امام کا نماز ظہر میں جہراً قرات کرنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں کبھی کبھار ایک یا دو آیات صحابہ رضی اللہ عنہم کو سناتے تھے۔ اگر یہ
صحیح ہے تو اب اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اور کیا اسے مردہ سنت کہنا درست ہے ؟ جب کہ سنت کبھی مردہ نہیں ہوتی، اس پر عمل چھوڑ دیا جاتا ہے، وضاحت فرمائیں۔
جواب : ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور پچھلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ کی قرأت کرتے تھے اور کبھی کبھار ہمیں ایک آدھ آیت سنا دیا کرتے تھے اور پہلی رکعت میں قرأت دوسری رکعت سے زیادہ کرتے تھے۔ اسی طرح عصر اور صبح کی نماز میں بھی کرتے تھے “۔ [صحيح البخاري۔ كتاب الأذان : باب يقرأ فى الأخريين بفاتحة الكتاب 776، صحيح مسلم، كتاب الصلاة : باب القراءة فى الظهر والعصر 451 ]
اس صحیح حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کبھی کبھار ظہر کی نماز جو سری پڑھی جاتی ہے اس میں ایک آدھ آیت سنائی جا سکتی ہے۔ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی لازمی امر نہیں ہے وگرنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے ہمیشہ سناتے۔ کبھی کبھار کوئی آیت سنا دینا بالکل جائز ہے اور اس پر آج بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔ سنت کے مردہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس پر لوگ عمل نہیں کر رہے۔ جس سنت پر لوگ عمل نہ کر رہے ہوں اس کو زندہ کرنا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ یہ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا۔ البتہ جس کام پر شریعت نے شدت اختیار نہ کی ہو اس پر تشدد کر کے امتِ مسلمہ میں افتراق و انتشار کا سبب نہیں بننا چاہئیے۔

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔