نماز اشراق کا بیان

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

احکام و مسائل
————–

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

نماز اشراق کا بیان
سوال : نماز اشراق کسے کہتے ہیں اور اس کا صحیح وقت کون سا ہے ؟
جواب : اشراق کے معنی ”طلوع آفتاب“ یعنی جب آفتاب طلوع ہو کر ذرا بلند ہو تو اس وقت نوافل ادا کرنا نمازِ اشراق کہلاتا ہے۔ قاسم شیبانی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
ان زيد بن ارقم راي قوما يصلون من الضحي فقال اما قد علموا ان الصلاة فى غير هذه الساعة افضل ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : صلاة الاوابين حين ترمض الفصال [مسلم، كتاب صلاة المسافرين وقصرها : باب صلاة الاوابين حين ترمض الفصال 748 بيهقي 49/3 ]
” سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ایک قوم کو صلاۃ الضحٰی پڑھتے دیکھا تو فرمایا : ”کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ یہ نماز اس وقت کے علاوہ وقت میں افضل ہے ؟ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”صلاۃ الاوّابین اس وقت ہے جب شدتِ گرمی کی وجہ سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلتے ہیں۔“
ایک دوسری حدیث میں ہے :
خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم علٰي اهل قباء وهم يصلون الضحٰي فقال صلاة الاوابين اذا رمضت الفصال من الضحٰي [أحمد 366/4، بيهقي 490/3، طبراني كبير234/5، صحيح ابن خزيمة 1227، شرح السنة 1145/4، ابن أبى شيبة 406/2، إرواء الغليل 220/2 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل قبا پر نکلے، وہ صلاۃ الضحیٰ پڑھ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”صلاۃ الاوّابین اس وقت ہے جب دھوپ کی شدت کی وجہ سے اونٹ کے بچوں کے پاؤں جلتے ہیں۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ ”صلاۃ الضحٰی“ یعنی نماز اشراق اوّل وقت کی بجائے اچھی طرح دھوپ میں پڑھنا افضل ہے۔
مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری حفظہ اللہ فرماتے ہیں :
”یہ وقت نصف النہار سے کچھ پہلے ہے۔“ [منة المنعم 471/1 ]
اور اسے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ”صلاۃ الاوّابین“ قرار دیا ہے۔ اوّابین، اوّاب کی جمع ہے اور اوّاب وہ شخص ہے جو اخلاص اور عملِ صالح کے ساتھ اپنے گناہوں کی معافی کے لیے اللہ کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا ہوتا ہے۔ نصف النہار سے کچھ دیر پہلے عام طور پر لوگوں کے لیے استراحت وآرام کا وقت ہوتا ہے اور اواب شخص راحت و سکون کو پسِ پشت ڈال کر اللہ کی عبادت میں لگ جاتا ہے، اس لیے یہ وقت صلاۃ الضحیٰ کا افضل وقت قرار دیا گیا ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يحافظ على الصلاة الضحٰي الا اواب قال وهى صلاة الاوابين [ صحيح ابن خزيمة 1224، مستدرك حاكم 314/1، سلسلة الأحاديث الصحيحة 1994، 703، مجمع الزوائد 239/2، طبراني أوسط 3877 ]
”صلاۃ الضحیٰ کی اداب ہی حافظت کرتا ہے۔ “ اور فرمایا”یہی صلاۃ الاوابین ہے۔ “
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ صلاۃ الضحیٰ کا دوسرا نام صلاۃ الاوّابین ہے۔
عام اہلِ علم نے نماز اشراق کو صلاۃ الضحیٰ ہی قرار دیا ہے البتہ بعض نے فرق کیا ہے۔
مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے : ”صلاۃ الاشراق ضحوہ صغریٰ میں اور صلاۃ الضحیٰ ضحوہ کبریٰ میں ادا کی جاتی ہے۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن احادیث میں نماز اشراق کی ترغیب دی ہے ان میں ہے کہ فجر کی نماز کے بعد بیٹھ کر انسان انتظار کرتا رہے حتیٰ کہ سورج نکل آئے پھر دو رکعت پڑھے۔
ملا علی قاری نے کہا ہے کہ تحقیق یہ ہے کہ صلاۃ الضحیٰ کا اوّل وقت وہ ہے جب کراہت کا وقت چلا جائے اور اس کا آخری وقت زوال سے پہلے کا ہے، لہٰذا جو اوّل وقت میں نماز ادا ہوئی اسے صلاۃ الاشراق اور جو اس کے آخری وقت تک ادا ہوئی اسے صلاۃ الضحیٰ کا نام دیا گیا ہے۔
ایک روایت میں ہے :
”جب سورج اپنے مطلع سے نکل کر ایک دو نیزوں کی مقدار تک بلند ہو جاتا ہے جیسے سورج ڈوبنے سے پہلے نماز عصر کی مقدار تک ہوتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھتے پھر مہلت رکھتے یہاں تک کہ جب دھوپ تیز ہو جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتات نماز پڑھتے۔“ [نسائي فى السنن الكبريٰ 178/1 ]
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ صلاۃ الضحیٰ اور صلاۃ الاشراق میں فرق اس لحاظ سے ہے کہ سورج نکلنے کے کچھ دیر بعد نماز ادا کریں تو اسے صلاۃ الاشراق کہتے ہیں اور اگر سورج اچھی طرح بلند ہو، دھوپ کی شدت ہو جائے اور زوال سے قبل نماز پڑھیں تو یہ صلاۃ الضحیٰ ہے۔ والله اعلم
نماز مغرب کے بعد چھ رکعات کی ادائیگی کو صلاۃ الاوّابین قرار دینا ثابت نہیں۔ جیسا کہ بعض احناف کا یہ موقف ہے بلکہ یہ بات سابقہ صحیح احادیث کے خلاف ہے کیونکہ ان میں ”صلاۃ الضحیٰ“ ہی کو ”صلاہ الاوّابین“ کہا گیا ہے۔
——————

نماز استخارہ کا طریقہ
سوال : استخارہ کا صحیح طریقہ کیا ہے اور کیا کسی دوسرے شخص سے استخارہ کروایا جا سکتا ہے؟
جواب : جب کسی جائز کام کے کرنے کا ارادہ ہو تو ایسے موقع پر استخارہ کرنا سنت ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت نماز ادا کرے، اس کے بعد یہ دعا مانگے :
اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي فى ديني ومعاشي وعاقبة أمري فاقدروه لي ويسرلي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي فى ديني ومعاشي وعاقبة أمري فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به [ بخاري، كتاب التهجد : باب ما جاء فى التطوع مثني مثني 1162 ]
یہ استخارہ دن یا رات میں کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے۔ عصرِ حاضر میں بعض لوگوں نے استخارے کو ایک کاروبار بنا لیا ہے،
اور یہ طریقہ ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ لوگوں نے جگہ جگہ استخارہ کے اڈے بنا لیے ہیں حالانکہ مسنون تو یہ ہے کہ آدمی خود استخارہ کرے، کسی دوسرے سے استخارہ کروانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں ہے۔ استخارہ کروانے والوں نے پھر یہ اعتقاد بنا لیا ہے کہ فلاں بزرگ سے استخارہ کراؤں گا تو مجھے کوئی پکی بات مل جائے گی، جس پر میں عمل کر لوں گا اور وہ خواب دیکھ کر صحیح صورتحال سے آگاہ کر دیں گے۔ حالانکہ استخارہ ضرورت مند آدمی اللہ وحدہ لا شریک لہ سے کرے تو اللہ تعالیٰ اس کا سینہ کھول دے گا اور کسی جانب اس کی توجہ مبذول کر دے گا۔ اچھے کام کے لیے استخارہ کے علاوہ اصحاب الخیر سے مشورہ بھی جاری رکھنا چاہیے۔
——————

رکعات نماز تراویح کی تعداد
سوال : نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے کتنی رکعات تراویح ثابت ہیں ؟ وضاحت فرما دیں۔
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من قام رمضان ايمانا والحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه [ بخاري، كتاب الايمان : باب تطوع قيام رمضان فى الايمان 37، مسلم 760 ]
”جس نے رمضان المبارک کا قیام ایمان اور ثواب سمجھ کر کیا، اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے گئے۔“
نماز تراویح کو قیام رمضان، صلاۃ فی رمضان، قیام اللیل اور صلاۃ اللیل وغیرہ کہا جاتا ہے اور اس کا وقت نماز عشاء سے لے کر نماز فجر تک ہے، رات کے کسی بھی حصے میں پڑھی جا سکتی ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
كان رسوال الله صلى الله عليه وسلم يصلي فيما بين ان يفرع من صلاة العشاء الي الفجر احدي عشرة ركعة ويسلم بين كل ركعتين ويوتر بواحدة [مسلم، كتاب الصلاة المسافرين وقصرها : باب صلاة الليل وعدد ركعات النبى فى الليل 736 ]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء اور نماز فجر کے درمیان گیارہ رکعت ادا کرتے تھے اور ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے اور ایک رکعت وتر ادا کرتے۔“
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
ما كان رسوال الله صلى الله عليه وسلم يزيد فى رمضان ولا فى غيره على احدي عشرة ركعة [مسلم، كتاب الصلاة المسافرين وقصرها : باب صلاة الليل وعدد ركعات النبى فى الليل 738 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔“
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا۔ [مؤطا 114/1، بيهقي 496/2 ]
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ گیارہ رکعت تراویح ادا کرتے تھے۔ [سنن سعيد بن منصور بحوالة التعليق الحسن 392/1، الحاوي للفتاوي 349/1 ]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
آخذ لنفسي فى قيام رمضان هو الذى جمع عمر بن الخطاب عليه الناس احدٰي عشرة ركعة وهى صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا ادري من احدث هٰذا الركوع الكثير [الصلاة والتهجد ص/287، لعبدالحق الأشبلي ]
ببب
”تراویح کے متعلق جو بات میں اپنے لیے اختیار کرتا ہوں، وہ گیارہ رکعت ہے جس پر سیدنا
——————
ے یہ (گیارہ رکعات سے ) زیادہ نماز ایجاد کی ہے۔“
مذکورہ بالا صحیح احادیث وآثار اور امام مالک رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل مبارک گیارہ رکعت تراویح ہی کا ہے اور اسی کو امام مالک رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔
——————

تراویح کے امام کے علاوہ دوسرے امام کا وتر پڑھنا
سوال : نماز تراویح میں یہ عمل دیکھنے میں آیا ہے کہ تراویح ایک امام پڑھاتا ہے جبکہ وتر کی جماعت دوسرا امام کراتا ہے، کیا یہ عمل قرآن و سنت کے مطابق ہے ؟
جواب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے امام کے لیے جو شرائط ملتی ہیں ان میں یہ بات کہیں بھی موجود نہیں کہ تراویح اور وتر کے لیے ایک امام ہونا چاہیے، کوئی بھی صحیح العقیدہ امام ہو اس کی اقتداء میں نماز ادا کر لیں۔ تراویح اور وتر کی ایک امام بھی جماعت کروا سکتا ہے اور الگ الگ امام بھی، اس میں کوئی قباحت نہیں۔
——————

صدقہ فطرانہ ادا کرنے کا صحیح وقت
سوال : فطرانہ یعنی صدقہ عید الفطر نماز عید سے کتنے روز پہلے دیا جا سکتا ہے اور کیا پہلے ادا کرنا ضروری ہے ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر نماز عید سے پہلے نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے :
فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد، والحر، والذكر، والانثى، والصغير، والكبير من المسلمين، وامر بها ان تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة [بخاري، كتاب الزكوة : باب صدقة الفطر 1503، مسلم 984 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد، عورت، چھوٹے اور بڑے پر فرض کیا ہے اور لوگوں کو نماز عید کی طرف نکلنے سے پہلے اس کے ادا کرنے کا حکم فرمایا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر نماز عید سے پہلے نکالنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر نکال دیتے تھے۔
جیسا کہ صحیح روایت میں مذکور ہے :
وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم او يومين
”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید الفطر سے ایک یا دو دن پہلے صدقہ فطر دے دیتے تھے۔“ [بخاري، كتاب الزكوة : باب صدقة الفطر على الحر والمملوك 1511 ]
نافع رحمہ اللہ سے روایت ہے :
ان ابن عمر رضي الله عنهما كان يبعث زكوٰة الفطر الي الذى يجمع عنده قبل الفطر بيومين او ثلاثة [فتح الباري 376/3 ]
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید الفطر سے دو یا تین دن پہلے صدقہ فطر اس آدی کی طرف بھیج دیتے تھے جو صدقہ جمع کرتا تھا۔ “
اسی طرح سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صدقہ فطر جمع کرنے کی ذمہ داری لگائی اور شیطان تین راتیں مسلسل ان کے جمع کردہ ڈھیر سے چوری کے لئے آتا رہا، بالآخر اس نے تیسری مرتبہ آیت الکرسی بتا کر جان چھڑائی۔ [بخاري، كتاب الوكالة : باب اذ و كل رجلا فترك الوكيل شيئا2311 ]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
ويدل علٰي ذٰلك ايضا ما اخرجه البخاري فى الوكالة وغيرها عن أبى هريرة قال وكلني رسول الله صلى الله عليه وسلم بحفظ زكاة رمضان . . . الحديث وفيه انه امسك الشيطان ثلاث ليال وهو يأخذ من التمر فدل علٰي انهم كانوا يعجلونها [فتح الباري 376/3۔ 377 ]
”نماز عید سے دو تین دن پہلے صدقہ فطر نکالنے پر وہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ”کتاب الوکالۃ“ وغیرہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کی حفاظت پر مامور فرمایا۔ اس حدیث میں ہے کہ انہوں نے تین راتیں مسلسل شیطان کو کھجوریں چوری کرتے ہوئے پکڑا۔ اس حدیث میں اس بات پر دلالت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صدقہ فطر نکالنے میں جلدی کرتے تھے۔“ لہٰذا نماز عید سے دو تین دن پہلے صدقہ فطر ادا کرنا زیادہ مناسب اور صحیح ہے۔ والله اعلم بالصواب
——————

نماز میں قضائے حاجت کا مسئلہ
سوال : اگر کسی آدمی کو حالت نماز میں پیشاب تنگ کر رہا ہو تو کیا ایسی صورت میں نماز ادا کرنا درست ہے ؟
جواب : حالتِ نماز میں اگر پیشاب کی حاجت پیش ہو جائے تو نماز ترک کر کے قضائے حاجت کی جائے پھر نماز ادا کی جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
لا صلٰوة بحضرة الطعام ولا هو يدافعه الأخبثان [ مسلم، كتاب المساجد : باب كراهة الصلاة بحضرة الطعام 560]
”کھانے کی موجودگی میں اور جب دو خبیث ترین چیزیں تنگ کر رہی ہوں تو نماز نہیں ہوتی۔“
دو خبیث ترین چیزوں سے مراد پیشاب و پاخانہ ہیں۔
اسی طرح زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا اراد احدكم الغائط فليبدأ به قبل الصلٰوة [ مؤطا 159/1، أحمد 483/3 ]
”جب تم میں سے کوئی ایک پاخانہ کرنا چاہتا ہو تو وہ اسے نماز سے پہلے کر لے۔“
لہٰذا پہلے قضائے حاجت کر لی جائے پھر نماز پڑھی جائے تاکہ نماز اطمینان و سکون سے ادا کی جا سکے۔
——————

جوتے پہن کر نماز پڑھنا
سوال : جوتے پہن کر نماز ادا کرنا ٹھیک ہے اور کیا یہ واجب ہے؟
جواب : جوتے اگر پاک اور صاف ستھرے ہوں، ان کے نیچے گندگی نہ لگی ہو تو پھر ان میں نماز پڑھنا درست ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا جاء احدكم المسجد فلينظر، فإن راى فى نعليه قذرا او اذى فليمسحه وليصل فيهما [ أبوداؤد، كتاب الصلوة : باب الصلاة فى النعل 650 ]
”جب بھی تم میں سے کوئی آدمی مسجد کی طرف آئے تو وہ دیکھے اگر اس کے جوتوں میں کوئی گندگی وغیرہ لگی ہو تو اسے صاف کرے اور ان میں نماز پڑھے۔“
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
خالفوا اليهود فإنهم لا يصلون فى نعالهم ولا خفافهم [ أبوداؤد، كتاب الصلوة : باب الصلاة فى النعل 652 ]
”یہودیوں کی مخالفت کرو، وہ اپنے جوتوں اور موزوں میں نماز نہیں پڑھتے۔“
یہ حکم وجوب کے لیے نہیں کیونکہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ننگے پاؤں بھی اور جوتوں میں بھی نماز پڑھتے تھے۔ [أبوداؤد، كتاب الصلوة : باب الصلاة فى النعل 653 ]
——————

نماز میں آستینیں چڑھانا
سوال : نماز میں قمیص کی آستینوں کی کفوں کو اوپر چڑھانا جائز ہے یا نہیں ؟ حدیث کی رو سے واضح کر دیں۔
جواب : قمیص کی کفیں چڑھا کر نماز پڑھنا سخت منع ہے جیسا کہ امام المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں حدیث بیان کی ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ( اور یہ بھی حکم دیاگیا ہے ) کہ نماز میں نہ بالوں کا جوڑا بناؤ اور نہ کپڑوں کو اکٹھا کرو۔ “ [صحيح بخاري، كتاب الاذان : باب السجود على السبعة، 810 ]
نماز کے دوران اکثر و بیشتر افراد کو دیکھا گیا ہے کہ وہ بالوں یا کپڑوں کو درست کرتے رہتے ہیں، یہ امور نماز کے منافی ہیں، جب نماز ادا کر رہے ہوں تو ساری توجہ اور دھیان عبادت میں ہونا چاہیے اور ان تمام حرکا ت سے اجتناب کرنا چاہیے جن کا نماز سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
——————

مباشرت کے دوران پہنے گئے کپڑوں میں نماز پڑھنے کا حکم
سوال : وہ کپڑے جنہیں پہن کر مباشرت کی گئی، کیا انھیں پہنے ہوئے نماز ادا کرنا صحیح ہو گا؟
جواب : قرآن وسنت کی رو سے اپنی بیوی سے جن کپڑوں میں صحبت کی ہے اگر ان میں پلیدی نہیں لگی تو انہی میں نماز پڑھی جا سکتی ہے، اگر کپڑے پر منی لگ جائے تو تری کی صورت میں دھو ڈالے۔ دھونے کے بعد اگر کپڑے میں نشان دکھائی دے تو کوئی حرج نہیں اور اگر منی خشک ہو تو اس کا کھرچ دینا ہی کافی ہے۔
➊ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :
سالت ام حبيبة زوج النبى صلى الله عليه وسلم هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى الثوب الذى يجامعها فيه؟ فقالت: نعم، إذا لم ير فيه اذى [ ابوداؤد، كتاب الطهارة : باب الصلاة فى الثوب الذى يصيب أهله فيه 366، نسائي 155/1، ابن ماجه 192/1، دارمي 260/1، أحمد 325/6، ابن خزيمة 380/1، ابن حبان 237، بيهقي 410/2 ]
”میں نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، سے پوچھا: ”کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کپڑے میں مجامعت کرتے تھے اس میں نماز پڑھ لیتے تھے ؟“ تو انہوں نے کہا: ”ہاں ! جب اس میں گندگی نہ دیکھتے۔“
➋ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كنت افرك المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيصلي فيه [ ابوداؤد، كتاب الطهارة : باب الصلاة فى الثوب الذى يصيب أهله فيه 372، نسائي 156/1، ابن ماجه 192/1، أحمد 35/6، ابن خزيمة146/1، شرح السنة 89/2 ]
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی کھرچ دیتی تھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ “
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كنت اغسله من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم يخرج إلى الصلاة واثر الغسل فيه بقع الماء [ بخاري، كتاب الوضو : باب إذا غسل الجنابة أو غيرها فلم يذهب أثره 231، ترمذي 201/1، دارقطني 125/1، بيهقي 418/2، شرح السنة 188/2، ابن ماجه 536، أحمد 142/6 ]
”میں اسے (منی کے اثرات کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے دھوتی تھی پھر آپ نماز کے لیے نکلتے اور کپڑے میں دھونے کے نشانات دکھائی دیتے۔“
ان تینوں احادیث سے معلوم ہوا کہ انسان جس کپڑے میں اپنی بیوی سے مباشرت کرے، وہی کپڑے پہن کر نماز پڑھ سکتا ہے، اگر اس میں منی وغیرہ لگی ہو تو اسے دھو ڈالے یا کھرچ ڈالے۔ حالتِ جنابت میں لباس پہننے سے کپڑے پلید نہیں ہوتے۔
——————

مرد کی ننگے سر نماز
سوال : کیا آدمی کی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے ؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔
جواب : نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور کندھوں پر بھی کسی چیز کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کپڑے شریعت میں ضروری طور پر ثابت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
محمد بن منکدر راوی کا بیان ہے کہ ایک دن میں جب جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہ ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے جب کہ دوسرا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا: ”آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں جب کہ دوسرا کپڑا بھی آپ کی پاس موجود ہے۔ “ انہوں نے کہا: ” ہاں ! میں چاہتا ہوں کہ تمہارے جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ “ پھر فرما تے ہیں :
رايت النبى صلى الله عليه وسلم يصلي هكذا [بخاري،كتاب الصلاة، باب الصلاة بغير رداء 370 ]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“
صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے :
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى ثوب واحد مشتملا به فى بيت ام سلمة، واضعا طرفيه على عاتقيه [ بخاري،كتاب الصلاة،باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به ]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں نماز پڑھتے دیکھا، اس کپڑے کے دو کنارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر بندھے ہوئے تھے۔“
ہاں عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے
لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار [ابوداؤد، كتاب الصلاة باب المرأة تصلي بغير خمار 641]
علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی نماز دوپٹا (اوڑھنی) کے بغیر قبول نہیں کرتا۔“
یہ حدیث بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مرد کی نماز ننگے سر ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے ایسا کپڑا ضروری نہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دیتے کہ مرد اور عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی۔ حالانکہ کسی حدیث میں ایسے مذکور نہیں۔
اب دلائل سے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک کپڑے میں اس وقت نماز درست تھی جب مسلمانوں کے پاس کپڑے کم تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو سر ڈھانپنا واجب ہو گیا۔ اس بات کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں، کیونکہ وہ یقیناًََ ہم سے بڑھ کر شریعت کو سمجھنے والے تھے۔ ایسے ہی حالات میں کسی شخص نے ان سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا: تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک سے زیادہ کپڑوں کو شمار کر لیا مگر اس میں سر ڈھانپنے والے کپڑوں کا نام ہی نہیں۔ [بخاري، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى القميص والسراويل 365 ]
امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کو تو فراخی و وسعت کے وقت بھی یہی بات سمجھ میں آئی کہ سر ڈھانپنا واجب نہیں۔ اب ان صحیح و مرفوع احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کو ترک کر کے اپنی عقل کو سامنے رکھنا ہرگز انصاف نہیں۔
——————

اس تحریر کو اب تک 34 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply