نماز تہجد کے احکام و مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں

مرتب: خلیل الرحمن چشتی حفظ اللہ

تہجد کا شرعی حکم

نماز تہجد نفل ہے ، فرض نہیں ہے ۔ صرف پانچ وقت کی نمازیں ہی فرض ہیں ۔
نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا:
خمس صلوات فى اليوم والليل . فقال: هل على غيره؟ قال: لا ، إلا أن تطوع [صحيح بخاري كتاب الشهادات باب 26 حديث: 2,678]
”دن اور رات میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں ۔ اُس آدمی نے پوچھا: کیا اس کے علاوہ بھی کچھ مجھ پر فرض ہے؟ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ! الا یہ کہ تم اپنی مرضی سے کچھ نوافل پڑھ لو ۔“
نماز تہجد نفل ہے ، لیکن اس امت کی قیادت اور خواص اُمت کے لیے یہ ایک اضافی نصاب کی حیثیت رکھتی ہے ۔ اُس کے صالحین کے لیے اس کا التزام ضروری ہے ۔ چنانچہ رئیس التابعین حضرت حسن بصری رحمہ اللہ (م 110 ھ ) اور حضرت ابن سیرین رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں ۔

نماز تہجد کا وقت

تہجد کا وقت ، عشاء کے بعد سے فجر تک ہے ۔ [صحيح مسلم: 736]
عشاء کی نماز کے بعد سے طلوع فجر تک ، ابتداء میں ، وسط شب میں ، یا آخر شب ہر وقت یہ نماز پڑھی جا سکتی ہے ، لیکن آخر شب افضل ہے ۔ خادم رسول صلى اللہ علیہ وسلم حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ہم رات کے جس حصے میں چاہتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے ۔“ [صحيح بخارى كتاب التهجد ۔ باب 11 ، حديث: 1,141]
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (م852ھ) فرماتے ہیں:
”نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی تہجد کا کوئی معین وقت نہیں تھا ۔ اپنی آسانی کے لحاظ سے جب بھی آپ صلى اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنا چاہتے ، پڑھ لیتے ۔
لیکن افضل یہ ہے کہ تہجد کی نماز ، رات کے آخری تہائی حصے میں پڑھی جائے ۔“

با جماعت نماز تہجد بھی مسنون ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد انفرادی طور پر بھی ادا کی ہے اور با جماعت بھی ۔ نفل نمازیں با جماعت بھی ادا کی جا سکتی ہیں ۔ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تراویح با جماعت بھی ادا کی ہے اور انفرادی طور پر بھی ۔ یہ دونوں سنتیں ہیں ۔
◈ نماز تہجد کے باجماعت پڑھنے کے بارے میں صحیح احادیث میں نصوص موجود ہیں ۔ یہ ایک ثابت شدہ سنت ہے ۔ بھلا کسی ثابت شدہ سنت کو بدعت کیسے کہا جا سکتا ہے؟ نہ یہ بدعت ہے اور نہ مکروہ تحریمی ۔ نہ مکر وہ تنزیہی ۔ مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے ۔
(1) آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ باجماعت قیام اللیل کیا ۔ [صحيح بخاري: 859]
(2) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے رات کی نماز ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باجماعت ادا کی ۔ [صحيح مسلم: 772]
(3) حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی ۔ [صحيح بخاري: 860]
(4) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بارہ (12) رکعت نفل نماز تہجد پڑھی ، پھر لیٹ گئے ۔ اذان ہوئی تو دو (2) رکعت ہلکی سنت فجر پڑھی ، پھر مسجد کے لیے نکل پڑے ۔ [موطا امام مالك: باب صلاة النبى فى الوتر ، حديث: 245]
(5) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ر مضان میں قیام اللیل کی جماعت کرائی ۔ [صحيح بخاري: 1,129]
(6) نماز خسوف نماز کسوف اور نماز استقاء نفل نمازیں ہیں ۔ لیکن یہ بھی باجماعت ادا کی گئیں ۔ [صحيح مسلم: 797 ، صحيح مسلم: 414]
◈ علاوہ ازیں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ ، حضرت انس رضی اللہ عنہ اُن کی والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا اور اُن کی خالہ ام حرام رضی اللہ عنہا کے ساتھ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باجماعت نماز تہجد ادا کی ہے ۔ ایک دفعہ حضرت عتبان بن مالک اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امامت کی ۔ ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر بھی باجماعت نماز تہجد ادا کی ۔
ان تمام روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ نماز تہجد کا باجماعت ادا کرنا بدعت نہیں ہے اور ریاکاری بھی نہیں ہے ۔ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ بعض علماء کے نزدیک یہ نفل ہے اور بعض کے نزدیک سنت مؤکدہ ۔ انفرادی طور پر پڑھنا بہتر ہے لیکن کسی دینی مصلحت اور تربیت کے پیش نظر
باجماعت نماز تہجد کے اہتمام میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔
بلاشبہ نفل کاموں کو چھپا کر کرنا بہتر اور افضل ہے لیکن یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ ہر نفل کام کو لازماً چھپا کر کرنا چاہیے ۔ بعض اوقات ﴿اظهار﴾ میں اجتماعی مصلحت پو شیدہ ہوتی ہے ۔
قرآن نے ﴿اظهار﴾ کی اور لو ﴿اخفاء﴾ دونوں کی تحسین فرمائی ہے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿إِن تُبْدُوا الصَّدَقَاتِ فَنِعِمَّا هِيَ ۖ وَإِن تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ﴾ [البقره: 271]
”اگر تم لوگ اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو وہ بھی اچھا ہے اور اگر ان کو چھپاؤ اور چپکے سے غریبوں کو دے دو تو یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے ۔“
◈ اس قرآنی نص کے بعد کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ ہر ظاہری صدقہ مکروہ تنز یہی ہے؟
یہ تو معلوم ہے کہ اکثر محدثین کے نزدیک نماز تراویح اور نماز تہجد ایک ہی ہیں اور صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے:
”رمضان اور غیر رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ (8) رکعتیں پڑھا کرتے تھے ۔“ [صحيح بخاري: 1,147]
بعض اوقات ایک شرعی نص سے ہم ایک فقہی قاعدہ مستنبط کرتے ہیں لیکن وہ قاعدہ دوسری شرعی نص سے متصادم ہو جاتا ہے ۔ باجماعت نماز تہجد کا بھی یہی مسئلہ ہے ۔ بعض علماء نے یہ قاعدہ بنالیا کہ باجماعت نماز تہجد کو مکروہ تنز یہی قرار دینا چاہیے ۔
نعوذ باللہ ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت شدہ عمل ، مکروہ قرار دیا جائے گا؟
تحریک اسلامی کی ابتدائی تربیت گاہوں میں ناظم تربیت شیخ الحدیث مولانا عبد الغفار حسن صاحب باجماعت نماز تہجد پڑھایا کرتے تھے ۔ یہ تعلیم و تربیت کا ایک موثر مسنون علمی اور روحانی نسخہ ہے ۔ پروفیسر سید محمد سلیم رحمہ اللہ کی روایت ہے کہ مولانا مسعود عالم ندوی رحمہ اللہ اور مولانا عاصم الحداد رحمہ اللہ بھی باجماعت نماز تہجد ادا کیا کرتے تھے (بلکہ مصحف سے دیکھ کر تلاوت کیا کرتے تھے ) ۔ علمائے دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ باجماعت نماز تہجد کے قائل اور عامل تھے ۔ اخوان المسلمین کی تربیت گاہوں میں اس سنت سے بھر پور فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔
صحیح بات یہ ہے کہ اسلامی تحریک کے کارکنوں میں بالعموم اور اُس کی قیادت میں بالخصوص سحر خیزی کی عادت پیدا کرنا ہر زمانے میں ضروری رہا ہے اور آج جب کہ مغربی تہذیب کا غلبہ ہے ، اس کی اہمیت اور افادیت اور بڑھ گئی ہے ۔ نماز تہجد ایک علمی اور روحانی تربیت گاہ ہے ۔ اسی کے ذریعے ابتدائی مکی دور میں صحابہ کرام کی علمی اور روحانی تربیت کی گئی ۔ ہاں اپنی تہجد گزاری کا ڈھنڈور انہیں پیٹنا چاہیے ۔ یہ ریاکاری ہوگی ۔

رات کو سوتے وقت ، تہجد کے لیے اٹھنے کی نیت کر لینا چاہیے

رات کو سوتے وقت ، تہجد کے لیے اٹھنے کی نیت کر لینا چاہیے ، تاکہ بالفرض اگر بیدار نہ ہو سکیں تب بھی ہم ثواب سے محروم نہ ہونے پائیں ۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص یہ نیت کر کے سو گیا کہ رات کو اٹھ کر نماز پڑھے گا ۔ پھر وہ سوتا ہی رہ گیا ۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی تو اُس کے نامہ اعمال میں وہی لکھ دیا گیا ، جس کی اُس نے نیت کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے اُس پر نیند کا صدقہ کر دیا ۔“ [نسائي ، كتاب قيام الليل حديث: 1,765]

سو کر اٹھنے کے بعد ، مسنون دعا کرنا چاہیے

سو کر اُٹھنے کے بعد ہمیں مندرجہ ذیل مسنون دُعا پڑھنی چاہیے:
الحمد لله الذى احيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور [صحيح بخارى كتاب الدعوات باب 16 حديث: 6,325]
”اُس اللہ کی تعریف ہے ، جس نے ہمیں ہماری نیند کی موت کے بعد اُٹھا دیا ۔ اور اسی کی طرف دوبارہ اٹھ کر جانا ہے ۔“

سورۃ آل عمران کی آخری آیات کی تلاوت کرنا مسنون ہے

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک رات میں اپنی خالہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس سو گیا ۔ اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی انہیں کے گھر تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر تک اپنے گھر والوں سے گفتگو فرماتے رہے ، پھر سو گئے ، جب تہائی رات باقی رہ گئی تو بیدار ہوئے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا اور آل عمران کی آیات [190 تا 200] تلاوت فرمائیں:
﴿اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَ النَّهَارِ﴾ [صحيح بخاري: 4,580]
”یہاں تک کہ آپ نے سورت (آل عمران ) ختم کر دی ۔“
◈ صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اٹھنے کے بعد مسواک کیا اور وضو کرتے وقت آل عمران کی یہ آخری آیات تلاوت فرمائیں ۔ [صحيح مسلم كتاب الطهارة ، باب السواك ، حديث: 376]

نماز تہجد کی مخصوص مسنون دعا

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم رات کو نماز تہجد پڑھنے کے لیے بیدار ہوتے تو یہ مخصوص دعا فرماتے:
اللهم لك الحمد أنت نور السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد أنت الحق ووعدك الحق ولقاؤك حق و الجنة حق والنار حق و النبيون حق و محمد حق و الساعة حق اللهم لك أسلمت وبك امنت وعليك توكلت واليك أنبت وبك خاصمت وإليك حاكمت فاغفرلي ما قدمت وما أخرت وما أسررت و ما أعلنت أنت الله ، لا إله إلا أنت [صحيح بخارى كتاب التہجد باب نمبر 1 حديث 1,120]
”اے اللہ تیرے لیے ہی حمد ہے ! تو آسمانوں اور زمین کا نور ہے اور جو ان کے درمیان بستے ہیں ۔ تیرے لیے ہی حمد ہے ! تو آسمانوں اور زمین کو قائم رکھنے والا ہے ۔ اور ان کے درمیان والوں کو قائم رکھنے والا ہے ۔ تیرے لیے ہی حمد ہے ! تو ہی حق ہے ۔ تیرا وعدہ بھی حق ہے ۔ تیری ملاقات بھی یقینی ہے ۔ جنت حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے ۔ انبیاء اکرام بھی حقیقت ہیں ۔ اور محمد صلى اللہ علیہ وسلم برحق ہیں ۔ اور قیامت کا آنا بھی یقینی ہے ۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لیے اپنے آپ کو یکسو کر لیا ہے تیرے اوپر ایمان لا چکا ہوں ۔ اور تیرے ہی اوپر میں نے بھروسہ کر لیا ہے ۔ اور میں تیری ہی طرف متوجہ ہو چکا ہوں میں تیرے ہی سہارے بحث کرتا ہوں ، تیری طرف ہی میں اپنا مقدمہ لاتا ہوں ۔ لہٰذا تو میرے ان تمام گناہوں کو معاف فرما ! جو میں نے پہلے یا بعد میں کیے ۔ جو چھپ کر ، یا علانیہ کئے ہیں ۔ تو ہی اللہ ہے ۔ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“
◈ ذرا اس دعا پر غور فرمائیے ۔
کیسے جذبات ہیں؟ اللہ کی حمد بھی ہے ۔ ایمان اور یقین کا اعتراف واظہار بھی ہے ۔ اپنی انابت اور وابستگی کا اقرار بھی ہے ۔ دعائے استغفار بھی ہے اور آخر میں اُلوہیت کا اقرار واعتراف بھی ۔

نماز تہجد کی مخصوص دعائے استفتاح

نماز تہجد کی ایک خاص مسنون دعائے استفتاح بھی ہے ۔ تکبیر تحریمہ اور ثناء کے بعد اور سورۃ الفاتحہ سے پہلے مندرجہ ذیل دعا پڑھنی چاہیے ۔
اللهم رب جبريل وميكائيل وإسرافيل فاطر السموات والأرض ، عالم الغيب والشهادة أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون اهد ني لما اختلف فيه من الحق بإذنك انك تهدى من تشاء إلى صراط مستقيم
”اے اللہ اے جبرئیل ، میکائیل اور اسرافیل کے رب ! اے زمین و آسمان کے خالق ! اے غیب و شہادت کے عالم ! اے اللہ ! تو بندوں کے اختلافی معاملات کا فیصلہ کرنے والا ہے ! اختلافی معاملات میں میری خاص برحق رہنمائی فرما ! یقیناً تو جس کو چاہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے !“ [صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين ، حديث: 1,811]

تہجد کی پہلی دو رکعتیں ہلکی پڑھنا چاہیے

تہجد کی پہلی دو رکعتیں ہلکی پڑھنا چاہیے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص رات کو جاگے تو اسے چاہیے کہ اپنی نماز تہجد کا آغاز دو (2) ہلکی رکعتوں سے کرے۔“ [صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين ، باب 26 ، حديث: 1,807]
ان دو ہلکی رکعتوں کے بعد ، طویل قیام کا اہتمام کرنا چاہیے ۔

نیند کا غلبہ ہو تو نماز تہجد ختم کر کے سو رہنا چاہیے

جب نیند کا غلبہ ہو تو نماز تہجد ختم کر کے سو رہنا چاہیے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب تم میں سے کوئی شخص رات کو اٹھے اور قرآن اس سے صحیح نہ پڑھا جا رہا ہو اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے تو اسے سو جانا چاہیے ۔“ [صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين و قصرها ، حديث: 1,836]
◈ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب نیند کا غلبہ ہو تو فہم قرآن اور تفقہ فی القرآن کے تقاضے پورے نہیں کئے جا سکتے ۔ ایسے میں سو جانا ہی بہتر ہے ۔
◈ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک نیک آدمی اپنے معمولات میں اپنی ذہنی اور جسمانی کیفیت کے مطابق رد و بدل کر سکتا ہے ۔ بعض اوقات سنت کو ترک کر دینا بھی سنت ہوتا ہے ۔

نماز تہجد کی رکعتوں کی تعداد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد مختلف طریقوں سے ثابت ہے ۔ اس معاملے میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی کئی سنتیں ہیں ۔ اپنی جسمانی حالت ، صحت اور سہولت کے مطابق کسی بھی سنت پر عمل کیا جا سکتا ہے ۔ اور ہر ثابت شدہ مستند سنت رسول صلى اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ثواب ہی ثواب ہے ۔ ہر ثابت شدہ مستند سنت رسول صلى اللہ علیہ وسلم پر کبھی کبھی عمل کر لینا بہتر ہے ۔
◈ نماز تہجد کی رکعتوں کی تعداد کم از کم چار (4) اور زیادہ سے زیادہ بارہ (12) ہے ۔
مندرجہ ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے ۔
(1) چار رکعتیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی چار تہجد اور تین وتر (کل سات ) ، کبھی چھ تہجد اور تین وتر (کل نو رکعت) ، کبھی آٹھ تہجد اور تین وتر (کل گیارہ) ، اور کبھی دس تہجد اور تین وتر (کل تیرہ رکعتیں) ادا کرتے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز ، سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ کی نہیں ہوتی تھی ۔“ [ابوداود: كتاب الصلاة حديث 1,155]

(2) چھ (6) ، آٹھ (8) اور دس (10) رکعتیں:
مشہور تابعی حضرت مسروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا:
فجر کی سنتوں کے علاوہ سات (7) رکعتیں نو (9) رکعتیں اور گیارہ (11) رکعتیں (ان میں ایک وتر ہوتی تھی) ۔ [صحيح بخاري كتاب التہجد باب 10 ، حديث: 1,139]

(3) آٹھ (8) رکعتیں: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ (13) رکعتیں پڑھا کرتے تھے ۔ ان میں سے (آٹھ رکعتیں تہجد کی ہوتیں ) پانچ (5) رکعتیں وتر کی ہوتیں اور ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری رکعت سے پہلے کسی رکعت میں نہ بیٹھتے تھے ۔“ یعنی ایک ہی تشہد سے پانچ رکعت وتر بیٹھے بغیر پڑھتے ۔
[صحيح مسلم: كتاب صلاة المسافرين حديث: 1,720]

(4) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”کبھی آپ چار طویل رکعتیں حسن و جمال کے ساتھ پڑھتے ، پھر چار مزید طویل رکعتیں حسن و جمال کے ساتھ پڑھتے (اس طرح تہجد کی آٹھ رکعتیں ہو جاتیں ) پھر تین رکعتیں وتر کی ادا فرماتے ۔“ [صحيح بخارى كتاب التہجد باب 16 ، حديث: 1,147]

(5) دس (10) رکعتیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ”نبی صلى اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز اور طلوع فجر کے درمیان گیارہ (11) رکعتیں پڑھا کرتے تھے ۔ ہر دو رکعتوں کے بعد سلام پھیرتے اور آخر میں ایک (1) رکعت وتر پڑھتے ۔“ [صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين 1,718,736]

(6) دس (10) رکعتیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دس (10) رکعتیں پڑھتے اور ان کے بعد (1) ایک وتر پڑھتے اور رات کے بعد فجر کی دو (2) رکعتیں ادا فرماتے ۔
اس طرح کل تیرہ رکعتیں ہو جاتیں ۔ (10 تہجد+ 1 وتر + 2 فجر = 13 )
فتلك ثلاث عشرة ركعة [صحيح مسلم: 738]
”کل تیرہ (13) رکعتیں ہوئیں ۔“

(7) بارہ (12) رکعتیں:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد ، کبھی تکلیف یا درد وغیرہ کی وجہ سے اگر فوت ہو جاتی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم دن میں بارہ (12) رکعتیں پڑھ لیتے ۔ [صحيح مسلم: 1,744]

نماز تہجد دو دو کر کے پڑھنا بہتر اور افضل ہے

نماز تہجد دو دو کر کے پڑھنا بہتر اور افضل ہے ، لیکن چار چار کر کے بھی پڑھی جاسکتی ہیں ۔
◈ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ”رات کی نماز کیسے پڑھی جائے گی؟“
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”رات کی نماز دو (2) دو (2) رکعتیں ہیں ، جب تمہیں صبح کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ لو !“ [صحيح بخارى كتاب التہجد باب 10 حديث 1,137]

◈ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؤ نے فرمایا:
صلاة الليل مثنى مثنى [صحيح بخاري: 990]
”رات کی نماز ، دو (2) دو (2) رکعت کی صورت میں پڑھی جائے ۔“

◈ صحیح مسلم کی روایت ہے:
يسلم بين كل ركعتين [صحيح مسلم: 736]
”آپ صلى اللہ علیہ وسلم تہجد پڑھتے ہوئے ، ہر دو رکعتوں کے درمیان میں سلام پھیرتے تھے ۔“

نماز وتر

رات کے آخری حصے میں ، نماز فجر کی اذان سے ذرا پہلے ، نماز وتر ادا کرنا زیادہ افضل ہے ۔ یعنی آدمی دو دو کر کے نماز تہجد پڑھتا جائے اور آخر میں طاق تعداد میں وتر پڑھ لے ۔
نماز وتر ایک ، تین ، پانچ سات یا نو رکعت پڑھی جا سکتی ہے ۔
◈ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
والوتر ركعة من آخر الليل [صحيح مسلم: 752 ، 753]
”وتر رات کے آخر میں ایک (1) رکعت ہے ۔“

◈ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رات کی نماز کا حکم دیا اور اس کی ترغیب دیتے ہوئے ہمیں فرمایا:
”تمہیں چاہیے کہ رات کی نماز (وتر) پڑھو ، خواہ ایک (1) ہی رکعت کیوں نہ ہوا“ [طبراني]

نماز تہجد چار چار کر کے بھی پڑھی جا سکتی ہے

نماز تہجد دو دو رکعتوں کے ساتھ بھی پڑھی جا سکتی ہے اور چار چار رکعتوں کے ساتھ بھی ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
يصلى اربعا ، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ، ثم يصلى اربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ، ثم يصـلـي ثلاثا [صحيح بخارى كتاب التہجد باب 16 حديث: 1,147]
”پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار (4) رکعت تہجد پڑھتے ۔ ان کی طوالت اور حسن و جمال کی نہ پوچھیے ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار (4) رکعت مزید تہجد پڑھتے ۔ ان کی طوالت اور حسن و جمال کی نہ پوچھیے ! پھر آپ تین رکعت (وتر) پڑھتے ۔“

نماز تہجد جہری اور سری دونوں طرح پڑھی جا سکتی ہے

قیام اللیل میں سری اور جہری قراءت دونوں طرح نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔
◈ ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
ربما اسر و ربما جهر [ابوداود: 1,437]
”بعض اوقات آپ صلى اللہ علیہ وسلم سری قراءت فرماتے۔ اور بعض اوقات جہری قراءت فرماتے ۔“
◈ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ نماز تہجد میں آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی قراءت اتنی بلند ہوتی کہ کمرے کے اندر موجود افراد سن سکتے تھے ۔
◈ قراءت درمیانی درجے کی آواز میں ہو تو بہتر ہے ۔ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو قدرے بآواز بلند پڑھنے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قدرے ہلکی آواز میں پڑھنے کی تاکید کی تھی۔

نماز تہجد میں غیر حافظ قرآن دیکھ کر بھی تلاوت کر سکتا

تہجد چونکہ ایک نفل نماز ہے ، فرض نہیں ، اس لیے قرآن سے دیکھ کر بھی تلاوت کی جا سکتی ہے ۔
كانت عائشة رضی اللہ عنہا يؤمها عبدها ذكوان من المصحف [صحيح بخاري: كتاب الاذان ، باب امامة العبد والمولي ، مصنف ابن ابي شيبه]
”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اُن کا غلام ذکوان ، مصحف سے دیکھ کر قرآن سناتا اور امامت کرتا ۔“

نماز تہجد میں مسنون قراءت

سورۃ المزمل کی آخری آیت ﴿فاقرءوا ما تيسر من القرآن﴾ میں مسلمانوں کو جو تخفیف عطاء کی گئی ہے ، اس کی روشنی میں آدمی اپنی سہولت کے مطابق ، حسب منشا قراءت کر سکتا ہے ، لیکن لمبا قیام اور تلاوت کی طوالت بہر حال بہتر اور افضل ہے ۔
مندرجہ ذیل تین حدیثوں پر غور فرمائیے ۔
(1) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات ، نماز تہجد میں اتنا طویل قیام کرتے کہ پاؤں پر ورم آجاتا ۔ [صحيح مسلم: 2,819]
(2) ایک مرتبہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کون سی نماز افضل ہے؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿طول القنوت﴾ یعنی وہ نماز ، جس میں قیام لمبا ہو ۔ [صحيح مسلم: 1,258]
(3) اور بعض اوقات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک ہی آیت کو بار بار دہراتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی ۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک رات آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا اور صبح تک سورۃ المائدہ کی مندرجہ ذیل آیت 118 ہی دہراتے رہے ۔
إن تعذبهم فإنهم عبادك وإن تغفر لهم فإنك نت العزيز الحكيم [نسائي كتاب الافتتاح باب ترديد الآية ، حديث: 1,000]
”اے اللہ ! اگر تو انہیں عذاب دینا چاہتا ہے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں ۔ اور اگر تو ان کی مغفرت کرنا چاہتا ہے تو ویسے بھی تو زبردست و غالب اور صاحب حکمت و دانش ہے ۔“

نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل قراءت

نماز تہجد میں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طویل قراءت کرتے ۔
راز دان رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں نے ایک رات آپ کے ساتھ نماز تہجد پڑھی ۔ آپ نے سورۃ البقرہ کی تلاوت شروع کی میں نے دل میں سوچا کہ سو (100) آیات کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کریں گے ۔ لیکن آپ چلتے گئے ۔ میں نے خیال کیا کہ سورت ختم کر کے دم لیں گے ، لیکن آپ پڑھتے گئے ۔ آپ نے سورۃ النساء شروع کر دی ، پھر سورۃ آل عمران شروع کر دی ۔“ [صحيح مسلم حديث: 1,814]

نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طویل سجدے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز تہجد میں پچاس آیتوں کی تلاوت کے برابر طویل سجدہ کرنا منقول ہے ۔ سجدوں میں تسبیح کے علاوہ دعائیں مانگی جا سکتی ہیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
يسجد السجدة من ذلك قدر ما يقرأ أحدكم خمسين اية [صحيح مسلم: كتاب الصلاة باب 41 ، حديث: 1,074]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری پچاس (50) آیتوں کی قراءت کے برابر طویل سجدہ کیا کرتے تھے ۔“
◈ معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع اور سجود میں تلاوت قرآن سے منع کیا ہے اور رکوع میں اللہ کی عظمت کے اظہار کا حکم دیا ہے ، لیکن سجدوں کے بارے میں فرمایا:
وأما السجود فاجتهدوا فى الدعاء ، فقمن حقيق أن يستجاب لكم [صحيح بخاري 1,123]
”ہاں ! سجدوں میں دعا کی کوشش کرو ! تم لوگوں کی دعاؤں کی قبولیت کا حقیقی امکان ہے ۔“

نماز تہجد میں طویل قیام اور نماز کا حسن

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد میں حسن و جمال ہوتا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
يصلى أربعا ، فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ، ثم يصلي أربعا فلا تسأل عن حسنهن وطولهن ، ثم يصلى ثلاثا [بخارى كتاب التہجد باب 16 ، حديث: 1,147]
”پہلے آپ صلى اللہ علیہ وسلم چار (4) رکعت تہجد پڑھتے ۔ ان کی طوالت اور حسن و جمال کی نہ پوچھیے ! پھر آپ چار رکعت مزید تہجد پڑھتے ۔ ان کی طوالت اور حسن و جمال کی نہ پوچھیے پھر آپ تین (3) رکعت (وتر) پڑھتے۔“
◈ افسوس ! آج کل ہم تعداد (quantity) کا زیادہ خیال کرتے ہیں ، لیکن معیار (quality) کی طرف توجہ نہیں کرتے ۔ ہماری نمازیں سنت کے مطابق نہیں ہوتیں ۔ اس لیے ان میں انابت ، خشوع ، خضوع ، اخبات ، توجہہ اور التفات کی کمی ہوتی ہے ۔ اس کے لیے ہمیں دو چیزیں کرنی پڑیں گی ۔ محبت رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم اور اتباع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا اور سخت محنت کرنی ہو گی ۔ ہمیں اگر نماز کو بہتر بنانے کا احساس ہو جائے تو کچھ عرصے میں ہماری نماز بھی منزل احسان تک پہنچ سکتی ہے ۔

نماز تہجد میں تفقہ فی القرآن

مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سورۃ المزمل میں نماز تہجد کے بارے میں وارد الفاظ ﴿وأقوم قيلاً﴾ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
أجدر أن يفقه فى القرآن [ابوداود ، كتاب الصلاة ، حديث: 1,109]
”تہجد میں تلاوت قرآن میں تفقہ اور غور و فکر کے لیے زیادہ مناسب اور موزوں ہے ۔“

حق المقدور تہجد کی نماز پر پابندی کرنا چاہیے

تہجد ایک نفل عبادت ہے ۔ اسے معمول بنا لینا چاہیے اور اسے شوق و رغبت سے ادا کرنا چاہیے ۔ طبیعت اگر ناساز ہو ، کمزوری ہو یا کوئی اور مجبوری ہو تو اس میں تخفیف کر لینی چاہیے ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تم اتنا ہی عمل کرو ، جتنے کی تم اپنے اندر طاقت پاتے ہو ۔ اللہ کی قسم ! اللہ تعالیٰ اس وقت تک نہیں اکتاتا ، جب تک تم خود نہیں اُکتا جاتے ۔“
[صحيح بخاري كتاب التهجد باب 18 حديث: 451]

نماز تہجد کی قضاء

جو خوش نصیب شخص اس نفل پر متواتر عمل کر رہا ہے ، کسی وجہ سے اگر اُس سے کبھی تہجد چھوٹ جائے تو دن میں اس کی وہ تلافی کر لے ۔
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد ، کبھی کسی تکلیف وغیرہ کی وجہ سے فوت ہو جاتی تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم دن میں بارہ (12) رکعتیں پڑھ لیتے ۔“ [صحيح مسلم: 1,744: ]

نماز تہجد میں آداب قراءت و تلاوت

نماز تہجد میں قرآن کی تلاوت کے مندرجہ ذیل آداب ہیں ۔
(1) نماز تہجد میں قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھنا چاہیے ۔
(2) قرآن کے ہر لفظ اور ہر حرف کو واضح کر کے پڑھنا چاہیے ۔
(3) ہر آیت کے بعد رکنا چاہیے ۔
(4) ہر آیت کے آخری لفظ کو کھینچ کر پڑھنا چاہیے ۔
(5) قرآن میں حمد یا تسبیح یا استعاذے کا حکم دیا گیا ہو تو اُس کا جواب دینا چاہیے ۔
(6) اللہ کے کلام سے متاثر ہو کر اللہ کے خوف سے رونا چاہیے ۔

قرآن اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہیے
نماز تہجد میں جلدی جلدی اور تیز تیز قرآن پڑھنانا مناسب ہے ۔ قرآن حکم دیتا ہے:
﴿وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلًا﴾ [المزمل: 4]
”اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر اہتمام کے ساتھ پڑھا کرو!۔“

قرآن کے ہر لفظ کو واضح کر کے پڑھنا چاہیے
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت کی خصوصیات بیان فرماتی ہیں:
أنها وصفت قراءة النبى صلى الله عليه وسلم حرفا حرفا [ترمذي ، كتاب القراءت ، حديث: 2,927]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک حرف کو واضح کر کے پڑھا کرتے تھے ۔“

ہر آیت کے بعد رکنا چاہئے اور آخری لفظ کو کھینچ کر پڑھنا چاہیے
حضرت ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹھہرتے ۔
﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ پڑھ کر رک جاتے ۔
پھر ﴿الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ﴾ پر ٹھہرتے ۔
اس کے بعد رک کر ﴿مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ﴾ کہتے ۔“
[ابوداود كتاب الحروف والقراءة ۔ حديث: 3,487]
کاش ہمارے امام ہمارے حافظ اور ہمارے خطیب اس سنت رسول صلى اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے لگیں !

تسبیح ، استعاذہ اور دعا کے موقع پر جواب دینا چاہیے

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”ایک مرتبہ رات کو میں نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا ہو گیا تو دیکھا کہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم تسبیح کے موقع پر تسبیح فرماتے ۔ دعا کے موقع پر دعا کرتے اور استعاذہ کے موقع پر پناہ مانگتے۔“ [صحيح مسلم حديث: 772]
سورۃ التین کی آخری آیت ﴿أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ﴾ کے سوال پر آپ صلى اللہ علیہ وسلم جواب دیتے: ﴿بَلَى وَاَنَا عَلَى ذَلِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ﴾ ”ہاں ! ہاں کیوں نہیں ! میں اُن لوگوں میں سے ہوں ، جو تیرے ﴿أَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ﴾ ہونے کی شہادت دیتے ہیں۔“ [ترمذي ، حديث: 3,270]
سورۃ القیامہ کی آخری آیت کے سوال پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیتے:
سُبحَانَكَ اللهُم فَبَلَى [ابن ابي حاتم]

نماز تہجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آہ وبکا

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں روتے ۔ حضرت عبد اللہ بن شخیر کہتے ہیں ۔ ”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کی آواز میں آرہیں تھیں ، جیسے پکتی ہوئی ہنڈیا سے آواز آتی ہے ۔“ [نسائي كتاب السهو حديث: 1199]
ایک اور روایت میں ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن شخیر فرماتے ہیں:
يصلي و فى صدره آزيز كازيز الرحى من البكاء [ابو داود باب البكاء حديث: 799/1]
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ، اور آپ صلى اللہ علیہ وسلم کے سینے سے رونے کے سبب ، ابلتی ہوئی ہانڈی کی طرح آواز آتی ۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سماعت قرآن اور آہ وبکا
ایک مرتبہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو قرآن سنانے کا حکم دیا ۔ انہوں نے سورۃ النساء کی تلاوت شروع کی ۔ جب آیت نمبر 41 پر پہنچے ، جس میں کہا گیا تھا:
﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾
”اُس وقت کیا حال ہوگا؟ جب ہم ہر امت سے ایک گواہ اٹھا ئیں گے ۔ اور اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپ کو ، آپ کی قوم کے خلاف گواہ بنا کر لائیں گے ۔ “
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”عبد اللہ بس کرو ! اور اس وقت آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسورواں تھے ۔
[صحيح بخاري ، كتاب التفسير ، حديث: 4,582]

غزوۃ البدر کی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد
غزوہ بدر تاریخ اسلام کی ایک فیصلہ کن جنگ تھی ۔ جس میں 70 کفار مارے گئے ، جن میں ابو جہل ، امیہ بن خلف جیسے سردار بھی شامل تھے ۔ اس رات آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے رو رو کر نماز تہجد میں دعا مانگی ۔ یہ قبول ہوئی ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”غزوہ بدر کے دن ہم میں مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی اور نہ تھا اور رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ قیام اللیل کرنے والا نہ تھا ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے نماز تہجد پڑھ رہے تھے اور رو رہے تھے یہاں تک کہ صبح ہو گئی ۔“ [صحيح ابن حبان]
اس واقعے میں ہمارے فوجی حکمرانوں اور سپہ سالاروں کے لیے سبق ہے ۔ فتح کا دارومدار دنیاوی اسباب کے علاوہ مومن کی انابت ، اللہ تعالیٰ سے اس کے تعلق اور تائید الٰہی پر ہے ۔

انبیاء کی آہ وبکا
قرآن مجید میں انعام یافتہ انبیاء کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ (رحمن کی آیات) کو سن کر روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے تھے ۔ سورۃ مریم میں ہے:
”یہ وہ پیغمبر ہیں ، جن پر اللہ نے انعام فرمایا ۔ آدم کی اولاد میں سے ، اور اُن لوگوں کی نسل سے جنہیں ہم نے نوح علیہ السلام کے ساتھ کشتی پر سوار کیا تھا ، اور ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے اور اسرائیل علیہ السلام (یعقوب علیہ السلام ) کی نسل سے ۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے ، جن کو ہم نے ہدایت بخشی اور برگزیدہ کیا ۔ ان کا حال یہ تھا کہ:
﴿إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا﴾ [مريم: 58]
”جب رحمن کی آیات ، ان لوگوں کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے ۔“

علماء کی آہ وبکا
وہ لوگ جنہیں اللہ کی طرف سے علم عطا کیا جاتا ہے ، وہ بھی اللہ کی آیات کو سن کر رو پڑتے ہیں ۔ سورۃ بنی اسرائیل کی آیات 107 تا 109 میں ارشاد ہوا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ مِن قَبْلِهِ إِذَا يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ يَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّدًا ‎107‏ وَيَقُولُونَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِن كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُولًا ‎108‏ وَيَخِرُّونَ لِلْأَذْقَانِ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعًا﴾
”جن لوگوں کو اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ، انہیں جب اللہ کی آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں ۔ اور پکار اٹھتے ہیں: پاک ہے ہمارا رب ! اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا ۔ اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور انہیں سن کر اُن کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے ۔“ [بني اسرائيل: 107 109]

حضرت ابو بکر رضی اللہ رضی اللہ عنہ کی قراءت اور آہ وبکا
اسلامی قیادت کے لیے قرآن کا نصاب کیا ہے؟ یہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی ابتدائی مکی زندگی کے احوال سے معلوم کرتے ہیں ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر میں ایک مسجد بنالی تھی ۔ آپ یہاں نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے ۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ دورانِ تلاوت بہت روتے ۔ مشرکین مکہ کے بچے اور عورتیں بھی جمع ہو جاتیں ۔ یہ بات سردارانِ قریش کو ناگوار گزری اور انہوں نے منع کرنے کی تدبیریں کیں ۔ [صحيح بخاري كتاب المناقب حديث: 3,905]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قراءت اور آہ وبکا
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ سورۃ الطور کی تلاوت شروع کی جب ساتویں آیت
﴿إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ﴾
”یقیناً آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا ۔“
پر پہنچے تو بہت روئے ۔ بلکہ بیمار ہو گئے ۔ یہاں تک کہ لوگ آپ کی عیادت کے لیے آنے لگے ۔ [الجواب الكافى لامام ابن القيم رحمہ اللہ الجوزية]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اپنے والد حضرت عمر بن خطاب کی نماز تہجد کا تذکر ہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”وہ توفیق الہی کے مطابق رات کو نماز پڑھتے تھے اور رات کے آخری حصے میں فجر کی اذان سے پہلے وقت تہجد گھر والوں کو نماز کے لیے اٹھاتے اور قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت کرتے ۔“
﴿وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۖ لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكَ ۗ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَىٰ﴾ [سورة طه: 132]
”اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم دیجیے اور خود بھی اس پر ڈٹ جائیے ۔ ہم آپ سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتے ۔ رزق تو ہم ہی آپ کو دیتے ہیں ۔ معلوم ہونا چاہیے کہ بہترین انجام متقین کا ہوگا ۔“

خشیت الہی کا تاثر دینے والی قراءت

مسنون قراءت قرآن کا تقاضا یہ بھی ہے کہ نماز تہجد میں ، یا کسی اور موقع پر قراءت ہو تو ایسی ہو کہ سننے والا محسوس کرے کہ قاری میں اللہ کی خشیت موجود ہے ۔
◈ حسن قراءت محض ایک فن کا نام نہیں ہے ، بلکہ یہ کلام الہی کو جذب کرنے کا نام ہے اور اس فن کی معراج یہی ہے کہ دوران قراءت اس کے قلب پر خشیت الہی کا غلبہ ہو ۔
◈ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن من احسن الناس صوتا بالقران الذى إذا سمعتموه يقرأ حسبتموه يخشى الله [ابن ماجه كتاب اقامتة الصلاة حديث: 1,101]
”یقیناً لوگوں میں قراءت کے اعتبار سے سب سے بہتر شخص وہ قاری ہے ، جسے تم قرآن پڑھتے سنو تو محسوس کرو کہ وہ اللہ کی خشیت سے معمور ہے۔“
◈ اس حدیث کی روشنی میں ہم آج کے قاری حضرات کا جائزہ لے سکتے ہیں ۔ یہ حافظ اور قاری نہ تو قرآن سناتے ہوئے روتے ہیں اور نہ ان پر اللہ کی خشیت کے کوئی آثار نظر آتے ہیں ۔

سیاسی عہد سے اور علیم قرآن
اسلامی ریاست میں اہم سیاسی اور انتظامی مناصب اُن لوگوں کو دیے جاتے ہیں ، جو قرآن کا عمیق علم رکھتے ہیں ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن ابی العاص اثقفی رضی اللہ عنہ (م51ھ) کو طائف کا گورنر بنا دیا تھا ، حالانکہ وہ اہلِ طائف کے وفد میں سب سے کم عمر تھے ۔ وجہ یہ تھی کہ وہ سورۃ البقرۃ کے عالم تھے ۔ [البيهقي]
یہ عہدہ عمر کی بنیاد پر نہیں ، قرآن کے علم کی بنیاد پر دیا گیا تھا ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوری کی اہمیت
اسلامی ریاست کی مجلس شوری کی اہلیت میں بھی قرآن کے علم کو ترجیح دی جاتی ہے ۔ لوگوں کا علم دیکھا جاتا ہے ، عمر نہیں دیکھی جاتی ۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كان القراء أصحاب مجالس عمر ، ومشاورته كهولا كانوا و شبانا [صحيح بخاري كتاب التفسير حديث: 4,642]
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس شوری ، قرآن کے علما پر مشتمل ہوتی ۔ اور اُن کی مشاورت میں بوڑھے بھی ہوتے اور جوان بھی ۔“
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ کیا آج اسلامی حکومتوں کی کا بینہ کے افراد کے لیے علم قرآن اور فہم قرآن بھی کوئی معیار ہے؟

عصر حاضر کی قیادت
مندرجہ بالا تعلیمات کی روشنی میں آج اُمت مسلمہ کی قیادت پر نظر ڈالیے ۔
قیادت سے ہماری مراد صرف سیاسی قیادت نہیں ہے ، بلکہ عسکری قیادت بھی ہے ، دینی قیادت بھی ہے ، اقتصادی اور سماجی قیادت بھی ہے ، سائنس دان اور ڈاکٹر بھی ہیں ، ادیب شاعر اور صحافی بھی ہیں اور الیکٹرانک میڈیا کے با اثر افراد بھی ہیں ۔
کیا یہ عربی زبان سے واقف ہیں؟ کیا یہ قرآن سمجھ سکتے ہیں؟ کیا یہ نماز تہجد میں سماعت کے ذریعے قرآن فہمی حاصل کرتے ہیں؟ کیا قرآن میں غور و فکر سے کام لیتے ہیں؟ کیا قرآن سن کر اور پڑھ کر روتے ہیں؟
علامہ اقبال رحمہ اللہ نے یوں ہی نہیں کہہ دیا ۔
عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا ، بے آہ سحر گاہی
اُمت مسلمہ کا عروج و زوال قرآن سے وابستہ ہے ۔ عام لوگوں کا مستقبل ، قیادت پر منحصر ہے اور عام مسلمانوں کی ترقی ، ایسی مسلم قیادت پر موقوف ہے ، جو قرآن کا عمیق فہم رکھتی ہو ۔

عام مسلمان کا نصاب:
عام مسلمان کا نصاب ، اسلامی قیادت کے نصاب سے مختلف ہوتا ہے ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نصاب پور ا قرآن اور تمام احادیث رسول صلى اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ بخاری و مسلم میں ایک متفق علیہ حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل ہوئی ہے ۔ ایک بدوی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا کہ کسی ایسے عمل کی رہنمائی فرمائیے ، جسے میں کروں تو جنت میں داخل ہو جاؤں ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھیراؤ۔ فرض نمازیں ادا کرو ! فرض زکاۃ ادا کرو ! ر مضان کے روزے رکھو ! دیہاتی کہنے لگا: ”اُس اللہ کی قسم ! جس کے قبضے میں میری جان ہے ۔
لا أزيد على هذا ولا أنقص منه
نہ میں اس میں کوئی اضافہ کروں گا اور نہ کوئی کمی کروں گا ۔“
جب وہ شخص پلٹ کر جانے لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جو شخص پسند کرتا ہے کہ کسی جنتی کو دیکھے تو وہ اس (دیہاتی) کو دیکھ لے ۔ “ [متفق عليه]
یہ ایک عام آدمی اور دیہاتی آدمی تھا اور جنتی آدمی تھا ، اُس کے فہم اور اُس کی صلاحیتوں اور اُس کی ذمہ داریوں کے مطابق اس پر بوجھ ڈالا گیا ۔

قیادت کا نصاب:
قائد ، عام آدمی نہیں ہوتا ۔ اس کی ذمہ داریاں زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس لیے اس کے اوصاف بھی مختلف ہوتے ہیں ۔
خلیفۃ المسلمین کی بیعت ، کتاب و سنت کی پیروی کی شرط پر کی جاتی ہے ۔
اسلامی جج اور قاضی کا نصاب ، قرآن و سنت کے تمام قانونی اور آئینی احکام ہوں گے ۔
اسلامی سپہ سالار کا نصاب ، قرآن و سنت کے تمام احکام صلح و جنگ ہوں گے ۔
اسلامی ماہرین معاشیات کا نصاب ، قرآن و سنت کے تمام احکام اقتصاد ہوں گے ۔
اسی طرح دیگر شعبہ جات کے ماہرین کو قیاس کر لیجیے ۔
——————

ابتدائی ایام میں تہجد اور بعد میں تخفیفی حکم

نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی ابتدائی مکی زندگی میں ، ابتدائی بارہ سال تک پنچ وقتہ نماز فرض نہیں ہوئی تھی ۔ پنچ وقتہ نماز رجب بارہ نبوی میں معراج کے موقع پر فرض کی گئی ۔ تہجد کا ابتدائی حکم غالبا آغاز نبوت یا دو نبوی میں نازل ہوا ، جب تک قرآن کی بیشتر چھوٹی سورتیں نازل ہو چکی تھیں ۔
مشہور تابعی حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق سورۃُ المُزَّمِّل میں نماز تہجد کے ابتدائی حکم کے دس سال بعد آخری آیت نمبر 20 میں ، نماز تہجد کا آخری تخفیفی حکم نازل کیا گیا ۔ ابتداء میں نصف شب تک ، یا نصف شب سے کچھ کم ، یا نصف شب سے کچھ زیادہ طویل قیام اللیل کا حکم دیا گیا تھا ۔ چنانچہ قرآن حکم دیتا ہے ۔
﴿قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيلًا 2 نِّصْفَهُ أَوِ انقُصْ مِنْهُ قَلِيلًا ‎3 أَوْ زِدْ عَلَيْهِ﴾ [المزمل: 2 تا 4]
”رات کو نماز میں کھڑے رہا کیجیے مگر کم ! آدمی رات ، یا اس سے کچھ کم کر لیجیے ، یا اس پر کچھ زیادہ بڑھا لیجیے ۔“
لیکن بعد میں مندرجہ ذیل حکم دیا گیا اور تخفیف کر دی گئی ۔
﴿فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْآنِ ۚ عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَىٰ ۙ وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ اللَّهِ ۙ وَآخَرُونَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ﴾ [المزمل: 20]
”اب جتنا قرآن آسانی سے پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو ، بلاشبہ اللہ کو معلوم ہے کہ تم میں کچھ مریض ہوں گے ، کچھ دوسرے لوگ اللہ کے فضل کی تلاش میں سفر کرتے ہیں ، اور کچھ اور لوگ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں ۔“
اب ہمیں نماز تہجد میں آسانی سے جو کچھ قرآن پڑھا جا سکتا ہے ، پڑھنے کا حکم ہے ۔
قرآن نے تخفیف کی مندرجہ ذیل تین (3) وجوہات بھی بیان کی ہیں ۔
(1) نماز تہجد میں ، مریضوں کی جسمانی حالت کی رعایت کرتے ہوئے تخفیف کی گئی ہے ۔
(2) رزق حلال کی تلاش کرنے والوں کی رعایت کرتے ہوئے تخفیف کی گئی ہے ۔
(3) نماز تہجد میں ، مجاہدین کی جہادی مصروفیات کی رعایت کرتے ہوئے تخفیف کی گئی ہے ۔
معلوم ہوا کہ مومن اپنے نفلی معاملات میں حالات کے مطابق رد و بدل کر سکتے ہیں ۔ یہ لچک اسلام کی شناخت ہے اور قرآن و سنت کے مزاج کے عین مطابق ہے ۔
——————

سب سے آخر میں وتر پڑھی جائے

تہجد کی نماز کے آخر میں ، جب آپ دیکھیں کہ فجر کی اذان ہونے ہی والی ہے تو طاق تعداد میں (1 ، 3 ، 5 ، 7 یا 9 رکعت) وتر کی نماز ادا کر لیجیے ۔ ایک رات میں دو (2) مرتبہ وتر کی نماز ادا نہیں کرنی چاہیے ۔ [نسائي كتاب قيام الليل حديث: 1,661]
وتحتي نورا و امامي نورا وخلفى نورا و اجعل لى نورا وعصبى نورا و لحمي نورا و دمي نورا و شعرى نورا و بشرى نورا [صحيح بخاري كتاب الدعوات حديث: 3,316]
”میرے نیچے روشنی کر دے ! میرے آگے روشنی کر دے میرے پیچھے روشنی کر دے ! میرے لیے روشنی کر دی ! میرے اعصاب میں نور پیدا کر دے !میرے گوشت میں روشنی کر دے ! میرے خون میں روشنی کر دے ! میرے بالوں میں نور پیدا کر دے ! اور میری جلد میں روشنی کر دے۔ !“
رَبَّنَا تَقَبَّل مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ العَليمُ
وَتُب عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ

یہ تحریر اب تک 144 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔