فقر و فاقہ یا بیماری کے ڈر سے بچے پیدا نہ کرنا

فقر و فاقہ یا بیماری کے ڈر سے بچے پیدا نہ کرنا
سوال: میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میرے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو سیلان خون کے مرض میں مبتلا تھا، اور جب میں نے دوسرا بچہ پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو مجھے چھ ڈاکٹروں نے بتایا کہ بلاشبہ میرے ہاں پیدا ہونے والے تمام بچے اسی مرض میں مبتلا ہوں گے، کیونکہ یہ موروثی بیماری ہے
لہٰذا میں نے باوجود بچوں کی خواہش کے، پیدا ہونے والے بچے کے متعلق ڈرتے ہوئے (کہ وہ بھی اس مرض کا شکار ہوگا) اور اپنی ذات کے متعلق اس ناقابل برداشت خرچ سے ڈرتے ہوئے، جو اس بیماری کے علاج پر اٹھتا ہے، اور پھر یہ بھی معلوم ہے کہ اس بیماری کا قطعی علاج نہیں ہے، میں نے بچے پیدا کرنے سے توقف کر لیا ہے، اب سوال یہ ہے کہ کیا میرا یہ فعل صحیح اور شرعی ہے یا نہیں؟ ہمیں فائدہ پہنچا کر عند اللہ ماجور ہوں۔
جواب: تمھیں اللہ پر توکل و بھروسہ کرتے ہوئے اپنا یہ معاملہ اسی کے سپرد کرنا چاہیے اور طلب اولاد کے سلسلہ میں بچے پیدا کرنے چاہیں کیونکہ مسببات۔ کو اسباب پر مرتب کرنا اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لائق ہے۔ و باللہ التوفیق
——————

(سعودی فتوی کمیٹی)
سوال: ایک عورت ایک بچے کے ساتھ حاملہ ہوئی، پھر اس نے اس بچے کو کامل اور پوری خلقت میں جنم دیا لیکن اس بچے کے جسم میں ہڈیاں نہیں تھیں اور اپنی پیدائش کے چند لمحے بعد تک زندہ رہا، پھر وہ فوت ہو گیا۔ وہ عورت پھر حاملہ ہوئی اور وہ یہاں ایک امریکی ہسپتال میں داخل ہے، ڈاکٹروں نے اس کے جتنے بھی ٹیسٹ اور الٹراساؤنڈ ز کیے ہیں وہ یہی تشخیص کرتے ہیں کہ موجودہ بچہ بھی اپنی ماں کے پیٹ میں زندہ ہونے کے باوجود پہلے بچے کی طرح (بغیر ہڈیوں کے) ہی ہے اور ڈاکٹروں نے اس عورت کے وارثوں کو تجویز پیش کی ہے کہ وہ اب کی مرتبہ اس کا حمل ساقط کروا دیں، جبکہ وہ اب اپنے حمل کے پانچویں مہینے میں ہے۔
ڈاکٹر اس بچے کے اسقاط کی تجویز اس لیے دیتے ہیں تاکہ وہ اس بچے کے میڈیکل ٹیسٹ کریں، ہو سکتا ہے کہ وہ اس عورت کے بچوں کو بغیر ہڈیوں کے پیدا ہونے کے اسباب جان سکیں۔ ہم نے اس کیس کے معالج امریکی ڈاکٹر سے بات چیت کی ہے، اس نے یہ رپورٹ دی ہے کہ اس حمل سے پیدا ہونے والا بچہ بد شکل و بدنما اور بغیر ہڈیوں کے پیدا ہوگا اور ولادت کے بعد اس کے زندہ رہنے کا احتمال بہت کمزور ہے بنا بریں اس نے عورت کو اسقاط حمل کا تاکیدی مشورہ دیا ہے۔
میرا خیال یہ تھا کہ اس بچے کو باقی رکھا جائے اور اس کو ساقط کرنے کی بجائے عورت کی نارمل ڈلیوری کروائی جائے۔ لیکن یہ عورت سعودی عرب کی رہنے والی ہے اور اپنے وطن لوٹ جانے کا ارادہ رکھتی ہے، اس کا امریکا میں مزید چار مہینے قیام کرنا اس کے لیے بہت سی مالی اور نفسیاتی مشکلات پیدا کرے گا۔ اور وہ ڈرتی ہے، درآنحالیکہ اس کے معالج ڈاکٹروں نے اس کو سخت بے چین و مضطرب کر دیا ہے کہ جب وہ اس حال میں سفر کرے گی تو کسی ایسی جگہ پر حمل ساقط ہو سکتا ہے جہاں پر ڈاکٹر اس بچے کے ضروری ٹیسٹ نہ لے سکیں گے، اسی لیے ڈاکٹر ابھی سے اسقاط حمل کا مشورہ دیتے ہیں۔
میں جناب سے امید رکھتا ہوں کہ جتنی جلدی ممکن ہو آپ مجھے اپنی تجھے کے مطابق اور اس قسم کے کسی مسئلہ پر اہل علم کی پہلے سے کی گئی بحث کے ذریعہ اس مسئلہ کا حل پیش کریں گے، اللہ تعالیٰ آپ کو ہر اس کام کی توفیق عطا فرمائے جس کو وہ پسند کرتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ راضی ہو جاتا ہے۔
جواب: اس جنین (پیٹ کے چے) کو محض ڈاکٹروں کے اس خدشے کی بنیاد پر کہ بچے بغیر ہڈیوں کے پیدا ہوگا، ضائع کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ اس مسئلہ میں اصل یہ ہے کہ معصوم جان کو ناحق قتل کرنا حرام ہے۔ و باللہ التوفیق۔
(سعودی فتوی کمیٹی)
——————

سوال: جنین کے متعلق جب قوی احتمال ہو کہ وہ ایڈز کے مرض کا شکار ہے تو اس کے اسقاط کاکیا حکم ہے؟
جواب: اسقاط حمل جائز نہیں ہے، اور بلاشبہ اس کو ایڈز کے وائرس لگ جانے کا احتمال اس کے اسقاط کو جائز قرار نہیں دیتا۔ لہٰذا ”سعودی فتوی کمیٹی“ اس عورت اور اس کے خاوند کو اللہ سے حسن ظن رکھنے کی وصیت کرتی ہے کہ وہ اللہ سے یہ دعا کریں کہ وہ اس عورت اور اس کے حمل کو ہر قسم کی خرابی سے محفوظ رکھے۔ و باللہ التوفیق (سعودی فتوی کمیٹی)
——————

سوال: میں ایک مصری عورت ہوں اور عرصہ سات سال سے اپنے خاوند کے ساتھ جرمنی میں رہ رہی ہوں۔ ہمارے درمیان سب سے پہلے ناچاقی اس وقت پیدا ہوئی جب میں شادی کے بعد حاملہ ہوگئی، جب میرے خاوند کو میرے حاملہ ہونے کا علم ہوا تو قریب تھا کہ وہ اس صدمے سے پاگل ہو جاتا۔ لہٰذا وہ کسی ہسپتال کی تلاش میں نکلا اور اسے ایک ہسپتال مل گیا، اس وقت میرے حمل کو تیسرا مہینہ تھا۔ میں وہاں کی کسی چیز سے واقف نہ تھی، حتی کہ میں اس ملک کی زبان بھی نہیں جانتی تھی۔ میں نے اس کی گفتگو سنی اور اس کی حسب منشا اپنا حمل ساقط کروا دیا۔ اس اسقاط حمل کے جواز میں میرے خاوند کی دلیل یہ تھی کہ بلاشبہ بچے بہت سی تکلیفوں اور پریشانیوں کا باعث بنتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس کی ایک مٹیالے رنگ کی بیوی سے ایک بچہ ہے جو خنزیر کھاتا ہے، شراب پیتا ہے اور اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا ہے۔ میرا شوہر اس بچے کی ہر خواہش پوری کرتا ہے۔ حتی کہ میرا خاوند بذات خود بھی شراب پیتا ہے اور اس کی عادات و اطوار سب یورپی لوگوں جیسی ہیں۔ میں نے (اس کی خواہش پر حمل کو ساقط کرنے کی) اس قربانی کے ذریعہ بڑی کوشش کی ہے کہ وہ اپنا طرز زندگی بدل لے آخرکار میں ایک مسلمان خاتون ہوں اور اپنے دین سے محبت کرتی ہوں۔ کیا ان حالات میں میرا اس آدمی کے ساتھ زندگی گزارنا حرام ہے؟ میں اس سے طلاق لے کر اپنے وطن مصر میں واپس جانا چاہتی ہوں، کیا یہ حرام ہے؟ نیز اس کاکیا حکم ہے کہ وہ مجھ سے اولاد ہی نہیں چاہتا ہے؟
جواب:
أولا: جب بچے کو ضائع کرنے کا واقعہ اسی طرح ہے جیسے تو نے بیان کیا ہے تو بچے کو ضائع کرنے میں تیرا خاوند اولا د کو ناپسند کرنے کی وجہ سے اور تو اس کی اس پر موافقت کرنے کی وجہ سے تم دونوں گناہ گار ہو۔
ثانیا: جب تیرا خاوند شراب پیتا ہے اور خود بھی خنزیر کھاتا ہے اور اپنی دوسری بیوی کو بھی کھلاتا ہے اور تو اس شخص سے طلاق لینا چاہتی ہے تو تیرے اس طلاق لینے کے کام میں، جس کا تو نے ارادہ کیا ہے، تجھ پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ پس اگر تو تیرا خاوند برضا و رغبت تجھے طلاق دے دیتا ہے تو تیری مشکل حل ہو جائے گی۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو شرعی عدالت تمہارے درمیان جدائی کروا دے گی۔ و باللہ التوفیق (سعودی فتوی کمیٹی)
——————

سوال: جب عورت حاملہ ہو جائے اور اس کے حمل کو دو یا تین ماہ گزر جائیں، پھر وہ عورت بھوک کے ڈر سے اپنا حمل ساقط کروا دے تو کیا اس کے لیے یہ جائز ہو گا یا نہیں؟
جواب: اگر اسقاط حمل کا واقعہ بھوک یعنی فقر و فاقہ کے ڈر سے پیش آیا ہے تو یہ کبیرہ گناہوں سے ہے، کیونکہ اس میں اللہ کے ساتھ بدگمانی کی گئی ہے۔ (سعودی فتوی کمیٹی)
——————

سوال: میں ایک سابقہ خاوند سے بیاہ دی گئی، وہ بہت بد اخلاق تھا، وہ نشہ کرتا اور مجھ سے بہت برا سلوک کرتا۔ میں نے اس سے ایک بیٹی پیدا کی، پھر مجھے دوبارہ حمل ہوا تو اس سے میرے اور اس کے درمیان سخت بگاڑ پیدا ہوا۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اس نے میرے پیٹ پر چوٹ لگائی جس سے مجھے خون جاری ہو گیا، اس وقت میں اپنے حمل کے چھٹے مہینے میں تھی۔ اور یہ دیکھتے ہوئے کہ میں (حمل کی وجہ سے) اس کی بدخلقی اور بدسلوکی کو جھیل رہی ہوں، میں نے اسقاط حمل کے لیے کچھ عربی اور انگریزی میڈیسن استعمال کر لیں جن کے استعمال کے تقریباًً پندرہ دن بعد چھٹے مہینے میں جنین ساقط ہوگیا۔ جب وہ ساقط ہوا تو زندہ تھا، پھر وہ فوت ہو گیا، اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ جزاکم اللہ خیرا
جواب:
أولا: بلاشبہ تیرا یہ عمل منکر اور اللہ کی نافرمانی ہے، کیونکہ اسقاط جنین جائز نہیں ہے، اگرچہ تیرا خاوند مجھ سے بدسلوکی ہی کیوں نہ کرتا ہو۔ لہٰذا تمہیں اپنے اس عمل سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جناب میں توبہ کرنا، اپنے اس کام پر نادم ہونا اور پھر دوبارہ اس طرح کا کام نہ کرنے کا عزم کرنا لازمی اور ضروری ہے۔
ثانیا: تجھے اس برے کام پر اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے تو بہ کرنا لازم ہے، کیونکہ اسقاط حمل تک پہنچنے کا ذریعہ بننا بھی جائز نہیں ہے۔ اور اس قسم کی حالت میں اسقاط حمل کبیرہ گناہوں میں شمار ہو گا، لہٰذا تھ پر دیت اور کفارہ لازم ہے اور وہ ہے گردن آزاد کرنا، اور اگر یہ میسر نہیں تو پے درپے دو مہینوں کے روزے رکھنا۔ و باللہ التوق (سعودی فتوی کمیٹی)
——————

عورت کب مطلقہ سمجھی جائے گی؟
سوال: عورت کب مطلقہ سمجھی جائے گی؟ اور طلاق کے مباح اور جائز ہونے میں کیا حکمت پنہاں ہے؟
جواب: عورت اس وقت مطلقہ سمجھی جائے گی جب اس کا خاوند اس کو اس حال میں طلاق دے کہ وہ عاقل اور با اختیار ہو اور وقوع طلاق کے موانع مثلاًً جنون، نشہ وغیرہ میں سے کوئی مانع نہ پایا جائے، اور عورت ایسے طہر میں ہو جس میں مرد نے اس سے جماع نہ کیا ہو، یا پھر وہ حاملہ یا آئسہ (جو حیض سے مایوس ہو چکی ہے) ہو۔ لیکن اگر وہ مطلقہ حائضہ یا نفاس والی ہو یا ایسے طہر میں ہو جس میں مرد نے اس سے مجامعت کر لی ہو اور وہ حاملہ یا آئسہ نہ ہو تو اہل علم کے دو اقوال میں سے زیادہ صحیح قول کی رو سے اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی، الا یہ کہ شرعی قاضی اس کے وقوع کا فیصلہ دے ہے۔ چنانچہ اگر قاضی وقوع طلاق کا فیصلہ دے تو طلاق واقع ہو جائے گی، کیونکہ اجتہا دی مسائل میں قاضی کا فیصلہ اختلاف رفع کر دیتا ہے۔ اسی طرح اگر خاوند مجنون یا مجبور یا نشہ میں مدہو ش ہو تو اگرچہ وہ اہل علم کے دو اقوال میں سے زیادہ صحیح قول کے مطابق گناہ گار ہے، یا اس کو اس قدر شدید غصہ چڑھا ہو کہ وہ طلاق کے نقصانات کو سمجھنے اور عقل و شعور سے کام لینے میں حارج ہو، اور واضح اسباب اس کے شدید غصے کی حالت میں ہونے کے دعوی کی تصدیق کرتے ہوں، نیز مطلقہ بھی اس معاملہ میں اس کی تصدیق کرتی ہو یا اس پر معتبر گواہی موجود ہو تو ان مذکورہ تمام صورتوں میں طلاق واقع نہ ہو گی، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«رفع القلم عن ثلاثة: الصغير حتى يبلغ، والنائم حتى يستيقظ، والمجنون حتى يفيق» [صحيح سنن أبى داود، رقم الحديث 4398]
”تین قسم کے آدمی مرفوع القلم ہیں (یعنی غیر مکلف ہیں) بچہ، حتی کہ وہ بالغ ہو جائے، سویا ہوا، حتی کہ وہ نیند سے بیدار ہو جائے اور مجنون یہاں تک کہ اس کو جنون سے افاقہ ہو جائے۔“
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ» [16-النحل: 106]
”جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو“۔
پس جب کفر پر مجبور کیا جانے والا شخص بشرطیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، کافر نہیں قرار دیا جاتا تو طلاق پر مجبور کیا گیا شخص بالاولی طلاق دینے والا نہ سمجھا جائے گا، بشرطیکہ طلاق کا سبب صرف جبرو اکراہ ہو، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«لا طلاق ولا عتاق فى علاق» [حسن۔ سنن أبى داود، رقم الحديث 2193]
”حالتاغلاق (اکرام ہ غصہ کی حالت) کی طلاق اور آزا دی معتبر نہیں۔“
اس روایت کو احمد، ابوداود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے، جن میں امام احمد رحمہ اللہ بھی شامل ہیں، ”اغلاق“ کی تفسیر اکراہ اور شدید غصہ سے کی ہے۔
خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ اور اہل علم کی ایک جماعت نے نشہ میں مدہو ش اس آدمی کی طلاق کے عدم وقوع کا فتوی جاری کیا ہے جس کی عقل کو نشہ نے متغیر (بدل)کر دیا ہو، اگر چہ وہ گنہگار ہے۔
رہی طلاق کے مباح ہونے کی حکمت، تو یہ بالکل واضح امر ہے، کیونکہ بعض اوقات عورت مرد کے موافق نہیں ہوتی اور کبھی مرد عورت کو متعدد اسباب کی بنا پر نا پسند کرتا ہے، جیسے عورت کا ضعف عقلی، ضعف دین اور بد تمیزی وغیرہ، اس لیے اللہ نے اس کو طلاق دے کر اپنی زوجیت سے الگ کر دینے میں مرد کے لیے وسعت پیدا کر دیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
«وَإِنْ يَتَفَرَّقَا يُغْنِ اللَّهُ كُلًّا مِنْ سَعَتِهِ» [4-النساء: 130]
”اور اگر وہ دونوں ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تواللہ ہر ایک کو اپنی وسعت سے غنی کر دے گا۔“ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)
——————

یہ تحریر اب تک 6 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔