نیکیاں اور ان کے فوائد ایک طویل روایت کی حقیقت

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

نیکیاں اور ان کے فوائد ایک طویل روایت کی حقیقت
عبد الرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ باہر تشریف لائے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا: یعنی گزشتہ شب میں نے عجیب و غریب باتیں دیکھیں میں نے اپنی امت سے ایک شخص کو دیکھا کہ عذاب کے فرشتوں نے اسے گھیر رکھا ہے۔ اسی وقت اس کا وضو آتا ہے اور اس کے ہاتھوں سے اسے چھڑا لے جاتا ہے۔ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ عذاب قبر اس کے لیے پھیلائے جا رہے ہیں، اتنے میں اس کی نماز آئی اور اسے ان سے چھٹرا لے گئی۔ اپنے ایک امتی کو میں نے دیکھا کہ شیاطین نے اسے پریشان کر رکھا ہے کہ اس کا ذکر اللہ کرنا آیا اور ان سے بچا کر لے گیا، میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ پیاس کے مارے زبان نکالے دے رہا ہے کہ اس کے رمضان کے روزے آئے اور اسے پانی پلا کر آسودہ کر دیا۔ میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ اس کے آگے سے پیچھے سے دائیں سے بائیں سے اوپر سے نیچے سے، اسے ظلمت اور اندھیرا گھیرے ہوئے ہے کہ اس کا حج و عمرہ آیا اور اس ظلمت اور اندھیرے سے اسے نکال لے گیا۔ میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ اس کی روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت آئے لیکن اس نے اپنے ماں باپ کی جو خدمتیں کی تھیں اور ان کے ساتھ جو احسان کیے تھے وہ نیکی آئی اور موت کو اس سے ہٹا دیا۔ میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ وہ مومنوں سے بول رہا ہے لیکن مومن اسے جواب تک نہیں دیتے۔ اتنے میں اس کی صلہ رحمی آئی اور کہا کہ یہ تو رشتے ناتے جوڑنے والا تھا۔ اس وقت ان سب نے اس سے بول چال شروع کر دی اور یہ ان کے ساتھ ہو گیا۔ میں اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ وہ نبیوں کے حلقوں کے پاس آتا ہے لیکن ہر حلقے سے ہٹ دیا جا تا ہے۔ اسی وقت اس کا جنابت سے غسل کرنا آتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑ کر میرے پاس بٹھا دیا۔ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ آگ کے شعلوں کو اپنے ہاتھوں اس سے اپنے منہ پر سے ہٹا رہا ہے، اتنے میں اس کا صدقہ و خیرات گئے اور اس سے سر پر سایہ اور اس کے چہرے پر پردہ بن گئے۔ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ عذاب کے داروغے اس کے پاس آ گئے، اتنے میں اس کا بھلائی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا آ گیا اور اسے ان کے ہاتھوں سے چھٹرا لے گیا۔ میں نے اپنے ایک امتی کو دیکھا کہ اسے آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔ اتنے میں اس کے وہ آنسو آ گئے جو خوف خدا سے رو کر اس نے دنیا میں بہائے تھے اور اسے آگ سے بچالے گئے۔ میں نے اپنی امت میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا نامہ اعمال اڑتا ہوا بائیں جانب سے آ رہا ہے کہ اس کا خوف خدا آ گیا اور اس نامہ اعمال کو لے کر اس سے دائیں ہاتھ میں دے دیا۔ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ اس کا نیکی کا پلڑا ہلکا ہو رہا ہے کہ اس کے چھوٹے بچے جو انتقال کر گئے تھے، آ گئے اور اس کے نیکی کے پلڑے کو بوجھل اور بھاری کر دیا۔ میں نے اپنی امت کے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جہنم کے کنارے پر پہنچا دیا گیا ہے کہ اس کی خدا ترسی آئی اور اسے بچا لے گئی۔ اپنے ایک امتی کو میں نے دیکھا کہ گھاس کے تنکے کی طرح کپکپا رہا ہے۔ اتنے میں اس کی خدا کے ساتھ نیک گمانی آئی اور اسے سکون و قرار دے گئی۔ ایک امتی کو میں نے دیکھا کہ پل صراط پر جم نہیں سکتا، کبھی گرتا ہے کبھی پڑتا ہے،کبھی گھٹنوں سرکتا ہے، اتنے میں اس کا مجھ پر درود بھیجنا آ گیا اور اس کا ہاتھ تھام کر سیدھا کھڑا کر کے پل صراط پر سے پار کر دیا۔ پھر ایک کو میں نے دیکھا کہ جنت کے دروازوں کے پاس پہنچ گیا ہے لیکن دروازے بند ہو گئے۔ اتنے میں اس کا کلمہ شہادت پڑھنا آ گیا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں پہنچا دیا۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مجمع الزوائد 179/7 حديث رقم 11746 كتاب التعبير۔]
ہیثمی کہتے ہیں طبرانی نے اس کی دو اسناد ذکر کی ہیں ایک میں سلیمان بن احمد الواسطی اور دوسری میں خالد بن عبد الرحمن المخزومی دونوں ضعیف ہیں۔ رواه الطبراني في الأحاديث الطوال رقم (39) اس میں علی بن زید بن جدعان راوی ضعیف ہے۔ [تفسير ابن كثير 421/4 اتحاف السادة المتقين 323/7، 119/8 المغني عن حمل الأسفار 50/3 كنز العمال 43592]

——————

جنگ احد میں ہند بنت عتبہ کا حمزہ کی لاش کا مثلہ کرنا اور جگر نگلنا
ابن اسحاق صالح بن کیسان کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ہند بنت عتبہ اور اس کے ساتھ دیگر خواتین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لاشوں کے پاس آئیں اور ان کے ناک کان کاٹنے شروع کر دیے یہاں تک کہ ہند نے ان کے ہار بنا کر اپنے گلے میں پہنے اور اپنا سارا زیور اتار کر جبیر بن مطعم کے غلام وحشی کو حضرت حمزہ کے شہید کرنے کے انعام میں دیا اور حضرت حمزہ کے جگر کو نکال کر اس نے اپنے منہ میں لے کر چبایا مگر اس کو نگل نہ سکی تب اس کو اگل دیا اور پھر ایک اونچے پتھر چڑی اور پکار کر چند اشعار مسلمانوں کی ہجو میں کہے جس کا مفہوم ہے کہ ہم نے تمہیں بدر کے دن کا بدلہ دے دیا، جنگ کے بعد جنگ جنون والی ہوتی ہے۔ عتبہ کے معاملے میں تجھ میں صبر کی طاقت نہ تھی اور نہ ہی اپنے بھائی اور اس کے چچا ابوبکر پر۔ میں نے اپنی جان کو شفا دی اور انتقام کو پورا کیا۔ وحشی نے تو میرے سینے کی آگ ٹھنڈی کر دی، پس وحشی کا مجھ پر عمر بھر احسان رہے گا۔ یہاں تک کہ قبر میں میری ہڈیاں بوسیدہ ہو جائیں۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [سيرة ابن هشام مع الروض الانف جلد 277/3]
اس کی سند مرسل ضعیف ہے۔ کیونکہ صالح بن کیسان چھوٹے درجے کے تابعی ہیں اگرچہ ثقہ ہیں لیکن 70 ھ کے بعد پیدا ہوئے اور 140ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ تقریباً محمد بن اسحاق سے کچھ بڑے ہیں۔ انھوں نے اوپر کی کوئی سند بیان نہیں کی حالانکہ جنگ احد صالح بن کیسان کی پیدائش سے ستر سال قبل واقع ہوئی تھی ان کا قول اس سلسلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔ وہ خود چشم دید گواہ نہیں۔ اگر واقعتاً انھوں نے یہ روایت بیان بھی کی تب بھی منقطع ہوئی او منقطع روایت قابل قبول نہیں ہوتی۔
——————

میرا بیٹا قتل ہوا ہے میرا حیا تو قتل نہیں ہوا، واقعہ ام خلاد
عبدالخبیر بن ثابت بن قیس بن شماس اپنے باپ سے وہ دادا سے روایت کرتے ہیں انھوں نے کہا ایک خاتون نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی جس کا نام ام خلاد تھا۔ اس نے پردہ کیا ہوا تھا اور اپنے بیٹے کے بارے میں دریافت کر رہی تھی جبکہ وہ جہاد میں قتل ہو گیا تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اس سے کہا : تم اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھنے آئی ہو اور نقاب ڈال رکھا ہے۔ (یعنی ایسی پریشانی میں بھی پردے کا اہتمام کر رکھا ہے) ام خلاد نے کہا : اگر میرا بیٹا قتل ہو گیا ہے میرا حیا تو قتل نہیں ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیرے بیٹے کو دو شہیدوں کا ثواب ہے۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! وہ کیونکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیونکہ اس کو اہل کتاب نے قتل کیا ہے۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [اخرجه البيهقي 175/9]
اس میں فرج بن فضالہ ضعیف ہے۔
عبدالخبیر مجہول الحال اور ثابت بن قیس مستور ہے۔ [واخرجه ابو دائود، كتاب الجهاد، باب فضل قنال الروم عن غيرهم من الأمم حديث رقم 2488]
شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ کم علم واعظوں کے ہاں یہ روایت خاصی مشہور ہے مگر یہ ضعیف ہے اس کو بیان نہیں کرنا چاہیے۔
——————

ابھی ایک شخص آئے گا اور جنتی ہے تین دن ایسا ہی ہوا…….!
حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت سے مروی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دیکھو ابھی ایک جنتی شخص آنے والا ہے، تھوڑی دیر میں ایک انصاری اپنے بائیں ہاتھ میں اپنی جوتیاں لیے تازہ وضو کر کے آرہے تھے، داڑھی پر سے پانی ٹپک رہا تھا، دوسرے دن بھی اسی طرح ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اور وہی شخص اسی طرح آئے۔ تیسرے دن بھی یہی ہوا حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ آج دیکھتے بھالتے رہے اور جب مجلس نبوی ختم ہوئی اور یہ بزرگ وہاں سے اٹھ کر چلے تو یہ بھی ان کے پیچھے ہو لیے اور انصاری سے کہنے لگے حضرت مجھ میں اور میرے والدین میں کچھ بول چال ہو گئی ہے، جس پر میں قسم کھا بیٹھا ہوں کہ تین دن تک اپنے گھر نہیں جاؤں گا، پس اگر آپ مہربانی فرما کر مجھے اجازت دیں تو میں یہ تین دن آپ کے ہاں گزار دوں، انھوں نے کہا بہت اچھا چنانچہ حضرت عبد الله رضی اللہ عنہ نے یہ تین راتیں ان کے گھر ان کے ساتھ گزاریں دیکھا کہ وہ رات کو تہجد کی لمبی نماز بھی نہیں پڑھتے صرف اتنا کرتے ہیں کہ جب آنکھ کھلے الله تعالیٰ کا ذکر اور اس کی بڑائی اپنے بستر پر ہی لیٹے لیٹے کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ صبح کی نماز کے لیے اٹھیں، ہاں یہ ضروری بات تھی کہ میں نے ان کے منہ سے سوائے کلمہ خیر کے اور کچھ نہیں سنا، جب تین راتیں گزر گئیں تو مجھے ان کا عمل بہت ہی ہلکا سا معلوم ہونے لگا، اب میں نے ان سے کہا کہ حضرت! دراصل نہ تو میرے اور میرے والد صاحب کے درمیان کوئی ایسی باتیں ہوئی تھیں نہ میں نے ناراضگی کے باعث گھر چھوڑا تھا بلکہ واقعہ یہ ہوا کہ تین مرتبہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابھی ایک جنتی شخص آ رہا ہے اور تینوں مرتبہ آپ ہی آئے تو میں نے ارادہ کر لیا کہ آپ کی خدمت میں کچھ دن رہ کر دیکھوں تو سہی کہ آپ ایسی کون سی عبادتیں کرتے ہیں جو جیتے جی بہ زبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جنتی ہونے کی یقینی خبر ہم تک پہنچ گئی، چنانچہ میں نے یہ بہانہ کیا اور تین رات تک آپ کی خدمت میں رہا تاکہ آپ کے اعمال دیکھ کر میں بھی ویسے ہی میں شروع کر دوں لیکن میں نے تو آپ کو نہ کوئی نیا اور اہم عمل کرتے ہوئے دیکھا نہ عبادت میں ہی اوروں سے زیادہ بڑھا ہوا دیکھا، اب جا رہا ہوں لیکن زبانی ایک سوال ہے کہ آپ ہی بتایے آخر وہ کون سا عمل ہے جس نے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جنتی بنایا ؟ آپ نے فرمایا : بس تم میرے اعمال تو دیکھ چکے ان کے سوا اور کوئی خاص پوشیدہ عمل تو ہے ہی نہیں، چنانچہ میں ان سے رخصت ہو کر چلا تھوڑی دور چلا تھا جو انھوں نے مجھے آواز دی اور فرمایا : ہاں میرا ایک عمل سنتے جاؤ وہ یہ کہ میرے دل میں کبھی کسی مسلمان سے دھوکا بازی، حسد اور بعض کا ارادہ بھی نہیں ہوا، میں کبھی کسی مسلمان کا بدخواہ نہیں بنا، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا : بس اب معلوم ہو گیا اسی عمل نے آپ کو اس درجہ تک پہنچایا ہے اور یہی وہ چیز ہے جو ہر ایک کے بس کی نہیں۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔
اس کی سند زہری کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے تفصیل کے لیے دیکھیں : [ابي عبيده مشهور بن حسن السلمان كي كتاب قصص لا تثبت جلد 8 ص 47، عبدالرزاق فى مصنفه 287/11 رقم 20559، مسند احمد 166/3 حديث رقم 12727، الضياء فى
المختارة 186/7، 188 رقم 2619 و عبد بن حميد فى المسند رقم 1159 و البزاز فى المسند 409/21 رقم 1981 مكارم الاخلاق رقم 72 والخرائطي فى مساوي الاخلاق رقم 764 الترغيب والترهيب 466/1 رقم 1108 و البغوي فى شرح السنة 112/13 رقم 3535 والبيهقي فى شعب الايمان 264/5، رقم 6605]

اس تحریر کو اب تک 14 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply