مولی علی سے متعلق چند ضعیف روایات

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو حکومت نہیں مل سکتی
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو امیروں (کام) کا تذکرہ آیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی رائے زنی کرنی چاہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم نہ بولو اس لیے کہ یہ امارت نہ تمہارے لیے ہے اور نہ تمہاری اولاد کے لیے۔
[ميزان الاعتدال : 360/1 وذكره ابن الجوزي فى الموضوعات 98/3 وذكره السيوطي فى اللالي 227/1]
اس روایت کا راوی اسحاق بن یحیی بن طلحہ بن عبید اللہ ہے۔ یہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا پوتا ہے۔ اور حضرت طلہ رضی اللہ عنہ چونکہ جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لشکریوں کے ہاتھوں شہید ہوئے تھے۔ اس لیے اغلب گمان یہ ہے کہ ان کا یہ پوتا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ناراض معلوم ہوتا ہے۔ اور اپنے مافی الضمیر کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسو ب کر کے بیان کرنا چاہتا ہے۔
اسحق بن یحیی :
یحیی بن سعید القطان فرماتے ہیں یہ اسحاق کچھ نہیں۔ یحیی بن معین کا قول ہے کہ اس کی روایت نہ لکھی جائے۔ امام احمد اور نسائی کا قول ہے کہ یہ متروک ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ محدثین کو اس کے حافظہ میں کلام ہے۔
ابن حبان کتاب الثقات میں فرماتے ہیں اسحق کا انتقال خلافت مہدی میں ہوا ہے۔ یہ حدیث میں غلطیاں کرتا ہے۔ اور اس میں وہم کا مادہ بھی ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا تذکرہ ضعفا میں کیا ہے لیکن اگر وہ ایسی روایات پیش کرے جنہیں کوئی اور روایت نہ کرتا ہو تو وہ قابل قبول نہیں۔ اور اگر اسے دیگر لوگ بھی روایت کر رہے ہوں تو پھر اس کی روایت کوتسلیم کیا جائے گا۔ اور اتفاق سے اسے وہ تنہا روایت کر رہا ہے۔ اس لیے ابن عدی اور ذہبی نے اس کی اس روایت کو منکر قرار دیا ہے۔ [ميزان الاعتدال : ج 1، ص 204]
علماء حدیث کو اس کے حافظ میں کلام ہے۔ اس کی حدیث بطور یاداشت لکھ لی جائے۔ [تاريخ الصغير : 17]
نسائی لکھتے ہیں یہ اسحق متروک الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين للنسائي : 19]
لیکن ہمارے نزدیک یہ اسحاق ضرور ضعیف ہے۔ لیکن کذاب اور وضاع الحدیث نہیں۔
اس لیے یہ روایت خود اس کی وضع کردہ نہیں۔ بلکہ یہ روایت کسی نے گھڑ کر اس کی جانب منسو ب کی ہے۔ کیونکہ اس روایت کو اس اسحاق بن یحیی سے عثمان بن فائد نقل کر رہا ہے۔
عثمان بن فاند :
یہ اسحاق اس عثمان سے لاکھ درجہ بہتر ہے۔ ابن حبان کا بیان ہے کہ اس عثمان کی حدیث قطعا حجت نہیں۔ ذہبی نے اس کی ایک روایت نقل کر کے اسے موضوع قرار دیا ہے۔ اور کہا ہے یہ تمام آفت اس عثمان کی ڈھائی ہوئی ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ اس عثان سے سلیمان کے علاوہ کوئی نقل نہیں کرتا اور اس کی روایت پر اعتراض ہے۔ ذہبی نے اس کی متعدد روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔ یحیی بن معین کا بیان ہے یہ کچھ نہیں ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی عام روایات درست نہیں۔ [ميزان الاعتدال : ج 3، ص51]
——————

على رضی اللہ عنہ خلق الہی پر اللہ کی حجت ہے
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بیٹھا تھا۔ اچانک حضرت علی آگئے۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے انس رضی اللہ عنہ یہ کون ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ علی بن ابی طالب ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ارشاد فرمایا۔ اے انس رضی اللہ عنہ یہ خلق الہی پر اللہ کی حجت ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میری امت پر قیامت کے دن یہ حجت ہ گا۔ [ميزان الاعتدال للذهبي 446/6۔ و اخرجه ابن عدي فى الكامل ترجمه مطر بن ميمون]
سب سے بڑی حیرت تو اس پر ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ 93ھ تک حیات رہے اور مختلف امویوں کی بیعت کی۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہیں کی۔ یہ ان کی جانب سے اڑائی ہوئی ایک گپ ہے۔
ذہبی کا بیان ہے کہ یہ روایت باطل ہے۔ اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مطر بن میمون المحماربی الاسکاف نقل کر رہا ہے جسے مطر بن ابی مطر کہا جاتا ہے۔ امام ابو حاتم رحمہ اللہ رازی، بخاری اور نسائی کا بیان ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے۔ [ميزان الاعتدال : 445/6]
دارقطنی لکھتے ہیں متروک ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين ص 165 للدارقطني]
بخاری لکہتے ہیں مطر بن میمون نے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور عکرمہ سے روایات سنی ہیں۔ اس سے یونس بن بکیر روایات لیتا ہے منکر الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء الصغير : 110]
اس مطر نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے نام سے یہ روایت بھی وضع کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۲نے ارشاد فرمایا۔ علی رضی اللہ عنہ کے چہرے کی جانب دیکھنا عبادت ہے۔
اور یہ روایت کہ میرا بھائی اور میرا وزیر، میرے گھر والوں میں میرا خلیفہ اور جن لوگوں کو میں چھوڑ کر مروں گا میں سب سے بہتر علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ذہبی کا بیان ہے کہ ان سہ روایات کا وضاع مطر بن میمون ہے۔ [ذكره ابن حبان فى المجروحين 5/3 العقيلي فى الضعفاء 252/2 و ابن عراق فى تنزية الشريعة 353/1 و ابن جوزي فى الموضوعات 347/1 ميزان الاعتدال : 446/1]
ان روایات کے علاوہ ایک روایت ابن عدی اور ذہبی نے یہ بھی نقل کی ہے۔ کہ علی میرا بھائی ہے میرا ساتھی، میرے چچا کا بیٹا، اور میں اپنے بعد جن لوگوں کو چھوڑ کر جا رہا ہوں ان میں سب سے بہتر ہے جو میرا قرض ادا کرے گا اور میرا وعدہ پورا کرے گا۔ [ابن جوزي فى الموضوعات 378/1
ذكره الهندي فى الكنز 32907]

راوی کا بیان ہے کہ میں نے مطر سے دریافت کیا تم انس رضی اللہ عنہ سے کہاں ملے تھے۔ اس نے جواب دیا خریبہ میں
(بصرہ میں ایک جگہ ہے)۔
عبید اللہ بن موسی :
مطر سے یہ تمام کہانیاں نقل کرنے والا عبید اللہ بن موسی العسبی الکوفی ہے۔ اس سے تمام اصحاب صحاح نے روایت کی ہے۔ لیکن ماشاء اللہ بہت کٹر قسم کے رافضی تھے۔ ان کا حال پہلے بیان کیا جا چکا ہے۔
ہاں یہ بات ضرور ذہن میں رکھیں کہ عبید اللہ بن موسی سے یہ رام کہانی نقل کرنے والے علی بن مثنی علی بن سہل اور عبد الرحمن بن سراج ہیں، اور تینوں کے الفاظ جدا گانہ ہیں۔ جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عبد اللہ یا مطر بن ابی مطر نے کبھی کچھ کہا اور کبھی کچھ اور چونکہ قاعدہ یہ ہے کہ دودغ گورا حافظ نبا شد لہٰذا اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ عبید اللہ بھی صورت حال کا اندازہ کر کے الفاظ گھٹاتا بڑھا رہتا۔
——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں تھوک لگانا
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں تھوک کا سرمہ لگایا۔
[ميزان الاعتدال : 476/6 وذكر الحافظ فى اللسان]
معلی :
اس کا راوی معلی بن عرفان ہے جو اپنے چچا ابو وائل شقیق بن سلمہ سے روایت نقل کرتا ہے۔ شقیق اس کے چچا امام التابعین ہیں۔ وہ تو اس کذب و افتراسے بری ہیں۔ لیکن جہاں تک ان کے بھتیجے معلی کا تعلق ہے تو یحیی بن معین کا بیان ہے یہ کچھ نہیں۔ بخاری کا بیان ہے کہ یہ منکر الحدیث ہے۔ نسائی کا بیان کہ متروک ہے۔
ذہبی کا بیان ہے کہ یہ غالی شیعہ ہے اس نے شقیق سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جنگ صفین میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حاضر تھے۔ حالانکہ حضرت عبد اللہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات میں انتقال فرما چکے تھے۔ لہٰذا یہ روایت بھی اپنے وجود میں آنے سے قبل انتقال کر گئی تھی۔
بخاری لکھتے ہیں، معلی بن عرفان الاسدی الکوفی اپنے چچا شقیق سے روایات نقل کرتا ہے۔ منکر الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء الصغير ص : 110]
نسائی لکھتے ہیں، یہ معلی بن عرفان متروک الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفا والمتروكين، للنسائي، ص97]
دارقطنی لکھتے ہیں، یہ معلی بن عرفان کوفی ہے۔ ابو وائل یعنی شقیق سے روایات نقل کرتا ہے۔ متروک الحدیث ہے۔
[كتاب الضعفاء والمتروكين للدارقطني ص : 158]
محشی حاشیہ میں رقم طراز ہیں۔
حافظ لکھتے ہیں، تمام ناقدین حدیث کا اس کے کذب پر اتفاق ہے۔ یہ غالی قسم کا شیعہ تھا۔ صفحہ : 581
——————

اے اللہ ! علی رضی اللہ عنہ سے مدد طلب کر اور اس سے مدد کی خواہش کر
کدیرہ الہجری کا بیان ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کعبہ سے اپنی پشت لگائی، پھر فرمایا۔ اے لوگوں ! آؤ میں تم سے دو یا تین بیان کروں جو میں نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے چند کلمات کہے۔
”اے اللہ ! اس کی اعانت کر، اس سے اعانت کا خواہاں ہو۔ اس کی مدد کر اور اس سے مدد کا خواہاں ہو کیونکہ وہ تیرا بندہ اور تیرے رسول کا بھائی ہے۔“ [ميزان الاعتدال : 534/6 وذكره الحافظ فى اللسان۔ اخرجه الطبراني فى الكبير 122/12 ذكره الهندي فى الكنر 32954 ذكره السيوطي فى الجوامع 9741 ابن سعد فى الطبقات 49/1/2]
یعنی اللہ تعالیٰ جس کی مدد کرتا ہے اس سے امداد بھی طلب کرتا ہے۔ بہت خوب !
مہلہل عبدی :
اس روایت کو کدیرۃ الہجر ی سے نقل کر رہا ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ دونوں مجہول ہیں۔ اس روایت کے دونوں جملے قطعا کفریہ ہیں۔ ہم اس کفر سے مغفرت کے طلب گار ہیں۔
——————

قیامت کے دن سب سے اول علی رضی اللہ عنہ مجھ سے ملاقات کرینگے
لیلی غفاری کا بیان ہے کہ میں غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتی۔ زخمیوں کی دو دارو کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی۔ جب علی رضی اللہ عنہ بصرہ چلے تو میں ان کے ساتھ گئی تو میں نے عائشہ رضی اللہ عنہ کو کھڑے دیکھا (تن تنہا اور پیدل) تو میں ان کے پاس پہنچی۔ اور میں نے ان سے عرض کیا۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت نہیں سنی۔ انہوں نے جواب دیا ہاں میں نے سنی ہے۔
ایک بار علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے
بستر پر بیٹھے تھے۔ اور آپ ایک چادر اوڑھے تھے علی رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان بیٹھ گئے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں میں نے ان سے عرض کیا، آپ کو اس کے علاوہ کوئی کشادہ جگہ نہیں ملی۔ آپ نے ارشاد فرمایا۔ اے عائشہ رضی اللہ عنہ میرے بھائی کو چھوڑ دے۔ کیونکہ یہ لوگوں میں سب سے اول اسلام لایا۔ اور موت کے وقت سب سے آخری عہد اس سے ہوگا اور قیامت کے روز سب سے پہلے یہ مجھ سے ملاقات کرے گا۔ [ميزان الاعتدال : 556/6 و أخرجه العقيلي فى الضعفاء 166/4]
اس روایت کا راوی موسی بن القاسم ہے۔ بخاری کا بیان ہے یہ ایسی روایات نقل کرتا ہے۔ جو اور کوئی روایت نہیں کرتا۔ ذہبی کا بیان ہے کہ اس روایت کے تمام راوی مجہول ہیں۔
اس روایت کا پہلا راوی عبد السلام ابو الصلت ہے۔ جس پر وضع حدیث کا الزام ہے۔ ہمارے نزدیک یہ بھی ایک نہایت ہی نا مناسب بات ہے کہ میاں بیوی کے درمیان چچا زاد بھائی گھس کر بیٹھ جائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ رہ گیا وفات کے وقت کا عہد تو بخاری و مسلم میں تو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا، اے عائشہ رضی اللہ عنہا ! اپنے باپ ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بھائی کو بلالے تاکہ میں ان کے لیے خلافت لکھ دوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اٹھنا چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا بدن سہار نہ سکے۔ آپ نے ارشاد فرمایا رہنے دے کیونکہ اللہ اور مسلمان ابو بکر کے علاوہ کسی کو اختیار نہ کریں گے۔ غالبا یہ کہانی اسی حدیث صحیح کے جواب میں تیار کی گئی ہے۔
——————

علی رضی اللہ عنہ سے کیا عہد لیا گیا تھا ؟
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ علی رضی اللہ عنہ حق پر ہیں اور جو ان کی پیروی کرے وہ بھی حق پر ہے۔ اور جس نے انہیں چھوڑا اس نے ان کو چھوڑا یہ ایک ایسا عہد ہے جو اس سے قبل لیا گیا تھا۔ [ميزان الاعتدال : 556/9]
یہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی ذاتی رائے بیان کی جاتی ہے۔ بہت سے حضرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حق پر سمجھتے تھے ہو سکتا ہے کہ ام المومین بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حق پر سمجھتی ہوں۔ لیکن اس معاملہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یا اللہ کا کسی بات پر عہد لینا اس لیے ممکن نہیں کہ اگر ایسا ہوتا تو ہزارہا صحابہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کاساتھ دیتے۔ لیکن چند صحابہ کے علاوہ کسی نے ساتھ نہیں دیا جو اس روایت کے غلط ہونے کی دلیل ہے۔
موسی بن قیس :
اس روایت کا راوی موسی بن قیس ہے۔ یہ خود کو عصفور اجنہ (جنت کی چڑیا) کہا کرتا تھا۔ ابن جوزی کا بیان ہے کہ احادیث وضع کرتا عقیلی کا بیان ہے یہ غالی قسم کا رافضی تھا۔ اس نے ردی روایات بیان کی ہیں۔
[تقريب : 287/2۔ الجرح والتعديل : 703/8 تهذيب الكمال : 1392/3۔ تاريخ البخاري الكبير 293/7 الضعفاء الكبير 164/4]
مالک بن جعونہ :
اس روایت کا ایک اور راوی مالک بن جعونہ ہے جو حضرت ام سلمہ سے یہ روایت نقل کر رہا ہے۔ اور وہ قطعا مجہول ہے اور اس سے نقل کرنے والا عیاض بن عیاض بھی مجہول ہے۔

——————

قیامت کے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ جھنڈا اٹھائیں گے
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا کون اٹھائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو اسے دنیا میں اٹھاتا رہا۔ یعنی علی رضی اللہ عنہ
[ميزان الاعتدال : 5، 5/4 واخرجه ابن حبان فى المجروحين 54/3]
یہ بات تو اس وقت درست ہوتی جب کہ ہر غزوہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا ہوتا۔ لیکن خیبر کے قلعہ قموص کے علاوہ کسی وقت بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں جھنڈا نہیں رہا۔ ہاں جنگ احد میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا گیا۔ فتح مکہ کے وقت ابو عبیدہ زبیر بن العوام اور خالد بن الولید رضی اللہ عنہم علم بردار تھے۔ جنگ ذات السلاسل میں حضرت عمرو بن العاص علم بردار تھے۔ اگر فرض کرو راوی یہ کہتا کہ قیامت کے روز تمام وہ لوگ بالترتیب جھنڈے اٹھائیں گے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جھنڈے اٹھاتے رہے تو بات کچھ سوچنے کے قابل ہوتی۔
یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہر غزوہ میں کم از کم تین جھنڈے ہوتے ایک مہاجرین کا اور دو انصار کے، اس لحاظ سے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا اٹھانے والے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ بات درست نہیں۔
پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ ان افراد میں داخل ہیں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے انہیں صرف اس لیے یاد کیا جاتا ہے کہ وہ رافضیوں کے امام باقر کے استاد ہیں، لیکن پھر بھی ہماری سمجھ سے یہ باہر ہے کہ بوقت ضرورت اپنا کاروبار چمکانے کے لیے انہی حضرات کو جھوٹ بول کر پیش کیا جاتا ہے۔
ناصح بن عبد اللہ البجلی :
اس داستان کا راوی ناصح بن عبد اللہ الکوفی ہے۔ محدثین کا فتوی ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ بخاری کہتے ہیں منکر الحدیث ہے۔ نسائی کا بیان ہے ضعیف ہے۔ فلاس کا بیان ہے کہ یہ متروک ہے۔ یحیی بن معین کہتے ہیں یہ کچھ نہیں [ميزان الاعتدال : 4/7]
دارقطنی کا بیان ہے کہ ناصح بن عبد اللہ، اس کی کنیت ابو عبد اللہ ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔ سماک بن حرب سے روایات نقل کرتا ہے، متروک ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين للنسائي، ص167]
امام بخاری رحمہ اللہ لکھتے ہیں، ناصع، سماک اور اپنے ماموں عبد العزیز بن الخطاب سے حدیث روایت کرتا ہے۔ اس کا شمار اہل کوفہ میں ہوتا ہے۔ منکر الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء الصغير : 116]
تسائی لکھتے ہیں۔ ناصح بن عبد اللہ کوفہ کا باشندہ ہے۔ ضعیف ہے۔ [الضعفاء والمتروكين للنسائي ص : 100]
اسماعیل بن ابان الغنوی :
ناصح سے یہ روایت نقل کرنے والا اسماعیل بن ابان الغنوی الکوفی ہے۔ یحیی بن معین کا بیان ہے کہ یہ کذاب ہے۔ امام احمد بن جنبل فرماتے ہیں یہ موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ بخاری کا بیان ہے کہ احمد بن حنبل اور دیگر محدثین نے اس کی حدیث ترک کر دی ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں یہ ثقہ راویوں کے نام سے احادیث وضع کرتا ہے۔ یحیی بن معین کا قول ہے کہ اس نے متعدد احادیث جمع کر کے امام سفیان ثوری کی جانب بھی منسو ب کیا ہیں۔ نسائی اور مسلم کا بیان ہے کہ متروک الحدیث ہے۔ [ميزان الاعتدال : ج 1، ص 211]
نسائی لکھتے ہیں اسماعیل بن ابان کوفہ کا باشندہ ہے۔ ہشام بن عروہ سے احادیث روایت کرتا ہے۔ متروک الحدیث ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين ص : 16]
دراقطنی لکھتے ہیں۔ اسماعیل بن ابان الغنوی کوفہ کا باشندہ ہے۔ اس کی کنیت ابو اسحاق الکوفی ہے۔ حکم، عطیہ نفیل بن عروہ الخیاط اور ہشام بن عروہ سے روایات نقل کرتا ہے۔ متروک ہے۔ [كتاب الضعفاء والمتروكين ص : 57]

علی رضی اللہ عنہ سے قیامت تک منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھ سکتا
حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اور علی رضی اللہ عنہ آپ کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی ”کیا وہ مضطر کی پکار نہیں سنتا اور اس سے تکلیف دور نہیں کرتا اور تمہیں زمین کا خلیفہ بناتا ہے۔“
اس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مونڈھے کاپننے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کے مونڈھے پر ہاتھ مارا اور فرمایا۔ اے علی رضی اللہ عنہ تجھ سے مومن کے علاوہ کوئی محبت نہیں کر سکتا۔ اور منافق کے علاوہ کوئی بغض نہیں رکھ سکتا۔
[ميزان الاعتدال : 47/7 و الخطيب فى التاريخ 626/14 شرح السنة للبغوي 114/14 و ابن ابي شيبة فى مصنفه 57/12 من طريق آخر]
یہ آیت سننے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کپکپانے اور پھر ان کے بارے میں فیصلہ سنانے سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں۔ دراصل اس داستان کا راوی نفیع بن الحارث الخعی الکوفی الاعمی ہے۔ اس کی کنیت ابو داؤد ہے۔ یہ ایک قصہ گو انسان تھا۔ عقیلی کا بیان ہے۔ یہ غالی رافضی تھا۔ بخاری کہتے ہیں۔ اس پر محدثین کو اعتراض ہے۔ یحیی بن معین کہتے ہیں یہ کچھ نہیں۔ نسائی کا بیان ہے کہ یہ متروک ہے۔ اس نفیع کو ابو داؤد الاعمی اور ابو داود السبیعی بھی کہا جاتا ہے۔ بعض افراد نے دھوکہ دینے کے لیے اس کا نام نافع بن ابی نافع بھی بیان کیا ہے تاکہ لوگ اسے کوئی غیر شخص تصور کریں۔
قتادہ بن دعامہ جو اس کے ہم عصر تھے۔ وہ کہتے ہیں یہ کذاب ہے۔ دارقطنی کا بیان ہے کہ یہ متروک الحدیث ہے۔ ابو زرعہ کہتے ہیں یہ کچھ نہیں۔ ابن حبان کا بیان ہے۔ کہ اس ابو داؤد سے روایت اخذ کرنا بھی جائز نہیں۔
ہمام کا بیان ہے کہ یہ ابو دادو ایک بار بصرہ آیا اور ہمارے سامنے زید بن ارقم اور براء رضی اللہ عنہ کی احادیث بیان کرنے لگا۔ ہم نے قتادہ سے اس کا ذکر کیا۔ انہوں نے فرمایا وہ جھوٹ بولتا ہے کیونکہ طاعون جارف یعنی 118ھ سے قبل تو وہ گدا گر تھا۔ لوگوں سے بھیک مانگتا پھرتا تھا۔ (اور اب محدث بن گیا ہے) [ميزان الاعتدال : ج 4، ص : 272]
یہ ابو داود حضرت انس رضی اللہ عنہ، حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ، اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے احادیث روایت کرتا
ہے۔ جو خود ایک انتہائی مشکوک امر ہے۔
اس لیے کہ نفیع بصرہ میں طاعون جارف کے وقت گیا یعنی 1118ھ کے بعد جب کہ عمران رضی اللہ عنہ بن حصین کا بصرہ میں 52ھ میں اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا 93ھ میں انتقال ہوا۔ پھر لطف یہ ہے کہ برا نے 72ھ میں کوفہ میں زید بن ارقم نے مدینہ میں 68 میں اور این عباس رضی اللہ عنہ 68ھ میں طائف میں انتقال کیا۔ اور ماشاء اللہ یہ سب سے نقل کر رہا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام قتادہ فرماتے ہیں اس نے ان صحابہ میں سے کسی سے بھی حدیث نہیں سنی۔ امام مسلم نے ہمام سے نقل کیا ہے۔ کہ اس ابو داؤد کا دعوی تھا کہ اس نے اٹھارہ بدری صحابہ کو دیکھا ہے۔ اس پر امام قتادہ نے فرمایا حسن بصری اور سعید بن المسیب اس سے عمر میں بھی بڑے تھے اور اس سے زیادہ علم دین کے متلاشی تھے۔ لیکن انہوں نے بھی کسی بدری صحابی سے حدیث نہیں سنی ہاں سعید بن المسیب نے صرف ایک بدری صحابی یعنی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی ہے۔ [مقدمه مسلم، ج 1، ص16]
حارث بن حصیرۃ الازدی :
اسی ابو داؤد سے یہ روایت حارث بن حصیرہ الازدی نے نقل کی ہے۔ نسائی کا بیان ہے کہ یہ ثقہ ہے یحیی بن معین فرماتے ہیں اگر چہ یہ ثقہ تھا۔ لیکن اس لکڑی کا بچاری تھا۔ جس پر زید بن علی بن حسین کو پھانسی دی گئی تھی۔
ابو احمد الزبیری کا بیان ہے کہ یہ شخص فرقہ رجعیہ سے تعلق رکھتا تھا۔ ابو حاتم رازی لکھتے ہیں۔ اگر سفیان ثوری اس سے روایات نہ لیتے تو سب لوگ اس کی روایات ترک کر دیتے۔ [ميزان الاعتدال : ج 1، ص : 432]
دارقطنی لکھتے ہیں کہ حارث بن حصیرہ غالی قسم کا شیعہ تھا۔ [الضعفاء والمتروكين ص : 76]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں سچا ہے۔ غلطیاں کرتا ہے لیکن اس پر رفض کا اتہام ہے۔ [تقريب ص : 59]
عبد الحسین شرف الدین موسوی جو عراق میں شیعوں کا امام تھا وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے۔ ابو حاتم نے اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ شیعہ تھا۔ ایک آزاد کردہ غلام تھا۔ ابو احمد الزبیری کہتے ہیں یہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ضعف کے باوجود اس کی روایت لکھی جائے یہ کوفہ کے آگ لگانے والے شیعوں میں داخل ہے۔
ذنیج کا بیان ہے میں نے جریر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے حارث بن حصیرہ کو دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہاں دیکھا ہے ایک بہت بوڑھا شخص تھا۔ ا کثر خاموش رہتا۔ لیکن ایک بہت بڑی بات پر اصرار کرتا۔ یحیی بن معین اور نسائی کا بیان ہے کہ ثقہ ہے خشبی ہے۔ اس حارث سے سفیان ثوری، مالک بن مغول اور عبد اللہ بن نمیر نے روایات نقل کی ہیں۔ یہ شیعوں کا شیخ اور ان کا معتبر راوی شمار ہوتا ہے۔ ہم نے یہ سب کچھ میزان سے تحریر کیا ہے۔
نسائی نے عباد بن یعقو ب کے ذریعہ عبد اللہ بن عبد الملک المسعودی نے اس حارث بن حصیرہ کے ذریعہ زید بن وہب سے نقل کیا ہے کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کے رسول کا بھائی ہوں۔ [مرا جعات : ص 78]
——————

اس تحریر کو اب تک 40 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply