کیا سابقہ امتوں میں بھی جنات کی پوجا کی جاتی تھی ؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

29۔ کیا سابقہ امتوں میں بھی جنات کی پوجا کی جاتی تھی ؟
جواب :
فرمان الہی ہے:
قَالُوا سُبْحَانَكَ أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ أَكْثَرُهُم بِهِم مُّؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾
”وہ کہیں گے تو پاک ہے، تو ہمارا دوست ہے نہ کہ وہ، بلکہ وہ جنوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ان کے اکثر انہی پر ایمان رکھنے والے تھے۔“ [ سبأ: 41 ]
سُبْحَانَكَ
یعنی تو اس بات سے پاک و مبرا ہے کہ تیرے ساتھ کوئی دوسرا الہٰ و معبود ہو۔
أَنتَ وَلِيُّنَا مِن دُونِهِم ۖ
یعنی ہم تیرے بندے ہیں اور ان (مشرکین) سے براءت کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ہمارے دوست نہیں تو ہمارا دوست ہے۔
بَلْ كَانُوا يَعْبُدُونَ الْجِنَّ ۖ
یعنی وہ شیاطین و جن ان کے لیے بتوں کی پوجا کو مزین کر کے پیش کرتے اور ان کو گمراہ کرتے ہیں۔
فَالْيَوْمَ لَا يَمْلِكُ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَلَا ضَرًّا
”سو آج تمہارا کوئی کسی کے لیے نہ نفع کا مالک ہے اور نہ نقصان کا۔“ [ سبأ: 42 ]
یعنی آج (قیامت کے دن) تم کو وہ لوگ جن کے نفع کی تم کو امید تھی، بتوں اور شریکوں میں سے تم کو نفع نہیں دیں گے، جن کی تم اللہ کے علاوہ عبادت کرتے تھے۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
وَجَعَلُوا لِلَّـهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۚ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَىٰ عَمَّا يَصِفُونَ ﴿١٠٠﴾
”اور انہوں نے جنوں کو اللہ کے شریک بنا دیا، حالانکہ اس نے انہیں پیدا کیا اور اس کے لیے بیٹے اور بیٹیاں کچھ جانے بغیر تراش لیں، وہ پاک ہے اور بہت بلند ہے اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔‘‘ [ الأنعام: 100 ]
یہ ان مشرکین کا رد ہے، جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسروں کی بھی پوجا کی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں شرک کیا، یعنی انہوں نے جنوں کی عبادت کی اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اپنے شرک و کفر سے ان کو شر یک ٹھہرا لیا۔
سوال اگر کہا جائے کہ وہ تو بتوں کی پوجا کرتے تھے تو جنوں کی عبادت کیسے ہو گئی؟
جواب اس لیے کہ انہوں نے بتوں کی پوجا صرف جنات کی اطاعت کرتے ہوئے کی، ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی طرح ہے جو دیگر لوگوں کے ساتھ کسی سفر پر نکلا تو راستہ گم کر بیٹھا، شیاطین و جنات نے اسے مخبوط کر دیا اور زمین میں بھٹکا دیا، جبکہ اس کے ساتھی سیدھے راستے پر ہی قائم رہے اور اسے بھی اپنی طرف سیدھے راستے پر بلاتے رہے۔
كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَاطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَابٌ
”اس شخص کی طرح ہے شیطانوں نے زمین میں بہکا دیا، اس حال میں کہ حیران ہے، اس کے کچھ ساتھی ہیں۔ “ [الأنعام: 71]
یہ وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو قبول نہیں کرتا، بلکہ اس نے شیطان کی اطاعت کی اور زمین میں معصیت کے کام کیے، حق سے ہٹ گیا اور گمراہ ہوا، کیونکہ ہدایت اللہ تعالیٰ ہی کی ہدایت ہے اور جس کی طرف جنات (شیاطین) بلاتے ہیں، وہ گمراہی ہے۔
تیسری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے :
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ ﴿٦٠﴾
” کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کی تھی اے اولاد آدم کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا، یقیناً وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔ “ [ يس: 60 ]
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی آدم میں سے ان کافروں کے لیے ڈانٹ ہے، جنہوں نے شیطان کی پیروی کی، حالانکہ وہ ان کا واضح دشمن ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، حالانکہ اللہ نے انھیں پیدا کیا اور وہی انھیں رزق دیتا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔