طالب علم کے لیئے فرشتوں کا پر بچھانا اور مچھلیوں کا بخشش طلب کرنا

اے ابو درداء میں تم سے مدینہ الرسول سے ایک حدیث سننے آیا ہوں جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے

جناب کثیر بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں ابو درداء کے پاس دمشق کی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور اس نے کہا : اے ابو درداء! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ سے ایک حدیث کے لیے تمھارے پاس آیا ہوں، مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسے روایت کرتے ہیں اس کے علاوہ مجھے اور کوئی کام نہیں۔ ابو درداء نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص حصول علم کی راہ پر چل نکلتا ہے تو الله تعالیٰ اسے جنت کی راہوں میں سے ایک راہ پر چلائے گا اور بلاشبہ فرشتے طالب علم کی رضا کے لیے اپنے پر بچھاتے ہیں اور عالم کے لیے زمین و آسمان کی تمام مخلوق اور پانی میں موجود مچھلیاں بخشش طلب کرتی ہیں اور بلاشبہ عالم کی عبادت گزار پر فضیلت ایسے ہی ہے جیسے کہ چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر ہوتی ہے۔
بلاشبہ علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں اور ان انبیا ء علیہم السلام کی میراث درہم و دینار نہیں ہوتے بلکہ ان کی میراث تو علم ہے پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے وافر حصہ حاصل کر لیا۔
تحقیق الحدیث :
اسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔
[ابو داؤد، كتاب العلم، رقم الحديث 3641، أبن ماجه، المقدمة رقم الحديث 223، و اخرجه الترمذي فى كتاب العلم راقم الحديث 2682]
ترمذی کہتے ہیں اس کی سند متصل نہیں۔ نیز اس میں داؤد بن جمیل اور اس کا شیخ عاصم بن رجاء بن حياة دونوں ضعیف ہیں۔

اس تحریر کو اب تک 53 بار پڑھا جا چکا ہے۔