نور من نور اللہ“ والی ایک روایت کی تحقیق

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : جابر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر قربان ہوں مجھے اس بات کی خبر دیں کہ اللہ تعالیٰ نے سب پہلے کس چیز کو پیدا کیا ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اے جابر ! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا پھر یہ نور اللہ کی قدرت سے جہاں چاہا گھومتا رہا…… الخ،“ فرمائیں کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے ؟
جواب : محدثین کرام رحمه الله نے بڑی محنت اور جانفشانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو اسناد کے ساتھ جمع کیا اور اس بات کی مکمل کوشش کی کہ کوئی ایسی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ ہو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کہی۔ کیونکہ :
❀ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
من كذب على متعمدا فليتبوا مقعده من النار [صحيح بخاري، كتاب العلم : باب من كذب على النبى صلى الله عليه وسلم : 107]
’’ جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا ورہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“

❀ اور ایک اور روایت میں ہے :
من قال على مالم اقل فليتبوا مقعده من النار
’’ جس نے مجھ پر وہ بات کہی جو میں نے نہیں کہی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“ [مسند احمد :65/1]
↰ اس لیے جو شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بات منسوب کر کے بیان کرتا ہے اس کے لیے سند کی شرط لگائی گئی پھر سند کی صحت کے لیے بھی کڑی شرائط کو مدنظر رکھا گیا اور جس روایت کی کوئی سند نہیں ہوتی اسے کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جاتا۔

◈ امام عبداللہ بن مبارک رحمه الله نے فرمایا :

الاسناد عندي من الدين ولو لا الاسناد لقال من شاء ما شاء ولكن اذا قيل له من حدثك بقي
’’ اسناد میرے نزدیک دین میں سے ہیں اور اگر اسناد نہ ہوتیں تو ہر کوئی جو چاہتا کہہ دیتا لیکن جب اسے کہا جائے تجھے یہ حدیث کس نے بیان کی ہے تو وہ خاموش ہو جاتا ہے۔“ [تاريخ بغداد : 6/ 166، مقدمه صحيح مسلم : 32، معرفة علوم الحديث للحاكم : ص 6]
ابن مبارک رحمه الله کے شاگرد عبداللہ رحمه الله فرماتے ہیں :
’’ عبداللہ بن مبارک رحمه الله نے یہ بات زنادقہ اور روایات گھڑنے والوں کے ذکر کے وقت کہی۔“

◈ امام زہری رحمه الله نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی فروہ ضعیف و متروک راوی سے کہا:
قاتلك الله يابن ابي فروة ما جراك على الله ؟ لا تسند حديثك تحدثنا باحاديث ليس لها خط ولا ازمة
’’ اے ابن ابی فروہ ! اللہ تجھے ہلاک کرے تو اللہ تعالیٰ پر کس قدر جرات کرنے والا ہے، تو اپنی روایت کی سند بیان نہیں کرتا، تو ہمیں ایسی روایتیں بیان کرتا ہے جن کی نکیلیں اور مہاریں نہیں ہیں۔“ [معرفة علوم الحديث للحاكم : ص 6، طبع جديد : ص 42]
↰ الغرض محدثین کے نزدیک روایت کے درست ہونے کیلئے سند کا صحیح ہونا ازحد ضروری ہے۔ مذکورہ بالا روایت جابر رضی اللہ عنہ کو کئی سیرت نگاروں نے بغیر سند کے درج کر دیا ہے اور بعض نے اسے امام عبدالرزاق کی طرف منسوب کیا ہے، ہمارے پاس امام عبدالرزاق کی ’’ المصنف“ گیارہ ضخیم جلدوں میں اور تفسیر عبدالرزاق تین جلدوں میں مطبوعہ موجود ہے لیکن یہ روایت ان میں ہمیں نہیں ملی۔ جو شخص اس روایت کی صحت کا داعی ہے، وہ محدثین رحمه الله کے قواعد کے مطابق اس کی ایک بھی صحیح سند پیش کرے۔ آج تک کوئی شخص اس کی ایک بھی صحیح سند پیش نہیں کر سکا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی غلط بیانی، جھوٹی روایات اور عقائد فاسدہ سے محفوظ فرمائے اور سلف صالحین، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ تابعین عظام اور ائمہ محدثین کے نقش قدم پر چلائے۔ (آمین) !

 

اس تحریر کو اب تک 77 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply