قضا نمازیں کیسے ادا کی جائیں

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

قضا نمازوں کی ادائیگی کا طریقہ
سوال : قضا نماز کی ادائیگی کا کیا طریقہ کار ہے اور جس آدمی سے سفر میں نماز قضا ہو جاتی ہے، اس کا کیا طریقہ ہے، کیا وہ پوری نماز پڑھے یا قصر؟
جواب : فوت شدہ نمازوں کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوۂ احزاب میں بعض نمازیں فوت ہو گئیں تو انہوں نے ترتیب سے ادا کی تھیں۔ صحیحین میں ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خندق والے دن آئے تو کفار قریش کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور کہا:
”اے اللہ کے رسول آج میں بمشکل سورج ڈوبتے نماز پڑھ سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ کی قسم ! میں نے تو ابھی بھی نماز نہیں پڑھی۔“ اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بطحان اترے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا پھر غروب شمس کے بعد عصر کی نماز پڑھی پھر مغرب کی نماز پڑھی۔“ [بخاري، كتاب المغازي : باب غزوة الخندق : 4112]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز کے فوت ہو جانے کا اس قدر ملال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین پر بددعا کی۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق والے دن کہا :
”اللہ ! ان مشرکین کے لیے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے جس طرح انہوں نے ہمیں نماز وسطیٰ سے مشغول رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔“ [بخاري، كتاب المغازي : باب غزوة الخندق 4111]
مسند احمد اور مسند شافعی میں ہے کہ کفار نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی نمازوں سے روکے رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری نمازیں اکٹھی پڑھیں۔ امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ان روایتوں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جنگ خندق کئی روز جاری رہی تو کسی دن دوسری صورت بن گئی ہوگی۔ [الرحيق المختوم عربي، ص/305]
معلوم ہوا کہ فوت شدہ نمازیں ترتیب سے ادا کرنی چاہییں۔ مسافر کو اللہ نے حالت سفر میں دو سہولتیں عطا کی ہیں :
➊ نماز قصر
➋ جمع کر کے پڑھنا یعنی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء اور جس نے حالت سفر میں اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا اور واپس گھر آگیا تو یہاں حالت اقامت میں پوری نماز ادا کرے۔

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔