پہلے تشہد میں درود پڑھنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا دونوں تشہدوں میں درود پڑھنا ضروری ہے، پہلے تشہد میں پڑھنے کی کیا دلیل ہے ؟ جواب : ارشاد باری تعالیٰ ہے : ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيمًا﴾ [ الأحزاب : 56] ”بیشک اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو ! تم بھی (آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر) درود وسلام بھیجو۔ “ اس آیت کریمہ کا حکم عام ہے اور یہ نماز کو بھی شامل ہے کیونکہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر سوال کیا کہ ہم نے سلام کہنا تو سیکھ لیا ہے، آپ ہمیں بتائیں کہ ہم صلاۃ کیسے پڑھیں اور بعض روایات میں نماز…

Continue Readingپہلے تشہد میں درود پڑھنا

تشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : کیا دوران تشہد انگشت شہادت کو حرکت دینا مسنون ہے ؟ جواب : دورانِ تشہد انگشتِ شہادت کو حرکت دینی چاہیے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے جب کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے : ثُمَّ رَفَعَ اُصْبَعَهُ فَرَأَيْتُهُ يُحَرِّكُهَا يَدْعُوْ بِهَا [نسائي، كتاب الصلاة : باب قبض الثنتين من أصابع اليد اليمني وعقد الوسطي والإبهام منها 1269] ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کو اٹھایا پھر اسے حرکت دیتے رہے اور دعا کرتے رہے۔“ مولوی سلام اللہ حنفی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں : وِفِيْهِ تَحْرِيْكُهَا دَائِمًا اِذَا الدُّعَاءُ بَعْدَ التَّشَهُّدِ ”اس حدیث میں ہے کہ انگلی کو تشہد میں ہمیشہ حرکت دیتے رہنا چاہیے کیونکہ دعا تشہد کے بعد ہوتی ہے۔ “ علامہ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :…

Continue Readingتشہد میں انگشت شہادت کو حرکت دینا

رفع سبابہ، مقام کیفیت

تحریر: حافظ ابویحییٰ نور پوری حفظ اللہ

رفع سبّابہ کیا ہے ؟
انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی [Forefinger/Indexfinger] کو عربی میں مُسَبِّحة (تسبیح کرنے والی) اور اردو میں انگشت شہادت (شہادت والی انگلی) بھی کہتے ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرنے اور اس کی وحدانیت کی گواہی دینے کے وقت عام طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اس کی وحدانیت کی گواہی نیک لوگوں کا کام ہے۔ بدکردار لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ انگلی عنایت کی ہے، لیکن وہ اسے تسبیح و شہادت کی بجائے ناحق گالی گلوچ کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس لیے اسے عربی میں سَبَّابَة (گالی والی انگلی) بھی کہتے ہیں۔

رَفْع بھی عربی زبان ہی کا لفظ ہے۔ یہ مصدر ہے اور اس کا معنیٰ بلند کرنا ہوتا ہے۔
یوں رَفْع سَبَّابَة کا معنی ہوا شہادت والی انگلی کو اٹھانا۔ یہ تو ہوئی لغوی وضاحت۔
اور اصطلاحاً نماز میں تشہد کے دوران شہادت والی انگلی سے اشارہ کرنا رَفْع سَبَّابَة کہلاتا ہے۔

نماز کے دیگر بہت سے مسائل کی طرح اس مسئلہ میں بھی مختلف مکاتب فکر مختلف خیالات کے حامل ہیں۔ البتہ اہل حدیث کے نزدیک رفع سبابہ مستحب اور سنت ہے۔ ہمارے دلائل ملاحظہ فرمائیں:
➊ نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
كان عبد اللہ بن عمر إذا جلس فى الصلاة؛ وضع يديه علٰي ركبتيه، وأشار بإصبعه، وأتبعها بصره، ثم قال : قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : ”لهي أشد على الشيطان من الحديد“، يعني السبابة
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب دوران نماز (تشہد میں) بیٹھے، تو ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے اور اپنی (شہادت والی) انگلی کے ساتھ اشارہ فرماتے۔ اپنی نظر بھی اسی انگلی پر رکھتے۔ پھر فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : یہ شہادت والی انگلی شیطان پر لوہے سے بھی سخت پڑتی ہے۔“ [مسند الإمام أحمد : 119/2، وسندهٔ حسن]
↰ اس حدیث کا راوی کثیر بن زید اسلمی جمہور ائمہ حدیث کے نزدیک ”موثق، حسن الحدیث“ ہے۔

➋ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی بیان کرتے ہیں :
إن النبى صلى اللہ عليه وسلم كان إذا جلس فى الصلاة وضع يديه علٰي ركبتيه، ورفع إصبعه اليمني التى تلي الإبهام، فدعا بها . . .
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں (تشہد کے لئے) بیٹھتے، تو اپنے دونوں ہاتھوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھتے اور اپنے دائیں ہاتھ کی انگوٹھے سے متصل انگلی کی کو اٹھا لیتے اور اس کے ساتھ دعا کرتے۔ ‘‘ [صحيح مسلم 580]

تشھد میں دائیں ہاتھ کی کیفیات :
ہم پڑھ چکے ہیں کہ احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہادت والی انگلی کو اٹھانے اور اس کے ساتھ اشارہ یا دعا کرنے کا ذکر ہے۔ یہ اشارہ کیسے ہوتا تھا ؟ اس کے بارے میں بھی ہم احادیث نبویہ ہی سے رہنمائی لیتے ہیں۔ مذکورہ اور آئندہ تمام احادیث چونکہ رفع سبابہ کے بارے میں ہیں، اس لیے ہم انہیں ایک ہی ترتیب میں ذکر کریں گے، البتہ عنوانات بدلتے رہیں گے :

➌ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا قعد يدعو، وضع يده اليمنٰي علٰي فخذه اليمنٰي، ويده اليسرٰي علٰي فخذه اليسرٰي، وأشار بإصبعه السبابة، ووضع إبهامه علٰي إصبعه الوسطٰي
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنے دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھتے اور بائیں ہاتھ کو بائیں ران پر۔ انگشت شہادت سے اشارہ فرماتے اور اس دوران اپنے انگوٹھےکو درمیان والی انگلی پر رکھتے۔“ [صحيح مسلم 13/579]

➍ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہے:
إن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان إذا قعد فى التشهد وضع يده اليسرٰي علٰي ركبته اليسرٰي، ووضع يده اليمنٰي علٰي ركبته اليمنٰي، وعقد ثلاثة وخمسين، وأشار بالسبابة
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے، تو اپنا دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر رکھتے، جبکہ بائیاں ہاتھ بائیں گھٹے پر۔ نیز 53 کی گرہ بناتے اور سبابہ کے ساتھ اشارہ فرماتے۔“ [صحیح مسلم : 115/580]
↰ عرب لوگ انگلیوں کے ساتھ ایک خاص طریقے سے گنتی کرتے تھے۔ اس طریقے میں 53 کے ہندسے پر ہاتھ کی ایک خاص شکل بنتی تھی، جس میں انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے علاوہ باقی تینوں انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور شہادت کی انگلی کو کھول کر انگوٹھے کے سِرے کو اس کی جڑ میں لگاتے ہیں۔
(more…)

Continue Readingرفع سبابہ، مقام کیفیت

نماز میں اٹھنے کا مسنون طریقہ

تحریر: ابوسعید سلفی حفظ اللہ

سنت طریقہ ہی کیوں؟
✿ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ [2-البقرة:43]
’’ نماز قائم کرو۔“
یہ ایک اجمالی حکم ہے۔ اس کی تفصیل کیا ہے ؟ نماز کس طرح قائم ہو گی ؟ اس اجمال کی تفصیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کے اس فرمان گرامی میں موجود ہے :
صلوا كما رأيتموني أصلي
’’ نماز ایسے پڑھو، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“ [صحيح البخاري : 88/1، ح : 631]
◈ شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) فرماتے ہیں :
إن اللہ سبحانه لا يعبد إلا بما شرعه علٰي ألسنة رسله، فإن العبادة حقه علٰي عباده، وحقه الذى أحقه هو، ورضي به، وشرعه
”اللہ تعالیٰ کی عبادت کا صرف وہی طریقہ ہے، جو اس نے اپنے رسولوں کی زبانی بیان کر دیا۔ عبادت بندوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے اور اس کا حق وہی ہو سکتا ہے، جو اس نے خود مقرر کیا ہو، اس پر وہ راضی بھی ہو اور اس کا طریقہ بھی اس نے خود بیان کیا ہو۔“ [اعلام الموقعين عن رب العالمين : 1/ 344]
↰ معلوم ہوا کہ عبادت کی قبولیت تب ہو گی، جب اسے سنت طریقے سے سرانجام دیا جائے۔ سنت کا علم صرف صحیح حدیث کے ذریعے ہوتا ہے۔ جہالت اور عناد کی بنا پر ”صحیح“ احادیث کو چھوڑ کر ”ضعیف“ روایات کے ذریعے عبادات کے طریقے مقرر کرنا جائز نہیں۔
↰ چونکہ نماز بھی ایک عبادت، بلکہ ایسا ستون ہے، جس پر اسلام کی پوری عمارت کھڑی ہوتی ہے، لہٰذا اس کی ادائیگی میں بھی سنت طریقے کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔

جلسہ استراحت اور تشہد کے بعد کیسے اٹھیں ؟
نماز کی پہلی اور تیسری رکعت میں دونوں سجدوں کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنے سے پہلے تھوڑی دیر کے لیے اطمینان سے بیٹھنا جلسہ استراحت کہلاتا ہے۔ اس جلسہ کے بعد اور درمیانے تشہد کے بعد اگلی رکعت کے لیے اٹھنا ہوتا ہے۔ اس اٹھنے کا سنت طریقہ جاننا اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؛
دليل نمبر
مشہور تابعی، امام، ایوب سختیانی رحمہ اللہ کا بیان ہے :
عن أبي قلابة، قال : جائ نا مالك بن الحويرث، فصلٰي بنا فى مسجدنا هٰذا، فقال : إني لـأصلي بكم، وما أريد الصلاة، ولٰكن أريد أن أريكم كيف رأيت النبى صلى اللہ عليه وسلم يصلي، قال أيوب : فقلت لأبي قلابة : وكيف كانت صلاته؟ قال : مثل صلاة شيخنا هٰذا ـ يعني عمرو بن سلمة ـ قال أيوب : وكان ذٰلك الشيخ يتم التكبير، وإذا رفع رأسه عن السجدة الثانية جلس واعتمد على الـأرض، ثم قام
’’ ابوقلابہ (تابعی ) نے بتایا : ہمارے پاس سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ تشریف لائے، ہماری مسجد میں ہمیں نماز پڑھائی اور فرمانے لگے : میں تمہارے سامنے نماز پڑھنے لگا ہوں، حالانکہ نماز پڑھنا میرا مقصد نہیں۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ تمہیں یہ بتاؤں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھا کرتے تھے۔ میں نے ابوقلابہ رحمہ اللہ سے پوچھا کہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کی نماز کیسی تھی ؟ انہوں نے بتایا : ہمارے شیخ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کی طرح۔ عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ تکبیر کہتے، جب دوسرے سجدے سے سر اٹھاتے، تو بیٹھ جاتے اور زمین پر ٹک جاتے، پھر کھڑے ہوتے۔“ [صحيح البخاري : 824]
◈ امام محمد بن ادریس، شافعی رحمہ اللہ (150-204ھ) فرماتے ہیں :
وبهٰذا نأخذ، فنأمر من قام من سجود، أو جلوس فى الصلاة أن يعتمد على الـأرض بيديه معا، اتباعا للسنة، فإن ذٰلك أشبه للتواضع، وأعون للمصلي على الصلاة، وأحرٰي أن لا ينقلب، ولا يكاد ينقلب، و أى قيام قامه سوٰي هٰذا كرهته له
ہم اسی حدیث کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں اور جو شخص نماز میں سجدے یا تشہد سے (اگلی رکعت کے لیے) اٹھے، اسے حکم دیتے ہیں کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔ یہ عمل عاجزی کے قریب تر ہے، نمازی کے لیے مفید بھی ہے اور گرنے سے بچنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اس کے علاوہ اٹھنے کی کوئی بھی صورت میرے نزدیک مکروہ ہے۔ [كتاب الام : 101/1]
(more…)

Continue Readingنماز میں اٹھنے کا مسنون طریقہ

پہلے قعدہ میں تشہد

تحریر: ابوعبداللہ صارم حفظ اللہ

نماز کی دو رکعتیں مکمل کرنے کے بعد بیٹھنا قعدہ کہلاتا ہے۔ چار رکعتوں والی نماز میں دو قعدے ہوتے ہیں۔ پہلا دو رکعتوں کے بعد اور دوسرا چار رکعتیں مکمل کرنے کے بعد۔
قعدہ پہلا ہو یا دوسرا اس میں تشہد (التحيات۔۔۔،جس میں اللہ کی وحدانیت اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی شہادت ہوتی ہے ) پڑھا جاتا ہے۔ تشہد سے زائد مثلاً درود پڑھنا اور دُعا کرنا صرف دوسرے تشہد کے ساتھ خاص ہے یا پہلے تشہد میں بھی اس کی اجازت ہے ؟ اسی سوال کا جواب دینے کے لیے یہ تحریر قارئین کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے۔

ہماری تحقیق میں پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کر لیا جائے یا تشہد سے زائد بھی کچھ پڑھ لیا جائے، دونوں صورتیں جائز ہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ اگر پہلے تشہد میں درود پڑھا گیا، تو سجدۂ سہو لازم آ جائے گا، ان کی بات بے دلیل ہے، کیونکہ دونوں طریقے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ سے ثابت ہیں، ملاحظہ فرمائیں :

تشہد پر اقتصار و اکتفا :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے شاگردوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تشہد سکھایا۔ ان کے ایک شاگرد اسود بن یزید بیان کرتے ہیں :
ثم إن كان فى وسط الصلاة؛ نهض حين يفرغ من تشهده، وإن كان فى آخرها؛ دعا بعد تشهده ما شائ اللہ أن يدعو، ثم يسلم
”آپ اگر نماز کے درمیانے تشہد میں ہوتے تو تشہد سے فارغ ہوتے ہی (اگلی رکعت کے لیے) کھڑے ہو جاتے اور اگر آخری تشہد میں ہوتے، تو تشہد کے بعد جو دعا مقدر میں ہوتی، کرتے، پھر سلام پھیرتے۔“ [مسند الإمام احمد :459/1، و سندهٔ حسن]
↰ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ (708) نے اس حدیث کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
امام موصوف اس حدیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:
باب الاقتصار فى الجلسة الأولى على التشهد، وترك الدعاء بعد التشهد الأول.
”اس بات کا بیان کہ پہلے قعدہ میں تشہد پر اکتفا کرنا اور دعا کو ترک کرنا جائز ہے۔“ [صحيح ابن خزيمة : 708]

➋ ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان لا يزيد فى الركعتين على التشهد.
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد (عام طور پر) تشہد سے زیادہ نہیں پڑ ھتے تھے۔“ [ مسند أبى يعلى الموصلي: 4373، وسندہ صحيح]

تنبیھات :
➊ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
كان رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم إذا جلس فى الركعتين الـأوليين، كأنه على الرضف
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دو رکعتوں کے بعد (تشہد کے لیے بیٹھتے )، تو (بہت جلد اٹھنے کی وجہ سے ) ایسے لگتا کہ گرم پتھر پر بیٹھے ہیں۔“ [مسند احمد : 386/1، سنن ابي داود 995، سنن الترمذي : 366]
↰ اس کی سند ’’ مرسل“ ہونے کی وجہ سے ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
ابوعبیدہ کا اپنے والد سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سماع نہیں۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
والراجح أنه لا يصح سماعه من أبيه
”راجح بات یہی ہے کہ ابوعبیدہ کا اپنے والدِ گرامی سے سماع ثابت نہیں۔“ [تقريب التهذيب : 8231]
◈نیز فرماتے ہیں :
(more…)

Continue Readingپہلے قعدہ میں تشہد

End of content

No more pages to load