کون سی نشانیاں ہیں، جن سے پتا چلے گا کہ جن انسان میں داخل ہے؟

جادو سوالات و جوابات
————–

 

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

291۔ میں حسد میں مبتلا ہوں اور اللہ سے دعا کرتا ہوں، مگر قبول نہیں ہوتی ؟
جواب :
نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
«يستجاب لأحدكم مالم يعجل»
”تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 5981، صحيح مسلم رقم الحديث 2735، سنن الترمذي رقم الحديث 4434]
آپ کے لیے اللہ کی تقسیم پر راضی ہونا، صبر کرنا اور دعا میں اصرار ضروری ہے، دعا میں جلدی یہ ہے کہ آدمی کہے :”میں نے بڑی دعا کی لیکن قبول نہ ہوئی۔“ گناہوں سے دور رہیں، مثلاً سود وغیرہ سے، اگر کسی پر زیادتی کی ہے تو اس سے معافی مانگیں۔ اگر اس کا حق مارا ہے تو وہ حق واپس لوٹائیں۔
——————

292۔ کیا شرعی دم کی کوئی شرائط بھی ہیں ؟
جواب :
”کتاب اللہ اور مسنون دعاؤں سے دم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ [الفتوى، رقم 3189ص: 207]
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا ہے :
”علما کا اس بات پر اجماع ہے کہ (مندرجہ ذیل) تین شرائط کی موجودگی میں دم کرنا جائز ہے :
➊ وہ دم اللہ کے کلام یا اس کے اسما و صفات کے ساتھ ہو۔
➋ وہ دم کا مفہوم جانتا ہو، خواہ کسی زبان میں کرے۔
➌ وہ عقیدہ رکھتا ہو کہ دم بذات خود اثر نہیں کرتا، بلکہ وہ اللہ کی ذات کی مدد سے موثر ہے۔“
——————

293۔ گھریلو سانپوں کے نام اور نقصان کیا ہیں ؟
جواب :
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:
«اقتلوا الحيات، واقتلوا ذا الطفيتين والأبتر، فإنهما يطمسان البصر، ويتستقطان الحبل »
”سانپوں کو مار ڈالو اور مارو دو نشانوں والے سانپ اور ابتر (چھوٹے زہریلے سانپ) کو، کیوں کہ وہ دونوں بینائی کو ختم کر دینے اور حمل کو گرا دیتے ہیں۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 3123، صحيح مسلم رقم الحديث 2233]
عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: ”ایک دفعہ میں ایک سانپ کو قتل کرنے کے لیے اس پر حملہ آور ہوا (اسی دوران) مجھے ابولبابہ نے آواز دی کہ اسے قتل نہ کرنا۔ میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سانپوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد گھروں میں ٹھہرنے والے کو قتل کرنے سے منع کر دیا تھا۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 3123]
——————

294۔ جن و انس میں رشتہ ازدواج ممکن ہے ؟
جواب :
جی نہیں،
شادی کے لیے کئی شرائط ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:
➊ ولی کا ہونا
➋ شادی کا اظہار کرنا
➌ مہر
➍ گواہ۔
جنات سے ازدواج ممکن نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں:
➊ زوج ہے کہاں؟ «انه يرٰكم هو وقبيله من حيث لا ترونهم»
➋ گناہ میں واقع ہونے والی ہر عورت کے لیے شر کا دروازہ کھل جائے گا، وہ کہے گی میں نے جن سے شادی کی ہوئی ہے۔ اسی طرح حمل کو گرانے والی کہہ سکتی ہے، میں جن سے حاملہ ہوئی ہوں، وغیرہ۔ لہٰذا اس کام میں کوئی فائدہ ہے ہی نہیں، اس لیے یہ جائز نہیں۔
——————

295۔ کیا کھجور اور جادو کے علاج کے درمیان کوئی تعلق ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
«من تصبح سبع تمرات عجوة لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر»
”جس نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں، اسے اس دن کوئی زہر اور کوئی جادو نقصان نہ دے سکے گا۔“ [صحيح البخاري رقم الحديث 76]
صحیح بخاری کی ایک روایت میں «إلى الليل» ’’رات تک“ کے لفظ ہیں۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے، عامر بن سعد رحمہ اللہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من أكل سبع تمرات مما بين لابتيها حين يصبح لم يضره سم حتى يمسي »
”جس نے مدینے کے دو پہاڑوں کے درمیان کی سات کھجور میں صبح کے وقت کھا لیں، اسے شام ہونے تک کوئی زہر نقصان نہ دے گا۔“ [صحيح مسلم رقم الحديث 2047]
ان احادیث میں مدینے کی کھجور اور عجوہ کھجور کو خاص کیا گیا ہے، عام کھجور مذکورہ فائدہ نہیں دے گی۔ لیکن بعض علماء کہتے ہیں کہ کوئی بھی کھجور ہو، وہ درج بالا فائدہ دے گی۔ « والله أعلم.»
——————

296۔ کتاب اللہ کے ساتھ علاج کرنے کے دلائل کیا ہیں ؟
جواب :
خارجہ بن صامت تمیمی اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک وہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام قبول کیا، پھر آپ کے پاس سے واپس لوٹے تو ان کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا، جو ایک مجنون آدمی کو لوہے (کی زنجیر) میں باندھے ہوئے تھے۔ اس کے اہل خانہ کہنے لگے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ تمہارے یہ صاحب (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) بھلائی لائے ہیں، کیا تمھارے پاس کوئی چیز ہے، جو اس کے لیے دوا کا کام کرے؟ پھر میں نے اسے سورۃ الفاتحہ کے ساتھ دم کیا تو وہ درست ہو گیا، انھوں نے مجھے سو بکریاں دے دیں، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«هل إلا هذا؟ وقال مسدد فى موضع آخر: هل قلت غير هذا؟ قلت: لا. قال: خذها فلعمري لمن أكل برقية باطل لقد أكلت برقية حق »
”کیا اس کے علاوہ بھی (مسدد نے ایک دوسری جگہ فرمایا) کیا تو نے اس کے علاوہ بھی پڑھا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان (بکریوں) کو پکڑ لو، اللہ کی قسم! کتنے ہی باطل دم کر کے کھاتے ہیں تو نے حق کے دم کے ساتھ کھایا ہے۔“ [سنن أبى داؤد كتاب الطب 19] امام نووی نے اسے الأذکار، رقم الحدیث 87 میں صحیح کہا ہے اور دارقطنی نے اسے اپنی سنن 297/4 میں روایت کیا ہے۔
——————

297۔ کیا مریض کا علاج کرنا افضل ہے یا اسے چھوڑنا افضل ہے ؟
جواب :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«من استطاع منكم أن ينفع أخاه فليفعل»
”جو تم میں سے اپنے بھائی کو فائدہ دینے کی طاقت رکھتا ہے، وہ ایسا کرے۔“ [صحيح مسلم رقم الحديث 2199]
مریض کا علاج کرنا کبھی مستحب اور کبھی واجب ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہوتا ہے اور مظلوم کا دفاع اور مدد لازم ہے، کیوں کہ مظلوم کی مدد کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔
مصیبت زدہ کے لیے مناسب ہے کہ وہ دعا و ذکر کا اہتمام کرے۔ لیکن جن کو حکم کرنا، ان کو قید کرنا اور ان کو ڈانٹا، ان کو گالی گلوچ اور لعن طعن کرنا وغیرہ کسی طرح جائز نہیں، ایسا کرنے والے اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں، اس لیے کہ جب دم کرنے والا معالج ان پر اس طرح سے زیادتی نہیں کرے گا، جیسے کچھ شدت پسند کرتے ہیں کہ جن کو وہ قتل کی دھمکی دیتے ہیں، حالاں کہ اس کا قتل جائز نہیں، اسے قید کرنے کا حکم دیتے ہیں جسے قید کرنے کی ضرورت نہیں، جب وہ یہ رویہ اپناتے ہیں تو جن ان کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں، پھر کسی کو قتل کر دیتے اور کسی کو بیمار اور کسی کے اہل و عیال میں ضرر کا باعث بنتے ہیں، لیکن جو ان کی عداوت ختم کرنے میں اس عدل پر چلے گا، جس کا اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، وہ ان پر ظلم نہیں کرے گا، بلکہ وہ مظلوم کی مدد اور بےآسرا لوگوں کے ساتھ تعاون اور مصیبت زدہ سے مصیبت دور کرنے میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہو گا اور وہ شرعی طریقہ اپنائے گا جس میں خالق کے ساتھ کوئی شرک نہ ہو اور مخلوق کے ساتھ ظلم نہ ہو۔ ایسے شخص کو جن کوئی تکلیف نہیں دے سکتے۔ یا تو اس وجہ سے کہ انھیں علم ہے کہ یہ شخص حق پر ہے یا پھر وہ اس کے مقابلے سے عاجز ہیں۔
——————

298۔ کون سی نشانیاں ہیں، جن سے پتا چلے گا کہ جن انسان میں داخل ہے ؟
جواب :
وہ علامات درج ذیل ہیں:
➊ قرآن کی تلاوت کے دوران وہ سخت درد سر پائے گا۔
➋ کبھی وہ اطراف بدن میں پاؤں میں یا ہاتھوں میں سن ہو جانے کی کیفیت پائے گا۔
➌ کبھی اس پر غنودگی طاری ہو گی اور پھر وہ افاقہ پائے گا۔
➍ کبھی وہ اپنے جسم میں متعدد جگہوں پر دور محسوس کرے گا۔
——————

299۔ نماز میں خلل ڈالنے والے شیطان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے ؟ نیز اس کا نام کیا ہے ؟
جواب :
عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! بےشک شیطان میرے درمیان اور میری نماز کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور میری قراءت مجھ پر خلط ملط کرتا ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ذاك شيطان يقال له: خنزب فإذا أحسسته فتعوذ بالله يره واتفل على يسارك ثلاثا قال: ففعلت ذلك فأذهبه الله عني »
”یہ شیطان ہے جسے خنزب کہا جاتا ہے۔ جب تو اسے محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ اور اپنی بائیں طرف تین بار تھوک۔ عثمان کہتے ہیں: میں نے ایسا کیا تو اللہ اس کو مجھ سے (دور) لے گیا۔“ [صحيح مسلم كتاب السلام، باب التعوذ من شيطان الوسوسة فى الصلاة، رقم الحديث 2203]
جن کے انسان کو پچھاڑنے اور دواؤں کے بارے میں آرا:
➊ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا ہے:
”نہیں وہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کشتی میں پچھاڑا ہوا کھڑا ہوتا ہے اور شیطان نے اسے چھو کر بدحواس کر دیا ہو۔“
➋ امام قرطبی رحمہ اللہ نے فرمایا:
”اس آیت میں اس شخص کے خلاف دلیل ہے جو جن کی طرف سے چھاڑنے کا انکاری ہے اور اس نے اسے طبعی فعل قرار دیا ہے اور اس کا نظریہ ہے کہ شیطان انسان میں گردش نہیں کرتا اور نہ اسے چھو سکتا ہے۔“
➌ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس مسئلے میں لوگوں کی تین قسمیں ہیں:
٭کچھ لوگ جن کے انسان میں دخول کی تکذیب کرتے ہیں۔
٭کچھ لوگ مذموم عزائم کے ساتھ اس کا دفاع کرتے ہیں، پس وہ لوگ موجود ہونے کی تکذیب کرتے ہیں اور یہ لوگ رب معبود کا کفر کرتے ہیں۔
٭افضل امت ثابت و موجود کی تصدیق کرتی ہے۔ وہ عبادت کے لائق ایک ہی الہ پر ایمان رکھتی اور اس کی عبادت، ذکر و دعا اور اس کے اسماء کے ساتھ جن و انس کے شیاطین کا دفاع کرتی ہے۔
➍ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے فرمایا:
”رہی بات ارواح کے پچھاڑنے کی، تو ان کے امام اور عقلا اس کا اعتراف تو کرتے ہیں، لیکن اس کا دفاع نہیں کرتے اور وہ اس بات کے معترف ہیں کہ اس کا علاج عالی مرتبہ شرف و خیر والی ارواح کا ان خبيث ارواح سے مقابلہ ہے۔“——————

300۔ کتاب اللہ کے علاوہ کسی دم سے علاج جائز ہے ؟
جواب :
جی نہیں!
اس کی دلیل درج ذیل ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے تو ایک عورت ان کا علاج کر رہی تھی اور انھیں دم کر رہی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«عالجيها بكتاب الله»
”اس کا علاج الله کی کتاب کے ساتھ کر۔“ اسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے، جیسا کہ ”موارد الظمآن“، رقم الحدیث 1419 میں ہے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ دیکھیں : [السلسلة الصحيحة، رقم الحديث 1931]
——————

اس تحریر کو اب تک 26 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply