واقعہ ایک صحابی اور اس کی بیوی کا جن کے پاس ایک ہی چادر تھی

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

قرآن کی آیت یا یها الذين آمنوا ان جاء کم فاسق بنبا… الخ کے ضمن میں حارث الخزاعی کا قصہ
اکثر مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں قبیلہ بنو مصطلق سے زکوة لینے کے لیے بھیجا تھا۔ چنانچہ مسند احمد میں ہے حضرت حارث بن ضرار خزاعی رضی اللہ عنہ جو ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے والد ہیں فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ نے زکوة کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم میں جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوۃ ادا کریں میں ان کی زکوة جمع کرتا ہوں اتنے اتنے دنوں کے بعد آپ میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیجیے میں اس کے ہاتھ جمع شده مال زکوة آپ کی خدمت میں بجھوا دوں گا۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر یہی کیا مال زکوۃ جمع کیا، جب وقت مقرر گزر چکا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وعدے کے مطابق اپنا کوئی آدمی نہ بھیجیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے ناراض نہ ہو گئے ہیں ؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مال زکوة لے جانے کے لیے نہ بھیجا ہو اگر آپ لوگ متفق ہوں تو تم اس مال کو لے کر خود ہی مد ینہ شریف چلیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیں، یہ تجویز طے ہو گئی اور یہ حضرات اپنا مال زکوة ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے ادھر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے، لیکن یہ حضرات راستے ہی میں سے ڈر کے مارے لوٹ آئے اور یہاں آ کر کہا کہ حارث نے زکوة کو بھی روک لیا اور میرے قتل کے در پے ہو گیا۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور کچھ دی حارث کی تنبیہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مدینہ کے قریب ہی راستے ہی میں اس مختصر سے لشکر نے حارث عنہ کو پا لیا اور گھیر لیا۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے پوچھا : آخر کیا بات ہے؟ تم کہاں اور کسی کے پاس جا رہے ہو؟ انھوں نے کہا ہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں۔ پوچھا کیوں؟ کہا اس لیے کہ تو نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد ولید رضی اللہ عنہ کو زکوة نہ دی بلکہ انھیں قتل کرنا چاہا۔ حضرت حارث رضی اللہ عنہ نے کہا : قسم ہے اس اللہ کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے اسے دیکھا نہ وہ میرے پاس آیا، چلو میں تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہاں آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو نے زکوة کو بھی روک لیا اور میرے آدمی کو بھی قتل کرنا چاہا۔ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں، یا رسول الله قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے نہ میں نے انھیں دیکھا نہ وہ میرے پاس آئے۔ بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا تو میں خود حاضر خدمت ہوا، اس پر یہ آیت «حكيم » تک نازل ہوئی۔
طبرانی میں یہ بھی ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد حضرت حارث رضی اللہ عنہ کی بستی کے پاس پہنچا تو یہ لوگ خوش ہو کر اس کے استقبال کے لیے خاص تیاری کر کے نکلے اور ان کے دل میں یہ شیطانی خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لیے آ رہے ہیں تو لوٹ کر واپس چلے آئے، انھوں نے جب یہ دیکھا کہ آپ کے قاصد واپس چلے گئے اور خود ہی حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد صف بستہ ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے زکوۃ وصول کرنے کے لیے اپنے آدمی کو بھیجا ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ہم بے حد خوش ہوئے لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ راستے میں سے ہی لوٹ گئے تو اس خوف سے کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو ہم حاضر ہوئے ہیں۔ اسی طرح وہ عذر معذرت کرتے رہے عصر کی اذان جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی، اور روایت میں ہے کہ حضرت ولید رضی اللہ عنہ کی اس خبر پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ آدمی ان کی طرف بھیجیں جو ان کا وفد آ گیا اور انھوں نے کہا آپ کا قاصد آدھے راستے سے ہی لوٹ گیا تو ہم نے خیال کیا کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بناء پر انھیں واپسی کا حکم بھیج دیا ہو گا اس لیے حاضر ہوئے ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ پس اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری اور اس کا عذر سچا بتایا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مسند احمد 279/4 حديث رقم 18650 طبراني فى الكبير رقم 3395 بجمع الزوائد 109/7 رقم الحديث 11352]
اسی طرح کی روایت (طبری 383/1) رقم (31685) میں ہے اس میں موسی بن عبید الربذی راوی ضعیف ہے۔ طبری کی اس کے بعد
والی روایت میں عطیہ بن سعد عوفی راوی ضعیف ہے۔
——————

واقعہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ اور اس کی بیوی کا جن کے پاس ایک ہی چادر تھی
اپنے خطبات میں بیان کرتے ہیں۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے کہ وہ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد فورا گھر چلے جاتے تھے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! یہ روزانہ ہی جلدی جلدی گھر چلے جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تو وہ صحابی رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ میرے پاس اور میری بیوی کے پاس صرف ایک چادر ہے جس میں میں اور میری بیوی نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ چادر لے کر مسجد میں آ جاتا ہوں تو میری بیوی گھر میں برہنہ حالت میں بیٹھی رہتی ہے اس لیے میں مغرب کے وقت جلدی جلدی گھر چلا جاتا ہوں کیونکہ اس نماز کا وقت کم ہوتا ہے جب میں جاتا ہوں تو یہ چادر اپنی بیوی کو دیتا ہوں پھر وہ اس میں نماز ادا کرتی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر کوئی جنتی جوڑا دیکھنا چاہتا ہے تو اس جوڑے کو دیکھ لے۔ پھر آپ نے انھیں اونٹ دیے، جب وہ گھر پنچ تو ان کی بیوی نے کہا مجھے ساتھ رکھ لیں یا اونٹوں کو پاس رکھ لیں انھوں نے اونٹ واپس کر دیے اور بیوی کو اپنے ساتھ رکھ لیا، اس واقعے کو قاری عبد الحفیظ فیصل آبادی نے اپنی کیسٹ میں بیان کیا ہے۔
تحقیق الحدیث :
اس روایت کی کوئی سند یا ثبوت ہمیں کسی کتاب میں نہیں ملا۔ روایت الفاظ اور قصے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موضوع اور بے اصل روایت ہے۔
——————

خاوند اور بیوی کے درمیان مدت جدائی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب واقعہ کی حقیقت
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ عموما فقہاء کرام ذکر کیا کرتے ہیں جو یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ راتوں کو مدینہ شریف کی گلیوں میں گشت لگاتے رہتے، ایک رات کو نکلے تو آپ نے سنا کہ ایک عورت اپنے سفر میں گئے ہوئے خاوند کی یاد میں کچھ اشعار پڑھ رہی ہے جن کا ترجمہ یہ ہے افسوس! ان کالی کالی اور لمبی راتوں میں میرا خاوند نہیں، جس سے میں ہنسوں، بولوں اللہ کی قسم ! اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس وقت اس پلنگ کے پائے حرکت میں ہوتے، آپ اپنی صاحبزادی ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور فرمایا : بتاؤ زیادہ سے زیادہ عورت اپنے خاوند کی جدائی پر کتنی مدت صبر کر سکتی ہے؟ فرمایا : چھ مہینے یا چار مہینے آپ نے فرمایا : اب میں حکم جاری کر دوں گا کہ مسلمان مجاہد سفر میں اس سے زیادہ نہ ٹہریں بعض روایتوں میں کچھ زیادتی بھی ہے اور اس کی بہت کی سندیں ہیں اور یہ واقعہ مشہور ہے۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ تفسیر ابن کثیر، تفسير سورة بقرة أبت (227) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کو مؤطا امام مالک کی طرف منسوب کیا ہے مگر یہ اس میں نہیں مل سکا۔ نیز یہ عمرو بن دینار حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں جبکہ عمرو بن دینار کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا قات ثابت نہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں اس کی بہت سی سندیں ہیں مگر یہ سب اسناد ضعیف ہیں۔ غرض کہ یہ قصہ یا حسن سند سے ثابت نہیں بلکہ ضعیف ہے۔
——————

قیامت کے دن اللہ تعالی سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مصافحہ کرے گا
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حق تعالی (اللہ رب العزت) قیامت کے دن جس شخص سے سب سے پہلے مصافحہ کرے گا اور سب سے پہلے جس کو سلام کہے گا اور سب سے پہلے جس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کرے گا وہ سیدنا عر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف جدا۔
اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ [اخرجه ابن ماجه، كتاب السنة، باب فضل عمر حديث رقم 104]
شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں «منكر جدا» [سلسلة الأحاديث الضعيفه 2485]
بوصیری کہتے ہیں اس میں داؤد بن عطاء المدینی راوی سے ضعف پر اجماع ہے۔ حافظ ابن جبر رحمہ اللہ نے اس کو تقریب التہذیب میں ضعیف کہا ہے۔ [ظلال الجنة فى تخريج السنة حديث رقم 1245]
یاد رہے یہروایت اپنی تمام اسناد کے ساتھ ضعیف ہے، نہ ہی اس کی کوئی مؤید روایت صحیح ہے۔ [مستدرك حاكم 83/3 حديث رقم 4489]
ذہبی کہتے ہیں من گھڑت روایت ہے اس میں ایک راوی کذاب ہے۔ [كنز العمال 578/11]
——————

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام پر فرشتوں کی خوشی
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ جس وقت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو جبر یل علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا : اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر آسمانوں کے فرشتوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعيف جدا
اس کی سند سخت ضعیف سے۔ [اخرجه ابن ماجه، كتاب السنة، باب فضل عمر: حديث رقم 103]
بوصیری کہتے ہیں اس میں عبد الله بن خراش راوی کے ضعف پر اتفاق ہے سوائے ابن حبان کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں یہ روایت سخت ضعیف ہے۔ [مستدرك للحاكم 84/3]
ذہبی کہتے ہیں اس میں عبدالله بن خراش راوی کو دارقطنی نے ضعیف کہا ہے۔ [كنز العمال 1157/11 الاحسان 307/15]
——————

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نازیبا کلمات کہنے پر اپنے باپ ابوقحافہ کو تھیٹر ماردیا
سیوطی رحمہ اللہ کہتے ہیں امام ابن منذر نے ابن جریح سے بیان کیا ہے کہ ہمیں کسی نے یہ بتایا کہ ابوقحافہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نازیبا کلمات استعمال کئے،تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اسے زور سے تھپڑ رسید کیا اور وہ گر گیا پس اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرمایا : اے ابو بکر رضی اللہ عنہ کیا تو نے ایسا کیا ہے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی اللہ کی قسم ! اگر تلوار میر سے قریب پڑی ہوتی تو میں یقینا اسے مار دیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہیں اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں۔
«لا تجد قوما يو منون بالله ……………….. الخ » [المجادلة :22]
تحقیق الحدیث :
اسناده موضوع۔
اس کی سند من گھڑت ہے۔
تفسیر در منثور مذکورہ بالا آیت کی تحت۔ یہ واقعہ من گھٹرت ہے، اس کی سیوطی کے علاوہ قرطبی وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے مگر کسی نے اس کی سند بیان نہیں کی ہماری جماعت کے قصہ گو واعظ بھی یہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔ دیکھیں [خطبات رباني ص 280۔]
——————

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت حسین کی خبر اور کربلا کی مٹی
ذہبی میزان الاعتدال میں حماد بن سلمہ، عن ابان، عن شهر بن حوشب، عن حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ حضرت جبرائیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور حسین رضی اللہ عنہ تو میرے پاس تھے۔ وہ رونے لگے۔ میں نے انھیں چھوڑ دیا۔ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے گئے۔ حضرت جبرایل علیہ السلام نے فرمایا: اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا تم اس سے محبت کرتے ہو؟ آپ نے جواب دیا ہاں۔ انھوں نے فرمایا میری امت امت قتل کرے گی اور اگر آپ چاہیں تو میں اس سرزمین کی مٹی لاکر آپ کو دکھا دوں جہاں یہ قتل کیے جائیں گے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے وہ مٹی دیکھی تو وہ کربلا کی مٹی تھی۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [ميزان الاعتدال 123/1 اخرجه أحمد فى فضائل صحابه جلد 2 ص 782۔]
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا چونکہ ماہر طبقات الارض تھیں اس لیے وہ پہچانتی تھیں کہ کون سی مٹی کس سر زمین کی ہے خواہ انھوں نے کبھی سر زمین عراق کا سفر بھی نہ کیا ہو۔ لیکن اگر وہ اس مٹی کو نہ پہچانتیں تو پھر یہ کہانی کیسے وجود میں آتی۔
ہاں ہم یہ ضرور سنتے اور پڑھتے آئے تھے کہ نبی کے علاوہ کسی انسان میں یہ قدرت نہیں کہ وہ کسی فرشتے کو دیکھ سکے۔ اگر فرشتہ انسانی صورت میں بھی آئے گا، تب بھی نبی کے علاوہ کسی کو یہ معلوم نہ ہو سکے گا کہ فرشتہ ہے۔ تاوقتیکہ وہ خود اس سے مطلع نہ کرے یا نبی اس کی اطلاع د ے۔ کجا کہ اس کا کلام سننا کیونکہ یہ غیر نبی کے لیے ممکن ہی نہیں۔
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی کہ جبرائیل تشریف فرما ہیں اور یہ مکالمہ ہو رہا ہے روایت کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ چشم دیدار واقعہ ہے جو اس کے جھوٹ ہونے کی ایک واضح دلیل ہے۔
امام ذہبی نے یہ کہانی ابان بن ابی عیاش کے ترجمہ میں نقل کی ہے۔ امام ذہبی نے اس ابان پر کیا تبصرہ کیا ہے۔ وہ بھی ملاحظہ کر لیجیے۔
ابان بن ابی عیاش :
اس کی کنیت ابو اسماعیل ہے۔ بصرہ کا باشندہ ہے۔ اس صونی دینار زاہد بھی کہا جاتا ہے۔ یہ چھوٹے درجہ کا تابعی ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں اس کا شمار ضعیف راویوں میں ہوتا ہے۔
امام شعبہ فرماتے ہیں اس کی روایت بیان کرنے سے بہتر تو یہ ہے کہ انسان گدھے کا پیشاب پی لے اور ایک بار فرمایا کہ اس کی روایت لینے سے بہتر یہ ہے کہ انسان زنا کرے (کیونکہ زنا سے عقیدہ تو خراب نہ ہو گا اور انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سر پر جھوٹ بولنے سے محفوظ رہے گا۔)
امام احمد اور یحییٰ بن معین کہتے ہیں یہ شخص متروک الحدیث ہے ابوعوانہ کہتے ہیں میں نے اس سے حسن بصری کی بہت سی روایات کی تھیں۔ لیکن اب میں ان کا بیان کرنا بھی حلال نہیں سمجھتا۔ جوزجانی کہتے ہیں یہ ساقط الاعتبار ہے۔ نسائی کہتے ہیں متروک ہے۔ ابن عدی لکھتے ہیں اس کی سب روایات منکر ہیں، ان منکرات میں سے ایک مذکورہ روایت بھی ہے۔
امام شعبہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ ابان بن ابی عیاش جھوٹ نہ بولتا ہو تو میرا گھر اور میری سواری مساکین کے لیے صدقہ ہے (یعنی اگر اس کا چھوٹا نہ ہونا ثابت ہو جائے) اگر مجھے لوگوں سے شرم محسوس نہ ہوتی تو میں اس کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھتا۔
یزید بن زریع فرماتے ہیں میں نے اس کی روایات ترک کر دی ہیں۔ امام سفیان ثوری فرماتے ہیں یہ حدیث میں بہت بھولتا ہے۔ یحییٰ بن سعید القطان اور عبد الرحمن بن مہدی اس کی روایات قبول نہ کرتے۔
علی بن المسر کا بیان ہے کہ میں نے اور حمزہ الزیات نے اس ابان سے سن کر پانچ سو احادیث لکھی تھیں۔ کچھ روز بعد میری حمزہ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ میں آپ کے رو برو ابان کی احادیث پڑھ رہا ہوں۔ آپ نے پانچ یا چھ احادیث کے علاوہ سب سے انکار کر دیا (گویا ایک فی صد صحیح کا حساب بنا۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ ورنہ بعد کے صوفیاء میں تو ایک فی صد کا حساب بھی نہیں بنتا۔)
احمد بن علی الابار کا بیان ہے کہ میں نے خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو آپ سے عرض کیا۔ کیا آپ ابان سے راضی ہیں؟ فرمایا نہیں۔
ابن حبان لکھتے ہیں کہ یہ بہت زاہد و متقی اور نیک انسان تھا۔ تمام رات نماز پڑھتا اور ہمیشہ روزہ رکھتا (گویا اپنے وقت کا قطب تھا) اس نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے چند روایات سنی تھیں اور حسن بصری کی مجلس میں شریک ہوتا۔ یہ اکثر اوقات حسن بصری کی ذاتی رائے اور قول کو حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ذریعہ پیش کرتا ہے حتی کہ خود بھی اسے اس کا احساس نہیں ہوتا۔ [تهذيب الكمال 48/1 تهذيب التهذيب 97/1 الكاشف 70/1 تاريخ البخاري الكبير 353/1 تاريخ البخاري الصغير 53/2 الجرح والتعديل 295/2]
دراقطنی لکھتے ہیں۔ اس ابان کے باپ کا نام فیروز ہے۔ بصرہ کا باشندہ ہے۔ متروک ہے الضعفاء والمتر وکین ص 94۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں ابان کی روایات کچھ نہیں، ابوزعہ کہتے ہیں کہ اس نے حضرت انس، شہر اور حسن بصری سے کچھ باتیں سنیں۔ لیکن اسے تو اتنی بھی تمیز نہیں کہ کون سا قول کس کا ہے۔ [الجرح والتعدیل ج 1 ص 296۔]
اس ابان نے اس کہانی کو شہر کی جانب منسوب کیا ہے۔ اس نے یہ روایت شہر سے کہاں سنی اور کب سنی؟ اس لیے کہ شہر دمشق کا باشندہ ہے اور ابان بصرہ کا رہنے والا ہے۔ ہمارے نزدیک تو یہ بھی اس کا ایک جھوٹ ہے۔ ویسے بھی شہر صاحب کوئی اچھی شہرت کے مالک ہیں۔

شهر بن حوشب :
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور اسماء بنت یزید بن السکی رضی اللہ عنہما سے احادیث روایت کرتا ہے۔
امام احمد فرماتے ہیں : یہ اسماء بنت یزید سے اچھی احادیث روایت کرتا ہے۔ (یعنی بقیہ بے کار ہوتی ہیں)۔
ابوحاتم فرماتے ہیں: یہ حجت نہیں۔ نسائی اور ابن عدی کہتے ہیں قوی نہیں۔ ابن عوان کہتے ہیں: محدثین نے اس سے روایت لینی ترک کر دی ہے۔ ابوبکر الکرنی کا بیان ہے کہ یہ بیت المال میں ملازم تھا اس نے اس میں سے چند در بم چرا لیے جس پر ایک شاعر سے اس کی مذمت من اشعار بھی کہے۔
دولابی کہتے ہیں: اس کی روایات دیگر لوگوں کی طرح نہیں ہوتیں۔ یہ جب روایات بیان کرتا ہے تو اس کی تفصیل کچھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ جیسے یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی لگام تھامے ساتھ موجود رہا ہو۔
فلاس کہتے ہیں کہ نہیں بن سعید اس سے روایت نہ لیتے۔ شعبہ نے بھی اس کی روایت ترک کر دی ہے عباد بین منصور کا بیان ہے کہ یہ میرے ساتھ حج کو گیا۔ اس نے میری تھیلی چرا لی۔ گویا یہ آدمی چور تھا۔
ابن عدی کہتے ہیں: شہر کی کوئی روایت حجت نہیں ہوتی اور نہ اس کی روایت کو دین سمجھ کر اختیار کیا جا سکتا ہے۔ [ميزان الاعتدال ج 2 ص 284۔]
یعنی اس کہانی کا اگر راوی صرف شہر ہی ہوتا تب بھی یہ ناقابل قبول ہوتی۔ لیکن اس کی سند میں تو ابان جیسا خطرناک انسان موجود ہے۔ تاہم ا ب اس روایت کے منکر ہونے میں کیا شک و شبہ ہو سکتا ہے؟
——————

یہودیوں کی جبریل علیہ السلام سے دشمنی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ
حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں یہودیوں کے مجمع میں کبھی کبھی چلا جایا کرتا تھا اور یہ کہتا رہتا تھا کہ کس طرح قرآن توراۃ اور توراۃ قرآن کی سچائی کی تصدیق کرتا ہے۔ یہودی بھی مجھ سے محبت ظاہر کرنے لگے اور اکثر بات چیت ہوا کرتی تھی۔ ایک دن میں ان سے باتیں کر ہی رہا تھا تو راستے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نکلے انھوں نے مجھ سے کہا : تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ جا رہے ہیں۔ میں نے کہا میں ان کے پاس جاتا ہوں، لیکن تم یہ تو بتاؤ تمھیں اللہ وحدہ کی قسم اللہ جل شانہ برحق کو مدنظر رکھو اس کی نعمتوں کا خیال کرو۔ اللہ تعالیٰ کی کتب تم میں موجود ہے رب کی قسم کھا کر بتاؤ کیا تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول نہیں مانتے؟ اب سب خاموش ہو گئے ان کے بڑے عالم نے جو ان سب میں علم میں بھی کامل تھا اور سب کا سردار بھی تھا اس نے کہا اس شخص نے اتنی سخت قسم دی ہے تم صاف اور سچا جواب کیوں نہیں دیتے ؟ انھوں نے کہا حضرت آپ ہی ہمارے بڑے ہیں ذرا آپ ہی جواب دیجیے۔ اس بڑے پادری نے کہا سنیے، جناب ! آپ نے زبردست قسم دی ہے لہٰذا سچ تو یہی ہے کہ ہم دل سے جانتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم الله تعالی کے سچے رسول ہیں۔
میں نے کہا : افسوس جب یہ جانتے ہو تو پھر مانتے کیوں نہیں کہا صرف اس وجہ سے کہ ان کے پاس آسمانی وحی لے کر آنے والے جبریل علیہ السلام ہیں جو نہایت سختی، تنگی، شدت، عذاب اور تکلیف کے فرشتے ہیں ہم ان کے اور وہ ہمارے دشمن ہیں اگر وحی لے کر حضرت میکائیل علیہ السلام آتے جو رحمت وافت تخفیف و راحت والے فرشتے ہیں تو ہمیں مانے میں تامل نہ ہوتا۔ میں نے کہا: اچھا بتاؤ تو ان دونوں کی اللہ کے نزدیک کیا قدر و منزل ہے؟ انھوں نے کہا: ایک تو جناب باری کے داہنے بازو کی طرف ہے اور دوسرا دوسری طرف، میں نے کہا :اللہ کی قسم جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو ان میں سے کسی کا دشمن ہو۔ اللہ کا بھی دشمن ہے اور دوسرا فرشتہ بھی کیونکہ جبریل کے دشمن
سے میکائیل دوستی نہیں رکھ سکتے اور میکائیل کا دشمن جبرئیل کا دوست نہیں ہو سکتا۔ نہ ان میں سے کسی ایک کا دشمن اللہ تبارک و تعالیٰ کا دوست ہو سکتا ہے نہ ان دونوں میں سے کوئی ایک باری تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر آ سکتا ہے نہ کوئی کام کر سکتا ہے۔ واللہ ! مجھے نہ تم سے لالچ ہے نہ خوف ہے۔ سنو جو خص الله تعالیٰ کا دشمن ہو اس کے فرشتوں اس کے رسولوں اور جبرئیل و میکائیل کا دشمن ہو تو اس کافر کا الله وحده لا شریک بھی دشمن ہے اتنا کہ کر میں چلا آیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا : اے ابن خطاب مجھ پر تازہ وحی نازل ہوئی ہے، میں نے کہا حضور سنایئے۔ آپ نے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔ میں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں یہی باتیں ابھی ابھی یہودیوں سے میری ہو رہی تھیں۔ میں تو چاہتا ہی تھا بلکہ اسی لیے حاضر خدمت ہوا تھا کہ آپ کو اطلاع کروں مگر میرے آنے سے پہلے لطیف وخبیر سننے دیکھنے والے اللہ نے آپ کو خبر پہنچا دی ملاحظہ ہو ابن ابی حاتم وغیرہ۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [تفسير ابن كثير، تفسير سوره بقره آيت 98]
اس کی دو سندیں ہیں دونوں شعبی تک جاتی ہیں جبکہ شعبی نے سیدنا عمر کا زمانہ نہیں پایا۔ اس لیے یہ منقطع روایت ہے۔ [تفسير الطبري 1611]
——————

اس تحریر کو اب تک 269 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply