بحیرا راہب کی داستان

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

بحیرا راہب کی داستان
ان مشہور عالم مذہبی داستانوں میں ایک بحیرا نامی راہب کی داستان بھی ہے، جو تمام کتب تاریخ سیر میں مختلف انداز میں کمی بیشی کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ اتفاق سے یہ قصہ حدیث کی مشہور و معروف کتاب ترمذی میں بھی پایا جاتا ہے۔ جس کے سبب علمائے کرام نے اسے ایمانیات کا درجہ دے دیا۔ لیکن ترمذی کی روایت میں چند ایسے امور بھی آ گئے ہیں جو قطعاً خلاف عقل ہیں۔ جس کے باعث متعدد چوٹی کے علماء نے اس سلسلہ میں قلابازیاں کھائی، حتی کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے نفس واقعہ کو تو صیح قرار دیا، لیکن کچھ اجزاء کو باطل تسلیم کیا۔
اور کچھ محدثین نے سرے سے اس واقعہ کا انکار کیا۔

 

تحقیق الحدیث :

ہم سب سے پہلے اس قصہ کو سیرت کی ایک مشہور کتاب اصع السیر سے نقل کرتے ہیں جو حکیم عبد الرؤف دانا پوری کی تصنیف ہے۔ حکیم صاحب اپنی کتاب کے ص 51 پر رقم طراز ہیں۔
حضور کی عمر جب بارہ سال دو ماہ ہوئی۔ اس وقت خواجہ ابوطالب نے تجارت کی غرض سے شام کا سفر کیا۔ اور حضور کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ جب مقام تیما میں پہنچے تو وہاں بحیرا راہب ملا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ یہ یہود عالم تھا۔ اور بعض روایتوں میں ہے کہ یہ نصرانی عالم تھا۔ والله اعلم۔
اس نے کتب قدیمہ کی پیشین گوئیوں کے مطابق آپ میں نبوت کی کچھ علامات دیکھیں اور خواجہ ابو طالب سے پوچھا کہ یہ لڑکا جو تمہارے ساتھ ہے کون ہے؟
انہوں نے کہا کہ یہ میرا بھتیجا ہے۔ بحیرا نے کہا کہ کیا آپ کو اس کے ساتھ محبت ہے؟ انہوں نے کہا : بے شک۔ بحیرا نے کہا کہ میں آپ کو ایک بات بتاتا ہوں۔ بخدا آپ انہیں اگر شام لے گئے تو یہود ان کے دشمن ہو جائیں گے۔ اور قتل کرنا چاہیں گے۔ آپ ان کو واپس لے جائیے۔ چنانچہ خواجہ ابو طالب وہیں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر واپس چلے آئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ آپ کو کسی غلام کے ساتھ واپس کیا۔ [اصح السير ص 51 ]
حکیم عبد الرؤف صاحب نے جہاں واقعہ کو انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا۔ وہاں اپنی جانب سے حتی الامکان یہ کوشش بھی کی کہ اس واقعہ میں جو خرافات پائی جاتی ہیں اور جو جو اس واقعہ پر اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔ ان کا حتی الامکان دفاع کیا جائے۔ اور اسٍ کی انجام دہی کے لئے انہوں نے اصل واقعہ میں دل کھول کر تعریف کی۔ اور دیانت و امانت کے تمام اصولوں کو خیرباد کہہ دیا۔
اب قاری احمد پیلی بھیتی قادری کی بھی سنئے۔ وہ اپنی کتاب تاریخ مسلمانان عالم میں لکھتے ہیں۔
ابو طالب کی آخری منزل وہ جگہ تھی جسے بصریٰ کہتے تھے۔ آج کل اس جگہ کو حوران کہتے ہیں۔ عرب سے شام کو آنے والے تجارتی قافلے اسی شہر بصریٰ میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ قیام گاہ سے تھوڑے فاصلہ پر بحیرا راہب کی مشہور خانقاہ تھی۔ بحیرا دین مسیح کا بہت بڑا متقی ( بلکہ پہنچا ہوا ولی ) اور عبادت گزار شخص تھا۔ توریت انجیل اور دیگر آسمانی کتابوں اس کے ذہن میں محفوظ تھیں۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ کہ نبی آخر الزماں کے پیدا ہونے کی علامتیں کیا ہیں۔ وہ اکثر قریش کے تجارتی قافلوں کو خانقاہ سے دیکھنے کے لئے آتا تھا۔ کہ یہ معلوم کر سکے کہ نبی آخر الزماں اس میں موجود ہیں یا نہیں۔
اتفاق کی بات کہ ابو طالب کا قافلہ گھاٹی سے اتر کر قیام کرنا چاہتا ہی تھا کہ بحیرا کی نظریں پڑ گئیں۔ اور وہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک ابر کا ٹکڑا قافلہ کے ایک بچہ پر سایہ کئے ہوئے ہے۔ اور تمام حجرو شجر سجدے کے لئے جھک رہے ہیں ہیں۔ اور السلام علیک یا رسول اللہ کہہ رہے ہیں۔ ابھی قا فلہ والے اچھی طرح سے دم بھی نہ لینے پائے تھے۔ کہ بحیرا خانقاہ سے ابو طالب کے قریب آ گیا۔ اور آنحضرت کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا کہ یہ بچہ سید العالمین اور رسول پروردگار ہے۔
مؤرخین کا بیان ہے کہ بحیرا نے اہل قافلہ کی اپنی خانقاہ میں دعوت بھی کی تھی۔ جب سب لوگ بیٹھ گئے تو وہ آنخضرت کو بڑے غور سے دیکھتا رہا۔ کھانے سے فارغ ہو کر سب کو رخصت کر دیا مگر ابوطالب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا۔ اور ابوطالب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بہت سے سوالات کئے۔ خواب و بیداری کے حالات پوچھے، رشتہ دریافت کیا۔ ابو طالب نے والد کی وفات کا حال بتایا۔ شانہ مبارک کو دیکھا۔ اور مہر نبوت کو کتب سماویہ کے مطابق پا کر ابوطالب سے کہا کہ میں آپ کو ہمدردانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آپ جلدی واپس گھر چلے جائیں، یہود کو نبی عربی سے سخت عداوت ہے۔ مجھے ان کی طرف سے اندیشہ ہے کہ وہ ان کو دیکھیں گے تو ضرور نقصان پہنچانے کی تدبیریں کریں گے۔ ابوطالب نے بحیرا کے مشورے کو قبول کیا۔ اور بصریٰ ہی میں خرید و فروخت کر کے واپس آ گئے۔
طبری وغیرہ کا بیان یہ ہے کہ بحیرا نے آپ کے ہاتھ چومے اور نبوت کی تصدیق کی۔ یعنی قبل از نبوت آپ پر ایمان لائے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ بحیرا جس وقت آپ کو خانقاه میں دیکھ رہا تھا۔ اور ابوطالب سے کہہ رہا تھا کہ ان کو یہود سے بچانا۔ اس وقت سات رومی عیسائی آڑ میں کھڑے ہوئے سن رہے تھے۔ بحیرا نے ان سے معلوم کیا کہ تم لوگ یہاں کیوں آئے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم کو اطلاع ملی تھی کہ نبی عرب اس ماہ میں یہاں آنے والے ہیں۔ بحیرا نے کئی دن تک ان کو اپنی خانقاہ ہی میں ٹھہرائے رکھا۔ [ تاريخ مسلمانان عالم ص 109 ج2 ]

تحقیق الحدیث :

ان ہر دو مصنفین نے واقعہ کے آخری جزئیہ کو قطعاً تبدیل کر دیا ہے۔ ورنہ متقدمین مؤرخین کا بیان تو یہ ہے کہ ابو طالب نے آپ کو بلال رضی اللہ عنہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس کر دیا۔ اور بعض روایات میں ہے کہ ابوبکررضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس کر دیا۔
اصل یہی وہ جملہ ہے۔ جس سے اس واقعہ کی تمام عمارت منہدم ہوتی ہے۔ اور شبلی مرحوم نے سیرت النبی میں اسی پر کاری وار کیا تھا۔ لہٰذا بعد کے اردو مصنفین نے اس جملہ کو صاف اڑا دیا۔ حالانکہ دیانت و صداقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ ایک غلط شے کو تسلیم کر لیتے۔ لیکن زمیں جنبد زماں جنبد نہ جنبد گل محمد خان کے مصداق کسی تصوف کے مریض سے یہ بات کیسے ممکن ہو سکتی۔
اصل جملہ اور اصل واقعہ پر تو ہم علامہ شبلی مرحوم اور علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم و غیره کی زبانی بحث کریں گے۔ انہوں نے جو کچھ بحث کی ہے اور انہوں نے جو اعتراضات کئے ہیں ان کے علاوہ ہمارے ذہن میں مزید نئے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ لہٰذا ہم پہلے انہیں پیش کرنا چاہتے ہیں۔
شام میں حضور کی زندگی کو یہودیوں سے کیا خطرہ پیدا ہو سکتا تھا ؟ اس لئے کہ شام میں اس وقت عیسائیوں کی حکومت تھی۔ اور یہودی وہاں غلامانہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اگر کوئی خطرہ پیدا ہو سکتا تھا تو وہ عیسائیوں سے ہو سکتا تھا۔ اور قاری احمد صاحب نے بحیرا کے ذریعہ خطرہ یہودیوں کا بیان کیا۔ اور تلاش کے لئے عیسائیوں کو کھینچ لائے، یہ عجب دوغلی پالیسی ہے۔ پھر یہ دونوں مصنفین غزوہ موتہ کے حالات میں لکھتے ہیں کہ حضور نے دعوت اسلام کے لئے خط دے کر حارث بن عمیر ازدی کو حاکم بصری کی جانب روانہ کیا۔ لیکن اس عیسائی حاکم نے انہیں شہید کر دیا۔ جس کی وجہ سے غزوہ موتہ واقع ہوا۔ اور صحیح بخاری کی حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ تو اس حال میں خطرہ یہودیوں کی جانب سے ہو یا عیسائیوں کی طرف سے گویا یہ بات تو سراسر جھوٹ ہوئی۔
اصل امر یہ ہے کہ جب ان حضرات نے بحیرا کو ایک متقی اور عابد ولی تصور کرتے ہوئے اسے پہلا مؤمن تسلیم کر لیا تھا تو اب یہ کیسے ممکن تھا کہ اس کی قوم کا دفاع نہ کیا جائے۔ لہٰذا یہ الزام یہودیوں کے سر تھوپا، لیکن ابھی ایک ہی لائن تحریر کی تھی کہ اپنی اس سحرکاری کو قطعاً بھول بیٹھے۔ اور دوسروں کا شکار کرتے کرتے خود شکار ہو گئے۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ عیسائیوں سے خطرہ تھا۔ تو آپ نے تجارت کے سلسلہ میں حضرت خدیکہ رضی اللہ عنہا کا مال لے کر شام کے متعدد سفر کئے۔ جن میں سے ایک سفر کا ذکر آگے آرہا ہے۔ آخر عالم شباب میں یہ خطرات یکایک کیسے رفع ہو گئے ؟ اور وہ تمام علامات نبوت کہاں چلی گئیں جو عیسائی دنیا کا ایک ایک بچہ جانتا تھا؟
➊ جب بحیرا راہب نے آپ کی نبوت کو قبول کر لیا۔ اور قبل از نبوت ہی آپ پر ایمان لے آیا تو گویا سب سے پہلا صاحب ایمان وہی ہوا۔ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ اور دیگر سابقین اسلام کس درجہ میں شامل ہوتے ہیں۔ کیا یہ ان صحابہ کرام پر مخفی تبرا نہیں ہے؟ کیونکہ آگے بھی ایک اور عیسائی ولی کا تذکرہ آ رہا ہے۔ کاش کوئی عالم اور مؤرخ اس بات کو سوچے کہ کس عمدہ طریقے سے سابقین اولین کو عیسائیوں سے بھی پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب الیہ۔
➋ جب راہ میں شجر وحجر آپ کو سجدہ کر رہے تھے۔ بادل سائے کر رہے تھے۔ اور درخت سایوں کے لئے جھک رہے تھے۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ تمام امور سب اہل قافلہ نے اپنے سامنے ہوتے ہوئے دیکھے تھے۔ یا صرف اس واقعہ کے راوی کو اپنی تخلیق سے قبل نظر آئے تھے، اگر سب نے دیکھے تھے تو بعد از نبوت ان میں سے کتنے افراد ایمان لائے۔ اور کون کون اس قافلے میں شریک تھا؟ اور تو کوئی کیا ایمان لاتا جب وہی شخص ایمان نہ لایا جس کے بھتیجے کے لئے یہ تمام کرامات ظاہر ہو رہی تھیں۔ اور اگر بحیرا اور ابو طالب کے علاوہ ان واقعات کو کسی اور نے نہیں دیکھا تھا تو ابوطالب تو کافر مرا۔ اور بحیرا کا اس واقعہ کے بعد پوری تاریخ اسلام میں کہیں تذکرہ نظر نہیں آتا۔ تو پھر یہ واقعہ راویوں سے کس نے بیان کیا؟
یہ تو وہ چند اعتراضات ہیں جو عقلی طور پر پیدا ہو رہے تھے۔ لیکن علامہ شبلی مرحوم کو اس روایت کی سند پر بھی کچھ اعتراضات ہیں۔ لیکن ہم یہ اعتراضات پیش کرنے سے قبل ضروری تصور کرتے ہیں کہ ترمذی کی روایت کو بھی قارئین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔
ترمذی نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ ابو طالب قریشی کے سرداروں کے ساتھ شام گیا۔ آپ کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے۔ یہ لوگ جب راہب کے قریب پہنچے۔ تو اس جگہ ان لوگوں نے منزل کی۔ اور اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب نہیں دیکھ کر نیچے اترا۔ اس سے قبل یہ لوگ جب ادھر سے گزرتے تو وہ قطعاً نیچے نہ اترتا۔ اور نہ ان لوگوں کی جانب کوئی توجہ دیتا۔ یہ لوگ تو کجاوے کھولنے میں مشغول تھے۔ اور وہ راہب ان کے درمیان سے گزرتا ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا۔ اور آپ کا ہاتھ تھام کر بولا۔ یہ سید العالمین ہیں۔ رب العالمین کے رسول ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گا۔ سرداران قریش نے استفسار کیا۔ تمہیں یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟ کہنے لگا جب تم گھاٹی سے اتر رہے تھے۔ تو کوئی پتھر اور کوئی درخت ایسا نہ تھا جو سجدہ میں نہ گر گیا ہو۔ اور یہ چیزیں نبی کے علاوہ کسی کو سجدہ نہیں کرتیں۔ اور میں ختم نبوت کو پہچانتا ہوں جو سیب کی طرح مونڈھے پر ہو گی۔ پھر واپس لوٹ گیا۔ اور ان کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے کر ان لوگوں کے پاس آیا تو اونٹوں کے گلہ میں پہنچتے ہی اس نے لوگوں سے کہا کہ اس لڑکے کو بلاؤ۔ آپ جب آئے تو آپ پر بادل سایہ کئے ہوئے تھا۔ جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو آپ نے دیکھا کہ لوگ درخت کے سایہ میں بیٹھ چکے تھے۔ جب آپ بیٹھے تو سایہ نے ادھر ہی رخ کر لیا۔ راہب یہ دیکھ کر بولا۔ دیکھو سایہ ادھر ہی ہو گیا ہے۔ ابھی وہ درمیان میں کھڑا انہیں قسمیں دے رہا تھا کہ اس بچے کو روم نہ لے جاؤ۔ کیونکہ اگر رومی اسے دیکھیں گے تو اسے صفات سے پہچان لیں گے اور اسے قتل کر دیں گے۔
اچانک روم کی جانب سے سات آدمی آتے نظر آئے۔ وہ ان کی جانب متوجہ ہوا۔ اور ان سے دریافت کیا کس لئے آئے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہونے والا نبی اس شہر میں آیا ہے۔ لہٰذا ہر طرف آدمی اس کی تلاش میں روانہ کئے گئے ہیں۔ ہمیں اس کی آمد کی یہاں خبر ملی تھی تو ہمیں اس جانب روانہ کیا گیا۔ اس نے سوال کیا کہ کیا تمہارے پیچھے تم سے بہتر کوئی فرد نہیں ہے۔ وہ بولے ہمیں تو اس راہ کی جانب بھیجا گیا تھا۔ اس نے سوال کیا اگر اللہ کسی کام کے کرنے کا ارادہ کر لے کیا کوئی شخص اسے روک سکتا ہے؟ وہ بولے ہیں۔ راہب نے کہا اچھا تو لوٹ جاؤ۔ اور خود بھی ان کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ اور جاتے جاتے بولا۔ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ اس کا ولی کون ہے۔ ابو طالب نے کہا میں۔ وہ ابو طالب کو قسمیں دیتا رہا۔ حتی کہ ابوطالب نے آپ کو مکہ لوٹا دیا۔ اور آپ کے ساتھ ابوبکر اور بلال کو بھیج دیا۔ اس راہب نے آپ کے زادراہ کے لئے کیک اور زیتون د یا۔

ترمذی کہتے ہیں یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور ہمیں اس سند کے علاوہ اس کی کوئی اور سند معلوم نہیں۔ [ترمذي كتاب المناقب، باب ماجاء فى بدعا النبوة رقم الحديث 3620 ]

 

تحقیق الحدیث :

حقیقت یہ ہے کہ یہ روایت نا قابل اعتبار ہے۔ اس روایت کے جس قدر طر یقے ہیں وہ سب مرسل ہیں یعنی راوی اول واقعہ کے وقت خود موجود نہ تھا۔ اور اس راوی کا نام بیان نہیں کرتا جو شریک واقعہ تھا۔
اس روایت کا سب سے مستند طر یقہ وہ ہے جو ترمذی میں مذکور ہے۔ اس سے متعلق تین باتیں قابل لحاظ ہیں۔
➊ ترمذی نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے کہ یہ حسن غریب ہے۔ اور ہم اس حدیث کو اس طریقہ کے علاوہ کسی اور طریقے سے نہیں جانتے۔ حسن کا مرتبہ صحیح سے کم ہوتا ہے۔ اور جب غریب بھی ہو تو اس کا رتبہ اورگھٹ جاتا ہے۔
➋ اس حدیث کا ایک راوی عبد الرحمان بن غزوان ہے۔ اس کو بہت سے لوگوں نے اگرچہ ثقہ بھی کہا ہے۔ لیکن اکثر اہل فن نے اس کی نسبت سے بے اعتباری ظاہر کی ہے۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ عبدالرحمان منکر حدیثیں بیان کرتا ہے۔ جن میں سب سے بڑھ کر منکر روایت وہ ہے۔ جی میں بحیرا کا واقعہ مذکور ہے۔
➌ حاکم نے مستدرک میں اس روایت کی نسبت لکھا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط کے مطابق ہے۔ لیکن علامہ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں حاکم کا یہ قول نقل کر کے لکھا ہے کہ میں اس حدیث کے بعض واقعات کو موضوع، جھوٹا اور بنایا ہوا خیال کرتا ہوں۔
➍ اسی روایت میں مذکور ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی اس سفر میں شریک تھے۔ حالانکہ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کا وجود ہی نہ تھا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بچے تھے۔
➎ اس روایت کے آخری راوی حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہیں وہ شریک واقعہ نہ تھے۔ اور اوپر کے راوی کا نام نہیں بتاتے۔ ترمذی کے علاوہ طبقات ابن سعد میں جو سلسلہ سند مذکور ہے وہ مرسل یا معضل ہے۔ یعنی جوروایت مرسل ہے اس میں تابعی جو ظاہر ہے کہ شریک واقعہ نہیں ہے کسی صحابی کا نام نہیں لیتا ہے اور جو روایت معضل ہے۔ اس میں راوی اپنے اوپر کے دو راوی جو تابعی اورصحابی میں ان کا نام نہیں لیتا ہے۔
➏ حافظ ابن حجر روایت پرستی کی بناء پر اس حدیث کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن چونکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کی شرکت بداہتہ غلط ہے۔ اس لئے مجبوراً اقرار کرتے ہیں کہ اس قدر حصہ غلط ہے۔ جو غلطی سے روایت میں شامل ہو گیا ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر کا یہ دعویٰ بھی صحیح نہیں کہ اس روایت کے تمام روات قابل سند ہیں۔ عبد الرحمان بن غزوان کی نسبت خود ان ہی حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں لکھا ہے کہ وہ خطا کرتا تھا۔ اس کی طرف سے اس وجہ سے بھی شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے ممالیک کی روایت نقل کی ہے۔ ممالیک کی ایک روایت ہے جس کو محدثین جھوٹ اور موضوع خیال کرتے ہیں۔ [ سيرت النبى ص 180 ج1 ]

 

تحقیق الحدیث :

یہ روایت اختصار اور تفصیل کے ساتھ سیرت کی اکثر کتابوں میں اور بعض حدیثوں میں مذکور ہے۔ مگر ابن اسحاق اور ابن سعد وغیرہ کتب سیر میں اس سے متعلق جس قدر روایتیں ہیں ان سب کے سلسلہ کمزور اور ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اس قصہ کا اس سب سے محفوظ طریقہ سند وہ ہے جس میں عبدالرحمان بن غزوان جو ابو نوح قراد کے نام سے مشہور ہے یونس بن ابی اسحاق سے اور وہ ابوبکر بن ابی موسیٰ سے اور وہ اپنے باپ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے اس کی روایت کرتے ہیں۔
یہ قصہ اس سلسلہ سند کے ساتھ جامع ترمذی، مستدرک حاکم، مصنف ابن ابی شیبہ دلائل بیہقی اور دلائل ابی نعیم میں مذکور ہے۔
ترمذی نے اس کو حسن غریب اور حاکم نے صحیح کہا ہے۔
استاذ مرحوم نے سیرت کی پہلی جلد طبع اول ص 130، طبع دوم 168 میں اس روایت پر پوری تنقید کی ہے۔
اور عبدالرحمان بن غزوان کو اس سلسلہ میں مجروح قرار دیا ہے۔
اور حافظ ذہبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ اس روایت کو موضوع سمجھتے ہیں۔
➊ سب سے اول یہ کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ مسلمان ہو کر 7ھ میں مدینہ آئے تھے۔ اور یہ واقعہ اس سے پچاس برس پہلے کا ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نہ تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے اور نہ کسی اور شر یک واقعہ کی زبان سے اپنا سننا بیان کرتے ہیں۔ اس لئے یہ روایت مرسل ہے۔
➋ اس واقعہ کو حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے ان کے صاحبزادے ابوبکر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں مگر ان کی نسبت کلام ہے کہ انہوں نے اپنے باپ سے کوئی روایت سنی بھی ہے یا نہیں۔ چنانچہ ناقدین فن کو اس باب میں بہت کچھ شک ہے۔ امام احمد بن حنبل نے تو اس سے قطعی انکار کیا ہے۔ بنابریں یہ روایت منقطع ہے۔ اس کے سوا ابن سعد نے لکھا ہے کہ وہ ضعیف سمجھے جاتے ہیں۔
➌ ابو بکر سے یونس بن ابی اسحاق اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں۔ گو متعدد محدثین نے ان کی توثیق کی ہے۔ تاہم عام فیصلہ یہ ہے کہ ضعیف ہیں۔یحییٰ کہتے ہیں کہ ان میں سخت بے پروائی تھی۔ شعبہ نے ان پر تدلیس کا الزام قائم کیا ہے۔ امام احمد ان کی اپنے باپ سے روایت کو ضعیف اور عام روایتوں کو مضطرب اور ایسی ویسی کہتے ہیں۔ ابو حاتم کی رائے ہے کہ گو وہ راست گو ہیں لیکن ان کی اپنے باپ سے حدیث حجت نہیں۔ ساجی کا قول ہے کہ وہ سچے ہیں۔ اور بعض محدثین نے ان کو ضعیف کہا ہے۔ ابو حاکم کا بیان ہے کہ ان کو اکثر اپنی روایتوں میں وہم ہو جاتا تھا۔
➍ چوتھا راوی عبد الرحمان بن غزوان ہے۔ جس کا نام مستدرک اور ابونعیم میں ابو نوح قراد ہے۔ اس کو اگرچہ بہت سے لوگوں نے ثقہ کہا ہے۔ تاہم وہ متعدد منکر روایتوں کا راوی ہے۔ ممالیک والی جھوئی حدیث اسی نے روایت کی ہے۔ ابو احمد حاکم کا بیان ہے کہ اس نے امام لیث سے ایک منکر روایت نقل کی ہے۔ ابن حبان نے لکھا ہے کہ وہ غلطیاں کرتا تھا۔ اور امام مالک اور لیث کی طرف سے ممالیک والی حدیث نقل کرنے کی وجہ سے اس کی طرف سے دل میں خلجان ہے۔
➎ حافظ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں کہ عبد الرحمان بن غزوان کی منکر روایتوں میں سب سے زیادہ منکر بحیرا راہب کا قصہ ہے۔ اس قصہ کے غلط ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اس کی روایت میں ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بلال رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کہ دیا۔ حالانکہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت بچے تھے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ پیدا بھی نہ ہوئے تھے۔
➏ حاکم نے مستدرک میں اس واقعہ کو نقل کر کے لکھا ہے کہ یہ بخاری و مسلم کی شرط کے مطابق ہے۔ حافظ ذہبی مستدرک کی تلخیص میں لکھتے ہیں کہ میں اس روایت کو بنایا ہوا خیال کرتا ہوں، کیونکہ اس میں بعض واقعات غلط ہیں۔
➐ امام بیہقی اس کی صحت کو صرف اس قدر تسلیم کرتے ہیں کہ یہ قصہ اہل سیر میں مشہور ہے۔ سیوطی نے خصائص میں امام موصوف کے اس فقرہ سے یہ سمجھا ہے کہ وہ بھی اس کے ضعف کے قائل ہیں۔ اس لئے اصل روایت میں ابن سعد وغیرہ سے چند اور سلسلے نقل کئے ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی محفوظ نہیں۔
➑ اسی طرح اس روایت میں اضطراب بھی ہے وہ یہ کہ کسی روایت میں ہے کہ ابو طالب نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ واپس کر دیا اور کسی روایت میں ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو واپس کر دیا۔

اس تحریر کو اب تک 97 بار پڑھا جا چکا ہے۔