کیا میں اپنے شوہر سے ایک گھر کا مطالبہ کر سکتی ہوں ؟

پاؤں میں پازیب پہننا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : حصول زینت کے لئے پاؤں میں پازیب پہننے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : خوبصورتی کے لئے پاؤں میں پازیب پہننا جائز ہے، لیکن عورت انہیں غیر مردوں کے سامنے ظاہر کرنے کے لئے زمین پر نہیں مار سکتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ زِينَتِهِنَّ [24-النور:31 ]
”اور عورتیں اپنے پیر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہو جائے۔“

(چادر) دوپٹہ اتار رکھنا
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میرے سر میں ایک ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے مجھے سر سے چادر اتارنے کا مشورہ دیا اور واقعتاً چادر کا اوڑھنا میرے لئے نقصان دہ ہے۔ کیا میرے لئے ایسا کرنا جائز ہے ؟ اور مجھے کیا کرنا چاہئیے ؟
جواب : ہاں اگر آپ کے پاس اجنبی (غیر محرم) لوگ موجود نہ ہوں تو آپ سر سے چادر اتار سکتی ہیں، خاوند، محرم رشتہ داروں یا صرف عورتوں کی موجودگی میں سر سے چادر اتاری جا سکتی ہے، اگر آپ بازار جانا چاہیں تو وہاں چونکہ غیر مرد ہوں گے۔ لہٰذا اس صورت میں سر، چہرہ اور دیگر اعضاء بدن کا ڈھانپنا ضروری ہے۔

پہلے بیوی کو اللہ تعالیٰ کے حکم کا پابند بنائیں
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میں نے ایک خاتون سے شادی کر رکھی ہے، وہ بحمدللہ پردے کی پابند ہے، لیکن جس طرح ہمارے ملک میں ایک عادت سی بن گئی ہے۔ میری بیوی اپنے بہنوئی سے پردہ نہیں کرتی، اس کی بیوی بھی مجھ سے پردہ نہیں کرتی۔ اسی طرح میری بیوی میرے بھائی، اپنے خالہ زاد اور پھوپھی زاد بھائیوں سے بھی پردہ نہیں کرتی۔ کیا یہ سب کچھ شرع کی خلاف ورزی ہے ؟ ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ جبکہ ہمارے ملک میں مذکورہ بالا لوگوں سے پردہ کرنے کی عادت نہیں ہے۔ جب کہ عملاً ہمارے گھر میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے میں بیوی کو پردہ کرنے کی تلقین کرتا ہوں تو وہ لوگ مجھے اپنی بیوی پر عدم اعتماد اور شک کرنے کا الزام دیتے ہیں۔
جواب : مذکورہ تمام لوگ اجنبی ہیں، لہذا ان کے سامنے چہرہ اور دیگر جسمانی محاسن کا کھولنا ناجائز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اظہار زینت کی اجازت صرف محرم رشتے داروں کے سامنے ہی دی ہے۔ حکم باری تعالیٰ ہے :
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ [24-النور:31 ]
”اور نہ ظاہر کریں وہ (عورتیں) اپنی زینت کو مگر اپنے خاوندوں یا اپنے باپوں کے سامنے۔ “
آپ پہلے اسے اس بات پر مطمئن کریں کہ غیر محرم لوگوں کے سامنے بےحجاب ہونا حرام ہے اور اسے اس بات کا پابند بنائیں۔ اگرچہ یہ تمہارے ہاں مروجہ عادات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو اور وہ آپ پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کریں۔ اسی طرح آپ اپنے بھائی، بیوی کے بہنوئی، اس کے عم زاد اور ماموں زاد رشتہ داروں کے سامنے اس حقیقت کا اظہار کریں کہ وہ سب اس عورت کے لئے اجنبی ہیں۔ اگر بفرض محال آپ اپنی بیوی کو طلاق دے دیں تو وہ ان لوگوں کے لئے حلال ہو گی اور یہی ان کے غیر محرم ہونے کی دلیل ہے۔

کیا میں اپنے شوہر سے ایک گھر کا مطالبہ کر سکتی ہوں ؟
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میرے خاوند کا بھائی شادی کر کے ہمارے ساتھ ہمارے گھر میں رہنا چاہتا ہے، جبکہ اسے معلوم ہے کہ میں اس کے سامنے چہرہ ننگا نہیں کرتی، نہ اس کے پاس بیٹھتی ہوں اور نہ کبھی اسے دیکھتی ہوں۔ پھر واقعتاً اس نے شادی کر لی۔ اس پس منظر میں تنگی حالات کی بناء پر کیا میرا اپنے خاوند سے الگ گھر کا مطالبہ کرنا دو بھائیوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے سے تعبیر تو نہیں کیا جائے گا ؟ کیا ایسا مطالبہ کرنا حرام ہے یا نہیں ؟ اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ میرا خاوند تو یہ سمجھتا ہے کہ دونوں بھائیوں کا الگ الگ رہنا بہتر ہے جبکہ میری ساس جو ہمارے ساتھ ہی رہتی ہے ہمارے ایک جگہ رہنے کو پسند کرتی ہے۔
جواب : ان حالات میں اگر مکمل پردہ اور عدم خلوت کا ماحول میسر آ سکے تو ساس کی خوشی کے لیے ایک جگہ رہنا بہتر ہے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو الگ الگ رہنا بہتر ہے۔ اگر ایک بھائی کی بیوی سستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاوند کے بھائی کے ساتھ بےحجاب رہتی ہے یا اس کے ساتھ گھر میں خلوت اپناتی ہے یا ایک بھائی دوسرے کی بیوی کے متعلق غیر اطمینان بخش رویہ اپناتا ہے، اس کے پیچھے جاتا ہے، اس کی غفلت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بغیر اجازت اس کے پاس چلا جاتا ہے یا کپڑوں کے نیچے سے دیکھتا ہے، تو ایسے حالات میں ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ تنگی اور مشقت سے بچنے کے لئے خاوند سے الگ گھر کا مطالبہ کر سکتی ہیں۔

عورت کا خاوند کے بھائی کے ساتھ بیٹھنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میری ساس یہ چاہتی ہے کہ میں ٹی وی دیکھتے یا چائے پیتے وقت عباء پہن کر باپردہ حالت میں اس کے بیٹے یعنی اپنے خاوند کے بھائی کے پاس بیٹھا کروں جبکہ میں ایسا کرنے سے انکاری ہوں۔ کیا میں انکار کرنے میں حق بجانب ہوں ؟
جواب : مذکورہ بالا حالات میں ان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرنا آپ کا حق ہے، چونکہ اس کا مطالبہ تسلیم کرنا باعث فتنہ ہے آپ کے خاوند کا بھائی جو ابھی تک غیر شادی شدہ ہے آپ کے لئے اجنبی ہے۔ اس کا آپ کی آواز سننا یا آپ کا سراپا دیکھنا اسی طرح آپ کا اسے دیکھنا سراسر فتنہ ہے۔ لہذا اس سے بچنا ضروری ہے۔

خاوند کے رضاعی باپ کے سامنے چہرہ ننگا کرنا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : عورت کا اپنے خاوند کے رضائی باپ کے سامنے چہرہ ننگا کرنا کیا حکم رکھتا ہے ؟
جواب : خاوند کے رضائی باپ کے سامنے عورت کا چہرہ ننگا کرنا راجح قول کی رو سے جائز نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسی مسلک کو اختیار کیا ہے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
يحرم من الرضاعة ما یحرم من النسب [رواه البخاري فى الشهادات باب 7 – و مسلم فى كتاب الرضاع باب 1 ]
”جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت کی وجہ سے بھی حرام ہو جاتے ہیں۔“
خاوند کا باپ بیٹے کی بیوی پر نسب کی وجہ سے حرام نہیں بلکہ سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہے۔ لہذا وہ اس لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ [4-النساء:23 ]
”تمہارے صلبی بیٹوں کی بیویاں تم پر حرام ہیں۔ “
رضاعی بیٹا صلبی بیٹے کے حکم میں نہیں ہے۔ اس بناء پر خاوند کے رضائی باپ سے پردہ کرنا واجب ہے۔ وہ عورت اس کے سامنے چہرہ ننگا نہیں کر سکتی۔ اگر بفرض محال وہ عورت اس آدمی کے رضائی بیٹے سے الگ ہو جائے تو وہ احتیاطاً رضاعی سسر سے شادی کے لئے حلال نہیں ہو گی۔ جمہور علماء کی یہی رائے ہے۔

ناک میں ننتھ پہننا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : حصول زینت کے لئے ناک میں نتھ پہننے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : عورت ہر وہ زیور پہن سکتی ہے جو عادتاً پہنا جاتا ہو۔ اس کے لئے اگر بدن میں سوراخ بھی کرنا پڑے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً کانوں میں بالیاں وغیرہ پہنا۔
ممکن ہے ناک میں نتھ پہننا ایسے ہی جائز ہو جیسا کہ اونٹ کی ناک میں سوراخ کر کے نکیل ڈالنا۔ ویسے دونوں مثالیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

چہرہ ننگا کرنے کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : کیا عورت اجنبی لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا کر سکتی ہے ؟
جواب : عورت اجنبی لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ ننگا نہیں کر سکتی، بلکہ ایسا کرنا حرام ہے۔ چہرہ ڈھانپے بغیر پردہ مکمل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ چہرہ اصلی زینت ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے :
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَى جُيُوبِهِنَّ [24-النور:31]
”عورتیں اپنی چادریں اپنے گریبانوں تک لٹکائیں۔“
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عورت کو حکم دیا ہے کہ وہ سر کی چادر گریبان تک لٹکائے۔ جب چادر گریبان تک لٹکے گی تو چہرے اور گریبان کو چھپائے گی۔
مزید ارشاد ہوتا ہے
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ آبَائِهِنَّ [24-النور:31]
”اور نہ ظاہر کریں وہ اپنی زیبائش کو بجز اپنے خاوندوں کے۔“
اس عورت پر خاوند اور محرم رشتہ داروں کے علاوہ زینت کا ظاہر کرنا حرام ہے۔

باروکہ (مصنوعی بال) استعمال کرنے اور خوبصورت بنانے صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : کیا عورت خاوند کے لئے باروکہ (مصنوعی بال) استعمال کر سکتی ہے اور کیا یہ عمل واصل اور متصل کی نہی کے تحت آتا ہے ؟
جواب : باروکہ یعنی مصنوعی بالوں کا استعمال حرام ہے اگرچہ یہ وصل نہیں ہے لیکن اس میں شمار ضرور ہوتا ہے۔ مصنوعی بال عورت کے سر کے بالوں کو اصل سے زیادہ لمبا کر کے دکھاتے ہیں اس بناء پر وصل کے مشابہ ہوتے ہیں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والی دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ ہاں اگر عورت کے سر پر بالکل بال نہ ہوں تو وہ یہ عیب چھپانے کے لئے مصنوعی بال استعمال کر سکتی ہے، اس لئے کہ عیب کو چھپانا جائز ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو سونے کی ناک لگانے کی اجازت مرحمت فرمائی تھی جس کی ناک جنگ میں کٹ گئی تھی۔ مسئلے کی نوعیت اس سے بھی وسیع ہے۔ بناؤ سنگھار کے تمام مسائل اور اس سے متعلق دیگر تمام کاروائیاں مثلا ناک چھوٹا کرانا وغیرہ بھی داخل ہیں۔ تحسین و جمیل عیوب کے ازالہ کا نام نہیں۔ اگر عیوب کا ازالہ مقصود ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً ٹیڑھی ناک سیدھی کی جا سکتی ہے۔ نشان دور کیا جا سکتا ہے اور اگر ایسا عمل ازالہ عیوب کے لئے نہیں بلکہ کسی اور مقصد کے لئے ہو مثلاً سرمہ بھرنا یا چہرے کے بال نوچنا وغیرہ تو یہ ممنوع ہیں۔ مصنوعی بالوں کا استعال اگرچہ خاوند کی اجازت اور اس کی مرضی سے ہو تب بھی حرام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیاء میں کسی کی اجازت یا رضا غیر مفید ہے۔

ماں کا چچا اور ماموں محرم رشتوں میں سے ہیں
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : کیا عورت کے لئے اپنی ماں کے چچا اور ماموں یا باپ کے چچا اور ماموں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے ؟ یعنی کیا یہ لوگ عورت کے محرم رشتے ہیں ؟ مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ عورت ان کی فروع سے سمجھی جائے گی، جبکہ وہ عورت کی ماں یا باپ کے اصول ہیں۔
جواب : ہاں ! کسی عورت کی ماں یا باپ کا حقیقی چچا یا ماں یا باپ کی طرف سے یا اسی طرح اس کا اپنا ماموں تو یہ لوگ عورت کے محارم میں سے ہیں، کیونکہ آپ کے باپ کا چچا آپ کا چچا ہے اور آپ کے باپ کا ماموں آپ کا ماموں ہے اسی طرح آپ کی ماں کا چچا اور نسب سے اس کا ماموں آپ کے بھی چچا اور ماموں ہیں۔

کافر ملک میں مسلمان خواتین پر حکمرانوں کی اطاعت
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میرے اسلامی ملک میں حکام بالا کی طرف سے جاری کردہ ایک حکم نامہ کے ذریعے نوجوان لڑکیوں سمیت تمام عورتوں کو پردہ کرنے اور خاص طور پر سر ڈھانپنے سے روک دیا گیا ہے۔ کیا میرے لئے اس کا نفاذ جائز ہے ؟ آگاہ رہیں کہ اس حکم کی تعمیل سے انکار کرنے والے کو کئی طرح کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً ملازمت سے برخواستگی، مدرسہ سے اخراج یا قید و بند وغیرہ۔
جواب : آپ کے ملک پر وارد ہونے والی یہ مصیبت ایسی ہے کہ جس سے بندے کا امتحان مقصود ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
الم ٭ أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ٭ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّـهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ [29-العنكبوت:1]
”الف لام میم، کیا لوگوں نے یہ خیال کیا ہے کہ محض یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے، چھوٹ جائیں گے اور وہ آزمائے نہ جائیں گے۔ اور ہم تو انہیں بھی آزما چکے ہیں جو ان سے پہلے گزرے ہیں سو اللہ ان لوگوں کو ضرور معلوم کر کے رہے گا جو سچے تھے اور جھوٹوں کو بھی معلوم کر کے رہے گا۔“
جو کچھ میں سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ اس ملک کی خواتین پر ایسے احکام کے بارے میں حکمرانوں کی اطاعت سے انکار کرنا واجب ہے کیونکہ غیر شرعی احکام میں حکمرانوں کی اطاعت ناقابل قبول ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ [4-النساء:59 ]
”اے ایمان والو ! اطاعت کرو تم اللہ کی اور اطاعت کرو تم رسول کی اور اپنے میں سے اولی الامر کی۔“
اگر آپ بغور آیت کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے أولي الأمر کے ساتھ أطيعوا فعل امر کا اعادہ نہیں فرمایا اور یہ اس امر کی دلیل ہے کہ حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے تابع ہے۔ اگر ان کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مخالف ہو تو اس صورت میں ان کی بات سننے اور عمل کرنے کے لائق ہرگز نہیں اس لئے کہ :
لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق [مصنف ابن أبى شيبة 546/12]
”یعنی خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں۔“
اس ملک کی خواتین مصائب کا شکار ہیں، ان پر صبر کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں۔ اللہ تعالیٰ سے صبر کے لیے استقامت کی دعا کرنی چاہئیے۔ ہم دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت حکمرانوں کو ہدایت نصیب فرمائے۔ میرا خیال ہے کہ یہ پابندی گھر سے باہر جانے کی صورت میں ہے، گھر کے اندر اس کا اطلاق نہیں ہوتا ہو گا۔ لہٰذا اس سے بچنے کے لیے خواتین کا گھر پر ہی رہنا ممکن ہے۔ باقی رہی ایسی تعلیم کہ جس کے حصول کے نتیجہ میں گناہ کا صدور ہوتا ہو تو ایسی تعلیم کا حصول جائز نہیں ہے۔ عورتوں کے لیے اتنی تعلیم ہی کافی ہے جس کی دینی اور دنیوی طور پر انہیں ضرورت ہو اور جس کا حصول عام طور پر گھروں میں بھی ممکن ہے۔ خلاصہ کلام یہ کہ منکر کاموں میں حکمرانوں کی اطاعت جائز نہیں ہے۔

غیر مقبول دعا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میں اکثر نقلی روزے رکھا کرتی ہوں تاکہ اللہ ان لغزشوں اور کوتاہیوں کو معاف فرمائے جو کہ علم کے بغیر سرزد ہوتی رہتی ہیں، میں بحمدللہ اپنے دین پر کاربند ہوں، لیکن میری والدہ اللہ سے یہ دعا کرتی ہے کہ وہ میرے روزے قبول نہ فرمائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس کی کیا وجہ ہے، کیونکہ میرا روزہ رکھنا گھریلو کام کاج پر اثر انداز نہیں ہو تا۔ پھر وہ میری محتاج بھی نہیں۔ میں اس بات سے بڑے قلق اور اضطراب میں مبتلا ہوں کہ ماں کی بددعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ میرے نیک اعمال اور روزوں کو شرف قبولیت سے نہیں نوازے گا، کیونکہ والدین کی دعائیں بارگاہ الہیٰ میں قبولیت سے نوازی جاتی ہیں۔ اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب : عبادات اور نفلی روزوں کے اہتمام کی وجہ سے آپ قابل تعریف ہیں (یعنی اس احسان اور نیکی کے کام پر ہم آپ کی تعریف کرتے ہیں) آپ مقدور بھر اس کی پابندی کریں اور والدہ سے معذرت کریں کیوں کہ یہ ایک نیک عمل ہے اور والدہ کا حق اس کی ادائیگی کے ساتھ موثوق ہے کیونکہ نفلی روزے اس کے ساتھ حسن سلوک، اس کی خدمت اور ادائیگی حقوق سے مانع نہیں۔ والدہ کو تو ایسے نیک امور کی انجام دہی کے لئے آپ کو ترغیب دلانا تھی، پھر وہ آپ کی اقتداء کرتیں۔ بلندی درجات اور گناہوں کی معافی کے لئے نفلی نماز روزے کی اسے تو آپ سے زیادہ ضرورت ہے۔ جہاں تک آپ پر اس کی بددعا کا تعلق ہے تو ان شاء اللہ وہ قبول نہیں ہو گی۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ آپ کا یہ عمل سراسر نیک اور خیر ہے۔ غالبا وہ شفقت مادری اور جذبہ ترحم کے تحت ایسا کرتی ہو گی ؟

میری والدہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی اور مجھ سے بچی جیسا سلوک کرتی ہے
——————

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میری والدہ مجھ سے بے پناہ محبت کرتی اور انتہائی شفقت سے کام لیتی ہے۔ شاید اس کا سبب میری بیماری اور کمزوری ہو، مگر اس کی محبت حدود سے تجاوز کرتی نظر آتی ہے۔ میری عمر اس وقت اکیس برس ہے۔ اس کے باوجود وہ مجھ سے دس سالہ بچی کا سا سلوک کرتی ہیں۔ ہو سکے تو مجھے اپنے ہاتھ سے کھلاتی پلاتی ہیں۔ میں بجدللہ ان سے نرم لہجے میں بات کرتی ہوں اور حسن سلوک کا مظاہرہ کرتی ہوں ؟
جواب : والدین عموماً ایسے ہی مہربان ہوتے ہیں۔ بچوں سے محبت اور شفقت بھرا سلوک کرتے ہیں۔ بعض اسباب و وجوہات کی بناء پر یا ویسے ہی والدین یا کسی ایک میں یہ جذبہ کم و بیش بھی ہو سکتا ہے۔ شائد اس کا سبب اولاد کا والدین کے ساتھ حسن سلوک اور جذبہ اطاعت گزاری ہو یا بچوں کی کوئی بیماری یا کمزوری والدین کو اس سے رحمت و شفقت کرنے پر آمادہ کرتی ہو۔ چونکہ والدین کا یہ رویہ کبھی نقصان کا باعث بھی بن سکتا ہے جیسا کہ سوال میں مذکور ہے۔ لہٰذا بچے کو ماں یا باپ سے معذرت کر لینی چاہئیے اور بتا دینا چاہئیے کہ اب اس قدر نگہداشت کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے بھی والدین کو محبت، شفقت اور ان کے مظاہر کے بارے میں تمام بچوں سے ایک جیسا سلوک کرنا چاہئیے۔ بعض سلف تو عدل و انصاف کے پیش نظر بچوں کو بوسہ دیتے وقت بھی برابری کا خیال رکھتے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد میں موجود ہے :
اتقوا الله واعدلوا بين أولادكم [صحيح مسلم كتاب الهبات 13]
”اللہ سے ڈرو اور بچوں میں انصاف سے کام لو۔“

میری والدہ مجھ سے ناراضگی کے عالم میں فوت ہو گئی
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : ① تقریباً چھ سال پہلے رمضان المبارک میں میری والدہ کا انتقال ہوا۔ میں بچپن میں اکثر اوقات اس سے جھگڑتی اور بحث و مباحثہ کرتی رہتی تھی۔ لہذاا جب وہ فوت ہوئی تو مجھ سے ناراض تھی۔ عمر میں اضافے کے ساتھ عقل و شعور میں بھی اضافہ ہوا تو اب میں اپنے اس رویہ پر نادم ہوں اور سوائے ندامت و استغفار اور والدہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور رحمت و غفران کی دعا کے اور کر بھی کچھ نہیں سکتی۔ کیا یہ سب کچھ اس امر کے لئے کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دے اور روز قیامت مجھ پر رحم فرمائے ؟
② اب ہم والدہ کی طرف سے روزے نہیں رکھ سکے۔ کیا اس کے لئے ہم گناہ گار ہیں ؟ کیا ہم اب اس کی طرف سے روزے رکھ سکتے ہیں ؟ اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ ہمیں اس بات کا علم بھی تھوڑی دیر قبل ہی ہوا ہے۔
جواب : شاید آپ والدہ کی زندگی میں کم عمری کے ساتھ ساتھ عدم واقفیت اور جہالت کا بھی شکار رہی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو آپ معذور ہیں۔ عقل و شعور آ جانے کے بعد جب آپ اپنے گزشتہ طرز عمل پر نادم اور معافی کی خواستگار ہیں تو ان شاء اللہ آپ کا یہ رویہ گزشتہ کوتاہی کا ازالہ کر دے گا اس لئے کہ توبہ گزشتہ گناہوں کو مٹا دیتی ہے۔ آپ کا والدہ کے لئے دعاء استغفار کرنا اور اس کی طرف سے صدقات و خیرات کرنا یہ ایسے اعمال ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے آپ کے گزشتہ گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ باقی رہے وہ روزے جو اس نے بیماری کے دوران چھوڑے تھے تو وہ بیماری کی وجہ سے معذور تھی اور بیماری کی وجہ سے ہی وہ قضاء بھی نہ دے سکی۔ لہٰذا آپ پر ان کی قضاء دینا واجب نہیں ہے۔

میں سورج گرہن سے ڈرتی ہوں
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میری مشکل یہ ہے کہ میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ڈرتی ہوں۔ خاص طور پر رات کے وقت اور مطلع ابر آلود ہونے کی صورت میں زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے۔ اسی طرح مجھے سورج گرھن اور چاند گرھن سے بھی خوف آتا ہے۔ برائے کرم کوئی ایسی دعا بتائیں کہ جس کے پڑھنے سے باذن اللہ میرا یہ خوف جاتا رہے یا کوئی ایسا طریقہ بتائیں کہ اس پر عمل پیرا ہو کر اس خوف سے نجات حاصل کر سکوں۔
جواب : مجھے تو اس ڈر کا کوئی سبب معلوم نہیں ہوتا۔ زمین و آسماں، چاند و سورج وغیرہ یہ سب چیزیں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی خدمت کے لئے وقف فرما رکھا ہے اور انہیں بنظر عبرت دیکھنے کا حکم دیا ہے۔ میری بہن ! آپ بکثرت اسماء و صفات باری تعالیٰ کا ذکر کریں۔ تلاوت کلام پاک کریں۔ آیات قدرت اور خالق ارض و سماء کی صفائی کے عجائبات کے بارے میں تفکر و تدبر کریں اور بارگاہ الہیٰ میں خشوع و خضوع کے ساتھ دعا کریں اور اس سے مشکلات کا حل چاہیں۔ امید ہے اس طرح آپ کا یہ خوف جاتا رہے گا اور ان شاء اللہ اس کے بدلے اطمینان و سکون میسر آئے گا۔

میں نے دعا کی مگر ابھی تک قبول نہیں ہوئی
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : میں گزشتہ دس سال سے بھی زیادہ عرصہ سے یہ دعا کرتی رہی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے نیک خاوند اور پھر نیک اولاد عطا فرمائے، لیکن اللہ تعالیٰ کی مرضی کہ ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا اس کا فیصلہ تو اٹل ہے۔ دریں حالات میں نے کچھ عرصہ سے دعا کرنا چھوڑ دی ہے اس لئے نہیں کہ میں بارگاہ باری تعالیٰ میں اپنی دعا کی قبولیت سے مایوس ہوں بلکہ اس لئے کہ جب اس نے میری دعا کو قبول نہیں کیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ موضوع ہی میرے لئے غیر مفید ہے۔ اب میں نے دعا کرنا چھوڑ دی ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے کہ میرے لئے بہتر کیا ہے۔ یہ اس امر کے باوصف ہے کہ مجھے قبولیت دعا کی شدید رغبت اور خواہش ہے۔ اس بارے میں مجھے کیا کرنا چاہئیے ؟ کیا مسلسل دعا کرتی رہوں یا یہ سمجھ کر مطمئن ہو کر بیٹھ جاؤں کہ یہ موضوع میرے لئے سود مند ہی نہیں ؟
جواب : حدیث شریف میں آیا ہے کہ بندے کی دعا اس وقت تک قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جلد بازی کا یہ مطلب بیان کیا گیا ہے۔ کہ بندہ جلدی قبولیت دعا چاہے اور اگر ایسا نہ ہو تو دعا کرنا ہی چھوڑ دے اور یہ کہنا شروع کر دے کہ میں نے بار بار دعا کی ہے مگر وہ قبول ہی نہیں ہوتی۔ دراصل ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی بعض خصوصی اسباب یا عموی وجوہات کی بناء پر دعا کی قبولیت کے وقت کو موخر کر دیتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ : اللہ تعالیٰ دعا کرنے والے کو تین چیزوں میں سے ایک ضرور عطا فرماتا ہے۔ یا تو اس کی دعا قبول فرماتے ہوئے اس کی خواہش کو پورا فرما دیتا ہے۔ یا اسے آخرت کا زخیرہ بنا دیتا ہے یا اتنی مقدار میں اس سے شر کو دور فرما دیتا ہے۔ میری بہن ! جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ مسلسل دعا کرتی رہیں اگرچہ مزید کئی سال کیوں نہ بیت جائیں۔ دوسری طرف اگر کوئی شخص آپ سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے رد نہ کریں۔ چاہے وہ آپ سے بڑی عمر کا ہو یا پہلے سے شادی شدہ۔ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں بڑی برکت پیدا فرما دے۔

بچوں کے لئے بددعا
——————

فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال : اکثر والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر ان کے لئے بددعا کرتے رہتے ہیں۔ اس بارے میں آپ ان کی راہنمائی فرمائیں۔
جواب : ہم والدین کو نصیحت کریں گے کہ وہ بچپن میں بچوں کی کوتاہیوں سے درگزر کریں۔ ان کی تکلیف دہ باتوں پر علم و حوصلہ کا مظاہرہ کریں۔ بچے چونکہ ناپختہ عقل کے مالک ہوتے ہیں اس لئے ان سے بات چیت یا کسی اور معاملہ میں غلطی سرزد ہو جاتی ہے اگر باپ حلیم الطبع ہو تو وہ درگزر کرتے ہوئے بچے کو بڑے پیار اور نرم خوئی سے سمجھائے۔ اسے نصیحت کرے شائد اس طرح بچہ اس کی بات تسلیم کرے اور ادب کا برتاؤ کرنے میں پیش قدمی کرنے لگے۔
بعض والدین اس وقت سنگین غلطی کا ارتکا ب کرتے ہیں جب وہ بچوں کے لئے موت، بیماری، یا آلام و مصائب کی بددعائیں کرتے ہیں اور مسلسل اس کوتاہی کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں اور جب غصہ فرد ہوتا ہے، تو اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہماری بددعائیں قبول ہوں اور یہ اس لئے ہوتا ہے کہ باپ فطرتاً مہرباں اور شفیق ہوتا ہے۔ چونکہ وہ محض شدت غضب کی وجہ سے ایسا کر گزرتا ہے لہذا اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّـهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ [10-يونس:11]
”اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر نقصان بھی جلدی سے واقع کر دیا کرتا جس طرح وہ فائدہ کے لئے جلدی مچاتے ہیں تو ان کا وعدہ کبھی کا پورا ہو چکا ہوتا۔“
لہذا والدین کو قوت برداشت اور صبر و تحمل سے کام لینا چاہئیے، معمولی مار پیٹ سے ان کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئیے۔ بچے تعلیم و تادیب سے زیادہ جسمانی سرزنش سے متاثر ہوتے ہیں، ان کے لئے بددعا کرنا قطعاً غیر سود مند ہے، وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کے منہ سے کون سی بات نکل جائے گی، باپ نے جو کچھ کہا وہ تو لکھ لیا جائے گا اور بچے کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply