نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : مسلمان اپنے نومولود کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں تکبیر کہتے ہیں کیا یہ فعل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؟
جواب : ہمارے علم کے مطابق اس کے متعلق کوئی صحیح و مرفوع حدیث موجود نہیں۔ اس سلسلہ میں جو تین روایات پیش کی جاتی ہیں وہ قابل استناد نہیں ہیں۔ ایک روایت حضرت ابورافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں :
رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِيْ أُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حِيْنَ وَلَدَتْهُ فَاطِمَةُ بِالصَّلَاةِ [ ترمذي، أبواب الأضاحي : باب الأذان فى أذن المولود 1514، أبوداؤد 5105،
احمد 9/6، شعب الايمان 8617، حاكم 179/3، بيهقي 305/9 ]

”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں نماز والی اذان کہی جب اسے سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے جنم دیا۔ “
اس روایت کی سند میں عاصم بن عبیداللہ راوی ہے جس کے ضعف پر تقریباً تمام محدثین متفق ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
وَمَدَارُهُ عَلٰي عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللهِ وَهُوَ ضَعِيْفٌ [تلخيص الحبير 1985، 367/4، ]
کتاب العقیقۃ، طبع جدید، اس راوی پر مزید کلام کے لیے دیکھیے : [تهذيب التهذيب 35/3، 36 ]
”اس روایت کا دارومدار عاصم بن عبیداللہ پر ہے اور وہ ضعیف راوی ہے۔ “
بعض حضرات نے اس روایت کی تقویت کے لیے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ایک روایت پیش کی ہے :
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذَّنَ فِيْ اُذُنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ يَوْمَ وُلِدَ وَاَقَامَ فِيْ اُذُنِهِ الْيُسْرَيٰ [ السلسلة الضعيفة 331/1، ارواء الغليل 401/4 ]
”بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے کان میں اس کی ولادت کے دن اذان کہی اور بائیں کان میں اقامت کہی۔ “ اور انہوں نے اس روایت کو ابورافع رضی اللہ عنہ کی روایت کے لیے شاہد ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔ (نوٹ : ”السلسلۃ الضعیفۃ“ میں اس روایت کے یہ الفاظ طبع ہونے سے رہ گئے ہیں : فَأَذَّنَ فِيْ أُذُنِهِ الْيُمْنٰي (آپ نے حسن کے دائیں کان میں اذان کہی)۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اگرچہ اسے ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ ضعیف کی بجائے موضوع ہے کیونکہ اس میں محمد بن یونس الکدیمی راوی ہے، جس کے متعلق امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قَدْ أُتُّهِمَ الْكَدِيْمِيُّ بِالْوَضْعِ ”یہ روایت گھڑنے کے ساتھ متہم ہے۔“ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اس راوی نے ہزار سے زیادہ روایات گھڑی ہیں“۔ اسی طرح موسیٰ بن ہارون اور قاسم المطرز نے بھی اس کی تکذیب کی ہے۔ [ميزان الاعتدال 74/4 ]
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے بھی اسے روایت گھڑنے کی تہمت دی ہے۔ لہٰذا یہ روایت موضوع ہونے کی وجہ سے شاہد بننے کے قابل نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں کدیمی کا استاد اور استاد الاستاد بھی ضعیف ہیں۔ نیز حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے مرفوع روایت میں ہے :
مَنْ وُلِدَ لَهُ مَوْلُوْدٌ فَأَذَّنَ فِيْ أُذُنِهِ الْيُمْنٰي وَاَقَامَ فِيْ أُذُنِهِ الْيُسْرٰي لَمْ تَضُرُّهُ اُمُّ الصِّبْيَانِ
”جس کے ہاں بچہ پیدا ہو، وہ اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے تو اسے ام الصبیان (بیماری) تکلیف نہیں دے گی۔ “ [شعب الايمان 8619 ]
اس کی سند میں یحییٰ بن العلاء الرازی کذاب راوی ہے۔ لہٰذا بچے کے کان میں اذان اور اقامت والی روایات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ والله اعلم

 

اس تحریر کو اب تک 17 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply