ایک رات میں قرآن ختم کرنا؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

ایک رات میں قرآن ختم کرنا؟
سوال : تین دن سے کم میں قرآن مجید ختم کرنا کیسا ہے جبکہ بعض اسلاف ایسا کرتے رہے؟
جواب : صحیح احادیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک رات میں قرآن حکیم ختم نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت مختلف اوقات میں مختلف ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی زیادہ قرآن پڑھتے اور کبھی کم۔ چند ایک احادیث درج ذیل ہیں :
➊ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«صليت مع النبى صلى الله عليه وسلم ذات ليلة، فافتتح البقرة، فقلت يركع عند المائة، ثم مضى، فقلت: يصلي بها فى ركعة، فمضى، فقلت: يركع بها، ثم افتتح النساء فقراها، ثم افتتح آل عمران فقراها، يقرا مترسلا، إذا مر بآية فيها، تسبيح سبح، وإذا مر بسؤال سال، وإذا مر بتعوذ تعوذ، ثم ركع » [مسلم،كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب تطويل القراءة فى صلاة الليل 772، نسائي 226/3، أحمد 382/5، أبوداؤد 873، شرح السنة 20/4]
”میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ بقرہ شروع کی۔ میں نے خیال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو آیت پر رکوع کریں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرأت جاری رکھی، میں نے سوچا یہ سورت ایک رکعت میں پڑھیں گے مگر آپ جاری رہے۔ میں نے سوچا کہ شاید یہ پڑھ کر رکوع کریں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ نساء شروع کر دی۔ اسے پڑھا، پھر آل عمران شروع کر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی پڑھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے۔ جب ایسی آیت کے پاس سے گزرتے جس میں تسبیح کا ذکر ہوتا تو آپ تسبیح کرتے اور جب سوال والی آیت کے پاس سے گزرتے تو سوال کرتے اور جب پناہ والی آیت کے پاس سے گزرتے تو پناہ پکڑتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا۔“
➋ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاطال حتى هممت بامر سوء، قال: قيل: وما هممت به؟ قال: هممت ان اجلس وادعه » [مسلم،كتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب استحباب تطويل القراءة فى صلاة الليل 773]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرأت لمبی کر دی حتیٰ کہ میں نے غلط معاملے کا ارادہ کر لیا۔“ آپ سے کہا گیا : ”آپ نے کیا ارادہ کیا ؟“ کہنے لگے : ”میں نے ارادہ کیا کہ بیٹھ جاؤں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دوں۔“
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
«ولا اعلم نبي صلى الله عليه وسلم قرأ القرآن كله فى ليلة » [مسلم،كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب جامع صلاة الليل ومن نام عنه أو مرض 746]
”میں نہیں جانتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کبھی) ایک رات میں پورا قرآن پڑھا ہو۔“
➍ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« اقرإ القرآن فى شهر، قلت: إني اجد قوة، حتى قال: فاقراه فى سبع ولا تزد على ذلك » [بخاري، كتاب فضائل القرآن، باب فى كم يقرأ القرآن 5054، مسلم كتابالصيام : باب النهي عن صوم الدهر 1159]
”ایک مہینے میں قرآن پڑھ۔“ میں نے کہا: میں (اس سے کم وقت میں پڑھنے کی) قوت رکھتا ہوں، حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”سات دنوں میں پڑھ اور اس کے زیادہ نہ کر۔“
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مزید رخصت دیتے ہوئے فرمایا :
«لا يفقه من قرا القرآن فى اقل من ثلاث » [ابوداؤد، كتاب الصلاة باب تحزيب القرآن 1394]
”جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے اسے نہیں سمجھا۔“
➎ اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی تین دنوں سے کم میں قرآن ختم نہیں کرتے تھے۔
«كان صلى الله عليه وسلم لا يقرأ القرآن فى اقل من ثلاث» [صفة صلاة النبى للألباني ص/120]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین دن سے کم میں قرآن نہیں پڑھتے تھے۔“
➏ سنن سعید بن منصور میں صحیح سند کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا :
«اقرءوا القرآن فى سبع ولا تقرءوا فى اقل من ثلاث » [فتح الباري 97/9]
”قرآن مجید کو سات دنوں میں پڑھو اور تین سے کم میں نہ پڑھو۔“
مذکورہ بالا صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں قرآن مجید ختم نہیں کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین راتوں سے کم میں قرآن مکمل نہیں کرتے تھے اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو بھی فرمایا : ”جس نے تین دن سے کم میں قرآن پڑھا اس نے اسے سمجھا نہیں۔“ لہٰذا سب سے پسندیدہ اور بہترین بات یہی ہے کہ تین دنوں سے کم میں قرآن نہ پڑھا جائے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وهٰذا اختيار أحمد وأبي عبيدة واسحاق بن راهوية وغيرهم» [فتح الباري 97/9]
”یہی مذہب امام احمد، امام ابوعبیدہ اور امام اسحاق بن راہویہ (رحمۃ اللہ علیہم) وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔“
مولانا عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
«والمختار عندي ما ذهب اليه الامام أحمد واسحاق بن راهوية وغيرهما » [تحفة الأحوذي 63/4]
”میرے نزدیک مختار مذہب وہی ہے جسے امام احمد اور امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہما وغیرہ نے اختیار کیا ہے۔“
سلف صالحین میں سے کئی افراد سے تین دنوں سے کم میں قرآن پڑھنے کا ذکر کتب احادیث میں ملتا ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل اور حکم سب پر فائق ہے۔ ممکن ہے ان اسلاف تک یہ احادیث نہ پہنچی ہوں۔ اس لیے ہمیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کو سامنے رکھنا چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر عمل کسی کا نہیں ہو سکتا، اس لیے ہمارے نزدیک راجح بات یہی ہے کہ قرآن مجید کو تین دنوں سے کم میں نہ ختم کیا جائے۔

اس تحریر کو اب تک 26 بار پڑھا جا چکا ہے۔