دوران نماز جیب میں تصویر والے نوٹ ہونے سے نماز ہوجاتی ہے؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

دوران نماز جیب میں روپے
سوال : دوران نماز اکثر ہماری جیبوں میں تصویر والے نوٹ ہوتے ہیں، اس سے نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟
جواب : اس بات میں قطعاً شبہ نہیں کہ جاندار کی تصویر شرعاً حرام ہے اور اس پر نصوص قطعیہ، صحیحہ اور حسن درجہ کی احادیث دلالت کرتی ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا :
ان اشد الناس عذابا عند الله يوم القيامة المصورون [بخاري، كتاب اللباس : باب عذاب المصورين يوم القيامة 5950، مسلم، كتاب اللباس 2109، مسند أحمد 375/1، مسند حميدي 117، مسند ابي يعلي 5107، نسائي 5366 ]
”بیشک اللہ کے ہاں انسانوں میں سے سخت ترین عذاب کے مستحق قیامت کے دن تصویر بنانے والے ہوں گے۔ “
سعید بن ابی الحسن فرماتے ہیں : میں عبد اللہ بن عباس پاس تھا، ان کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا: ” اے ابن عباس ! میں ایسا انسان ہوں کہ میری معیشت میرے ہاتھ کی کاریگری ہے اور میں تصاویر بناتا ہوں۔ “ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ”میں تمہیں وہی حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من صور صورة فان الله معذبه حتٰي ينفخ فيها الروح وليس بنافخ فيها ابدا
”جس آدمی نے کوئی تصویر بنائی بلاشبہ اللہ تعالیٰ اس کو عذاب دے گا، یہاں تک کہ وہ اس میں روح پھونک دے اور وہ اس تصویر میں کبھی روح نہیں پھونک سکے گا۔ “
یہ بات سن کر اس کا سانس چڑھ گیا اور چہرہ زرد پڑ گیا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : ”کم بخت ! اگر تو نے تصویر بنانی ہی ہے تو درخت وغیرہ کی بنا جن میں روح نہیں ہے۔ “ [بخاري، كتاب البيوع : باب بيع التصاوير التى ليس فيها الروح وما يكره من ذالك 2225، مسلم، كتاب اللباس 2110، نسائي 5362، أبوداؤد 5024، ترمذي1751، شرح السنة 3219، صحيح ابن حبان 5686، احمد 359/1، مسند حميدي 531، ابويعلي 2577، بيهقي 270/7 ]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ جاندار کی تصویر بنانا شرعاً حرام ہے اور مصور کو قیامت کے دن شدید ترین عذاب دیا جائے گا اور ایسی جگہ جہاں تصاویر آویزاں ہوں، عبادت کرنا درست نہیں۔
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما قدم مكة ابى ان يدخل البيت وفيه الآلهة، فامر بها، فاخرجت، فاخرج صورة إبراهيم وإسماعيل فى ايديهما من الازلام، فقال النبى صلى الله عليه وسلم:” قاتلهم الله، لقد علموا ما استقسما بها قط”، ثم دخل البيت فكبر فى نواحي البيت، وخرج ولم يصل فيه [ بخاري، كتاب المغازي : بَابُ أَيْنَ رَكَزَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ يَوْمَ الْفَتْحِ 4288 ]
”بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو آپ نے بیت اللہ میں داخل ہونے سے انکار کر دیا۔ اس میں (مشرکین کے ) معبود تھے، آپ نے انہیں نکالنے کا حکم دیا تو انہیں نکال دیا گیا۔ اس میں سے ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی تصاویر بھی نکالی گئیں، ان دونوں کے ہاتھوں میں تیر تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اللہ ان مشرکین کو تباہ کرے یقیناًً انہیں علم ہے کہ ابراہیم واسماعیل علیہما السلام نے تیروں کے ذریعے کبھی فال نہیں نکالی۔ “ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں داخل ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مختلف کونوں میں ”اللہ اکبر“ کہا: اور باہر نکل آئے اور آپ نے اس میں نماز نہیں پڑھی۔ “
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي الحديث كراهية الصلاة فى المكان الذى فيه صور لكونها مظنة الشرك وكان غالب كفر الامم من جهة الصور [فتح الباري 17/8 ]
” اس حدیث سے تصویروں والی جگہ نماز ادا کرنے کی کراہت معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ اس جگہ شرک کا گمان ہے اور امتوں میں کفر اکثر تصویروں کی جانب سے داخل ہوا ہے “
حافظ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وتلاعب بهم فى تصوير الصور فى الكنائس وعبادتها فلا تجد كنيسة من كنائسهم تخلو عن صورة مريم والمسيح وجرجس وبطرس وغيرهم من القديسين عندهم والشهداء وأكثرهم يسجدون للصور ويدعونها من دون الله تعالٰي [ إغاثة اللهفان فى مصائد الشيطان 388/2 ]
”شیطان نے عیسائیوں کے ساتھ جو کھیل کھیلے ہیں ان میں سے ایک گرجا گھروں میں تصویریں رکھنا اور ان کی عبادت کرنا بھی ہے۔ آپ عیسائیوں کے گرجا گھروں میں سے کوئی گرجا گھر بھی مریم و عیسیٰ علیہما السلام، جرجس اور بطرس وغیرہ جو ان کے ہاں قدسی شمار ہوتے ہیں، ان کی تصاویر سے خالی نہیں پائیں گے اور ان کی اکثریت تصویروں کو سجدہ کرتی اور انہیں اللہ کے سوا پکارتی ہے۔ “
مذکورہ بالا دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ تصویر بنانا حرام ہے اور انہیں عبادت گاہوں میں آویزاں کرنا عیسائیت کی تلبیس ہے اور جہاں تصاویر آویزاں ہوں وہاں عبادت کرنا درست نہیں۔ البتہ رہی یہ بات کہ تصویر ہماری جیب میں بھی ہوتی ہے تو کیا اس سے نماز میں خلل واقع ہوتا ہے یا نہیں ؟ اس کے بارے میں چند ایک باتیں قابلِ توجہ ہیں :
➊ نوٹوں اور سکوں پر تصاویر حکومت شائع کرتی ہے اور وہ اس کی ذمہ دار ہے اور اللہ کے ہاں جوابدہ ہو گی۔
➋ ان نوٹوں اور سکوں کو اس ملک میں رہتے ہوئے استعمال کرنا ہماری مجبوری ہے کیونکہ ہر قسم کی خرید و فروخت کا دارومدار انہی نوٹوں اور سکوں پر ہے۔
➌ اگر عبادت کے وقت مساجد وغیرہ میں انہیں باہر نکال کر رکھیں تو دولت کے ضیاع کا قوی اندیشہ ہے۔
شریعت اسلامی میں اضطراری کیفیت میں شرعی حکم تبدیل ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ [ البقرة : 173 ]
”جو شخص مجبور ہو، بغاوت کرنے والا اور حد سے بڑھنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ “
لہٰذا جیب میں نوٹ اور سکے ایک تو پوشیدہ ہوتے ہیں، عبادت کے وقت سامنے نہیں ہوتے، جس کی وجہ سے عبادت میں خلل نہیں آتا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ ہماری مجبوری ہے اور بامر مجبوری گناہ نہیں۔ لہٰذا اقرب الی الصواب بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ جیب میں اگر روپے ہوں تو نماز ادا کرنے میں خلل نہیں ہوتا کیونکہ تصاویر اگر سامنے یا عبادت والے کمرے میں آویزاں ہوں تو وہاں نماز ادا نہیں کرنی چاہیے، تاوقتیکہ اس مکان اور کمرے کو تصاویر سے پاک کر دیا جائے۔ والله اعلم

اس تحریر کو اب تک 3 بار پڑھا جا چکا ہے۔