امام کی اقتدا کا صحیح طریقہ

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

امام کی اقتدا کا صحیح طریقہ

سوال : مقتدی کے لیے امام کی اقتدا کا صحیح طریقہ سنت رسول کی روشنی میں بیان فرما دیں ؟
جواب : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لَا تُبَادِرُوا الإِمَامَ، إِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا، وَإِذَا قَالَ: وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7، فَقُولُوا: آمِينَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ [مسلم، كتاب الصلاة : باب النهي عن مبادرة الإمام بالتكبير وغيره 415]
”امام سے جلدی نہ کرو، جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو، جب وہ وَلَا الضَّآلِّيْنَ کہے تو آمین کہو۔ جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو، جب سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہے تو تم اَللّٰهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ کہو۔“
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں :
فَإِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوا وَلَا تُكَبِّرُوا حَتَّى يُكَبِّرَ، وَإِذَا رَكَعَ فَارْكَعُوا وَلَا تَرْكَعُوا حَتَّى يَرْكَعَ، وَإِذَا قَالَ: سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فَقُولُوا: اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ، قَالَ مُسْلِمٌ: وَلَكَ الْحَمْدُ، وَإِذَا سَجَدَ فَاسْجُدُوا وَلَا تَسْجُدُوا حَتَّى يَسْجُدَ
[أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب الإمام يصلي من قعود 603 ]
” جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اور تکبیر نہ کہو یہاں تک کہ وہ تکبیر کہے اور جب رکوع کرے تو رکوع کرو اور رکوع نہ کرو حتٰی کہ وہ رکوع کرے اور جب وہ سمع الله لمن حمده کہے تو تم اللهم ربنا لكم الحمد کہو اور جب سجدہ کرے تو تم سجدہ کرو اور جب وہ سجدہ نہ کرے تو تم سجدہ نہ کرو۔“
مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے ”رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز“ میں لکھا ہے :
”حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب امام تکبیر کہہ چکے تو مقتدی اس کے بعد تکبیر کہے، جب امام سجدے میں چلا جائے تو تم سجدے میں جاؤ۔ جب امام سر اٹھا چکے تو تم سر اٹھاؤ۔ جب وہ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہہ چکے تو تم رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ کہو۔ اس سے ظاہر ہے کہ مقتدی کو ہر فعل اس وقت کرنا چاہیے جب امام وہ کام کر چکے۔ نہ امام سے پہلے جانا چاہیے نہ اس کے ساتھ بلکہ امام کے بعد وہ رکن ادا کرے، متابعت کرے یعنی پیچھے پیچھے چلے۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ارکان ادا کرنے میں امام سے سبقت کر رہا تھا، فرمایا : ”تم نے نہ تنہا نماز پڑھی نہ امام کی اقتدا میں۔“ [بحوالة رسالة الصلاة لأحمد]
نیز عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے :
”انہوں نے ایک شخص کو امام سے سبقت کرتے دیکھا تو فرمایا : ”تم نے نہ اکیلے نماز ادا کی نہ امام کی اقتدا میں۔“ اسے مارا اور کہا: ”نماز لوٹاؤ۔“ [ رسالة الصلاة ص/352 مجموعة الحديث ]
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایسی نماز کو ناجائز سمجھتے ہیں۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان : إِذَا كَبَّرَ فَكَبِّرُوْا کا مطلب یہ ہے کہ امام کی تکبیر ختم ہو جائے پھر مقتدی تکبیر کہے۔ لوگ جہالت کی وجہ سے غلطی کرتے ہیں اور نماز کے معاملے کو ہلکا سمجھتے ہیں، امام ہی کے ساتھ تکبیر کہنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ غلطی ہے۔ “ [رسالة الصلاة لأحمد ص/252 ]
امام احمد رحمہ اللہ نے اس مقام پر بڑے بسط و تفصیل سے لکھا ہے کہ امام سے پہلے یا امام کے ساتھ تمام ارکان ادا کرنا غلط ہے۔ امام جب رکوع و سجدہ میں چلا جائے اور اس کی تکبیر کی آواز ختم ہو جائے تو مقتدی کو اس وقت رکوع و سجود وغیرہ امور شروع کرنے چاہئیں۔ ہمارے ملک میں یہ غلطی عام ہے، تمام طبقات یہ غلطی کرتے ہیں۔ اگر سبقت نہ کریں تو امام کے ساتھ ضرور ادا کرتے ہیں، حالانکہ یہ صاف حدیث کے خلاف ہے، خطرہ ہے کہ نماز ضائع ہو جائے گی۔ امام کی اطاعت کا شرعاً یہی مطلب ہے کہ تمام ارکان وغیرہ امام پہلے ادا کرے۔ مقتدی اس وقت شروع کرے جب امام رکن میں مشغول ہو جائے۔ حدیث کا منشاء یہ معلوم ہوتا ہے کہ نہ امام سے سبقت درست ہے، نہ امام کی معیت، بلکہ امام جب کسی رکن میں مشغول ہو جائے اس کے بعد مقتدی امام کے ساتھ شریک ہو۔
تعجب ہے کہ تمام مکاتب فکر اس غلطی میں مبتلا ہیں۔ بریلوی حضرات تو بدعات میں اس قدر محو ہیں کی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو سنت کی محبت سے خالی کر دیا ہے۔ وہ ہر وقت نئی سے نئی بدعتوں کی تلاش میں پریشان ہیں۔ اہل حدیث حضرات اور دوسرے موحد گروہ بھی اس غلطی میں از اول تا آخر مبتلا ہیں، الا کہ جس پر اللہ نے رحم کیا ہے۔
امام احمد رحمہ اللہ کا ارشاد کس قدر درست ہے :
لَوْ صَلَّيْتَ فِيْ مِئَةِ مَسْجِدٍ مَّا رَأَيْتَ اَهْلَ مَسْجِدٍ وَّاحِدٍ يُّقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ عَلٰي مَا جَاءَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَنْ اَصْحَابِهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ [رسالة الصلاة لأحمد ص : 154]
(یہاں مولانا اسماعیل سلفی کا کلام ختم ہوا)
”آپ اگر سو مسجدوں میں نماز ادا کریں تو کسی میں بھی آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے طریق پر نماز نہیں ملے گی۔“
امام احمد رحمہ اللہ اور مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ نے ان احادیث کا جو مطلب بیان کیا ہے، تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کا یہی مطلب سمجھا ہے اور اس کے مطابق عمل کیا ہے۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كُنَّا نُصَلِّي خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا قَالَ:” سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ، لَمْ يَحْنِ أَحَدٌ مِنَّا ظَهْرَهُ حَتَّى يَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَبْهَتَهُ عَلَى الْأَرْضِ
”ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کہتے تو ہم میں سے کوئی بھی اپنی پشت نہیں جھکاتا تھا حتیٰ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیشانی زمین پر رکھ لیتے تھے۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمین پر پیشانی رکھنے سے پہلے اپنی پیٹھ نہیں جھکاتا تھا۔ کیا اب بھی کوئی ایسی مسجد ملتی ہے جس میں تمام لوگ اتنے حوصلے والے ہوں کہ ایک شخص بھی امام کے زمین پر پیشانی رکھنے تک اپنی پیٹھ کو نہ جھکائے۔ کم از کم مجھے تو نہیں ملی۔ ہاں اللہ کی رحمت سے امید ضرور ہے کہ اگر ہم پوری کوشش کریں اور اپنے بھائیوں کو بار بار سمجھائیں تو اس عمل پر پابندی شروع ہو جائے گی۔
جب حجاج بن یوسف کو مسلمانوں کی حکومت میں کوئی عہدہ حاصل نہیں ہوا تھا تو ایک دفعہ اس نے سعید بن مسیّب رحمہ اللہ کے پہلو میں نماز ادا کی اور امام سے پہلے سر اٹھانا اور اس سے پہلے سجدہ میں گرنا شروع کر دیا۔ جب اس نے سلام پھیرا تو سعید بن مسیّب رحمہ اللہ نے اس کی چادر کا کنارہ پکڑ لیا اور نماز کے بعد اذکار پڑھتے رہے۔ حجاج چھڑانے کی کوشش کرتا رہا تا آنکہ سعید رحمہ اللہ نے اپنے اذکار مکمل کر لیے پھر حجاج کی طرف متوجہ ہو کر اسے اس کی جلد بازی پر خوب تنبیہ کی اور ساتھ ہی نماز کے آداب سکھائے۔ حجاج نے ساری بات خاموشی سے سنی اور جواب میں کچھ نہ کہا۔ آخر ایک وقت آیا کہ وہ حجاز کا حاکم بن گیا۔ جب مدینہ میں آیا اور مسجد نبوی میں داخل ہوا تو سعید بن مسیّب رحمہ اللہ کی مجلس کا رخ کیا اور ان کے سامنے آ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا : ”ایک دن وہ باتیں تم ہی نے کی تھیں؟“ سعید رحمہ اللہ نے اس کے سینے پر ہاتھ مار کر کہا: ”ہاں ! میں ہی نے کی تھیں“۔ حجاج نے کہا: ”آپ جیسے معلم اور ادب سکھانے والے کو اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے۔ آپ کے بعد میں نے جو نماز بھی پڑھی آپ کی بات مجھے ضرور یاد آتی رہی۔ “ پھر وہ اٹھ کر چلا گیا۔ [البداية والنهاية 199/9 ]
اسی تادیب کا اثر تھا کہ حجاج کے ہاتھ سے بھلے بھلے لوگ محفوظ نہیں رہے مگر اس نے سعید رحمہ اللہ کے ادب سکھانے کا ہمیشہ خیال رکھا اور انہیں کبھی نہ پریشان کیا اور نہ کوئی تکلیف ہی پہنچائی۔ ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے ساتھ نماز پڑھنے والا اگر اس قسم کی جلد بازی کرے تو اسے سمجھائیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرما دے اور اس کی درست نمازوں اور نیک دعاؤں میں ہمارا حصہ بھی شامل ہو جائے، اگر وہ قبول نہ بھی کرے تو ہم ادائے فرض سے تو سبکدوش ہو جائیں گے۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔