حضورﷺ دعا کریں اللہ مجھے خوب مال دے تاکہ میں سخاوت کروں

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعا کریں اللہ مجھے خوب مال دے تاکہ میں سخاوت کروں، ثعلبہ بن حاطب کے مشہور واقعہ کی حقیقت
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ثعلبہ بن حاطب انصاری نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لیے مالداری کی دعا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تھوڑا جس کا شکر ادا ہو اس سے بہت اچھا ہے جو اپنی طاقت سے زیادہ ہو۔ اس نے پھر دوبارہ یہی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایا کہ تو اپنا حال اللہ تعالیٰ کے نبی جیسا رکھنا پسند نہیں کرتا ؟ والله ! اگر میں چاہتا تو یہ پہاڑ سونے چاندی کے بن کر میرے ساتھ چلتے۔ اس نے کہا حضور ! اللہ کی قسم ! میرا ارادہ ہے کہ اگر الله تعالیٰ مجھے مالدار کر دے تو میں خوب سخاوت کی داد دوں ہر ایک کو اس کا حق ادا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے مال کی برکت کی دعا کی۔ اس کی بکریوں میں اس طرح زیادتی شروع ہوئی جیسے کیڑے بڑھ رہے ہوں۔ یہاں تک کہ مدینہ منورہ اس کے جانوروں کے لیے تنگ ہو گیا یہ ایک میدان میں نکل گیا ظہر و عصر تو جماعت کے ساتھ ادا کرتا تھا باقی نمازیں جماعت سے نہیں ملتی تھیں۔ جانوروں میں اور برکت ہوئی اس سے اور دور جانا پڑا۔ اب سوائے جمعہ کے اور سب جماعتیں چھوٹ گئیں، مال اور بڑھتا گیا ہفتے کے بعد جمعہ کے لیے آنا بھی اس نے چھوڑ دیا۔ آنے جانے والے قافلوں سے پوچھ لیا کرتا تھا کہ جمعہ کے دن کیا بیان ہوا؟
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حال دریافت کیا۔ لوگوں نے سب کچھ بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہار افسوس کیا ادھر آیت اتری کہ ان کے مال سے صدقہ لے کر صدقے کے احکام بھی بیان ہوئے۔ آپ نے دو شخصوں کو جن میں ایک قبیلہ جہینہ کا اور دوسرا قبیلہ سلیم کا تھا انھیں تحصیل دار بنا کر صدقہ لینے کے احکام لکھ کر انہیں پروانہ دے کر بھیجا اور فرمایا کہ ثعلبہ سے اور فلانے بنی سلیم سے صدقہ لے آؤ۔ یہ دونوں ثعلبہ کے پاس پہنچے فرمان پیغمبر دکھایا، صدقہ طلب کیا، تو وہ کہنے لگا، واہ واہ! یہ تو جزیے کی بہن ہے، تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کافروں سے جزیہ لیا جاتا ہے، یہ کیا بات ہے؟ اچھا اب تو جاؤ، لوٹتے ہوئے آنا۔ دوسرا شخص سلمی جو تھا اسے جب معلوم ہوا تو اس نے اپنے بہترین جانور نکالے اور انھیں لے کر خود ہی آگے بڑھا۔ انھوں نے ان جانوروں کو دیکھ کر کہا : نہ تو یہ ہمارے لینے کے لائق نہ تجھ پر ان کا دینا واجب۔ اس نے کہا : میں تو اپنی خوشی سے ہی بہترین جانور دینا چاہتا ہوں آپ انھیں قبول فرمائے۔ بالآخر انھوں نے لے لیے۔ اوروں سے بھی وصول کیا اور لو ٹتے ہوئے پھر ثعلبہ کے پاس آئے۔ اس نے کہا : ذرا مجھے وہ پرچہ تو پڑھاؤ جو تہمیں دیا گیا ہے پڑھ کر کہنے لگا بھی یہ تو صاف صاف جزیہ ہے کافروں پر جو ٹیکس مقرر کیا جاتا ہے، یہ تو بالکل وہی ہے، اچھا تم جاؤ میں سوچ سمجھ لوں۔ یہ واپس چلے گئے۔ انھیں دیکھتے ہی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثعلبہ پر اظہار افسوس کیا اور سلمی شخص کے لیے برکت کی دعا کی۔ اب انھوں نے بھی ثعلبہ اور سلمی دونوں کا واقعہ کہہ سنایا۔ پس اللہ تعالیٰ جل وعلا نے یہ آیت نازل فرمائی۔ ثعلبہ کے ایک قریبی رشتہ دار نے جب یہ سب کچھ سنا تو ثعلبہ سے جا کر یہ آیت بھی پڑھ سنائی۔ یہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور درخواست کی کہ اس کا صدقہ قبول کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الله تعالی نے مجھے تیرا صدقہ قبول کرنے سے منع کر دیا ہے۔ یہ اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ تو سب تیرا ہی کیا دھرا ہے۔ میں نے تو تجھے کہا تھا لیکن تو نہ مانا۔ یہ واپس اپنی جگہ چلا آیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال تک اس کی کوئی چیز قبول نہ فرمائی۔ پھر یہ خلافت صدیقی میں آیا اور کہنے لگا، میری جو عزت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی وہ اور میرا مرتبہ انصار میں ہے وہ آپ خوب جانتے ہیں آپ میرا صدقہ قبول فرمایے۔ آپ نے جواب دیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا تو میں کون؟ غرض آپ نے انکار کر دیا۔ جب آپ کا بھی انتقال ہو گیا اور امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے والی ہوئے تو پھر یہ آیا اور کہا کہ امیر المومنین آپ میرا صدقہ قبول فرمائیے۔ آپ نے جواب دیا کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول نہیں فرمایا، خلیفہ اول نے قبول نہیں فرمایا، تو اب میں کیسے قبول کر سکتا ہوں؟
چنانچہ آپ نے بھی اپنی خلافت کے زمانے میں اس کا صدقہ قبول نہیں فرمایا۔ پھر خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے سپرد ہوئی تو یہ ازلی منافق پھر آیا اور منت سماجت کرنے لگا لیکن آپ نے بھی میں جواب دیا کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں خلیفہ نے تیرا صدقہ قبول نہیں فرمایا، تو میں کیسے قبول کرلوں؟ چنانچہ قبول نہیں کیا اسی اثناء میں یہ شخص ہلاک ہو گیا۔

تحقیق الحدیث :

اسناده ضعیف۔
اس کی سندضيف ہے۔
[اخر حجمه الواحدي فى أسباب النزول 517، طبراني فى الكبير7873، طبري 17002، مجمع الزوائد للهيثمي 32/7 رقم الحديث 11047، و الاحاديث الأطوال رقم 20]
ہیثمی کہتے ہیں : اس میں علی بن یزید الالہانی راوی متروک ہے۔ اس کی سند ضعیف اور متن باطل ہے۔ سند میں مسلسل کئی راوی ضعیف ہیں۔

واقعہ کی مزید تحقیق :
اس کی مذید تحقیق ایک محقق نے کی ہے جو ہم اپنے قارئین کے لیے پیش کیے دیتے ہیں۔ لکھتے ہیں :
مفسر قرطبی سورت توبہ آیت : 78 کی تفسیر میں فرماتے ہیں : حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کا شان نزول یہ بیان کیا گیا ہے کہ حاطب بن ابی بلتعہ کا شام سے مال آ رہا تھا۔ اس کے پہنچنے میں کچھ دیر واقع ہوئی۔ انھوں نے انصار کی ایک مجلس میں قسم کھائی کہ اگر میرا مال صحیح سالم پہنچ گیا تو وہ اس مال میں سے صدقہ بھی کریں گے اور صلہ رحمی بھی کریں گے۔ جب وہ مال صحیح و سالم پہنچ گیا تو انھوں نے بخل سے کام لیا۔ اس پر یہ آیات نازل ہوئیں :
«وَمِنْهُم مَّنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِن فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ ‎ ﴿٧٥﴾ ‏ فَلَمَّا آتَاهُم مِّن فَضْلِهِ بَخِلُوا بِهِ وَتَوَلَّوا وَّهُم مُّعْرِضُونَ ‎ ﴿٧٦﴾ » [9-التوبة:76]
امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں حضرت ثعلبہ رضی اللہ عنہ بدری اور انصاری صحابی ہیں اور اہل بدر کے ایمان کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت دی ہے۔ ان سے جو یہ واقعہ روایت کیا گیا ہے یہ صحیح نہیں۔
ابوعمرو بن عبدابر بھی فرماتے ہیں : جس شخص نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ آیات ثعلبہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی کیونکہ انھوں نے زکوة دینے سے انکار کر دیا تھا۔ شاید یہ صحیح نہیں۔ «والله اعلم»
ضحاک مفسر کا قول ہے کہ یہ آیت ان تین منافقین میں سے ایک شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے نبتل بن الارث، جد بن قیس میں اور معتب بن قثیر [تفسير قرطبي، ج 4 ص 3048]
یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ امام قرطبی نے خود ہی اس واقعہ کو رد کر دیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نام سے یہ شاخصانہ چھیڑ دیا کہ یہ آیت حاطب بن بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی اور اس پر قرطبی نے کوئی کلام نہیں کیا۔ حالانکہ حضرت حاطب ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ بھی بدری صحابی ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ مہاجر ین مکہ میں داخل ہیں۔ اسے کہتے ہیں یک نہ شد دو شد. حالانکہ امام قرطبی کو چاہیے تھا کہ اس کا بھی رد کرتے۔
حیرت تو ابو عمرو بن عبدالبر پر ہے کہ وہ تردید بھی کر رہے ہیں تو شاید کہہ کر یعنی شاید صحیح بھی ہو سکتی ہے۔
عقلی طور پر تو مفسر قرطبی نے بھی اس واقع کو قبول نہیں کیا۔ لہٰذا ہم عقلی طور پر تو کوئی بحث چھیڑنا نہیں چاہتے۔
آیئے ہم ذرا سندی لحاظ سے بھی اس پر نظر ڈال لیں۔
امام قرطبی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ روایت علی بن زید نے قاسم سے نقل کی ہے اور قاسم نے حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ باہلی سے۔ تو آئیے ہم پہلے علی بن زید کے چہرے مہرے کو دیکھیں۔

علی بن زید :
اس کا پورا نسب نامہ یہ ہے۔ علی بن عبداللہ بن زیبر ابی ملیکتہ بن جرعان۔ ابو الحسن کنیت ہے قبیلہ قریش کی شاخ بنی تمیم سے تعلق رکھتا ہے۔ بصرہ میں سکونت پذیر تھا۔ مسلم، ابو داؤد،ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اس کی روایات نقل کی ہیں۔ اس کا شمار علماء تابعین میں ہوتا ہے۔
اس نے انس رضی اللہ عنہ ابو عثمان الہندی اور سعید بن المسیب سے احادیث روایت کی ہیں۔ اس سے شعبہ، عبد الوارث اور ایک جماعت نے احادیث روایت کی ہیں۔
اس علی بن زید کے بارے میں علماء حدیث کا اختلاف ہے۔
جریری کا بیان ہے کہ بصرے کے تین فقہاء کی اچانک بینائی جاتی رہی۔ قتادہ، اشعث الحدانی اور علی بن زید۔
منصور بن زاذان کا بیان ہے کہ جب حسن بصری کا انتقال ہوا تو ہم نے علی بن زید سے عرض کیا کہ اب آپ حسن کی مسند سنبھالیے۔
موسیٰ بن اسماعیل کہتے ہیں کہ میں نے حماد بن سلمہ دریافت کیا کہ وہیب کا دعوی ہے کہ علی بن زید حدیث کو یاد نہیں رکھ سکتے۔ حماد نے فرمایا : وہیب اتنی ہمت کہاں رکھتے ہیں کہ علی بن زید کے ساتھ بیٹھ سکیں۔ علی بن زید تو بڑے سے بڑے علماء کے رو برو بیٹھتے ہیں۔
شعبہ جب علی بن زید کی روایت بیان کرتے تو کہتے ہم سے علی بن زید نے اس وقت حدیث بیان کی تھی جبکہ اس کے دماغ نے جواب نہیں دیا تھا اور وہ پاگل نہیں ہوا تھا۔
امام سفیان بن عیینہ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔
حماد بن زید جب اس کی روایت بیان کرتے ہیں تو فرماتے ہیں ہم سے علی بن زید نے حدیث بیان کی اور وہ حدیث میں تبدیلیاں کرتا رہتا تھا۔
فلاس کا قول ہے کہ امام الر جان یحییٰ بن سعید القطان اس علی بن زید کی روایت سے دور بھاگتے تھے۔ امام یزید بن زریع سے منقول ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ علی بن زید رافضی تھا۔
امام احمد کا قول ہے : یہ ضعیف ہے۔
یحییٰ بن معین نے ایک بار فرمایا : یہ قوی نہیں اور ایک بار فرمایا کچھ نہیں۔
احمد العجلی کا بیان ہے کہ یہ شیعہ تھا۔ یہ قوی نہیں ہے۔ بخاری اور ابو حاتم فرماتے ہیں اس کی حدیث حجت نہیں ہو سکتی۔ لیکن اس کی روایت لکھ لی جائے۔ (یعنی بغرض تحقیق) کیونکہ یہ یزید بن ابی زیاد سے زیادہ بہتر ہے۔
فسوی کہتے ہیں : یہ بڑھاپے میں سٹھیا گیا تھا۔
ابن خزیمہ کہتے ہیں : میں اس کے حافظہ کی خرابی کے باعث اس کی حدیث کو حجت نہیں مانتا۔
ترمذی کہتے ہیں : یہ سچا ہے
دارقطنی کہتے ہیں میرے نزدیک یہ ہمیشہ ہی کمزور رہا۔
ابن عدی اور ذہبی نے اس کی متعدد روایات کو منکر قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال ج 3، ص 139، الجرح والتعديل ج2، ص186]
حاصل کلام یہ کہ علی بن زید سچا ہے لیکن آخر عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا۔ اس کا شروع ہی سے حافظہ خراب تھا۔ اس کی حدیث حجت نہیں۔ یہ ضعیف ہے قوی نہیں۔ یہ کچھ نہیں۔ یہ حدیث میں تبدیلیاں کیا کرتا تھا۔ اس کی روایات منکر ہوتی ہیں، یہ شیعہ ہے، رافضی ہے۔
قاسم بن عبد الرحمن:
یہ شخص صاحب ابی امام یعنی ابو امامہ رضی اللہ عنہ صحابی کے ساتھی کے لقب سے مشہور ہے۔ اس کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے، دمشق کا باشندہ ہے۔ آل معاویہ کا غلام تھا۔
امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : علی بن زید جرعان نے اس سے عجیب و غریب روایات نقل کی ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ سب داستانیں قاسم نے تیار کی ہیں۔ [الجرح والتعديل ج 7، ص 113]
ابن حبان کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے یہ معضل روایات نقل کرتا ہے۔
معضل اصطلاح حدیث میں اس روایت کو کہتے ہیں جس کی سند میں سے دو راوی گرا دیے جائیں۔ یعنی جب کسی صحابی سے روایت نقل کرتا ہے تو درمیان سے دو راوی گرا کر صحابی کی جانب منسوب کرتا ہے۔ جس سے لوگوں کو یہ گمان پیدا ہوتا ہے کہ اس نے اس صحابہ سے خود حدیث سنی ہے۔
اثوم کا بیان ہے کہ ابوعبدالله (غالبا بخاری) کے روبر اس قاسم کی ایک روایت بیان کی گئی تو ابو عبداللہ نے اسے منکر قرار دیا اور فرمایا ہے اس نے خود تیار کی ہوگی۔ یعنی اپنی خانگی فیکٹری میں۔
ابن حبان فرماتے ہیں : یہ قاسم صاحب دعوی کرتے تھے کہ اس نے چالیس بدری صحابہ سے ملاقا ت کی ہے۔ حالانکہ یہ عام صحابہ سے بھی جو روایات نقل کرتا ہے۔ دو سب معضل ہوتی ہیں اور روایات میں تبدیلیاں کر کے ثقہ راویوں کی جانب منسوب کرتا ہے اور میرا دل تو یہ کہتا ہے کہ یہ سب روایات خود اس کی تیار کردہ ہوتی ہیں۔
جوزجانی کہتے ہیں : یہ بہت نیک اور فاضل شخص تھا۔
ترندی کا قول ہے : یہ ثقہ ہے۔
جابر بن یزید کا بیان ہے کہ میں نے قاسم ابو عبدالرحمن سے افضل کوئی شخص نہیں دیکھا۔ ہم قسطنطنیہ میں تھے۔ لوگوں کو بطور روزینہ یومیہ دو روٹیاں ملتی تھیں۔ یہ ایک روٹی صدقہ کر دیا اور روزہ رکھتا اور ایک روٹی سے افطار کرتا۔ [ميزان الاعتدال ج3، ح 736]
حدیث کے معاملہ میں نیکی کوئی خاص کام نہیں آتی بلکہ امام یحییٰ بن سعید القطان تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ ہم نے ان نیک لوگوں سے زیادہ حدیث میں جھوٹا کوئی انسان نہیں دیکھا۔
اور ویسے بھی اس کی نیکی کا ڈھنڈورہ پیٹنے والا جابر بن یزید جیسا بزرگ ہے۔ یہ وہی بزرگ ہے جس کے بارے میں ترمذی نے کتاب العلل میں امام ابوحنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے۔
« مارايت اكذب من جابر الجعفي كان يومن بالرجعة »
میں نے جابر جعفی سے زیادہ جھوٹا کوئی شخص نہیں دیکھا۔ وہ دنیا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوبارہ آمد پر ایمان رکھتا تھا۔
یہ جابر اس پر ایمان رکھتا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے اور بادلوں سے اڑن کھٹولے مں اڑتے پھرتے ہیں۔
یہ وہی جناب جابر ہیں جس کا قول امام مسلم نے اپنے مقدمہ میں نقل کیا ہے کہ یہ کہا کرتا تھا کہ میرے پاس امام باقر کی ستر ہزار احادیث ہیں اور میں نے ان میں سے آج تک ایک بھی بیان نہیں کی۔
——————

اس تحریر کو اب تک 24 بار پڑھا جا چکا ہے۔