سلام کو عام کرنا

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَى مَنْ عَرَفْتَ، وَعَلَى مَنْ لَمْ تَعْرِفْ
”ہر شخص کو سلام کہو خواہ تم اسے پہچانو یا نہ پہچانو۔ “ [صحيح بخاري/الاستيذان : 6236 ]
فوائد :
ملاقات کے وقت سلام کرنا ہمارے دین اسلام کا ایک شعار ہے۔ اگر ملنے والے پہلے سے متعارف اور شناسا ہیں، تو سلام باہمی محبت و الفت اور خیر اندیشی کا ذریعہ بنتا ہے اور اگر پہلے سے کوئی تعارف نہیں ہے تو یہ کلمہ ہی تعلق و اعتماد اور خیر سگالی کا وسیلہ بنتا ہے۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کرنے کی بہت تاکید فرمائی اور اس کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔
چنانچہ ایک حدیث میں ہے :
” تم جنت میں نہیں جا سکتے تاوقتیکہ پورے مومن نہ بن جاؤ، تمہاری زندگی ایمان والی نہیں ہو سکتی جب تک تم میں یگانگت نہ پیدا ہو جائے۔ فرمایا : میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جس کے کرنے سے تمہارے درمیان محبت و الفت پیدا ہو گی اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو خوب پھیلاؤ۔ “ [صحيح مسلم/الايمان : 93 ]
ایک حدیث کے مطابق مسلمان کا دوسرے مسلمان پر یہ حق بتایا گیا ہے کہ جب وہ دوسرے سے ملاقات کرے تو اسے سلام کرے۔ [صحيح مسلم/السلام : 2162 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں بہت تاکید کی ہے۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”جب تم میں سے کسی کی اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات ہو جائے تو چاہئے کہ اس کو سلام کرے۔ اگر اس کے بعد کوئی درخت، دیوار یا کوئی پتھر درمیان میں حائل ہو جائے اور اس کے بعد پھر سامنا ہو تو سلام کرے۔ “ [ابوداود/الادب : 5200 ]
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ شریعت میں سلام کہنے کی کس قدر اہمیت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا : ”بیٹا ! جب تم پنے گھر والوں کے پاس جاؤ تو سلام کرو۔ یہ تمہارے لئے اور تمہارے اہل خانہ کے لئے باعث برکت ہو گا۔ “ [ترمذي/الاستيذان : 2698 ]

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔