حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق ضعیف روایات

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین ہیں
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: تیرے پاس ابھی اس دروازے سے امیر المومنین، سید المسلمین، قائد الغرالمحجلین اور خاتم الوصیین داخل ہوں گے۔ [ذكره الشوكاني فى الفوائد رقم: 64]
امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں پوری کہانی نقل نہیں فرمائی۔ کاش وہ پورا شہ پارہ پیش فرما دیتے۔ غالباً ان کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ نتیجہ انہوں نے روایت کے ابتدائی الفاظ نقل کیے ہم بھی اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
ابراہیم بن محمد:
اس کا ایک راوی ابراہیم بن محمد بن میمون ہے۔ میں نہیں جانتاکہ یہ کون ہے۔ اس نے یہ موضوع حدیث روایت کی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 191۔ المغني: 25/1۔ الجرح والتعديل: 128/2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اس ابراہیم کا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ کوئی فرضی ہیرو ہے۔ جو روایت پیش کرنے کے لیے وضع کر لیا گیا ہے۔
اتفاق سے اس روایت کی سند میں جتنے راوی ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا مجہول۔ اور کسی ایک راوی کے بارے میں بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ قابل اعتبار ہے۔

قاسم بن جندب:
اسے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرنے والا قاسم بن جندب ہے۔ جو قطعاً مجہول شخص ہے۔

حارث بن حصیرہ:
قاسم سے یہ کہانی نقل کرنے والا حارث بن حصیرہ ہے۔ جو قبیلہ ازد سے تعلق رکھتا ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔
یحیی بن معین فرماتے ہیں: خشبی ہے۔
خشبیہ شیعوں کا ایک فرقہ ہے جو زید بن علی بن حسین کی پھانسی کے بعد لکڑیاں لے کر مرنے کے لیے نکلا تھا اور ناکامی کے بعد اس لکڑی کو پوجنا شروع کر دیا۔ جس پر زید بن علی کو پھانسی دی گی تھی۔ اس فرقہ کو خشبیہ کہا جاتا ہے۔
ابو احمد الزبیری کا بیان ہے کہ یہ رجعت پر ایمان رکھتا تھا۔ یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ قتل نہیں ہوئے۔ وہ آسمانوں پر اٹھا لیے گئے ہیں۔ بادلوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ اور دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ اب جب سے ہم پر بادلوں کی حقیقت واضح ہوتی ہے تو ہماری یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ اس گرج اور چک کی حقیقت کیا ہے۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔ کیونکہ یہ ضعیف ہے۔ اور کوفہ کے ان لوگوں میں داخل ہے جنہوں نے کوفہ میں تشیع کی وبا پھیلائی ہے۔ زنیج کا بیان ہے کہ میں نے جریر سے سوال کیا۔ کیا تم نے حارث بن حصیرہ کو دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا ہاں، میرے زمانہ میں وہ بہت بوڑھا تھا۔ اور ایک بڑی بات پر اصرار کیا کرتا ہے۔ یعنی رجعت پر۔ [ميزان الاعتدال: 432/1]
دارقطني لكهتے ہيں: یہ غالی قسم کا شیعہ ہے۔ [الضعفاء والمتروكين: 76]
اس حارث سے نقل کرنے والا علی بن عابس الازرق الاسدی الکوفی ہے۔

علی بن عابس:
اس کی روایت ترمذی میں پائی جاتی ہیں۔
یحیی بن معین فرماتے ہیں: یہ کچھ نہیں۔
جوزجانی، نسائی اور ازدی کہتے ہیں: ضعیف ہے۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ فحش غلطیاں کرتا ہے۔ اسی باعث اسے ترک کر دیا گیا۔ اس نے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ «وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ» تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور انہیں فدک عطا فرمایا۔
ذہبی لکھتے ہیں: یہ باطل ہے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کو فدک عطا فرما دیتے تو پھر وہ کیا شئے طلب کرنے آئی تھیں۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کی روایت بطور تحقیق لکھ لی جائے۔ [ميزان الاعتدال: 134/3]

محمد بن عثمان بن ابی شیبہ:
اس کا آخری راوی جو اسے ابراہیم بن محمد بن میمون سے نقل کر رہا ہے۔ وہ محمد بن عثمان بن ابی شیبہ ہے۔ جو عثمان بن ابی شیبہ کا بیٹا ہے جن کی اور جن کے بھائی کی مصنف محدثین کے یہاں مشہور ہے۔
یہ شخص حافظ الحدیث سمجھا جاتا ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔ لیکن عبد اللہ بن احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ کذاب ہے۔
ابن خراش کا بیان ہے کہ احادیث وضع کیا کرتا تھا۔
مطین کا بیان ہے کہ یہ تو حضرت موسیٰ کی لاٹھی کی طرح ہے جو ہر چیز کو نگل لیتا ہے۔
برقانی کا بیان ہے کہ میں نے محدثین کو ہمیشہ اس پر اعتراض کرتے دیکھا ہے۔
ابن عقدہ کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن اسامہ الکلبی ابراہیم بن اسحاق الصواف اور داؤد بن یحیی کو یہ کہتے سنا ہے کہ یہ محمد بن عثمان کذاب ہے۔ [ميزان الاعتدال: 642/3]
——————

جنگ صفین میں ستر بدری موجود تھے
ابن ابی لیلیٰ کا بیان ہے کہ جنگ صفین میں ستر بدری شریک ہوئے۔ [ميزان الاعتدال: 170/1]

ابراہیم بن عثمان:
اس کا راوی ابراہیم بن عثمان ابو شیبہ العسبی الکوفی ہے۔ یہ واسط کا قاضی تھا۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ کا دادا تھا۔ اس نے یہ روایت حکم کے واسطہ سے ابن ابی لیلی سے نقل کی ہے۔ [المغني: 20/1۔ الضعفاء والمتروكين: 19/1۔ الضعفاء الكبير: 59/1۔ تقريب: 39/1 – الجرح والتعديل: 115/2]
شیبہ کہتے ہیں اللہ کی قسم، یہ ابراہیم بن عثمان جھوٹا ہے، میں نے خود حکم سے اس موضوع پر گفتگو کی تھی، ہم نے تو اہل بدر میں سے خزیمہ کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جو جنگ صفین میں موجود ہو۔
امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ موجود تھے۔ امام ذہبی نے بظاہر تو شعبہ کا رد کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دو تین افراد کی شرکت سے ستر کی شرکت ثابت نہیں ہوتی۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جنگ صفین حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مابین ہوئی۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شرکت تو ایک جزو لانیفک ہے۔ بلکہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جنگ صفین سے علیحدہ کر دیا جائے تو پھر تو یہ ثابت ہوگا کہ چند باغی، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شرکت تو لازمی تھی۔ رہی عمار کی شرکت وہ بھی مختلف فیہ ہے۔ اور بقول شعبہ و حکم کے علاوہ صرف حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں موجود تھے جن کا شمار اہل بدر میں ہوتا تھا۔ لیکن اس میں بھی اختلاف ہے۔ یہ خزیمہ جو جنگ صفین میں شریک تھے وہ واقعتاً بدری تھے یا انہیں صرف اس لیے بدری کہا گیا ہے کہ انہوں نے مقام بدر میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ اس لحاظ سے انہیں بدری کہتے ہیں۔ بات خواہ کچھ بھی ہو لیکن جنگ صفین میں ستر بدری ہرگز شریک نہ تھے، کھینچ تان کر آپ انہیں تین تک لا سکتے ہیں۔ اور شعبہ امام مالک کے ہم عصر ہیں اور تشیع میں بھی مبتلا ہیں۔ جب ان کے زمانہ تک جنگ صفین میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ ایک بدری موجود تھا تو شعبہ کے بعد اور کہاں سے اور کیسے پیدا ہو گئے۔ امام محمد بن سیریں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں 21ھ میں پیدا ہوئے اور جن کا انتقال 110ھ میں ہے۔ اور جن کے روبرو یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ وہ فرماتے ہیں۔
«هاجت النسة واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عشرات الوف فلم يلحضرها منهم مائة بل لم يبلغوا ثلاثين»
”سن اسی طرح آگے بڑھتا رہا حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ تیس ہزار اور نوے ہزار کے درمیان تھے۔ اور ان جنگوں میں سو صحابہ بھی شریک نہیں ہوئے بلکہ شریک ہونے والوں کی تعداد تیس تک بھی نہیں پہنچی۔“
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کی سند نقل کر کے فرماتے ہیں:
«هذا الإسناد اصح اسناد على وجه الارض»
”یہ سند روئے زمین پر صحیح سند ہے۔“ [منهاج السنة: 86/3]
اور جب ہم اس پر غور کرتے ہیں کہ صحابہ کی تعداد اس وقت کسی صورت میں تیس ہزار سے کم نہ تھی۔ بلکہ وہ تقریباً نوے ہزار کے قریب تھے۔ تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ ان تمام جنگوں میں اصل تقابل ان لوگوں کا تھا جو صحابی نہ تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو بمشکل چند ہی شریک ہوئے اور ان کے نام کو اتنا اچھالا گیا ہے کہ پوری تاریخ اس میں دب کر رہ گئی۔ اور صحابہ کرام نے علیحدہ بیٹھ کر ان سب چیزوں کا نظارہ کیا۔ صرف اس تخیل کے تحت کہ شاید کہ کسی وقت یہ فتیہ ختم ہو اور امت ایک جگہ متحد ہو۔ اور جب انہوں نے یہ دیکھا کہ تمام امت ایک امام پر جمع ہو گئی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے صلح کر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھام لیا۔ تو تمام صحابہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کی اور اس سال کا نام ان کے اتفاق پر عام الجماعت (جماعت کا سال) قرار پایا۔
——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس امت سے پانچ یا سات سال قبل اللہ کی عبادت کی تھی
حبتہ بن جوین کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس وقت اللہ کی عبادت کی تھی۔ جب اس امت کے کسی فرد نے یہ عبادت نہ کی تھی۔ اور تقریباً عبادت پانچ یا سات سال جاری رہی۔
یہ عبادت اسی قسم کی ہو گی جیسے ملا باقر مجلسی نے جلاالعیون میں تحریر کیا ہے کہ جب فاطمہ بنت اسد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیدائش کے بعد لے کر نکلیں اور گھر پہنچیں تو حضور کی انگلیاں چوسیں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس طرح علم کے سمندر چوستے رہے اور تیسرے روز حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں:
«قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ⋆ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ»
حالانکہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نبوت نہ ملی تھی۔ لیکن سورۃ مومنون میں مومنین کا ذکر ہے اس لیے یہ آیات حضرت علی رضی اللہ عنہ پر پیدائش کے تیسرے روز نازل ہو گئی تھیں۔
یہ روایات اسی وقت عقل میں آ سکتی ہیں جب آپ بخاری کے بجائے جالاالعیون پر ایمان لائیں۔ ورنہ تشیع نام ہے اس امر کا کہ ہر خلاف عقل بات پر ایمان لے آؤ۔ اور سبحان اللہ کے نعرے بلند کرو۔
یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے وضع کی گئی۔ اس کا پہلا راوی جو اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کر رہا ہے اس کا نام حبتہ بن جوین ہے۔
حبتہ بن جوین:
ابن جوزی لکھتے ہیں یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام سے وضع کی گئی ہے۔ جہاں تک حبہ کا تعلق ہے۔ تو وہ ابک حبہ برابر نہیں کیونکہ وہ کذاب ہے۔
یحیی کہتے ہیں: اس کی حدیث کچھ نہیں۔
سعدی کا بیان ہے کہ یہ غیر ثقہ ہے۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ غالی قسم کا شیعہ ہے،
اور حدیث میں واہی ہے۔ [تقريب: 148/1۔ الجرح والتعديل: 1130/3۔ تهذيب الكمال: 220/1]

اجلح:
امام احمد فرماتے ہیں اس نے کئی منکر روایات نقل کیں۔
ابو حاتم رازی کہتے ہیں اس کی
حدیث حجت نہیں۔
ابن حبان کا بیان ہے کہ یہ اجلح تو یہ بھی نہیں جانتاکہ یہ کیا کہ رہا ہے۔
ابن جوزی لکھتے ہیں: یہ روایات ان احادیث کے خلاف ہیں جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا اور حضرت زید بن حارثہ کے تقدیم اسلام کے بارے میں مروی ہیں۔ بلکہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ سات سال تک عبادت کرتے رہے ہیں اور کسی کو خبر تک نہیں ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبوت کے چھٹے سال اسلام لائے اور اسلام لانے والوں میں ان کا نمبر چالیسواں تھا۔ [الموضوعات: 342/1]
امام ابن الجوزی سینوں کی باتیں کر رہے ہیں۔ ورنہ بات مومنین کی ہو رہی ہے منافقین کی نہیں ہو رہی ہے حتی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو صرف پانچ افراد اسلام لائے تھے۔ باقی سب منافق تھے۔ اور ان پانچوں افراد میں حسن و حسین اور فاطمہ رضی اللہ عنہم بھی داخل نہ تھیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان افراد کو کیسے داخل کیا گیا۔
امام ذہبی تحریر فرماتے ہیں یہ حبتہ بن جوین قبیلہ عرینہ سے تعلق رکھتا ہے۔ کوفہ کا باشندہ ہے۔ اس کا تعلق غالی شیعوں سے ہے۔ اس نے یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ صفین میں اسی بدری تھے۔
ذہبی لکھتے ہیں: یہ محال ہے۔ [ميزان الاعتدال: 188/2]
جوزجانی کا بیان ہے کہ یہ ثقہ نہیں اس سے سلمہ بن کہیل اور حکم اور ایک جماعت نے حدیث روایت کی ہے۔
سلیمان بن معبد نے یحیی بن معین سے نقل کیا ہے کہ یہ ثقہ نہیں۔
نسائی کا بیان ہے کہ یہ قوی نہیں۔
اور ابن خراش کا بیان ہے کہ یہ کچھ نہیں۔
احمد بن عبد اللہ العجلی کا بیان ہے کہ میں نے اس حبہ کو دیکھا ہے۔ اس کی زبان پر سبحان
اللہ اور الحمد للہ جاری رہتا۔ بجز اس کے وہ نماز پڑھتا یا حدیث بیان کرتا۔ 96ھ میں اس کا انتقال ہوا۔
اس وجہ سے یہ کہانی اجلح بن عبد اللہ ابو حجیتہ الکندی الکوفی نے نقل کی ہے۔
امام احمد
فرماتے ہیں: یہ فطر کے قریب ہے۔
ابو حاتم کہتے ہیں: قوی نہیں۔
نسائی کا بیان ہے کہ ضعیف ہے بری رائے رکھتا تھا۔
قطان کہتے ہیں: میرے دل میں اس کی جانب سے شک ہے۔
ابن عدی لکھتے ہیں: شیعہ ہے سچا ہے لیکن جوزجانی کا بیان ہے کہ یہ اجلح افتراء باز ہے، 145ھ میں اس کا انتقال ہوا۔ [ميزان الاعتدال: 209/1۔ تهذيب الكمال: 71/1۔ تقريب: 49/1۔ الكاشف: 99/1۔ الجرح والتعديل: 347/2۔ موضوعات ابن جوزي: 237/2۔ طبقات ابن سعد: 327/7]
——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام نیک لوگوں کے امام ہیں
خطیب نے اپنی تاریخ میں اور حاکم نے المستدرک میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: علی نیک لوگوں کے امام اور فاجروں کے قاتل ہیں۔ جو ان کی مدد کرے اس کی مدد کی جائے گی۔ اور جو انہیں رسوا کرے، اسے رسوا کیا جائے گا۔ [المستدرك للحاكم ج 1، ص: 169۔ رقم: 4644۔ كنز العمال: 602/11۔ الضعيفة: 532/1۔ اخرجه الخطيب فى التاريخ: 377/2۔ 219/4۔ و ابن جوزي فى الموضوعات: 353/1۔ وذكره السيوطي فى اللالي: 171/1]
حاکم نے اسے ”المستدرک“ میں روایت کر کے لکھا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
لیکن حافظ ذہبی اس کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ «قلت بل والله موضوع و احمد كذاب فما ا جهلك على سعت معرفتك»
”میں کہتا ہوں بلکہ اللہ کی قسم یہ موضوع ہے، اور احمد کذاب ہے حاکم نے اپنی اس وسعت علمی کے باوجود کتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے۔“

احمد بن عبد اللہ بن یزید الہشیمی:
یہ شخص سامرہ میں رہتا تھا۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ شخص احادیث وضع کیا کرتا تھا۔ پھر ابن عدی نے اس کی موضوع روایات ذکر کیں۔ اس کا انتقال 371ھ میں ہوا۔ [ميزان الاعتدال ج 1، ص: 249۔ الضعفاء والمتروكين: 79/1]

عبد الرزاق بن ہمام:
یہ تمام صحاح ستہ کا راوی ہے۔ لیکن شیعہ ہے اور آخر عمر میں پاگل ہو گیا تھا، شیعہ ہونے کے ناتے وہ روایات قابل قبول نہیں۔ جس سے تشیع کی تائید ہوتی ہو۔ ہم اس کا تفصیل حال پہلے پیش کر چکے ہیں۔

عبد اللہ بن عثمان بن خثیم:
اس کی سند کا ایک اور راوی عبد اللہ بن عثمان بن خثیم المکی ہے۔
یحیی بن معین کہتے ہیں اس کی حدیث حجت نہیں۔ عبد الرحمن اس کی روایت نہ لیتے، اور نسائی کہتے ہیں اس کی حدیث کمزور ہے۔ [ميزان الاعتدال ج 2، ص: 402]
تعجب تو حاکم پر ہے کہ وہ موضوع روایت کو بھی صحیح قرار دیتے ہیں۔ اس لیے محدثین کا قول ہے۔ «لا تغتر بتحسين الترمذي و لا بصحيح الحاكم» ”جس حدیث کو ترمذی حسن کہیں اور حاکم جس حدیث کو صحیح کہیں ہرگز دھوکہ نہ کھانا۔“
اس روایت کا ایک راوی شیعہ ہے ایک ضعیف اور ایک وضاع الحدیث ہے۔ پھر بھی حاکم اسے صحیح کہہ رہے ہیں۔ اور حاکم نے اس قسم کی بے پناہ غلطیاں کی ہیں۔ حتی کہ محمد بن جعفر کتانی نے تقریر کیا کہ مستدرک کا چوتھائی حصہ منکرات اور واہی روایات سے بھرا ہوا ہے۔ اس میں سو سے زیادہ روایات موضوع ہیں۔ [الرسالة المستطرفه: 19]
——————

حضرت علی رضی اللہ عنہ وصی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: یہ میرا وصی ہے۔ میرے راز کی جگہ ہے اور جن لوگوں کو میں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ ان میں سب سے بہتر ہے۔
[ميزان الاعتدال ج 2، ص: 418۔ ترجمه خالد بن عبيد۔ وذكر ابن جوزي فى الموضوعات: 375/1۔ و ابن قيسراني فى التذكره: 219]
؟
ابو عصام خالد بن عبد البصری:
اس روایت کا راوی ابو عصام ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اس روایت پر اعتراض ہے۔
حاکم کا بیان ہے کہ یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے موضوع احادیث نقل کرتا ہے۔ [ميزان الاعتدال: 400/9۔ المغني: 798/2۔ الجرح والتعديل: 421/9]
ابوعصام سے یہ روایت نقل کرنے والا علاء بن عمران ہے اور علاء سے عبد اللہ بن محمود یہ ہر دو مجہول ہیں۔
ہمیں حدیث کی کسی کتاب میں ایسی کوئی صحیح روایت نظر نہیں آئی جو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہو۔ انہوں نے صحابہ میں سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہ سے تو روایات لی ہیں ورنہ ان کی تمام روایات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست مروی ہے۔ جن کی تعداد تقریباً سوا دو ہزار ہے ایسی روایات جو انہوں نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہوں ان کی تعداد میں (20) سے زیادہ نہیں۔ وہ بھی اہل تشیع کی وضع کردہ۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا کوئی ساتھ نہیں دیا۔ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یزید، عبد الملک بن مروان اور ولید کی بیعت کی اور ان کا ساتھ دیا۔ حتی کہ جنگ قسطنطنیہ میں یزید کی ماتحتی میں شریک ہوئے۔
——————

اے علی رضی اللہ عنہ تیرے علاوہ مجھے کوئی غسل نہ دے
حافظ ابو بکر بن البزار نے اپنی مسند میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ تیرے (علی رضی اللہ عنہ) کے علاوہ کوئی مجھے کو غسل نہ دے۔ کیونکہ جو بھی میری شرمگاہ دیکھے گا وہ نابینا ہو جائے گا۔
[اخرجه العقيلي فى الضعفاء: 13/4۔ والبيهقي فى الدلائل: 244/7۔ ميزان الاعتدال: 505/5]
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عباس رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ مجھے پس پردہ سے پانی دے رہے تھے۔
بزار نے جو اس کی سند پیش کی ہے۔ اس کے راوی یہ ہیں۔
محمد بن عبد الرحیم، عبد الصمد بن النعمان، کیسان ابو عمرو، یزید بن بلال، حضرت علی رضی اللہ عنہ۔
این کثیر لکھتے ہیں کہ یہ روایت بیہقی نے بھی کیسان ابو عمرو سے نقل کی ہے۔ لیکن یہ روایت انتہا سے زیادہ غریب ہے۔ [البدايه و النهايه: 261/5]
یہ روایت ابن سعد نے بھی طبقات میں عبد الصمد بن النعمان سے ان الفاظ میں نقل کی
ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے علی رضی اللہ عنہ وصیت فرمائی کہ تیرے علاوہ کوئی مجھ کو غسل نہ دے۔ ورنہ جس شخص کی نگاہ میری شرمگاہ پر پڑے گی وہ نابینا ہو جائے گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فضل رضی اللہ عنہ اور اسامہ رضی اللہ عنہ مجھے پردے کے پیچھے سے پانی دے رہے تھے۔ اور ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اور جب میں کسی عضو کو ہلاتا تو مجھے یہ محسوس ہوتا کہ مجھ میں تیس آدمیوں کی قوت پیدا ہو گئی ہے حتی کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل سے فارغ ہوا۔ [طبقات ابن سعد: 94/4]
قارئین کرام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، لیکن حضرت فضل رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کروٹیں تبدیل کرا رہے تھے۔ اور عباس، اسامہ اور شقران رضی اللہ عنہم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے پانی ڈال رہے تھے۔ اور بعض مورخین یہ کہتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بجائے ان کے صاجزادے قثم رضی اللہ عنہ شریک تھے۔
ہم اس روایت کے صرف تین راویوں پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں:
عبد الصمد بن النعمان:
یہ بغداد کا باشندہ تھا، بزاز تھا، صحاح ستہ کے مصنفین میں سے کسی نے اس سے روایت نہیں لی۔
یحیی بن معین وغیرہ کہتے ہیں ثقہ ہے۔
دارقطنی اور نسائی کا بیان ہے کہ قوی نہیں۔ [ميزان الاعتدال: 356/4۔ المغني: 396/2 – الجرح والتعديل: 51/6]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ابن حبان نے اس کو ثقات میں شمار کیا ہے۔
ابراہیم الجنید کا بیان ہے کہ میں نے یحیی بن معین سے اس کی حدیث کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے فرمایا میں اسے جھوٹا نہیں سمجھتا۔
عجلی کہتے ہیں ثقہ ہے۔ [لسان الميزان: 23/4]

کیسان ابو عمرو:
اسے قصار بھی کہا جاتا ہے۔ یزید بن بلال سے روایات نقل کرتا ہے۔ یحیٰی بن معین کہتے ہیں: ضعیف ہے۔
عبد اللہ بن احمد کا بیان ہے کہ میں نے اپنے والد امام احمد سے اس کے بارے میں دریافت کیا، فرمایا: یہ ضعیف الحدیث ہے۔
اس سے عبد اللہ بن النعمان، محمد بن ربیع اور عبید اللہ بن موسی نے روایات نقل کی ہیں۔ اس راوی پر اعتراض ہے۔ اور اس کی یہ روایت انتہا سے زیادہ منکر ہے۔ [ميزان الاعتدال: 505/5۔ تقريب: 137/2]
عبد الرحمان بن ابی حاتم لکھتے ہیں: اس کیسان ابو عمرو نے یزید بن بلال سے روایت نقل کی ہے۔ جو اس کا مالک تھا۔ اس سے متعدد افراد نے روایات نقل کی ہیں۔ میں نے یحییٰ بن معین سے اس کے بارے میں دریافت کیا، انہوں نے فرمایا: ضیف الحدیث ہے۔ [الجرح والتعديل: 166/7]

زید بن بلال:
کہا جاتا ہے کہ یہ اصحاب علی رضی اللہ عنہ میں داخل ہے۔ اور محدثین تمام اصحاب علی رضی اللہ عنہ کو کذاب سمجھتے ہیں۔ عبدالرحمان بن ابی حاتم لکھتے ہیں۔ یزید بن بلال بن الحارث الفراری حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتا ہے۔ اس سے کیسان ابو عمرو کے علاوہ کسی نے روایت نقل نہیں کی، مجھ سے میرے والد نے اتنی ہی بات بیان فرمائی۔ [الجرح والتعديل: 254/9]
ذہبی لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کرتا ہے جو صحیح نہیں۔
بخاری کہتے ہیں یزید بن بلال نے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے۔ اس پر اعتراض ہے۔ اس سے کیسان ابو عمرو الہجری کی روایت نقل کرتا ہے۔ جو صحیح نہیں۔

اس تحریر کو اب تک 19 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply