مسئلہ تقدیر
سوال : ہمارے کچھ دوستوں کا کہنا ہے کہ اگر کسی کی تقدیر ہی میں برائی لکھی ہے تو پھر اس برائی کے کرنے پر عذاب اور گناہ کیوں ملے گا ؟ حالانکہ وہ تو مجبور تھا۔ اس مسئلہ کی وضاحت سے ہماری تشفی فرما دیں۔
جواب : تقدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص شرعاً منع ہے، کیونکہ اس کے متعلق بحث و تکرار سے اجر کی محرومی، بدعملی اور ضلالت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ ایک حدیث میں ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على اصحابه وهم يختصمون في القدر فكانما يفقا في وجهه حب الرمان من الغضب فقال : بهذا امرتم او لهذا خلقتم ؟ تضربون القرآن بعضه ببعض بهذا هلكت الامم قبلكم
’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ مسئلہ تقدیر پر بحث کر رہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دیکھ کر اس قدر غصے میں آ گئے کہ معلوم ہوتا تھا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر انار کے دانے نچوڑ دئیے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم اس کا حکم دیے گئے ہو یا تم اس کام کے لیے پیدا کئے گئے ہو ؟ اللہ کے قرآن کی بعض آیات کو بعض کے ساتھ ٹکڑاتے ہو ؟ (یاد رکھو ! ) اسی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں۔“ [ابن ماجه، باب فى القدر : 85، منصف عبدالرزاق : 11/ 216، 20367، مسند احمد 2/ 178]
↰ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر و شر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور انسان کو اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چاہے اختیار کرے۔
✿ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا [ 76-الإنسان:3]
’’ ہم نے اسے راستہ دکھا دیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا ناشکرا۔“
✿ ایک اور مقام پر فرمایا : (more…)