق ہے؍مردہ بچے کی نمازِ جنازہ

عالَمِ برزخ کا ایک مناظرہ

تحریر: حافظ زبیر علی زئی وعن ابن عمر، قال : قال رسول اللہ ﷺ :((کل شئ بقدرٍ حتی العجز و الکیس۔))رواہ مسلم          (سیدنا) ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر چیز تقدیر سے ہے حتیٰ کہ عاجزی اور دانائی بھی تقدیر سے ہے ۔ (صحیح مسلم : ۲۶۵۵/۱۸ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۵۱) فقہ الحدیث: ۱: عقیدۂ تقدیر برحق ہے ۔ ۲: ہر چیز اپنے وجود سے پہلے اپنے خالق اللہ تعالیٰ کے علم و مشیٔت میں ہے ۔ ۳:ہر مخلوق کو وہی چیز حاصل ہوتی ہے جو اس کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔ ۴:یہ صحیح حدیث موطأ الامام مالک (روایۃ یحییٰ ۸۹۹/۲ ح ۱۷۲۸، روایۃ عبدالرحمٰن بن القاسم بتحقیقی : ۱۸۷) میں بھی موجود ہے اور امام مالکؒ کی سند سے امام مسلمؒ نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں روایت کی ہے ۔ ۵:موطا ٔ امام مالک اور…

Continue Readingعالَمِ برزخ کا ایک مناظرہ

تقدیر پر ایمان – اہل السنت کا اجماعی عقیدہ

تحریر:حافظ زبیر علی زئی وعن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ ﷺ: ((کتب اللہ مقادیر الخلائق قبل أن یخلق السمٰوات و الأرض بخمسین ألف سنۃ)) قال: ((وکان عرشہ علی الماء)) (سیدنا) عبداللہ بن عمرو (بن العاصؓ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے (تمام) مخلوقات کی تقدیروں کو لکھا..... اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ اسے (امام) مسلم (۲۶۵۳/۱۶ و ترقیم دارالسلام: ۶۷۴۸) نے روایت کیا ہے ۔ تخریج الحدیث: اس حدیث کو امام مسلم کے علاوہ امام عبداللہ بن وہب المصری (کتاب الجامع: ۵۸۰، کتاب القدر: ۱۷) جعفر بن محمد الفریابی (کتاب القدر:۸۴) ترمذی(السنن : ۲۱۵۶ وقال : حسن صحیح غریب) احمد (۱۶۹/۲ ح ۶۵۷۹) عبد بن حمید (المنتخب: ۳۴۳) ابن حبان (الاحسان : ۶۱۰۵، دوسرا نسخہ: ۶۱۳۸) محمد بن الحسین الآجری (الشریعۃ ص ۱۷۶…

Continue Readingتقدیر پر ایمان – اہل السنت کا اجماعی عقیدہ

End of content

No more pages to load