بیوی کی بھانجی یا بھتیجی سے نکاح

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا کوئی شخص اپنی بیوی کی بھانجی یا بھتیجی سے نکاح کر سکتا ہے؟ قران و سنت کی رو سے رہنمائی کریں۔
جواب : اللہ تبارک و تعالیٰ نے رشتوں کی حلت و حرمت کا ذکر بڑی ہی صراحت سے کیا ہے، اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکمل توضیح فرمائی ہے۔ سائل کی مراد اگر یہ ہے کہ بیوی کو طلاق دینے یا اس کے فوت ہو جانے کے بعد اس کی بھانجی یا بھتیجی سے نکاح کرنا تو یہ بالکل جائز و درست ہے، اگر مراد بیوی کی موجود گی میں اس کی بھانجی یا بھتیجی سے نکاح کرنا تو یہ حرام ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں یا پھوپھی سے اس کی بھتیجی کی موجودگی میں نکاح کیا جائے، اسی طرح اس بات سے بھی منع کیا کہ کسی عورت سے اس کی خالہ کی موجودگی میں یا خالہ سے اس کی بھانجی کی موجودگی میں نکاح کیا جائے اور نہ چھوٹی بہن کی موجودگی میں اس کی بڑی بہن سے اور بڑی بہن کی موجودگی میں چھوٹی سے نکاح نہ کیا جائے۔“ [ترمذي، كتاب النكا ح : ما جاء لا تنكح المراة على عمتها 1126]
امام ترمزی رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں فرماتے ہیں : ”عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی حدیث حسن صحیح ہے اور عام اہل علم کا اس پر عمل ہے۔“ آدمی کے لیے کسی عورت اور اس کی پھوپھی یا خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا حلال نہیں۔ اس پر ہمارے علم میں اہل علم کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کسی عورت سے اس کی پھوپھی یا خالہ موجودگی میں یا پھوپھی سے بھتیجی کی موجودگی میں نکاح کر لیا تو دوسری سے کیا ہوا نکاح فسخ کیا جائے گا، عام اہل علم کی یہی رائے ہے۔
لہٰذا کسی بھی عورت سے اس کی پھوپھی یا خالہ کی موجود گی میں نکاح کرنا درست نہیں۔ اسی طرح بیوی کی پھوپھی یا خالہ سے بھانجی یا بھتیجی کی موجودگی میں بھی نکاح درست نہیں۔ اگر اس طرح کیا گیا ہے تو اسے ختم کیا جائے گا۔

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔