تحریر: حافظ ابویحییٰ نور پوری حفظ اللہ
رفع سبّابہ کیا ہے ؟
انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی [Forefinger/Indexfinger] کو عربی میں مُسَبِّحة (تسبیح کرنے والی) اور اردو میں انگشت شہادت (شہادت والی انگلی) بھی کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے اور اس کی وحدانیت کی گواہی دینے کے وقت عام طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی وحدانیت کی گواہی نیک لوگوں کا کام ہے۔ بدکردار لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ انگلی عنایت کی ہے، لیکن وہ اسے تسبیح و شہادت کی بجائے ناحق گالی گلوچ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے اسے عربی میں سَبَّابَة (گالی والی انگلی) بھی کہتے ہیں۔
رَفْع بھی عربی زبان ہی کا لفظ ہے۔ یہ مصدر ہے اور اس کا معنیٰ بلند کرنا ہوتا ہے۔
یوں رَفْع سَبَّابَة کا معنی ہوا شہادت والی انگلی کو اٹھانا۔ یہ تو ہوئی لغوی وضاحت۔
اور اصطلاحاً نماز میں تشہد کے دوران شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا رَفْع سَبَّابَة کہلاتا ہے۔
نماز کے دیگر بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف مکاتب فکر مختلف خیالات کے حامل ہیں۔ البتہ اہل حدیث کے نزدیک رفع سبابہ مستحب اور سنت ہے۔ ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
➊ نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
كان عبد اللہ بن عمر إذا جلس فى الصلاة؛ وضع يديه علٰي ركبتيه، وأشار بإصبعه، وأتبعها بصره، ثم قال : قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : ”لهي أشد على الشيطان من الحديد“، يعني السبابة
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب دوران نماز (تشہد میں) بیٹھے، تو ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی (شہادت والی) انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ اپنی نظر بھی اسی انگلی پر رکھتے۔ پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : یہ شہادت والی انگلی شیطان پر لوہے سے بھی سخت پڑتی ہے۔“ [مسند الإمام أحمد : 119/2، وسندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کا راوی کثیر بن زید اسلمی جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہے۔
➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں :
إن النبى صلى اللہ عليه وسلم كان إذا جلس فى الصلاة وضع يديه علٰي ركبتيه، ورفع إصبعه اليمني التى تلي الإبهام، فدعا بها . . .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگوٹھے سے متصل انگلی کی کو اٹھا لیتے اور اس کے ساتھ دعا کرتے۔ ‘‘ [صحيح مسلم 580]
تشھد میں دائیں ہاتھ کی کیفیات :
ہم پڑھ چکے ہیں کہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہادت والی انگلی کو اٹھانے اور اس کے ساتھ اشارہ یا دعا کرنے کا ذکر ہے۔ یہ اشارہ کیسے ہوتا تھا ؟ اس کے بارے میں بھی ہم احادیث نبویہ ہی سے رہنمائی لیتے ہیں۔ مذکورہ اور آئندہ تمام احادیث چونکہ رفع سبابہ کے بارے میں ہیں، اس لیے ہم انہیں ایک ہی ترتیب میں ذکر کریں گے، البتہ عنوانات بدلتے رہیں گے :
➌ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنٰي علٰي فخذه اليمنٰي، ويده اليسرٰي علٰي فخذه اليسرٰي، وأشار بإصبعه السبابة، ووضع إبهامه علٰي إصبعه الوسطٰي
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر۔ انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے اور اس دوران اپنے انگوٹھےکو درمیان والی انگلی پر رکھتے۔“ [صحيح مسلم 13/579]
➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان إذا قعد فى التشهد وضع يده اليسرٰي علٰي ركبته اليسرٰي، ووضع يده اليمنٰي علٰي ركبته اليمنٰي، وعقد ثلاثة وخمسين، وأشار بالسبابة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے، جبکہ بائیاں ہاتھ بائیں گھٹے پر۔ نیز 53 کی گرہ بناتے اور سبابہ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔“ [صحیح مسلم : 115/580]
↰ عرب لوگ انگلیوں کے ساتھ ایک خاص طریقے سے گنتی کرتے تھے۔ اس طریقے میں 53 کے ہندسے پر ہاتھ کی ایک خاص شکل بنتی تھی، جس میں انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے علاوہ باقی تینوں انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور شہادت کی انگلی کو کھول کر انگوٹھے کے سِرے کو اس کی جڑ میں لگاتے ہیں۔
(more…)