مومن، مومن کا آئینہ ہے

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

«جموع ما جاء فى صفات الوالدين، وحقوق بعضهم على بعض»
مسلمانوں کی صفات اور ان کے آپسی حقوق
« باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم »
اہل ایمان کا آپس میں رحم، مہربانی اور مدد کرنا
✿ «عن ابي موسى، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال:” المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا، ثم شبك بين اصابعه.» [متفق عليه: رواه البخاري 6026، ومسلم 2585: 65]
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھوں کے انگلیوں کو آپس میں داخل کر کے بتایا۔“

✿ «عن النعمان بن بشير، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” مثل المؤمنين فى توادهم وتراحمهم وتعاطفهم مثل الجسد، إذا اشتكى منه عضوا تداعى له سائر جسده بالسهر والحمى.» [متفق عليه: رواه البخاري 6011، ومسلم 2586.]
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہل ایمان آپس میں محبت، رحم، ایک دوسرے پر مہربانی اور لطف و کرم کرنے کے معاملے میں ایک جسم کی ماند ہیں، جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوتاہے۔“
——————

«باب موالاة المؤمنين»
اہل ایمان کی دوستی
قال الله تعالیٰ :
«وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ » [‎ سورة التوبة: 71]
”مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ز کوۃ دیتے ہیں اور الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے۔“

✿ «عن عمرو بن العاص، قال: سمعت النبى صلى الله عليه وسلم جهارا غير سر يقول: إن آل ابي، قال عمرو: فى كتاب محمد بن جعفر بياض ليسوا باوليائي، إنما وليي الله وصالح المؤمنين، وفي رواية البخاري : ولكن لهم رحم ابلها ببلاها. » [متفق عليه: رواه البخاري 5990 و مسلم 215.]
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خفیہ نہیں اعلانیہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ سنو اے میرے والد کے خاندان والو ! عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ محمد بن جعفر کی کتاب میں جگہ خالی تھی۔ یعنی (تحریر نہ تھی) وہ میرے عزیز نہیں ہیں۔ میرے ولی تو صرف اللہ اور اہل ایمان میں سے نیک لوگ ہیں۔ اور بخاری کی ایک روایت میں ہے۔ لیکن رشتہ ناطہ ہے میں ان سے تعلق کو خوش گوار رکھوں گا۔
——————

« باب أن الله ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم»
اللہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے
✿ « عن أبى هرير قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله لا ينظر إلى صوركم واموالم ولكن ينظر إلى قلوبكم وأعمالكم. » [صحيح: رواه مسلم فى البر والصلة 2564: 34.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالی تمھاری صورتوں اور تمھارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا، لیکن وہ تمھارے دلوں اور تمھارے اعمال کو دیکھتا ہے۔“
——————

« باب من حقوق المسلم على المسلم»
ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق
✿ «عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: رسول الله صلى الله عليه وسلم , حق المسلم على المسلم خمس: رد السلام، وعيادة المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة، وتشميت العاطس .» [متفق عليه: رواه البخاري 1240، ومسلم .2162 : 4]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ سلام کا جواب دیا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے میں شرکت کرنا، دعوت قبول کرنا اور چھینکنے والے کاجواب دینا۔“

✿ «عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : حق المسلم على المسلم ست . ما هن يا رسول الله ؟ قال : اذا لقيته فسلم عليه، السلام، واذا دعاك فاجبه، واذا استنصحك فانصح له، واذا عطس فحمد الله فشمته، واذا مرض فعده، وإذا مات فاتبعه . » [صحيح: رواه مسلم 5:2162.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھے حق ہیں۔“ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ! وہ کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اس سے ملاقات ہو تو اس کو سلام کرو، جب وہ دعوت دے تو اس کو قبول کرو، جب وہ تم سے نصیحت کا مطالبہ کرے تو اسے نصیحت کرو، اور جب وہ چھینک مارے اور الحمد للہ کہے تو اس کا جواب دو، اور جب وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرو، اور جب وہ وفات پا جائے تو اس کے جنازے میں شریک ہو۔“

✿ «عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:” المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يسلمه، ومن كان فى حاجة اخيه كان الله فى حاجته، ومن فرج عن مسلم كربة فرج الله عنه كربة من كربات يوم القيامة، ومن ستر مسلما ستره الله يوم القيامة. » [متفق عليه: رواه البخاري 2442. ومسلم 2580 : 58.]
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے گا اور نہ اس کو دشمن کے حوالے کرے گا، جو کوئی اپنے بھائی کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالی اس کی ضرورت کو پورا کرنے میں لگا رہتا ہے۔ جو کوئی کسی مسلمان کی تکلیف کو دور کرتا ہے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پریشانیوں میں سے کسی پریشانی کو دور کرے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے تو الله تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔“

✿ «عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” لا تحاسدوا، ولا تناجشوا، ولا تباغضوا، ولا تدابروا، ولا يبع بعضكم على بيع بعض، وكونوا عباد الله إخوانا المسلم اخو المسلم لا يظلمه، ولا يخذله، ولا يحقره التقوى هاهنا، ويشير إلى صدره ثلاث مرات، بحسب امرئ من الشر ان يحقر اخاه المسلم كل المسلم على المسلم، حرام دمه، وماله، وعرضه “. وزاد فى رواية : ان الله لا ينظر الي اجسادكم، ولا الي صوركم، ولكن ينظر الي قلوبكم واشار باصابعه الي صدره.» [متفق عليه: رواه مسلم 2564: 32، 33 والبخاري 6066.]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپس میں ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو۔ ایک دوسرے سے دشمنی نہ رکھو، ایک دوسرے کو بے یار و مددگار نہ چھوڑو اور نہ کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرے
۔ سب اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن کر رہو۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ نہ اس پر ظلم کرے گا، نہ اس کو بے یار و مددگار چھوڑے
گا، اور نہ ہی اس کو حقیر جانے گا۔ تقویٰ یہاں ہوتا ہے“، اور یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ کی طرف اشارہ کر کے تین دفعہ فرمائی۔ آدمی کے برا ہونے کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے، ایک مسلمان کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
اور ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ تمھارے جسموں کو دیکھتا ہے اور نہ ہی تمھاری شکلوں کو لیکن وہ تمھارے دلوں کو دیکھتا ہے۔ اور آپ نے یعنی انگلیوں سے اپنے سینے کی طرف اشارہ فرمایا۔

✿ «عن شيخ من بني سليط قال: النبى صلى الله عليه وسلم أكملة فى سببي أصيب لنا فى الجاهلية فإذا هو قاعد وعليه خلقة قد أطافت به وهو يحدث القوم عليه إزار قطر له غليظ قال سمعته يقول وهو يشير بابباصبعه المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يخذ له التقوى هاهنا التقوى هاهنا يقول أى فى القلب. » [حسن: رواه أحمد 16624.]
بنو سلیط کے ایک شخص سے روایت ہے۔ ان کا بیان ہے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان چند قیدیوں کے تعلق سے گفتگو کرنے کے لیے حاضر خدمت ہوا، جو زمانہ جاہلیت میں ہمارے ہاتھ لگے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اور آپ کے گرد ایک حلقہ بنا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے گفتگو فرما رہے تھے۔ آپ کے جسم اطہر پر ایک ہی قطری چادر تھی، جس کا کنارہ موٹا اور سخت تھا۔ راوی نے کہا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرے گا اور نہ ہی اس کو بے یار و مددگار چھوڑے گا۔ تقویٰ یہاں ہوتا ہے، تقویٰ یہاں ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے یعنی وہ دل ہوتا ہے۔“
——————

«باب أن المؤمن مرآة المؤمن»
مومن، مومن کا آئینہ ہے
✿ «عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: المؤمن مرآة المؤمن والمؤمن اخو المؤمن حيث لقيه يكف عليه ضيعته ويحوطه من ورائه.»
[حسن: رواه أبو داود 4918، والبخاري فى الأدب المفرد 239. والبزار 8109 ك.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن مومن کا آئینہ ہے، مومن مومن کا بھائی ہے، وہ اس کی خاطر اس کے مال اور جائیداد کو باندھ کر رکھے گا اور پیچھے سے اس کی حفاظت کرے گا۔“

✿ «عن أنس بن مالك قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : المؤمن مرآة المؤمن» [حسن: رواه البزار 6193 والطبراني فى الأوسط 2114 ومن طريقه الضياء فى المختارة 2185]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن مومن کا آئینہ ہے۔“
——————

« باب ماجاء فى النصيحة»
خیر خواہی
✿ « عن جرير بن عبد الله قال: بأبعث رسول الله صلى الله عليه و سلم على اقامة الصلاة وإيتاء الزكات و النصح لكل مسلم» [متفق عليه: رواه البخاري 1401، ومسلم 56.]
حضرت جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے،زکاۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔
——————

باب الاخاء والحلف
بھائی چارہ اور معاہدہ
✿ «عن عام الأحول قال : قلت لانس بن مالك أبلغك أن النبى صلى الله عليه وسلم فقال: لا حلف فى الإسلام فقال: قد حلف النبى صلى الله عليه وسلم بين قريش والأنصار فى داري. » [متفق عليه: رواه البخاري 6083 ومسلم 204:2529 .]
عاصم احول سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ کیا آپ تک یہ بات پہچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں کوئی معاہدہ نہیں ہے؟“ تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش اور انصار کے درمیان معاہدہ میرے گھر پر کروایا۔

✿ «عن انس رضي الله عنه، قال:قدم علينا عبد الرحمن بن عوف، فآخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع”.» [صحيح: رواه البخاري 2293]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب عبدالرحمن بن عوف ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اور سعد بن ربیع کے درمیان بھائی چارہ کرایا۔

✿ «عن جبير بن مطعم قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لاحلف فى الإسلام وايما حلف كان فى الجاهلية لم يزده الإسلام إلا شدة.» [صحيح: رواه مسلم 2530.]
حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ انھوں نے فرمایا: ”اسلام میں کوئی معاہدہ نہیں ہے اور جس کا کوئی معاہدہ زمانہ جاہلیت میں تھا تو اسلام اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔“

✿ «عن عمرو بن شعيب، عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لما فتح على الرسول الله صلى الله عليه وسلم مكة قال : فذكر الخطبة بطولها وجاء فيها : واوفوا بحلف الجاهلية، فإن الإسلام لا يزده، إلا شدة، ولا تحدثوا حلفا فى الإسلام.» [حسن: رواه أحمد 6933، والترمذي 1585]
عمرو بن شعیب اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو فتح فرمایا، تو آپ نے ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں یہ بات بھی مذکور تھی کہ زمانہ جاہلیت کے عہدوں کو پورا کرو۔ بے شک اسلام اس کی مزید تاکید کرتا ہے۔ (اور یاد رکھو) اسلام میں نے معاہدے ایجاد مت کرو۔

✿ «عن ابن عباس قال: قال رسول الله : لا حلف فى الإسلام وكل حلف كان فى الجالية فلم يزده الإسلام إلا شدة ٓوما يسرني أن لي حمر النعم وأني نقضت الحلف الذى كان فى دار الندو.» [حسن: رواه ابن جرير الطبري فى تفسيره 683/6]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”اسلام میں کوئی معاہدہ نہیں۔ وہ سارے معاہدے جو زمانہ جاہلیت میں ہوئے تھے اسلام ان کی مزید تاکید کرتا ہے۔ اگر مجھے سرخ اونٹ بھی دیئے جائیں تو میں ہر گز اس بات کو پسند نہیں کروں گا کہ دارالندوة میں میں نے جو معاہدہ کیا تھا اس کو توڑ دوں۔“

« باب الأمر بصلة الوالدين وإن كانا مشركين»
مشرک والدین کے ساتھ بھی صلہ رحمی کا حکم
قال الله تعالى:
«وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا ۖ وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۚ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ » [سورة العنكبوت: 8]
ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔ لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود)کی کو شریک ٹھہراےے جسے (تو میرے شریک کی حیثیت سے) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر۔ میری ہی طرف تم سب کو پلٹ کر آنا ہے۔ پھر میں تم کو بتادوں گا کہ تم کیا کرتے رہے ہو۔
وقال اللہ تعالى:
«وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ» [سورة لقمان: 15]
لیکن وہ اگر دباو ڈالیں کہ میرے ساتھ تو کسی ایسے کو شریک کرے جسے تو نہیں جانتا تو ان کی بات ہر گز نہ مان۔ دنیا میں ان کے ساتھ نیک برتاؤ کرتا رہ مگر پیروی اس شخص کے راستے کی کہ جس نے میری طرف رجوع کیا ہے۔ پھر تم سب کو پلٹنا میری ہی طرف ہے، اس وقت میں تمہیں بتادوں گا کہ کیسے عمل کرتے رہے ہو۔
«عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما، قالت:” قدمت على امي وهى مشركة فى عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستفتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: وهى راغبة، افاصل امي؟ قال: نعم، صلى امك.» [متفق عليه: رواه البخاري 2620. ومسلم 103. ورواه البخاري 5978]
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ میری ماں میرے پاس آئی اور وہ مشرکہ تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قریش کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ تھا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول! میری ماں میرے پاس آئے ہے اور وہ اسلام سے رغبت نہیں رکھتی۔ کیا میں اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں تم اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔

«عن أبى هرير. قال: مر رسول الله على عبد الله بن أبى بن سلول وهو فى ظل أجمة فقال : قد غبر علينا ابن أبى كبشة، قال ابنه عبد الله بن عبد الله: والذي أكرمك و الذى أنزل عليك الكتاب لئن شئت لاتيتك برأسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : “لا، ولكن بر اباك و أحسن صحبتك . » [حسن رواه ابن حبان فى صحيحه 428، والبزار، كشف الأستار 2708.]
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر عبد اللہ بن ابی بن سلول پر سے ہوا۔ وہ ایک درخت (اجمۃ) کے سایہ میں تھا۔ ابن ابی کبشہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم پر غبار اڑا دی، تو اس کے بیٹے عبد الله بن عبد اللہ نے کہا : قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو باعزت بنایا اور قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ پر کتاب اتاری، اگر آپ چاہیں تو میں اس کا سر آپ کی خدمت میں پیش کردوں گا اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن تم اپنے والد کے ساتھ حسن سلوک کرو، اور ان کے ساتھ بہتر تعلقات رکھو۔
——————

«باب فى ذم من أدرك أبويهما أو أحدهما عند الكبر فلم يدخل الجنة »
اس شخص کی مذمت جو اپنے ماں باپ یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا پھر وہ جنت میں داخل نہیں ہوا۔
« عن أبى هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم رغم انفه ثم رغم انفه ثم رغم انفه. قيل من يا رسول الله قال من أدرك و الديه عند الكبر أحدهما أو كليهما ثم ليدخل الجنة.» [صحيح: رواه مسلم 2551.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو، پھر اس کی ناک خاک آلود ہو۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کس کی ؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر وہ جنت میں داخل نہیں ہو سکا۔

«عن أبى مالك عن النبى صلى الله عليه وسلم انه قال من أدرك والديه أو أحدهما ثم دخل النار من بعد ذلك فابعده الله وأسحق .» [صحيح: رواه أحمد 19027، والطيالسي 1418، والبخاري فى التاريخ الكبير 40/2 .]
حضرت ابی بن مالک رضی اللہ عنہ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو پائے، پھر اس کے بعد جہنم میں چلا جائے، تو ایسے شخص کو اللہ دور فرمادے، اس کو دور فرما دے (یعنی اپنی رحمت سے)۔
——————

«باب عقوق الوالدين من الكبائر»
باب والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ ہے
«عن المغيرة بن شعبة، قال: قال النبى صلى الله عليه وسلم:إن الله حرم عليكم عقوق الامهات، وواد البنات، ومنعا وهات، وكره لكم قيل ثلاثا وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال. » [متفق عليه: رواه البخاري 2408، ومسلم 593 عقب 1715]
حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے، بخیلی کرنے اور بے ضرورت مانگنے کو حرام فرمایا ہے۔ اور تین باتیں تمھارے لیے ناپسند فرمائی ہیں۔ فضول بحث و مباحثے، کثرت سوال اور مال ضائع کرنے کو۔

«عن أبى بكر رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الا انبئكم باكبر الكبائر؟ قلنا: بلى يا رسول الله قال: الإشراك بالله وعقوق الوالدين وكان متكئا فجلس، فقال: الا وقول الزور وشهادة الزور، الا وقول الزور وشهادة الزور فما زال يقولها حتى قلت: لا يسكت. » [متفق عليه: رواه البخاري 5976، ومسلم 87]
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمھیں تین بڑے گناہوں کے بارے میں خبر نہ دوں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم، (ضرور بتائے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اللہ کے ساتھ شرک اور والدین کی نافرمانی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگائے ہوئے تھے، پھر سیدھے بیٹھ گئے۔ فرمایا: خبر دار ہو جاؤ ! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی۔ آپ اس بات کو مسلسل دہراتے رہے، یہاں تک کہ میں نے (دل میں) کہا: آپ خاموش نہ ہوں گے۔

«عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم الكبائر او سئل عن الكبائر فقال: الشرك بالله وقتل النفس وعقوق الوالدين، فقال: الا انبئكم باكبر الكبائر؟ قال: قول الزور او قال شهادة الزور قال شعبة: واكثر ظني انه قال: شهادة الزور. » [متفق عليه: رواه البخاري5977، ومسلم 88: 144.]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے گناہوں کا ذکر کرتے ہوے فرمایا: بڑے گناہوں کے بارے میں دریافت کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، (ناحق) کسی کی جان لینا اور والدین کی نافرمانی کرنا اور فرمایا: کیا میں تمھیں سب سے بڑے گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ فرمایا: جھوٹ بولنا، یا فرمایا: جھوٹی گواہی دینا۔ شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرا ظن غالب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے”جھوٹی گواہی“ فرمایا۔

«عن بن عمر قال : قال رسول الله : ثلاثة لا ينظر الله عزوجل إليهم يوم القيامة: العاق لوالديه، والمرأة المترجلة، والديوث، وثلاثة لا يدخلون الجنة : العاق لوالديه، والمدمن على الخمر والمنان بما أعطى.» [حسن: رواه النسائي 2562.]
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین لوگ ہیں قیامت کے دن اللہ عزوجل ان کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ اپنے والدین کا نافرمان، مردانہ ہئیت اختیار کرنے والی عورت۔ دیوث (بے غیرت)۔اور تین لوگ ہیں جو جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ اپنے والدین کا نافرمان اور ہمیشہ شراب کے نشہ میں ڈوبا ہوا شخص اور دے کر احسان جتلانے والا۔

«عن عبد الله بن انيس الجهني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من اكبر الكبائر: الشرك بالله، وعقوق الوالدين، واليمين الغموس، وما حلف حالف بالله يمين صبرا فادخل فيها مثل جناح بعوضة إلا جعله نكتة فى قلبه إلى يوم القيامة.» [حسن: رواه الترمذي 3020، وأحمد 16043، والطحاوي فى شرح المشكل 893.]
حضرت عبد اللہ بن انیس جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑے گناہوں میں سب سے بڑا گناہ الله کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی قسم کھانا ہے۔ کسی قسم کھانے والے نے اللہ کے نام سے قسم کھائی یعنی جھوٹ پر جمے رہنے کی قسم کھائی تو الله تعالی اس کے دل میں ایک مچھر کے پر کے برابر دهبا لگا دیتا ہے جو قیامت تک باقی رہے گا۔
——————

اس تحریر کو اب تک 38 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply