عبدالمطلب نے ساتویں دن عقیقہ کیا

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

عبدالمطلب نے ساتویں دن عقیقہ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نام رکھا

بیہقی کہتے ہیں ہمیں خبر دی ابو عبد اللہ حافظ نے وہ کہتے ہیں کہ مجھے خبر دی احمد بن کامل قاضی نے زبانی طور پر کہ احمد بن اسماعیل سلمی نے ان کو حدیث بیان کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حدیث بیان کی ہے ابوصالح عبد اللہ بن صالح نے وہ کہتے ہیں کہ مجھے حدیث بیان کی معاویہ بن صالح نے ابو الحکم تنوخی سے وہ کہتے ہیں کہ قریش میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تو وہ اس کوقریش کی عورتوں کے حوالے کر دیتے تھے صبح تک وہ اس پر ہنڈیا نصب کر دیتی تھیں۔
جب حضور پیدا ہوئے تو عبدالمطلب نے ان کو قریش کی عورتوں کے حوالے کر دیا اسی طرح کا ٹونکا کرنے کے لیے۔ عورتوں نے جب صبح کو دیکھا تو وہ ہنڈیا دو ٹکرے ہو چکی تھی اور حضور کو دیکھا کہ وہ آنکھیں کھولے ہوئے اوپر آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے لہٰذا وہ عورتیں عبدالمطلب کے پاس آئیں اور ان سے کہا کہ ہم نے ایسا بچہ نہیں دیکھا جو ہنڈیا اس پر پھیری تھی وہ بھی ٹوٹ چکی ہے اور اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں اور نگاہیں آسمان کی طرف تھیں عبدالمطلب نے کہا کہ تم لوگ اس کی حفاظت کرو اور میں امید کرتا ہوں کہ شاید وہ جنت کو پہنچے گا۔ جب ساتواں دن ہوا تو عبدالمطلب نے حضور کی طرف سے جانور نہ کیا اور قریش کیی دعوت کی جب دعوت کھا چکے تو انہوں نے پوچھا : ارے عبد المطلب جس بچہ کی وجہ سے تو نے ہماری ضیافت کی آپ نے اس کا نام کیا رکھا ہے۔ عبدالمطلب نے بتایا کہ محمد نام رکھا ہے لوگوں نے پوچھا کہ آپ نے یہ نام اس کے گھر کے ناموں سے بالکل مختلف رکھا ہے آپ نے ایسا کیوں کیا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں پر اس کی تعریف کرے اور اللہ کی مخلوق دھرتی پر اس کی تعریف کرے۔
اس واقعہ کو سعید الفت نے اس انداز میں بیان کیا ہے :
محمد دے چاچے تے بابے تےتائے
محمد جاں ست دن دے هوئے تاں آئے
کٹھے ہو کے دعوت تے بہندے نے سارے
محمد دے دادا نوں کہندے نے سارے
جو عبداللہ دی بن نشانی ہے آیا
ہے کیہ نام لڑکے دا رکھیا رکھایا
میں اس لڑکے دا ناں محمد رکھایا
ایہہ دادا نے سن کے تے اگوں سنایا
عبد عزیٰ رکھ دوں یا عبد منات ای
ایہہ پھر بھی تاں ہندی کوئی گل بات ای
ایہہ ساڈے تے نزدیک اوکھا جیہا اے
ایہہ کہ ناں محمد انوکھا جیہا اے
ایہہ دادا نے سنیا تے اندر سدھائے
محمد نوں گودی اٹھا کے لے آئے
لگے کہن سب نوں لے اکھاں تے چکو
میرے سوہنے بیٹے دا مکھڑا تے تکو
جنہوں تک تک کے نئیں رج دیاں اکھاں
محمد نہ رکھاں تے کیہ نام رکھاں
تسیں دسو تہاڈیاں ٹھریاں نئیں اکھاں
محمد نہ رکھا تے کیہ نام رکھاں
جاں حسن محمد دے کیتے نظارے
کوئی گل نہ کیتی تے چپ ہو گئے سارے
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[دلائل النبوة للبيهقي جلد 1 صفحه 103 – البداية والنهايه 325/2] ، [واورده ابن منظور فى مختصر تاريخ دمشق 123/1]
اس کی سند میں ابوصالح عبداللہ بن صالح صدوق ہے مگر بکثرت غلطیاں کرتا ہے نیز اس روایت کی سند میں انقطاع ہے۔
——————

اے آمنہ اس بچے کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے تم بھی اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھنا

محمد بن اسحاق کہتے ہیں کسی کہنے والے نے آمنہ سے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے آنے کی نشانی یہ ہو گی کہ ان کی آمد کے ساتھ روشنی نمودار ہو گی جو ارض شام میں واقع مقام بصری کے محالات کو بھر دے گی۔ جب یہ پیدا ہو جائے تو اس کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم رکھنا ہے شک اس کا نام تورات میں احمد ہے۔ اس لیے کہ اہل زمین اس کی تعریف کریں گے۔ اور یہ اس کا نام انجیل میں بھی احمد ہے۔ اہل آسمان اور اہل زمین اس کی تعریف کریں گے اور اس کا نام قرآن میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے لہٰذا میں نے یہی اس کا نام رکھا ہے۔ اسی واقعہ کو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سعید الفت کہتے ہیں :
اجے شکم مادر چ ہے سن پیغیبر
کئی واری ستیاں ہویاں خواب اندر
مائی آمنہ نوں بتایا گیا سی
قدرتوں سبق ایہہ پڑھایا گیا سی
تیرے بچے جیسا کروڑیں نہ لکھیں
توں اس لڑکے کا ناں ”محمد“ ای رکھیں
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[دلائل النبوة للبيهقي 83/1]
محمد بن اسحاق کے آگے سند نہیں ہے۔
[ذكره ابن كثير فى السيرة النبوية 206،ورواه ابن عساكر فى تاريخ دمشق 82/2، و ابن اثير فى الكامل فى تاريخ 157/1، وابن كثير فى البداية والنهاية 323/2]
«جميعا عن ابن اسحاق.» نیز کی سند میں احمد بن عبدالجبار ضعیف ہے۔ یہ حدیث نہیں، نہ ہی کسی صحابی کا قول ہے بلکہ نبی سے ایک سو تینتس سال بعد پیدا ہونے والے محمد بن اسحاق کا قول ہے جو اس نے بغیر کسی واسطہ کے بیان کیا ہے۔
نوٹ : … نام محمد کس نے رکھا آمنہ نے یا عبدالمطلب نے اس کے بارے میں کوئی مستند روایت نہیں ملی لیکن ہمیں اس بحث کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ جس نے بھی رکھا ہے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تائید فرما دی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق کر دی۔ قرآن پاک میں چار مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد آیا ہے۔ (صلی اللہ علیہ وسلم)
——————

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام حبیب اللہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ چند صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتظار میں بیٹھے آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جب ان کے قریب پہنچے تو ان کی باتیں سنیں۔ کسی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دوست بنا لیا۔ دوسرا کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ کا موسی علیہ السلام سے کلام کرنا اس سے بھی زیادہ تعجب خیز ہے۔ تیسرے نے کہا کہ عیسٰی علیہ السلام روح اللہ ہیں۔ اور ”کن“ سے پیدا ہوئے ہیں۔ چوتھا کہنے لگا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو چن لیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور سلام کرنے کے بعد فرمایا کہ میں نے تم لوگوں کی باتیں اور تمہارا تعجب کرنا سن لیا ہے۔ کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ کے دوست ہیں اور وہ اسی طرح ہیں۔ موسٰی علیہ السلام اللہ کے چنے ہوئے ہیں وہ بھی اسی طرح ہیں۔ عیسٰی علیہ السلام روح اللہ اور اس کے کلمہ ”کن“ سے پیدا ہوئے ہیں یہ بھی اسی طرح ہیں۔ آدم علیہ السلام کو اللہ نے اختیار کیا ہے وہ بھی اسی طرح ہیں۔ جان لو کہ میں اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوں اور یہ میں فخریہ نہیں کہہ رہا۔ میں ہی حمد کے جھنڈے کو قیامت کے دن اٹھاؤں گا۔ یہ بھی فخر کے طور پر نہیں کہہ رہا، میں ہی سب سے پہلے جنت کی زنجیر کھٹکھٹاؤں گا اور اللہ تعالیٰ میرے لیے اسے کھولیں گے۔ پھر میں اس میں مومن فقراء کے ساتھ داخل ہوں گا۔ یہ بھی بطور فخر نہیں کہہ رہا اور میں گزشتہ اور آنے والے تمام لوگوں میں سب سے بہتر ہوں۔ یہ بھی میں بطور فخر نہیں کہہ رہا۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[سنن ترمذي كتاب المناقب باب فضل النبى صلى الله عليه وسلم ح : 3616- سنن دارمي كتاب المقدمه باب ما اعطى النبى من الفضل ح : 48 -]
اس میں زمعہ بن صالح ضعیف ہے۔
ہیشمی کہتے ہیں : اس کو جمہور علماء نے ضعیف کہا ہے۔
بوصیری نے بھی ضعیف کہا ہے۔
عراقی کہتے ہیں : اس کو اکثر نے ضعیف کہا ہے۔
——————

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام المہدی

ابن سعد نے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا مرثیہ نقل کیا ہے۔
«جزعا على المهدي اصبح ثاويا
يا خير من وطى الحصى لاتبعدي
»
”اس مہدی پر جزع و فزع کی بنا پر نیند اڑ گئی جو اب دفن ہو چکا ہے۔ اے سنگریزوں کو سب سے بہتر روندنے والے دور نہ ہو جانا۔“
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[طبقات ابن سعد حصه 2، ص 357۔]
ابن سعد نے یہ مرثیہ واقدی سے نقل کیا ہے اور واقدی کذاب اور متروک ہے۔
——————

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام المرتضٰی اور الطاہر

ابن سعد نے عاتکہ بنت عبد المطلب کا مرثیہ بیان کیا، کہتے ہیں۔
«علي المرتضى للبرو العدل والتقي
وللدين و الاسلام بعد المظال
»
”ان پر روؤ جو مظالم کے بعد نیکی وعدل و تقویٰ دین و اسلام کے پسندیدہ تھے۔‘‘
«على الطاهر الميمون ذى الحلم اولندي
وذي الفضل والداعي لخير التراحم
»
پاک تھے، برکت والے تھے، متحمل تھے، فیاض تھے، صاحب فضیلت تھے، آپس میں بہترین رحم و کرم کے ساتھ رہنے سہنے کی دعوت دیا کرتے تھے۔‘‘
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف جدا۔
اس کی سند سخت ضعیف ہے۔ [طبقات ابن سعد مترجم ح 2 – : 367]
اس میں یہی واقدی کذاب اور متروک ہے۔
——————

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام مجتبی، رشید اور ناصح

ابن سعد نے صفیہ بنت عبد المطلب کے مرثیہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ تینوں نام لیے ہیں، کہتے ہیں۔
«على المرتضيٰ للهدي ولتقى
وللرشد والنور بعد الظلم
»
”ان پر جو ہدایت وتقویٰ و ارشاد اور تاریکی کے بعد روشنی کے مرتضی تھے۔“
«على الطاهر المرسل المجتبيٰ
رسول تخيره ذو الكرم
»
”ان پر جو پاک تھے، اللہ کے فرستادہ تھے، مقبول تھے، ایسے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے جنہیں خداوند کریم ہی نے منتخب فرمایا تھا۔“
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[طبقات ابن سعد مترجم۔ ح 2، ص : 371۔]
اس میں بھی محمد بن عمر واقدی کذاب ہے۔
——————

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صفاتی نام مامون

طبقات ابن سعد میں ہند بنت حارث کے مرثیہ میں یہ نام بھی آیا ہے۔
«لقد امتني من الانباء معضلة
ان ابن آمنة المأمون قد ذهبا
»
”مجھے ایک دشوار خیر پہنچی ہے کہ آمنہ کے برکت والے فرزند جاتے رہے۔‘‘
«ان المبارك والميمون فى جدث
قال الحفوه تراب الأرض والحدبا
»
”وہ صاحب یمن وبرکت اب ایک قبر میں ہیں، ان پر خاک کا لحاف ڈال رکھا ہے۔“
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[طبقات ابن سعد مترجم – ح 2، ص : 374۔]
اس میں بھی محمد بن عمر واقدی کذاب ہے۔
نوٹ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کے علاوہ صفاتی نام :
«فاتح……..مشهور……..مهد……..منج……..ناه……..
طيب……..حفى……..منصور……..مصباح……..آمر……..
حافظ…….. كامل…….. كليم الله……..نجى الله……..صفي الله
……..معلوم……..مطيع……..محرم……..مكرمدعو……..شهير
»
یاد رہے یہ سارے اوصاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن بحثیت صفاتی نام کے یہ الفاظ کسی مستند کتاب سے نہیں مل سکے اگر آپ کے اوصاف کے مطابق آپ کے نام رکھے جائے تو پھر یہ نام ہزارہا سے زیادہ ہو جائیں گے۔
——————

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل محمد نام کے افراد

مشہور بات یہں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل کسی کا نام محمد نہیں تھا لیکن یہ بات درست نہیں۔ سہیلی الروض الانف میں کہتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے صرف تین آدمیوں کے نام محمد تھے۔
محمد بن سفیان بن مجاشع۔
محمد بن حمران بن ربیعہ بن مالک الجعفی
محمد بن احیتہ بن الجلاح۔
حافظ ابن حجر نے فتح الباری شرح صحیح بخاری جلد 2 صفحہ نمبر 557 من مکتبہ شاملہ میں تقریباً 12 آدمیوں کا ذکر کیا ہے جن کے نام نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے محمد رکھے گئے۔
1 محمد الفقیمی
2 محمد بن احیہ بن الجلاح
3 محمد بن عمرو بن مغفل
4 محمد بن خولی الھمدانی
5 محمد بن الحرث بن حدیج بن حویص
6 محمد بن سفیان بن حجاشع التمیمی
7 محمد بن یزید بن عمرو بن ربیعہ التمیمی
8 محمد الاسیدی
9 محمد بن عقبہ بن احیہ
10 محمد بن البراء البکری
11 محمد بن الحمید الازدی
12 محمد بن عمرو بن ربیعہ التمیمی
13 محمد بن حرماز بن مالک الیعمری
14 محمد بن اسامہ بن مالک بن حبیب العنبر
15 محمد بن خزاعی بن علقمہ بن حرابتہ السلمی
16 محمد بن حمران بن ربیعہ بن مالک الجعفی۔
——————

چوتھے آسمان کے فرشتے کی مدد سے ایک صحابی کی ڈاکو سے جان بچ گئی

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انصاری صحابہ میں سے ایک صحابی ابو متعلق نامی بہت متقی پرہیزگار اور تجارتی کاروبار میں بہت مشہور تھے۔ ایک مرتبہ وہ مال تجارت لے کر باہر سفر میں تشریف لے گئے اتفاق سے راستہ میں ایک ڈاکو ملا اس ڈاکو نے کہا جو کچھ تیرے پاس مال ہے وہ یہاں رکھ دے ورنہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ صحابی نے فرمایا : تو یہ مال لے لو۔ اس ڈاکو نے کہا : مال تو میرا ہو ہی چکا ہے۔ میں تجھ کو بغیر مارے نہ چھوڑوں گا۔ صحابی نے کہا : بہت اچھا مگر مجھے چار رکعت نماز پڑھنے کی مہلت دے دو۔ ڈاکو نے اتنی مہلت دے دی۔ موصوف نے وضو کر کے چار رکعت نماز پڑھی اور آخری سجدہ میں اللہ تعالی کی جناب میں یہ دعا کی :
«يا ودود يا ذو العرش المجيد يا فعال لما يريد اسئلك بعزتك الذى لايرام وبملكك الذى لا يضام وبنورك الذى ملا اركان عرشك أن تكفيني شر هذا اللص يا مغيث اغثني يا مغيث اغثني يا مغيث اغثني»
”اے پیار اور محبت کرنے والے، اے بزرگ عرش والے، اے اپنی چاہت اور مرضی کے موافق کرنے والے میں تیری اس عزت کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں جن کا ارادہ نہیں کیا جا سکتا اور تیرے اس ملک کا سہارا لے کر درخواست کرتا ہوں جس کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور تیرے اس نور کے ذریعہ ملتمس ہوں جس نے تیرے عرشی حصوں کو جگمگا رکھا ہے کہ اس ڈاکو کی برائی سے تو مجھ کو بچا لے اے فریاد کو پہنچنے والے میری اس فریاد کو سن لے۔“ (تین بار)
حضرت ابو متعلق چوتھی رکعت کے سجدے میں اس دعا کو پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک مسلح سوار نیزہ لے کر سوار ہوا اور اس ڈاکو کو قتل کر کے صحابی کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ اب تم اپنا سر اٹھا لو۔ تمہارا دشمن ختم ہو گیا۔ یہ سجدہ سے سر اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ واقعی دشمن مرا پڑا ہے۔ صحابی موصوف دریافت فرماتے ہیں کہ آپ کون ہیں وہ جواب دیتے ہیں کہ میں چوتھے آسمان کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں۔ جب آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی تو میں نے آسمان کے دروازہ کے کھلنے کی آواز سنی۔ آپ کی دوسری فریاد پر تمام فرشتوں میں شور و غل اور ہلچل مچ گئی، تیسری فریاد پر مجھے کہا گیا کہ یہ ایک مصیبت زدہ مظلوم کی فریاد ہے، میں نے اللہ تعالیٰ سے استدعاء کی کہ مجھے اس ظالم کے قتل کا حکم ملے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اجازت دی۔ اس لیے میں تمہاری مدد کے لیے حاضر ہوا ابن ابی الدنیا کی کتاب المجانین فی الدنیا میں اور علامہ ابن القیم نے الجواب الکافی لمن سال عن دواء الشافی کے ص : 14 میں اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف .
[أخرجه ابن ابي الدنيا فى مجابي الدعوة ص 38، 39، رقم 23 و الهواتف ص 24، 25 رقم 14 ومن طريقه اللالكائي فى “كرامات الاولياء” ص 154، 155 رقم 111 و عبد الغني المقدسي فى الترغيب فى الدعاء ص : 104، 105 رقم 16 و ابن بشكوال فى المستغيثين بالله ص 17، 18 رقم 3 والضياء المقدسي فى العدة للكرب واشدة ص : 73، 72 رقم 32 و ابن حجر فى الاصابه 380/7 قال أخبرنا عيسي بن عبد الله التميمي، اخبرني فهير بن زياد الاسدي، عن موسى بن وردان، عن كلبي وليس بصاحب التفسير، عن الحسن، عن انس بن مالك۔]
اس میں کلبی صاحب التفسیر ہی ہے جس پر محدثین سے شدید جرح کی ہے۔
ابن معین کہتے ہیں : ثقہ نہیں۔
جوزجانی کہتے ہیں : کذاب ہے۔
دارقطنی اور ایک جماعت نے کہا متروک ہے۔ اگر اس میں یہی کلبی ہے تو روایت سخت ضعیف ہے اگر کوئی دوسرا ہے تو مجھول ہے۔
دوسرا راوی موسیٰ بن وردان بھی ضعیف ہے قوی نہیں، نیز صحیح نام ابومعلق ہے اب معقل نہیں۔
——————

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سورہ یوسف کی تلاوت سن کر کئی یہودی مسلمان ہو گئے

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ :
«ان حبرا من اليهود دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فوافقه وهو يقرء سورة يوسف فقال من علمكها ؟ قال الله علمنيها فعجب الحبر لما سمع منه فرجع إلى اليهود فقال لهم ان محمدا ليقرء القران كما أنزل فى التورٰة فانطلق بنفر منهم حتى دخلوا عليه فعرفوه بالصفة و نظروا إلى خاتم النبوه بين كتفيه فجعلوا سمعهم إلى قرائته لسورة يوسف فتعجبوا منه و أسلموا عند ذلك» [فتح القدير، ص : 3، ج 3، روح المعاني، ص 170، ج 12]
”یہودیوں کا ایک عالم (حبر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ کے سامنے آکر بیٹھ گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سورۃ یوسف کی تلاوت فرما رہے تھے۔ اس نے کہا، یہ سورۃ آپ کو کس نے سکھائی ہے ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے، وہ سن کر ازحد متعجب ہوا اور یہودیوں سے جا کر کہا، بلاشبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن (میں حضرت یوسف کا قصہ) ویسے ہی پڑھتے ہیں جیسے ہماری تورات میں ہے (یہ سن کر) یہودیوں کی ایک جماعت آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ کی صفات سے آپ کو پہچان لیا اور آپ کے کندھوں کے درمیان سے مہر نبوت کو دیکھا تو اپنے کانوں کو آپ کی تلاوت سورۃ یوسف کی طرف لگا لیا۔ بہت خوش ہوئے اور (سورۃ یوسف سن کر) اسی وقت مسلمان ہو گئے۔ ‘‘
تحقیق الحدیث :
اسنادہ موضوع۔
اس کی سند من گھڑت ہے۔
یہ روایت [دلائل البوة للبهيقى 272/6] میں «محمد بن مروان السدي الصغير عن الكبي عن ابي صالح عن ابن عباس» کی سند سے موجود ہے۔ جبکہ محمد بن مروان السدی راوی کذاب ہے۔
حافظ ابن حجر کہتے ہیں متہم بالکذب ہے۔ اور سدی صغیر کا استاد کلبی کذاب ہے۔
——————

جب حسن بن علی پیدا ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں اذان کہی

”جناب عبید اللہ بن ابو رافع نے اپنے والد سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حسن بن علی رضی اللہ عنہا کو جنم دیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کان میں نماز والی اذان کہی تھی۔“
تحقیق الحدیث :
[سنن ابو دائود كتاب الادب – باب : فى المولود يؤذن فى اذنه التحفة : 5105 جامع ترمذي كتاب الاضاحي، باب الاذان فى أذن المولود ح : 15/14]
اس کی سند ضعیف ہے۔
اس میں عاصم بن عبید اللہ ضعیف ہے۔ [سلسله أحاديث الضعيفة حديث رقم، 321]
——————

اس تحریر کو اب تک 71 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply