سمیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹوں سے باندھ کر دوٹکڑےکر دیا گیا

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

دارالندوہ میں کفار کی میٹنگ اور شیخ نجدی کی شرکت

دار الندوہ :

ابن اسحاق رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب قریش نے اس بات پر غور کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں غیر شہروں کے لوگ بکثرت داخل ہو گئے ہیں اور یہاں سے بھی بہت سے با مروت اصحاب نے اپنے دین کی خاطر دنیا اور مال و اسباب سے قطع نظر کر کے ہجرت اختیار کی اور خداوند تعالیٰ نے ان کے واسطے مقام امن مہیا کر دیا جہاں وہ اطمینان اور فراغت سے زندگی بسر کرتے ہیں اور اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی عنقریب وہیں جا کر ان میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو قریش کو اس فکر نے نہایت متردد کیا اور اس کے انجام پر اس کی نظر گئی اور سوچا کہ مسلمانوں کی اس قوت کا مجتمع ہونا ہمارے اسباب زوال و فنا کا قائم ہونا ہے۔ بس یہ فکر کر کے انہوں نے قصٰی بن کلاب کے مکان میں جس کو دارالندوہ کہا جاتا تھا، ایک مجلس مشاورت کے انعقاد کا انتظام کیا۔ یہ وہی مکان ہے جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ قریش کو جس امر مہم کی بابت مشورہ کرنا ہوتا تھا اسی مکان میں مجتمع ہوتے تھے اور اسی مکان میں ان کے کل امور کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ غرضیکہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو ان کو یہ اندیشے لاحق ہوئے تو اس مکان میں مشورہ کی مجلس قائم ہوئی۔

ابلیس کی مجلس شوریٰ :

ابن اسحاق بہ سلسلہ معتبر راویوں کے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ جس روز یہ مجلس قرار پائی ہے اس روز کا نام یوم الزحمۃ رکھا گیا ہے اور جس وقت یہ لوگ اس مکان کی طرف متوجہ ہوئے تو ابلیس ایک بوڑھے ضعیف العمر شخص کی صورت بنا کر دروازہ پر کھڑا ہو گیا۔ جب یہ لوگ آئے تو اس بوڑھے کو دیکھ کر پوچھا کہ بڑے میاں آپ کون ہیں؟ اس نے کہا : میں اہل نجد سے ہوں اور تم لوگوں کی تشویش اور تفکر کو سن کر میں نے مناسب سمجھا کہ تمہاری مجلس میں حاضر ہو کر اپنی رائے ظاہر کروں۔ یقین ہے کہ اس سے تم کو نفع پہنچے گا۔ قریش نے کہا بہت بہتر ہے آیئے اندر تشریف رکھیے۔ پس وہ ملعون ان کے ساتھ مکان کے اندر داخل ہوا۔ راوی کا بیان ہے کہ اس مجلس میں اشراف اور سرداران قریش میں سے یہ لوگ حاضر تھے۔

مجلس کے شرکاء :

بنی عبد شمس میں سے عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ابو سفیان بن حرب۔ بنی نوفل بن عبد مناف میں سے طعیمہ بن عدی اور جبیر بن مطعم اور حرث بن عامر بن نوفل۔ بنی عبد الدار بن قصی میں سے نظر بن حرث بن کلاہ۔ اور بنی اسد بن عبد العزیٰ میں سے ابو النجتری بن ہشام اور زمہ بن اسود بن مطلب اور حکیم بن حزام بنی مخزوم میں سے ابوجہل بن ہشام اور بنی سہم میں سے حجاج کے دونوں بیٹے نبیہ اور منبہ اور بنی جمیع میں سے امیہ بن خلف اور ان کے علاوہ اور بہت لوگ تھے۔

مختلف تجاویز :

چنانچہ ان سب سے یہ بات کہی کہ اس شخص کی تم حالت دیکھ رہے ہو کہ ہم میں سے اور ہمارے علاوہ غیر لوگوں میں سے اس کے ساتھی کثرت کے ساتھ ہو گئے ہیں اور دن بدن بڑھتے جاتے ہیں۔ یہ بات یقینی ہے کہ ایک روز ہم پر یہ غالب ہو جائیں گے اور ہمارے دین و مذہب کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے۔ اس لیے ایسا مشورہ کرنا ضروری ہے جس سے اپنے واسطے پورا انتظام ہو جائے اور آئندہ برا وقت دیکھنا نہ نصیب ہو۔
ایک شخص بولا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قید کر دو اور دروازہ پر پہرہ مقرر کرو جیسا کہ پہلے شاعروں زہیر اور نابغہ کے ساتھ کیا گیا ہے کہ قید ہی میں ان کا دم نکل گیا۔ شیخ نجدی نے کہا : واللہ ! یہ رائے تمہاری درست نہیں ہے۔ اگر تم نے ایسا کیا تو ضرور ان کے اصحاب اس حال کو سن کر یکبارگی تم پر ایک ایسا سخت حملہ کریں گے کہ تم کو قتل کر کے صاف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو چھڑا لے جائیں گے اور تم سے کچھ نہ ہو سکے گا لہذا اور کوئی بات سوچو۔
ایک شخص بولا کہ ہم ان کو یہاں سے نکال دیں۔ یہ حیران و پریشان ہو کر خدا جانے کہاں سے کہاں چلے جائیں گے اور ان کے غائب، ہونے کے بعد ہماری آپس میں پھر ویسی ہی الفت اور محبت ہو جائے گی جیسی کہ تھی اور جو لوگ مسلمان ہو گئے ہیں وہ بھی پھر ہم میں مل جائیں گے۔
شیخ نجدی نے کہا : واللہ ! یہ رائے تمہاری پہلی رائے سے بھی زیادہ ناقص ہے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شیریں زبانی اور خوش اخلاقی سے واقف نہیں ہو کہ جس سے وہ ایک دفعہ بات کر لیتے ہیں وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ اگر تم نے ایسا کیا یعنی یہاں سے ان کو شہر بدر کر دیا تو یاد رکھو کہ وہ عرب کے کسی قبیلہ سے جا ملیں گے اور اپنی خوش کلامی سے اس کو مطیع کر کے تمہاری طرف رجوع کریں گے اور تم کو اپنے گھوڑوں کے سموں سے ایسا روندیں گے کہ تمہارا نام و نشان چھوڑیں گے اور تمہارے تمام اختیارات اپنے قبضہ میں کر لیں گے۔ لہٰذا تم کوئی ایسی رائے نکالو جو ہر پہلو سے صحیح اور درست ہو۔

ابوجہل کی ناپاک تجویز :

ابوجہل بن ہشام نے کہا : واللہ ! میری اس کے بارے میں ایک رائے ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ اب تک کسی نے ایسا سوچا ہو۔ قریش نے کہا اے ابو الحکم ! جلد بیان کر کہ وہ کیا رائے تیرے ذہن میں آئی ہے؟ اس نے کہا میں نے یہ تدبیر سوچی ہے کہ ہم اپنے کل قبائل میں سے ایک ایک جوان چھانٹ کر مسلح تیار رکھیں اور جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے ہوں تو وہ سب جوان یکبارگی ایک ہاتھ تلوار کا ان پر ماریں اس طرح انہیں قتل کر دیں۔ پھر اگر ان کی قوم قصاص لینا چاہے گی تو ہمارے اتنے قبائل سے نہ لڑ سکے گی۔ لامحالہ خون بہا پر راضی ہو گی لہٰذا ہم خون بہادے کر اس قصہ کا فیصلہ کر دیں گے اور ہمیشہ کے واسطے اس خدشے سے نجات پائیں گے۔ شیخ نجدی بولا۔ واقعی ابو الحکم کے کیا کہنے ہیں۔ بس یہی رائے نہایت قوی اور ہر پہلو سے صحیح ہے اسی پر عملدرآمد کرو۔ اس رائے کے مقرر ہونے کے بعد لوگ اس مکان سے اٹھ کر چلے گئے اور ادھر جبرائیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا کہ آج رات کو آپ اس جگہ نہ سوئیں جہاں ہمیشہ سویا کرتے ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم :

راوی کہتا ہے کہ جب رات خوب اندھیری ہو گئی۔ یہ سب لوگ اس انتظار میں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو جائیں تو ہم اپنا وار کریں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ اطلاع ہوئی کہ دشمن اس بات کے منتظر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم میرے بستر پر میری سبز چادر اوڑھ کر سو جاؤ اور کچھ فکر نہ کرو تم کو یہ کچھ ایذا نہ پہنچائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو اسی چادر میں سوتے تھے۔

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی روانگی :

ابن اسحان کہتے ہیں کہ جب قریش کے یہ سب لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر جمع ہوئے ابوجہل بھی ان میں تھا۔ اس نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتا کہ اگر تم میری اتباع کرو گے تو عرب کے بادشاہ ہو جاؤ گے۔ اور مرنے کے بعد پھر زندہ ہو کر تم کو ایسے باغ ملیں گے جیسے اردن میں ہیں۔ اور اگر میری اتباع نہ کرو گے تو دنیا میں قتل و غارت ہو گے اور مرنے کے بعد زندہ ہو کر آگ میں جلو گے۔ وہ یہ کہہ رہا تھا کہ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بڑے برتن میں خاک بھر کر لیے ہوئے باہر تشریف لائے اور فرمایا ہاں میں یہی بات کہتا ہوں مگر ان لوگوں کی آنکھیں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اندھی کر دیں کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ یٰسین کے شروع کی آیتیں لايبصرون تک پڑھتے جاتے تھے اور ان کے سروں پر خاک ڈالتے جاتے تھے یہاں تک کہ جب آپ فارغ ہوئے تو اپنے کام کو تشریف لے گئے اور ان لوگوں کو کچھ خبر نہ ہوئی۔
پھر ان کے پاس ایک اجنبی شخص آیا اور کہنے لگا : تم لوگ یہاں کھڑے ہوئے کس کا انتظار کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر ہیں۔ اس نے کہا : واللہ ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم کو ذلیل کر کے تشریف لے گئے اور تم میں سے کسی کو محروم نہیں چھوڑا۔ سب کے سروں پر خاک ڈال گئے ہیں تم کو خبر نہیں کہ تمہارے سروں پر کیا پڑا ہوا ہے۔ اب جو ان لوگوں نے اپنے سروں کو دیکھا تو واقعی ان کو خاک آلودہ پایا۔ پھر ان لوگوں نے جھانک جھانک کر اندر دیکھنا شروع کیا تو دیکھا کہ واقعی کوئی شخص سوتا ہے اور وہی چادر اوڑھے ہوئے ہے جو آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم اوڑھتے تھے۔ کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سوتے ہیں اور صبح تک اسی انتظار میں کھڑے رہے۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ رضی اللہ عنہ بستر پر سے اٹھے تب کہنے لگے واللہ رات کو وہ شخص ہم سے سچ کہتا تھا۔

الله تعالیٰ كے ارشادات :

ابن اسحاق کہتے ہیں کہ کفار کے اس دن کی کاروائی اور مکہ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی ہیں :
«وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ أَوْ يَقْتُلُوكَ أَوْ يُخْرِجُوكَ ۚ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّهُ ۖ وَاللَّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ» [8-الأنفال:30]
”اور اسے رسول وہ وقت یاد کرو جبکہ کفار تمہارے ساتھ مکر کرنے کے فکر میں تھے تا کہ تم کو قید کر دیں یا قتل کریں یا شہر بدر کریں اور یہ بھی مکر کر رہے تھے اور خدا بھی مکر کر رہا تھا اور خدا بہتر مکر کرنے والا ہے۔“

سورۃ یٰسین کے فضائل و خواص

سورۃ یٰسین کی پہلی تینوں آیات کا اگر خوف زدہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کے سب سے ذکر کریں تو ان کو امن نصیب ہو۔ چنانچہ حرث بن اسامہ نے اپنے مسند میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ یٰسین کے فضائل میں بیان فرمایا کہ اگر خوف زدہ اس کو پڑھے گا اس کو امن نصیب ہو گا اور اگر بھوکا پڑھے گا اس کو روزی نصیب ہو گی۔ اور اگر برہنہ پڑھے گا اس کو لباس ملے گا۔ اور اگر پیاسا پڑھے گا اس کو پانی ملے گا۔ اور اگر بیمار پڑھے گا اس کو شفاء ہو گی۔ یہاں تک رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سے خواص اس کے بیان فرمائے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں یہ آیت بھی نازل فرمائی۔
«أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ‎۔ ‏ قُلْ تَرَبَّصُوا فَإِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُتَرَبِّصِينَ» [52-الطور:30]
”(اے رسول) کیا یہ لوگ تمہارے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہے ہم اس کے بارے میں گردش زمانہ کا انتظار کر رہے ہیں تم ان سے کہہ دو کہ انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔“
ابن اسحاق کہتے ہیں پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت ہوئی۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[دلائل النبوة بيهقي 343/2 – رقم : 765، 766، 767، ورواه الطبري فى تفسيره 227/9، من طريق محمد بن اسحاق به، و ابن حبان فى الثقات 113/1، والصٰبري فى تاريخه 566/1، من طريق ابن اسحاق به]
اس کی کوئی سند صحیح نہیں ہر کسی میں کوئی نہ کوئی ضعیف پایا جا تا ہے۔
اس کو صفی الرحمان مبارکپوری نے بھی الرحیق المختوم صفحہ : 223 – تا 229 پر نقل کیا ہے. [ذكره ابن جوزي فى صفة الصفوة 124/1 و قال : قال ابن اسحاق ………. به۔]
——————

حرم کے کبوتر غار ثور کے کبوتروں کی نسل ہے

ابونعیم کہتے ہیں : ابو مصعب رضی اللہ عنہ کہتے میں نے انس بن مالک زید بن ارقم اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہم کی صحبت حاصل کی ہے اور تینوں سے یہ حدیث سنی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار کے اندر تشریف لے گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے غار کے دہانے پر ایک درخت اگ آیا جس نے غار کا منہ ڈھانپ دیا اور حکم خداوندی سے دو جنگلی کبوتروں نے وہاں گھونسلہ بنا دیا۔
ادھر قریش کے کچھ نوجوان جن میں ہر قبیلے سے ایک ایک فرد شامل تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں ڈنڈے نیزے اور تلواریں لے کر نکلے اور جستجو کرتے ہوئے غار کے قریب پہنچ گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا فاصلہ صرف چالیس گز رہ گیا۔
ایسے میں ان میں سے ایک نے غار کی طرف دیکھ کر کہا مجھے غار کے دہانے پر کبوتروں کا گھونسلہ نظر آ رہا ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس میں کبھی کوئی شخص داخل نہیں ہوا۔ (ورنہ یہ گھونسلہ ٹوٹ پھوٹ جاتا) نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کی بات سن لی اور جان لیا کہ اللہ تعالٰی نے ان کبوتروں کے ذریعے ہماری حفاظت فرمائی ہے۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی : اللہ سے ان کے لیے خیر مانگی اور ان کے اس عمل کی بہترین جزا مقرر فرما دی اس لیے ان کی نسل حرم کعبہ میں رہتی ہے۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف .
[دلائل النبوة لابي نعيم اصفهاني ص : 294 مترجم. الطبقات الكبرىٰ 229/1 كشف الا ستار للهيشمي 299/2 -30]
اس روایت کی تمام اسناد ضعیف ہیں۔
——————

ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا اگر کوئی مسئلہ ہوں تو غار میں آ جانا تمہیں صبح و شام تازہ کھانا ملے گا۔

روایت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے صاجزادے سے کہا تھا : ”بیٹے ! اگر کوئی فتنہ فساد برپا ہو جائے تو اس غار میں آ کر رہنے لگنا جس میں تم نے ہمیں چھپتے دیکھا تھا۔ اس میں تمہیں صبح و شام تازہ کھا نا ملا کر ے گا۔ ‘‘
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف.
[سيرت النبى ابن كثير ج 1، ص : 845 – البداية والنهاية : 201/3]
ابن کثیر نے یہ روایت نقل کی ہے۔ اور اس میں موسٰی بن مطیر کے متعلق لکھا ہے، یہ ضعیف اور متروک ہے۔ یحیٰی بن معین نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔
——————

غار ثور میں جنت کی نہر جاری ہو گئی

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ غار ثور میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو انہیں پیاس لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : غار کے دھانے پر چلے جاو، وہاں جا کر پانی پی لو۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وہاں جا کر پانی پیا، وہ پانی شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے زیادہ سفید اور کستوری سے زیادہ خوشبو دار تھا، پھر واپس آ گئے تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جنت کی نہروں کی حفاظت جس فرشتے کے سپرد کی گئی، اسے اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ تمہاری خاطر وہ جنت الفردوس کی نہر کا پانی غار کے دھانے تک لے آئے۔
تحقیق الحدیث :
اسناد ضعیف۔
سیوطی نے خود اس کو نہایت ضعیف کہا ہے۔ [خصائص الكبرىٰ ج 1، ص : 308]
سیوطی کہتے ہیں اس کو ابن عساکر نے نہایت ضعیف سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
——————

غار کا سمندر کے ساحل پر ہونا

حافظ ابن کثیر کہتے ہیں : بعض سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ ابوبکر نے جب یہ کہا (وہ نیچے دیکھتے تو ہمیں دیکھ لیتے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ غار کے دھانے سے اندر آتے تو ہم اس طرف سے نکل جاتے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے غار کی دوسری جانب دیکھا تو وہ کشادہ ہو چکی تھی اور سمندر اس سے متصل تھا اور اس کے ساحل پر کشتی لنگر اندازتھی۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
حافظ ابن کثیر کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی عظمت اور قدرت کے پیش نظر یہ انوکھی بات نہیں، لیکن یہ کشتی والی بات کسی قسم کی سند سے مروی نہیں اور ہم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہہ سکے، کیونکہ جس بات کی سند صحیح یا حسن ہو، ہم وہی کہہ سکتے ہیں، واللہ اعلم۔
——————

جب ایک آدمی غار کے بالکل سامنے پیشاب کرنے لگا

یہ بھی روایت ہے کہ کھوج لگانے والے مشرکین میں سے ایک شخص عین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرنے لگا۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : ”اے اللہ کے رسول ! کیا یہ ہمیں دیکھ نہیں رہا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر یہ ہمیں دیکھتا تو کبھی ہماری طرف برہنہ ہو کر پیشاب نہ کرتا۔“
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[مجمع الزوائد : 54/6 – حديث رقم : 9906]
ہیشمی کہتے ہیں اس کو ابویعلیٰ نے روایت کیا ہے۔
اس میں موسٰی بن مطیر راوی متروک ہے۔ [ابو يعلى حديث رقم : 46۔]
——————

ام عمارہ کی جنگ احد میں بہادری کا قصہ

سیرت ابن ہشام میں ہے : ام سعد بنت بن ربیع کہتی ہیں کہ ام عمارہ ہمارے یہاں آئیں۔ میں نے ان سے عرض کیا خالہ ! ہمیں غزوہ احد میں پیش آنے والا واقعہ سناؤ۔ انہوں نے کہا : احد کے دن میں صبح سویرے نکل پڑی تھی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ مسلمانوں پر کیا گزر رہی ہے۔ میرے پاس ایک مشکیزہ تھا جس کے اندر پانی بھرا ہوا تھا، میں حضور کے قریب پہنچ گئی، آپ کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی تھے، مسلمانوں کو فتح اور غلبہ ہو رہا تھا، مگر تھوڑی دیر میں جب کافروں کو غلبہ ہونے لگا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب پہنچ گئی اور براہ راست جنگ میں کود گئی جو کافر ادھر کا رخ کرتا تھا میں تلوار سے اس کا منہ پھیر دیتی تھی اور تیر چلاتی تھی یہاں تک کہ میرے کئی زخم آئے۔
ام سعد کہتی ہیں : میں نے ان کے مونڈھے پر بہت گہرا زخم دیکھا، میں نے پوچھا یہ کس طرح لگا تھا ؟ یہ زخم ابن قمیہ نے لگایا تھا۔ اللہ اسے غارت کرے!
جب لوگ ادھر ادھر پریشان پھر رہے تھے تو ابن قمیہ یہ کہتا ہوا بڑھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں ؟ مجھے کوئی بتا دے کہ کدھر ہیں ؟ آج اگر وہ بچ گئے تو میری نجات نہیں۔ مصعب بن عمیر اور چند آدمی اس کے سامنے آگئے جن میں میں بھی تھی۔ اس نے میرے مونڈھے پر یہ وار کیا۔ میں نے بھی اس پر کئی وار کیے مگر اس اللہ کے دشمن نے دوہری زرہ پہن رکھی تھی۔ اس لیے زرہ سے حملہ رک جاتا تھا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[السيرة النبوية لابن هشام 71/2]
یہ روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔
——————

عبداللہ بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما کی شادی طلاق، رجعت اور شہادت

حضرت عبداللہ بن ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے عاتکہ بنت زید بن عمر و بن نفیل سے شادی کی، عاتکہ حسین و جمیل اور عمدہ اخلاق کی مالک تھی۔ ان سے شادی کے بعد عبداللہ کا ذہن رفتہ رفتہ شوق شہادت اور جوش جہاد سے ہٹتا گیا، یہ دیکھ کر ان کے والد صدیق اکبر نے انہیں طلاق دینے کا حکم دیا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ اس نے تمہیں جہاد سے روک رکھا ہے۔ صاجزادے نے طلاق دے دی۔ ایک دن باپ ان کے پاس سے گزرے تو یہ اشعار پڑھ رہے تھے :
«فلم أر مثلي طلق اليوم مثلها
ولا مثلها فى غير ذنب تلطق
»
”آج میں نے اپنے جیسا کسی کو نہیں دیکھا جس نے اس جیسی بیوی کو طلاق دی ہو اور اس جیسی کو شاید کسی گناہ کے بغیر طلاق بھی نہیں دی گئی ہوگی۔“
«لها خلق جزل وراي و منصب
علي كبر مني و اني لوامق !
»
”وہ بڑی اخلاق والی، بہترین رائے اور مقام والی ہے۔ مجھ سے عمر میں بڑی تھی پھر بھی میں اس کا عاشق ہوں۔“
صدیق اکبر نے یہ سنا تو ان کا دل بھر آیا، انہوں نے رجعت کر لی۔ اس کے بعد عبداللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۃ طائف میں شرکت کی۔ اس جنگ میں آپ کو ایک تیر لگا جس کے زخم سے آپ جانبر نہ ہوئے اور مدینہ منورہ میں انتقال کیا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[اعتلال القلوب الخرثعني ج 1، ص 945، رقم 430]
——————

محمد بن مسلمہ کا اپنی منگیتر کو چھپ کر دیکھنے کا قصہ

حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہنے ہیں میں نے ایک عورت کو نکاح کا پیغام دیا تو میں اس کو دیکھنے کے لیے چھپ جایا کرتا تھا حتٰی کہ میں نے اسے اس کے کھجوروں کے باغ میں دیکھ لیا (کسی نے مجھے اس طرح چھپ کر دیکھتے ہوئے کہا) آپ اللہ کے رسول کے صحابی ہو کر ایسا کر رہے ہیں تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان سنا ہے جب اللہ تعالیٰ کسی عورت سے نکاح کی خواہش ڈالے تو اسے دیکھ لینے میں کوئی حرج نہیں۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[سنن ابن ماجه، ابواب النكاح، باب 9 . حديث رقم 1864 مسند احمد 225/4 حديث رقم 18139]
اس میں حجاج بن ارطاۃ راوی ضعیف ہے۔
نوٹ : اس روایت کو بیان کر کے ایک عالم دین نے بڑا زور دیا کہ جس لڑکی سے رشتہ کی بات چل رہی ہو اس کو صرف اس لڑکی کی لاعلمی میں ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ جبکہ یہ قصہ ہی باسند صحیح ثابت نہیں تو اس کو بڑھا چڑہا کر کھینچ تان کر اس سے مزکورہ بالا استدلال کرنا باطل ہے، غرض جس لڑکی سے نکاح کا ارادہ ہو اس کو باقاعدہ دیکھنا یا علمی میں دیکھنا جائز ہے، صحیح احادیث سے یہی کچھ اخذ ہوتا ہے۔
——————

سمیہ رضی اللہ عنہا کو اونٹوں سے باندھ کر دوٹکڑےکر دیا گیا

سمیہ کو ابو جہل کا گالیاں دینا سخت ایذائیں دینا پھر نیز مار کر شہید کرنا کسی حد تک صحیح ہے، مگر خطباء و واعظین میں جو روایت مشہور ہے وہ یہ ہے ایک مصنف لکہتا ہے۔
ابو جہل کو ذرا ترس نہ آیا وہ چلا کر بولا اس کی دونوں ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ دو۔ نو جوان آگے بڑھے اور انہوں نے سمیہ کو دونوں ٹانگوں کو باندھ دیا۔ پھر ابوجہل کے کم پر دونوں رسیوں کے آخری سرے اونٹوں کے ساتھ باندھ دیئے گئے، ابوجہل نے غصے سے اونٹ کو چھری ماری اور دونوں اونٹوں کو مختلف سمتوں پر چلا دیا گیا۔ مقررین کہتے ہیں ایک کو مشرق کی طرف چلایا دوسرے کو مغرب کی طرف چلایا، تو سیدہ سمیہ کا بوڑھا جسم دو حصوں میں بٹ گیا۔
بابا جی صمصام رحمہ اللہ نے بھی اپنے اشعار میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہتے ہیں:
کسے مائی جدوں آکے مونہوں کلمہ بولیا
آئیاں سینکٹرے مصیبتاں دل نہیں ڈولیا
بدن اوٹھاں نال بنھ کے دو پھاڑ ہو گیا
جیہدا پاک نبی دے سنگ پیار ہو گیا
بھانویں لکھ گنہگار، بیڑا پار ہو گیا
(1) اونٹوں سے باندھ کر جسم دو ٹکڑے کرنے والی روایت کوشش کے باوجود کسی معتبر کتاب سے نہیں ملی، اس لیے یہ واقعہ صحیح نہیں۔ اس کے برعکس ایک روایت کے مطابق ابوجہل نے سمیہ کی شرم گاہ میں نیزہ یا پر چھا مارا اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ [مسند احمد 404/1] یہ مجاہد تابعی سے مرسل مروی ہے جبکہ تابعی کی مرسل ضعیف ہوتی ہے، اگرچہ یہ بھی ضعیف ہے مگر اس کا کم از کم وجود تو ہے۔
——————

امت محمدیہ میں سب سے پہلے ابوبکر جنت میں داخل ہوں گے

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے انہوں نے مجھے جنت کا دروازہ دکھایا جس سے میری امت جنت میں داخل ہو گی۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی اس موقع پر موجود تھے وہ کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! میری خواہش ہے کہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتا اور یہ درواز دیکھ لیتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے ابوبکر ! میری امت میں سے تو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف۔
[ابو داؤد، كتاب السنة، باب فى الخلفاء حديث رقم 4652 مشكاة المصابيح حديث رقم 6024 : وأخرجه عبدالله بن أحمد فى فضائل الصحابه 2220221/1 حديث 258]
شیخ البانی اور دیگر اہل علم محققین نے اس کو ضعیف کہا ہے۔
اس میں ابی خالد مولٰی ال جعدۃ راوی مجھول ہے، دیکھیں : تقريب التهذيب .
——————

اس تحریر کو اب تک 84 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply