مسلمان کبھی ناپاک نہیں ہوتا

تحریر : فضیلۃ الشیخ مولانا محمد ظفر اقبال الحماد حفظ اللہ

قصہ نمبر 51:
مسلمان کبھی ناپاک نہیں ہوتا
——————
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک روز مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راستہ میں مل گئے، اس وقت میں ناپاک تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگیا مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو میں وہاں سے کھسک کر چلا آیا اور اپنی جگہ پر کو غسل کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہی تھے کہ میں خدمت میں پہنچ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہاں تھے ؟ میں نے واقعہ عرض کر دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ ! مومن نجس نہیں ہوا کرتا۔ [بخاري شريف: 281، 279]
فائده:
یعنی مسلمان ایسا ناپاک نہیں ہوتا کہ دعا سلام کی بھی ممانعت ہو جائے اور نہ ایسا ناپاک ہوتا ہے کہ دوبارہ پاک ہی نہ ہو سکے۔
معلوم ہوا کہ ناپاکی کی حالت میں دعا سلام جائز ہے، صرف تلاوت قرآن اور مسجد میں داخلہ بند ہوتا ہے، اس کے علاوہ اذکار کی ممانعت نہیں ہوتی، نیز اس دوران بازار میں آنا جانا اور خرید وفروخت کرنا بھی ممنوع نہیں، تاہم بہتر یہی ہے کہ جتنا جلدی سے جلدی ہو سکے غسل کرلے۔

قصہ نمبر 52 :
عورت اور اس کی فطری کمزوری
——————
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ عید الاضحیٰ یا عید الفطر میں عیدگاه کو جاتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کچھ عورتوں کی طرف گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اے عورتو! تم صدقہ کیا کرو کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ دوزخیوں کا اکثر حصہ عورتیں ہیں، انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کیا وجہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم طعن زیادہ کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، میں نے کوئی ایسا کم عقل اور کم دین نہیں دیکھا جو تم سے زائد مرد کی عقل کو زائل کرنے والا ہو، عورتوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمارے دین و عقل میں کیا نقصان ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی شہادت مرد سے نصف نہیں؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ ان کا نقصان عقل ہے ! پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کیا یہ بات نہیں ہے کہ تم حالت حیض میں نماز روزہ نہیں کرتی ہو۔ انہوں نے کہا جی ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے فرمایا یہ دین کا نقصان ہے۔ [بخاري شريف :298، 913، 1393، 185، 2515 ]
فائدہ :
بخاری شریف ہی میں ایک مقام پرعورت کی فطرت کی عکاسی کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی عورت پر سدا احسانات کرتے رہو، ہمیشہ اس پر نوازشات کی برسات کرتے رہو، بس ایک مرتبہ کمی آنے کی دیر ہے، اس کے منہ سے یہ جملے نکلنے میں دیر نہیں لگے گی والله مارايت منك خير اقط بخدا ! تجھ سے تو مجھے کبھی اچھائی کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ کہیں یہ فطرت زنانہ، فطرت مردان میں تو نہیں داخل ہوتی جارہی ؟

قصہ نمبر 53 :
اگر ایسا ہو جائے تو ؟
——————
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج وداع کا احرام باندھا اور میرا ارادہ تمتع کا تھا، اور ہدی نہیں بھیجی تھی مگر میں حیض میں مبتلا ہوگئی، 9 ذی الحج کی رات بھی آئی لیکن میں پاک نہیں ہوئی، چنانچہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ عرفہ کی رات آ گئی اور میں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سرکھول کر کنگھی کر لو اور عمرہ مت کرو۔ چنانچہ میں نے یہی کیا جب میں حج پورا کر چکی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کو حکم دیا اور انہوں نے مجھے اس عمرہ کی بجائے جس کا میں نے احرام باندھا تھا مقام تنعیم سے عمرہ کرایا۔ [بخاري شريف : 290، 310 وغيره ]
فائدہ:
’’ناغہ‘‘ کے ماہانہ ایام عورت کی ایک فطری مجبوری ہے جس سے کسی عورت کو مفر نہیں تاہم اگر دوران عبادت یہ عارضہ لاحق ہو جائے تو وہ عبادت از خود ختم ہوجاتی ہے اور ان اوقات کے بیت جانے کے بعد اس عبادت کی قضا ضروری ہوتی ہے۔ اس کی مختصر وضاحت یہ ہے کہ ناغہ کے ایام میں نماز کی قضا نہیں ہے البتہ روزہ کی قضا لازم ہے اور حج میں جب تک طواف زیارت نہ کر لیا جائے احرام سے مکمل طور پر فراغت نہ ہوگی۔ باقی مسائل قریبی علما سے دریافت کئے جاسکتے ہیں۔

قصہ نمبر 54 :
عورت اور عیدگاه
——————
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم جوان عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کیا کرتے تھے۔ (ایک روز ) ایک عورت آئی اور قصر بن خلف میں ٹھری اور اس نے بیان کیا کہ میرا بہنوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ غزوات میں شریک ہوا تھا جن میں سے چھ میں میری بہن بھی موجو تھی اور زخمیوں کا علاج اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی، ایک روز میری بہن نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس چادرنہ ہو اور وہ (عیدگاہ) کو نہ جائے تو کوئی حرج تو نہیں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے ساتھ والی کو چاہئے کہ وہ اپنی چادر اسے بھی اڑھا دے اور وہ خیر کے موقعوں میں اور مسلمانوں کے ساتھ دعا میں شریک ہو۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب ام عطیہ رضی اللہ عنہا آئیں تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا میرا باپ ان پر قربان ہاں میں نے سنا ہے (ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ قاعدہ تھا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کاذکر آتا تو وہ ضرور کہہ دیتیں کہ میرے باپ ان پر فدا ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے کہ نوجوان پرده شین اور حائضہ عورتوں کو بھی عید گاہ جانا چاہئے اور خیر کے موقعوں پر اور نیز مسلمانوں کے ساتھ دعا میں شریک ہونا چاہئے، ہاں! حائضہ عورتوں کو نماز کی جگہ سے الگ رہنا چاہئے، حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کیا حائضہ بھی جائے ؟ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کہ کیا حائضہ عورتیں عرفات وغیرہ میں نہیں حاضر ہوتی ہیں (یعنی جب وہاں حاضر ہوتی ہیں تو ان کو ان مقامات میں بھی اجازت ہے۔) [بخاري شريف : 318، 344، 927، 931، 937، 938، 1569 ]
فائدہ:
اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ عید گاہ میں عورتوں کا جانا اور نماز عید میں شرکت کرنا جائز ہے، یقینا اس کے ”جواز “میں کوئی شبہ نہیں تاہم ذیل کی حدیث بھی قابل غور رہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے موجودہ طور طریقے دکھ لیتے تو انہیں مساجد میں آنے سے روک دیتے۔
اس لئے فیشن اور ٹیپ ٹاپ کے اس دور میں اگر کوئی عورت حجاب کی مکمل پابندی کے ساتھ اپنے اہل خانہ کی معیت میں نماز عید کی ادائیگی کے لئے عید گاہ جائے تو جائز ہے، یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ خواتین اجتماعات عید میں شرکت نہ کریں لیکن یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ایک شری حکم کی تکمیل کے لئے دوسرے بہت سے شری احکام کو پامال بھی نہ کریں۔

قصہ نمبر 55 :
سفر کا ایک عجیب واقعہ
——————
حضرت عمران رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب سفر میں ایک شب رات بھر چلے رہے اور آخری رات کو ایک جگہ ٹھر کر سور ہے، کیونکہ مسافر کو پچھلی رات کا سونا نہایت شیریں معلوم ہوتا ہے۔ صبح کو آفتاب کی تیزی سے ہماری آنکھ علی پہلے فلاں شخص پھر فلاں پر فلاں اور چوتھے نمبر پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور یہ قاعدہ تھا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم خواب راحت میں ہوتے تو تاوقتیکہ خود بیدار نہ ہو جائیں کوئی جگاتا نہ تھا کیونکہ ہم کو علم نہ ہوتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں کیا واقعہ دکھائی دے رہا ہے۔ مگر جب عمر رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے اور آپ نے لوگوں کی کیفیت دیکھی تو چونکہ دلیر آدمی تھے اس لئے آپ نے زور زور سے تکبیر کہنی شروع کر دی، اور اس ترکیب سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے، لوگوں نے ساری صورت حال عرض کی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ حرج نہیں ہے یہاں سے کوچ کر چلو۔
حسب الحکم لوگ چل دیئے اور تھوڑی دور چل کر پھر اتر پڑے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا اور اذان کہی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی، نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو علیحدہ کھڑا دیکھا اس شخص نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے شخص ! تو نے جماعت کے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی ؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے غسل کی ضرورت تھی اور پانی موجود نہ تھا (اس لئے غسل نہ کر سکا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیمم کرلو کافی ہے۔
پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل دئیے (چلتے چلتے راستہ میں ) لوگوں نے پیاس کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر پڑے اور ایک شخص کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی معیت میں بلا کر حکم دیا کہ جاؤ پانی کی تلاش کرو حسب الحكم ہر دو صاحبان چل دیئے، راستہ میں انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جو پانی کی دو مشکیں اونٹ پر لادے ہوئے ان کے درمیان میں پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی، انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ پانی کہاں ہے ؟ عورت نے جواب دیا کہ کل اس وقت میں پانی پر تھی اور ہماری جماعت پیچھے ہے، انہوں نے اس سے کہا کہ ہمارے ساتھ چل ! عورت بولی کہاں ؟ انہوں نے جواب دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ! عورت بولی کون رسول صلی اللہ علیہ وسلم ؟ وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں، انہوں نے کہا وہی، ان ہی کے پاس چل ! چنانچہ دونوں صاحبان عورت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے اور پورا قصہ بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکوں کو نیچے اتروا دیا اور برتن منگوا کر اس میں پانی گرانے کا حکم دیا، اوپر کے دھانوں کو بند کر دیا اور نیچے کے دہانے کھول دیئے اور لوگوں میں اعلان کرادیا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلاؤ اور خود بھی پیو اور مشکیں بھی بھرلو۔ چنانچہ جس نے چاہا اپنے جانوروں کو پلایا اور جس نے چاہا خود پیا اور سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو جسے نہانے کی ضرورت تھی پانی دیا اور فرمایا کہ اسے لے جاؤ اور نہا لو، اور وہ عورت یہ سب واقعہ دیکھ رہی تھی، قسم خدا کی تمام لوگ پانی پی چکے حالانکہ وہ مشکیں ویسی ہی ہیں بلکہ اس سے زائد بھری ہوئی تھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی کے بدلے اس عورت کے لئے کچھ کھانا جمع کردو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کے لئے بہت سا آٹا، کھجوریں اور ستو جمع کر کے ایک کپڑے میں باندھ کر اس کو اونٹ پر سوار کرا کے اس کے آگے رکھ دیا، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ ہم نے تیرے پانی کا کچھ نقصان نہیں کیا لیکن خدا نے ہم کو سیراب کر دیا، اس کے بعد وہ عورت اپنے گھر چلی گئی اور اس کو دیر ہوگئی تھی لہذا اس کے گھر والوں نے کہا کہ اے فلانی کچھ دیر کیوں ہوگئی ؟ اس نے جواب دیا کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا، مجھے دو آدمی ملے اور مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جس کو لوگ صابی کہا کرتے ہیں اور اس نے ایسا ایسا کیا، لہذا وہ یا تو آسمان و زمین میں سب سے بڑا جادوگر ہے اور یا وہ خدا کا سچا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان آس پاس کے مشرک قبائل میں لوٹ مار کیا کرتے لیکن جس قبیلہ سے اس عورت کا تعلق تھا اس سے کچھ تعرض نہیں کرتے تھے، ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرے خیال میں یہ لوگ تم سے عمدا تعرض نہیں کرتے کیا تم مسلمان ہونا چاہتے ہو ؟ لوگوں نے اثبات میں جواب دیدیا اور سب کے سب مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ [بخاري شريف: 337]
فائدہ:
اس واقعے کا ابتدائی پس منظر بخاری شریف ہی میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ دوران سفر رات کے پچھلے پہر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا اور فرمایا کہ نماز فجر کیلئے میں کون جائیگا ؟ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حامی بھر لی لیکن” انشاء اللہ “کہنا بھول گئے۔ مشرق کی طرف منہ کر کے دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے کہ ابھی سورج نکلتا ہے اور میں سب کو جگاتا ہوں، بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی اور ایسی گہری نیند آئی کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ خود فرماتے تھے کہ کبھی ایسی نیند نہیں آئی تھی، آنکھ اس وقت کھلی جب سورج نے اپنا چہرہ مشرق سے نکال کر زمین کی طرف تیز نظروں سے گھورا چنانچہ آگے یہ واقعہ آتا ہے۔
اس واقعہ میں سبق ملتا ہے کہ ”انشاء اللہ“ کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔

قصہ نمبر 56 :
ایک ایساشرف جو کسی کو نہ مل سکا
——————
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں مکہ مکرمہ میں تھا کہ میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور جبریل آئے، میرا سینہ شق کر کے اس کو آب زمزم سے دھویا اور پھر ایک طشت ایمان و حکمت سے بھرا ہوا لائے اور میرے سینے میں بھر کر سینہ بند کر دیا، اس کے بعد جبرئیل میرا ہاتھ پکڑ کر پہلے آسمان پر لے گئے جب میں دنیا کے آسمان پر پہنچا تو جبرئیل نے آسمان کے دربان سے کہا دروازہ کھولو دربان نے کہا کون ہو ؟ انہوں نے کہا جبرئیل، دربان بولا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ انہوں نے فرمایا ہاں میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؟ اس نے کہا کیا ان کو بلایا گیا تھا ؟ جبرئیل نے کہا ہاں چنانچہ جب دروازہ کھولا گیا تو ہم چرخ اول پہنچ گئے تو دیکھتا کیا ہوں کہ ایک شخص بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے داہنی اور بائیں طرف بہت سے آدمی ہیں جب وہ اپنی طرف دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور جب بائیں جانب دیکھتے ہیں تو روتے ہیں (جب انہوں نے مجھے دیکھا تو کہا ) خوش آمدید اے صاع نبی اور صالح بیٹے ! میں نے جبرئیل سے دریافت کیا کون ہیں ؟ جو داہنی طرف دیکھ کر ہنستے ہیں اور بائیں جانب دیکھ کر روتے ہیں، جبرئیل نے جواب دیا یہ تمام لوگوں کے باپ آدم ہیں، جو لوگ ان کی داہنی طرف ہیں وہ ان کی جنتی اولاد ہے اور بائیں طرف دوزخی اولاد، جب ان کو دیکھتے ہیں تو ہنستے ہیں اور جب ان کو دیکھتے ہیں تو روتے ہیں۔ پھر مجھ کو دوسرے آسمان پر لے گئے اور وہاں بھی دربان سے وہی گفت وشنید ہو کر دروازہ کھلا، حضرت انس رضی اللہ عنہ (راوی) کہتے ہیں کہ ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں میں حضرت آدم، ادریس، موسی و عیسی اور ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا مگر ان کے مقامات نہیں بیان کئے صرف اتنا کہا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو پہلے آسمان پر دیکھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے پر چنانچہ جب آنحضرت جبرئیل کے ساتھ حضرت ادریس علیہ السلام کی طرف گزرے تو انہوں نے مرحبا کہا (آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ) میں نے جبرئیل سے کہا یہ کون ہیں ؟ جبریل نے جواب دیا کہ یہ : ادریس ہیں پھر میں حضرت موسی علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے بھی مرحبا کہا میں نے کہا کہ یہ کون ہیں ؟ تو جبریل نے کہا کہ یہ موسی ہیں۔ پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف سے گزر ہوا، انہوں نے بھی مرحبا کہا میں نے کہا کون ہیں ؟ جواب ملا کہ یہ عیسی ہیں پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس سے گزرا، انہوں نے بھی مرحبا کہا، میں نے ان کے متعلق دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ابراہیم ہیں۔
ابن شہاب نے بروایت ابن حزم بیان کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور ابو حبہ انصاری رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر مجھ کو ایک بلند مقام پر پہنچایا گیا جہاں میں نے قلموں سے لکھنے کی آواز سنی۔ ابن حزم اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت پر خدا نے پچاس وقت کی نمازیں فرض کی تھیں۔ لیکن جب میں وہاں سے لوٹا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریافت کیا خدا نے آپ کی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں! حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے کہ خدا کے پاس پھر
جاؤ، کیونکہ آپ کی امت میں اس کی قدرت نہیں ہے میں واپس گیا تو خدا تعالی نے نصف كم کر دیں، میں لوٹ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر وہی باتیں کیں، میں دوبارہ اللہ تعالی کے پاس گیا اور کچھ نمازیں اور کم ہو گئیں میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے آکر کہہ دیا انہوں نے کہا پھر واپس جاؤ کیونکہ تمہاری امت میں اتنی طاقت بھی نہیں ہے۔ میں پھر گیا چنانچہ خدا نے پانچ نمازیں باقی رکھیں اور فرمایا یہ (حکم میں اور ثواب میں) پچاس کے برابر ہیں کیونکہ ہمارے قول میں تبدیلی نہیں ہوتی، میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے وہی پہلی بات کہی، میں نے کہا کہ اب مجھے شرم آتی ہے۔
اس کے بعد مجھے جبرئیل لے چلے یہاں تک کہ میں سدرة المنتہی پہنچا اور وہ طرح طرح کے رنگوں سے ڈھکا ہوا تھا جن کی حقیقت میں نہیں جانتا، پھر میں جنت میں داخل ہوا وہاں میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے گنبد ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔ [بخاري شريف: 342]
فائدہ:
واقعہ معراج کی تفصیل بخاری شریف ہی میں ایک دوسرے مقام پر اس طرح وارد ہوئی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس رات حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو خانہ کعبہ کی مسجد سے معراج کیلئے لے جایا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین فرشتے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات کو مسجد حرام میں چند لوگوں کے ساتھ استراحت فرمارہے تھے، وہ فرشتے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں تھے، آپس میں کہنے لگے کہ ہمارے مطلوب ان میں سے کون ہیں ؟ بیچ کے فرشتہ نے کہا کہ وہ سب میں بہتر ہیں، اخیر کے فرشتے نے کہا کہ ان میں جو بہتر ہیں ان کو لے لو۔ الغرض اس رات تو اتنا ہی واقعہ ہوا اور پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ دوسری رات حاضر ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل ان کو دیکھ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سورہی تھیں۔ کیونکہ نبیوں کا سونا اایسا ہی ہوتا ہے کہ ان کی آنکھیں تو سوتی ہیں اور ان کا دل جاگتا ہے لہذا ان فرشتوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ باتیں کیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھا کر چاه زمزم کے قریب لے آئے اور جبرئیل خودکار پرداز بنے۔
انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کو گلے سے لے کر دل تک چاک کیا اور سینے اور پیٹ کے اندر سے سب چیزوں کو نکال کر الٹ دیا اور زمزم کے پانی سے تمام سینہ کو اپنے ہاتھ سے صاف کیا پھر ایمان اور حکمت سے بھرا ہوا ایک برتن حاضر کیا گیا، اس کو جبرئیل نے آپ کے سینے میں اور حلق تک رگوں میں بھر کر اس کو درست کر دیا اور پھر آسمان دنیا کی طرف لے کر چلے اور اس کے دروازہ کھٹکھٹایا، اہل آسمان نے کہا کہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا جبرئیل! انہوں نے کہا تمہارے ہمراہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ میرے ساتھ (حضرت) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟ انہوں نے کہا کیا یہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خوب آئے اور اچھے آئے، ان کی خوش خبری تو تمام اہل آسمان سنتے ہیں اور آسمان والوں کو اس کام کی جو اللہ تعالی زمین میں کرتا ہے خبر نہیں ہوتی ہے، جب تک اللہ تعالی کسی کی زبانی یعنی جبرئیل کی زبانی ان کو خبر نہ دے دے اور (پہلے ہی) آسمان میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم علیہ السلام سے ملاقات کی، جبرئیل نے کہا کہ یہ آپ کے والد آدم ہیں، ان کو سلام کیجئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا، انہوں نے جواب دیا اور کہا کہ میرے بیٹے خوب آئے اور اچھے آئے، تم اچھے فرزند ہو، اور وہیں آسمان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ دونہریں جاری ہیں، جبرئیل سے دریافت کیا کون سی نہریں ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ نیل فرات کا منبع ہے اور پھر جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان میں لے کر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور نہر دیکھی جس کے کنارے پر موتی اور زبرجد کے محل بنے ہوئے تھے اور اس کی مٹی پر جب ہاتھ مارا تو معلوم ہوا کہ مشک ہے، آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ جبرئیل نے کہا یہ حوض کوثر ہے جو الله تعالی نے آپ کے واسطے رکھ چھوڑی ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جبریل لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے اس کے دروازے پر بھی فرشتوں نے پہلے آسمان کی طرح سوال کیا کہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا جبرئیل! انہوں نے کہا تمہارے ساتھ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے کہا یہ بلائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں ! انہوں نے کہا خوب آئے اور اچھے آئے۔
پھر تیسرے آسمان پر تشریف لے گئے اور وہاں بھی میری گفتگو ہوئی جو دوسرے میں ہوئی تھی، پھر چوتھے پر چڑھے اور وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی، پھر پانچویں آسمان پر پہنچے وہاں بھی یہی گفتگو ہوئی، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں کے فرشتوں نے بھی یہی گفتگو کی، پھر ساتویں آسمان پر پہنچے وہاں کے فرشتوں نے بھی یہی کیا۔
راوی کہتے ہیں) ہر آسمان پر نبیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی اور ان کے نام حضرت رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم نے لئے جن میں سے بعض کے نام مجھے یاد ہیں، مثلاً حضرت ادریس علیہ السلام دوسرے آسمان میں تھے اور حضرت ہارون علیہ السلام چوتھے میں۔ پانچویں میں کوئی اور (نبی) تھے جن کا نام مجھے یاد نہیں رہا اور حضرت ابراہیم چھٹے آسمان پر تھے اور موسیٰ ساتویں آسمان پر تھے، اللہ تعالی کے ان سے کلام کرنے کی فضیلت کے سبب سے (اور جب رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بھی آگے بڑھے) تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے الله تعالی سے عرض کیا اے پروردگار ! میرا یہ خیال تھا کہ مجھ سے اوپر کوئی نہ جائے گا۔
پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس مقام سے اس قدر آگے گئے کہ اس کی مقدار کو خدا ہی جانتا ہے یہاں تک کہ سدرة المنتہی کے پاس پہنچے اور پھر الله تعالی سے نزدیک ہوئے اور اس قدر نزدیک ہوئے جیسے کان کے دونوں کونے آپس میں مل جائیں، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک ہوئے اور پھر اللہ تعالی نے جو وحی کرنا تھی وہ وحی کی۔ منجملہ اس کے یہ بھی وحی کی کہ تمہاری امت پر پچاس نمازیں ہر روز و شب میں فرض ہیں۔
پھر رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے تشریف لائے یہاں تک کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کے پاس پہنچے تو انہوں نے آپ کو روک لیا اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پروردگار نے تم سے کیا عہد لیا ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر روز و شب میں پچاس نمازیں فرض کی ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی پھر جاؤ، اللہ تعالی تمہارے اور ان کے واسطے تخفیف کردے گا۔ حضرت رسول
کریم صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل کی طرف مڑے گویا آپ نے ان سے اس بارہ میں مشورہ لینا چاہا کہ ہاں بات تو اچھی ہے اگر آپ چاہیں تو۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم جناب باری میں گئے اور اسی اپنی جگہ میں پہنچ کر عرض کیا کہ اے پروردگار! ہم پرتخفیف فرما کیونکہ میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی ہے، اللہ تعالی نے دس نمازیں معاف فرما دیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسی علیہ السلام کے پاس آئے انہوں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا اور پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پروردگار کے حضور میں بھیجا۔ غرض کہ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام رسول انور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجتے رہے یہاں تک کہ پانچ نمازیں رہ گئیں پھر موسیٰ السلام اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روکا اور پھر کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی قوم بنی اسرائیل کو اس سے بہت کم مقدار کے ساتھ دیکھ چکا ہوں کہ وہ ( اس کے بجالانے سے ) ضعیف ہو گئے تھے اور اس کو انہوں نے چھوڑ دیا پھر تمہاری امت کے جسم، دل، بدن آنکھ اور کان ان سے بہت ہی ضعیف ہیں تم پھر جاؤ تمہارا پروردگار اور تخفیف فرما دے گا اور ہر بار رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل کی طرف مشورہ کے واسطے مڑتے تھے اور جبرئیل اس کو برا نہیں سمجھتے تھے، پھر پانچویں مرتبہ جو رسول اقدس صلی اللہ علیہ وسلم گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرض کیا اے پروردگار! میری امت کے جسم، دل، کان اور بدن سب ضعیف ہیں پس تو ہم پرتخفیف فرما۔ الله تعالی نے فرمایا اے محمد ! آپ نے فرمایا لبیک و سعد یک، فرمایا میرے یہاں حکم میں تبدیلی نہیں ہوتی، جو میں نے تم پر فرض کیا تھا ام الکتاب (لوح محفوظ) میں وہ ہی لکھا ہوا ہے پس ہرنیکی ( کے ثواب میں) دس حصہ ہیں اس حساب سے وہ پچاس ہو گئیں۔
موسیٰ علیہ السلام نے کہا قسم ہے خدا کی میں نے بنی اسرائیل سے اس سے کم عبادت کا مطالبہ کیا تھا تو انہوں نے اس کو چھوڑ دیا تم اپنے پروردگار کے پاس پھر جاؤ، وہ اور تخفیف فرما دے گا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے موسی ! قسم ہے خدا کی مجھ کو اپنے پروردگار کے حضور میں زیادہ آنے جانے سے شرم آ گئی ہے انہوں نے کہا بس تو خدا کا نام لیجئے اور نیچے تشریف لے جائیے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے اٹھے تو مسجد حرام ہی میں تھے۔
[بخاري شريف: 7079]
فائدہ:
اس واقعے کے کچھ اور مندرجات ایک دوسری روایت کے حوالے سے ملاحظہ ہوں جسے بعض علماء نے شب معراج ہی کے واقعات میں ذکر کیا ہے۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھ کر ہماری طرف متوجہ ہو کر فرماتے تھے کہ تم میں سے کسی نے آج رات کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا تو عرض کر دیتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی مشیت کے موافق اس کی تعبیر دے دیتے تھے۔
چنانچہ حسب دستور ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ ہم نے عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے آج رات خواب میں دیکھا کہ دو آدمی میرے پاس آئے اور میرے ہاتھ پکڑ کر مجھے پاک زمین (بیت المقدس ) کی طرف لے گئے، وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اور ایک آدمی کھڑا ہوا تھا جس کے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا تھا، کھڑا ہوا آدمی بیٹھے ہوئے آدمی کے منہ میں وہ آنکڑا ڈال کر ایک طرف سے اس کا جبڑا چیر کر گدی سے ملا دیتا تھا اور پھر دوسرے جبڑے کو بھی اسی طرح چیر کر گدی سے ملا دیتا تھا، اتنے میں پہلا جبڑا صحیح ہو جاتا تھا اور وہ دوبارہ پھر اسی طرح چیرتا تھا میں نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ ان دونوں شخصوں نے کہا آگے چلو، ہم آگے چل دیئے، ایک جگہ پہنچ کر دیکھا کہ ایک شخص چت لیٹا ہے اور ایک اور آدمی اس کے سر پر پھر لئے کھڑا ہے اور پتھر سے اس کے سر کو چل رہا ہے، جب اس کے سر پر پتھر مارتا ہے تو پتھر لڑک جاتا ہے اور وہ آدمی پتھر لینے چلا جاتا ہے، اتنے میں اس کا سر جڑ جا تا ہے اور مارنے والا آدمی پھر واپس آ کر اس کو مارتا ہے، میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ ان دونوں شخصوں نے کہا کہ آگے چلو، ہم آگے چل دیئے، ایک جگہ دیکھا کر تنور کی طرح ایک گڑھا ہے جس کا منہ تنگ ہے اور اندر سے کشادہ ہے، بر ہنہ مرد و عورت اس میں موجود ہیں اور آگ بھی اس میں جل رہی ہے جب آگ(تنور کے کناروں کے ) قریب آجاتی ہے تو وہ لوگ اوپر اٹھ آتے ہیں اور باہر نکلنے کے قریب ہو جاتے ہیں اور جب آگ فرو ہو جاتی ہے تو سب لوگ اندر ہو جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ ان دونوں آدمیوں نے کہا کہ آگے چلو، ہم آگے چل دیئے اور ایک خون کی ندی پر پہنچے جس کے اندر ایک آدمی کھڑا تھا اور ندی کے کنارہ پر ایک اور آدمی موجود تھا جس کے آگے پتھر رکھے ہوئے تھے، اندر والا آدمی جب باہر نکلنے کے لئے آگے بڑھتا تھا تو باہر والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مار کر پیچھے ہٹا دیتا تھا اور اصلی جگہ تک پہنچا دیتا تھا، دوبارہ پھر اندر والا آدمی نکلنا چاہتا تھا اور باہر والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا تھا اور اصلی جگہ تک پلٹا دیتا تھا دوبارہ پھر اندر والا آدمی نکلنا چاہتا تھا اور باہر والا آدمی اس کے منہ پر مارتا تھا اور اصلی جگہ تک پلٹا دیتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ ان دونوں شخصوں نے کہا کہ آگے چلو، ہم آگے چل دیئے۔
ایک جگہ دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے جڑ کے پاس ایک پیر مرد اور کچھ لڑکے موجود ہیں اور درخت کے قریب ایک اور آدمی ہے جس کے سامنے آگ موجود ہے اور وہ آگ جلا رہا ہے میرے دونوں ساتھی مجھے اس درخت کے اوپر چڑھالے گئے اور ایک مکان میں داخل کیا، جس سے بہتر اور عمدہ میں نے کبھی کوئی مکان نہیں دیکھا گھر کے اندر مرد بھی تھے اور عورتیں بھی، بوڑھے بھی، جوان بھی اور بچے بھی اس کے بعد وہ دونوں ساتھی مجھے اس مکان سے نکال کر درخت کے اوپر چڑھالے گئے اور وہاں ایک اور مکان میں داخل کیا جس سے بہتر میں نے بھی کوئی مکان نہیں دیکھا اس میں بھی بڈھے جوان سب طرح کے آدی تھے آخرکار میں نے کہا کہ تم دونوں نے مجھے رات بھر گھمایا اب جو کچھ میں نے دیکھا ہے اس کی تفصیل تو بیان کرو، انہوں نے کہا کہ اچھا ہم بتاتے ہیں۔
جس شخص کے تم نے گل پھڑے چرتے ہوئے دیکھا تھا وہ جھوٹا آدمی تھا کہ جھوٹی باتیں بنا کر لوگوں سے کہتا تھا اور لوگ اس سے سیکھ کر اوروں سے نقل کرتے تھے یہاں تک
کہ سارے جہان میں وہ جھوٹ مشہور ہو جا تا تھا، قیامت تک اس پر یہ عذاب رہے گا اور جس شخص کا سر کچلتے ہوئے تم نے دیکھا ہے اس شخص کو اللہ تعالی نے قرآن کا علم عطا کیا تھا لیکن وہ قرآن سے غافل ہو کر رات کو سو جاتا تھا (تہجد نہ پڑھتا تھا ) اور دن کو اس پر عمل نہ کرتا تھا قیامت تک اس پر یہی عذاب رہے گا اور جن لوگوں کو تم نے گڑھے میں دیکھا تھا وہ لوگ زنا کار تھے اور جس شخص کو تم نے خون کی نہر میں دیکھا تھا وہ شخص سود خور تھا اور درخت کی جڑ
کے پاس جس بوڑھے مرد کو تم نے بیٹھا دیکھا تھا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور وہ لڑکے لوگوں کی وہ اولادیں تھیں جو بالغ ہونے سے قبل مر گئے تھے اور جو شخص بیٹھا آگ بھڑکا رہا تھا وہ ما لک داروغه دوزخ تھا اور اول جس مکان میں تم داخل ہوئے تھے وہ وہ عام ایمان داروں کا مکان تھا اور یہ مکان شہیدوں کا ہے، اور میں جبرئیل ہوں اور یہ میکائیل علیہا السلام ہیں اب تم اپنا سر اٹھاؤ، میں نے سر اٹھ کر دیکھا تو میرے اوپر ابر سایہ کئے ہوئے تھا، انہوں نے کہا یہ تمہارا مقام ہے، میں نے کہا کہ مجھے اب اپنے مکان میں جانے دو، انہوں نے کہا کہ ابھی تمہاری مدت حیات باقی ہے عمر پوری نہیں ہوئی ہے، جب مدت زندگی پوری کر چکو گے تو اپنے مکان میں آجاو گے۔ [بخاري شريف: 1320]
فائدہ:
واقعہ معراج جس اہمیت اور عظمت کا حال ہے وہ محتاج بیان نہیں، قدرے روشنی گزشتہ واقعات سے بھی اس پر پڑی ہے تا ہم یہاں تکرار واقعات سے بچتے ہوئے چند باتیں ”معراج“ کی مناسبت سے ذکر کرنا ضروری ہیں۔
➊ واقعہ معراج کی کوئی حتمی اور یقینی تاریخ متعین نہیں اگرچہ عوام میں 27 رجب ہی کو ”شب معراج“ کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔
➋ واقعہ معراج کی روایات کم از کم پچیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔
➌ واقعہ معراج کے حوالے سے اس شب میں کوئی مخصوص عبادت یا اگلے دن کا روزہ رکھنا شریعت سے ثابت نہیں گو کہ جائز ہے لیکن یہ ”جائز ہونا“ ایسا ہے جیسے عام دنوں کا روزہ رکھنا جائز ہوتا ہے اس کی کوئی خاص فضیلت نہیں۔
➌ معراج حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کے عالم میں جسمانی طور پر ہوئی، بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ معراج خواب میں ہوئی، صحیح نہیں ہے۔
➎ معراج کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کی آنکھوں سے اللہ رب العالمین کی زیارت کا لطف اٹھایا اور انشاء اللہ قیامت کے دن ہر مسلمان اس شرف سے فیض
یاب ہوگا۔
➏ معراج کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ”خدائی تحفہ“ نماز کی صورت میں ملا، ہمیں اس
کا پس منظر اور پیش منظر دونوں اپنے سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپنے ادارے کے سربراہ کی طرف سے ملنے والے تحفہ کی ہم جتنی قدر کرتے ہیں کیا اس تحفے کو وہ اہمیت دی ؟ جبکہ یہ تو پوری کائنات کے سربراہ حکمران، فرمانروا اور شہنشاہ کا تحفہ ہے۔
غور کیجئے اور اپنے آپ کو عمل کیلئے تیار کیجئے۔

قصہ نمبر 57 :
ستر عورت کی ضرورت
——————
سعید بن حارث روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق دریافت کیا، انہوں نے جواب دیا کہ میں کسی سفر میں آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، ایک رات کو کسی کام کے لئے آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، میرے پاس ایک ہی کپڑا تھا جس کو لپیٹ کر میں نے بھی آپکے ساتھ نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہو گئے تو فرمایا رات کے وقت کیا کام ہے ؟ میں نے اپنی ضرورت بیان کی جب میں فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کپڑا کیسا لپیٹا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہی ایک کپڑا میرے پاس تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کشادہ ہو تو اس کو لپیٹ لیا کرو اور اگر تنگ ہوتو اس کا تہ بند باندھ لو۔ (تا کہ ستر عورت ہو جائے۔ ) [بخاري شريف :354]
فائدہ:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شرف نبوت کے ساتھ ساتھ اوصاف جہانبانی سے بھی بڑی فراخ دلی سے قدرت نے سرفراز فرما رکھا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے ہروقت حاجتمندوں کیلئے کھلے رہتے تھے، کسی چوکیدار کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی جیسا کہ مذکورہ واقعہ اس کا منہ بولتا ثبوت اور واضح ترین دلیل ہے۔
نیز یہ بات بھی اس واقعہ سے معلوم ہوئی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے راہ خداوندی میں جن مجاہدات اور صبر آزما حالات کا مقابلہ کیا، یقینا وہ ان کیلئے رفعت درجات کا سبب ہیں، اگر کسی موقع پر ایک کپڑا ہی جسم پر موجود ہوا تو اس پر بھی صابر وشاکر ہی رہے، حرفِ شکوہ سے اپنی زبان کو پاک صاف رکھا اور ”رضی اللہ نہم ورضوا عنہ “ کا خطاب پا کر ہمیشہ ہمیش کی کامیابی کے حقدار بن گئے۔
یادرہے کہ ”ستر عورت“ ہر حال میں فرض ہے اور نماز میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے اس لئے اگر ایک ہی کپڑا ہو تو پہلے ستر کو ڈھانپنا ضروری ہے اس کے بعد اگر اس سے جسم کا کچھ حصہ اور بھی ڈھک جائے تو اچھا ہے۔

قصہ نمبر 58 :
معصوم برحق
——————
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی تعمیر کے لئے قریش کے ساتھ پتھر اٹھارہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہ بند باندھے ہوئے تھے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم تہبند کھول کر کاندھے پر پتھروں کے نیچے رکھ لوتو اچھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کھول کر کندھوں پر رکھا ہی تھا کہ آپ بے ہوش ہو کر گر گئے اس کے بعد سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے برہنہ نہیں دیکھا۔
[بخاري شريف :357، 1505، 3617]
فائدہ :
خالق کائنات محافظ کائنات بھی ہے اور اس کی حفاظت کے انداز بڑے نیارے اور نالے ہیں، وہ دنیائے اسباب کا محتاج نہیں، آگ میں پھینک کر جلانا سب کو آتا ہے لیکن آگ میں ڈال کر بچانا صرف اسی کا کام ہے، چھری سے کا ٹنا سب کو آتا ہے لیکن چھری کے نیچے زندگی کی بہاروں کو چھپا دینا صرف اسی کا کام ہے، بھلا وہ کیونکر اس بات کو گوارہ کر سکتا ہے کہ اس کے حبیب کی شرمگاہ پر کسی کی نظر پڑے۔
گو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس موقع پر کم سن تھے لیکن پروردگار عالم کی غیرت کم سن نہ تھی، اس نے اپنے حبیب کو کائنات رنگ و بو کیلئے مکمل نمونہ حیات بنا کر معبوث کرنا تھا اور اشد حياء من العذراء فى خدرها کی صفت سے متصف کرنا تھا اس لئے قدرتی طور پر حالات ایسے کردیئے گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم برہنہ رہ سکا۔

قصہ نمبر 59 :
فتح خیبر اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا
——————
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر چڑھائی کی تو ہم نے اس کے پاس اندھیرے میں نماز فجر ادا کی، اس کے بعد آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوطلحہ سوار ہوئے میں ابوطلحہ کے پیچھے سوار تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی گلیوں میں پھرنے لگے اور میرا گھٹنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے لگتا جاتا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ران سے تہ بند علیحدہ کردی یہاں تک کہ میری نظر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی پر پڑنے لگی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریہ میں پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور فرمایا خیبر تباہ ہو گیا ہم جب کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں تو جن لوگوں کو ڈرایا جاتا ہے ان کی صبح خراب ہو جاتی ہے، یہ ہی الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمائے۔
تھوڑی دیر کے بعد جب لوگ اپنے کاروبار کے لئے نکلے تو کہنے لگے محمد محمد اور ان کا لشکر آ پہنچا۔ آخر کار ہم نے خیبرکو تلوار کے زور پر فتح کیا۔ جب قیدی جمع کئے گئے تو دحیہ آئے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیدیوں میں سے ایک باندی مجھے عنایت فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور ایک باندی لے لو لہذا انہوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا، اتنے میں ایک شخص نے آ کر کہا کہ آپ نے صفیہ کو جو قبیلہ قریظہ اور نضیر کی سردار ہے وحیہ کو بخش دیا حالانکہ وہ آپ کے لائق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحیہ کو مع صفیہ کے بلایا اور دیکھ کر فرمایا تم اس کے بجائے کوئی اور لے لو، بعدازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر کے ان سے نکاح کرلیا۔
ثابت نے اس بیان سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مہر کیا دیا ؟ انس رضی اللہ عنہ بولے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آزادی ہی کو مہر قرار دیا۔ اثناء راہ میں ام سلیم نے صفیہ کو آراستہ کر کے اسی رات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو حالت عروسی میں اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چمڑے کا دسترخوان بچھا کر فرمایا کہ جس کے پاس جو کچھ ہو وہ لے آئے، چنانچہ کوئی کھجوریں لایا کوئی گھی لایا۔ راوی کہتا ہے کہ میرا خیال ہے کہ ستوؤں کا بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا تھا، اس کے بعد صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کا حلو بنایا اور یہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔ [ بخاري شريف : 364، 585، 905، 21115، 2120، 2736، 2784، 2785، 2829 3447 وغيره ]
فائدہ:
صاف ستھرے اور مذاق سلیم سے محروم لوگ آج بھی اپنی زبانوں کو ناپاک کرتے رہتے ہیں کہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا فرمانے کے بعد واپس کیوں لیا گیا ؟ شاید ان کی نظروں سے یہ بات اوجھل ہوگئی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوتے ہی ان کی قوم کے سارے غلام اور باندیاں آزاد ہوگئیں، شاید وہ اس بات کو بھول گئے کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سردار کی بیٹی تھیں اور ان کا شوہر سردار ہونا ہی ”جوڑ‘‘ کا سبب بن سکتا تھا۔ شاید انہیں قبائلی تعلقات اور اسلام کی عالمگیریت سے ناواقفیت رہی ہے ورنہ کم از کم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات کو چھوڑ دیا ہوتا۔ وائے افسوس! کہ قوم کہاں جارہی ہے ؟

قصہ نمبر 60 :
ایک منقش چادر
——————
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک منقش چادر پہن کر نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر اس کے نقشوں پر پڑ جاتی تھی اس لئے نماز سے فارغ ہوکر فرمایا یہ چادر ابوجہم کو دے آؤ اور اس کا موٹا کمبل مجھے لا دو کیونکہ اس کے نقش و نگار نے مجھ کو ابھی نماز سے غافل کر دیا تھا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی ایک روایت میں یہ اضافہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس کے نقش و نگار کو دیکھ رہا تھا لہذا مجھ کو فتنہ میں پڑنے کا خوف ہوگیا۔
فائدہ:
و مسلمان جب تک اپنی دنیاوی زندگی میں سادگی پسند اور مشقت برداشت کرنے کے عادی رہے، کائنات کی حکمرانی ان کے گھر کی لونڈی بنی رہی اور جوں ہی ان کی زندگی سے سادگی اور مجاہدہ رخصت ہوا، امامت و سیادت کائنات کا منصب رفیع بھی اسی دن رخصت ہو گیا۔
نیز عبادت میں خشوع و خضوع کی اہمیت بھی اس واقعہ سے واضح ہوتی ہے جس سے ہماری نماز میں رفتہ رفتہ اس غیر محسوس انداز میں خالی ہوتی جارہی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے، پڑھئے ! سوچئے اور عمل کی فکر کیجئے۔

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply