چھینک کے وقت آواز کو پست رکھنا اور چہرے کو چھپانا چاہیے

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

«باب لا يشمت العاطس إذا لم يحمد الله»
چھینک دینے والے کا جواب نہیں دیا جائے گا اگر وہ الحمدللہ نہ کہے۔
✿ «عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: عطس عند النبى صلى الله عليه وسلم رجلان، فشمت احدهما ولم يشمت الآخر، فقال: الذى لم يشمته عطس فلان فشمته وعطست انا فلم تشمتني، قال: ” إن هذا حمد الله وإنك لم تحمد الله.» [متفق عليه: رواه البخاري 6221، 6225، ومسلم 2991.]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں نے چھینک ماری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک شخص کی چھینک کا جواب دیا۔ اور دوسرے کی چھینک کا جواب نہیں دیا۔ تو اس شخص نے جس کی چھینک کا جواب آپ نے نہیں دیا تھا عرض کیا: فلاں شخص نے چھینک ماری تو آپ نے اس کی چھینک کا جواب دیا۔ اور میں نے بھی چھینک ماری تو میری چھینک کا جواب نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا اس شخص نے اللہ کی تعریف کی (الحمد للہ کہا) اور تم نے اللہ کی تعریف نہیں کی (الحمد للہ نہیں کہا) اس لیے میں نے تمھاری چھینک کا جواب نہیں دیا۔

✿ «عن ابي بردة، قال: دخلت على ابي موسى وهو فى بيت بنت الفضل بن عباس، فعطست فلم يشمتني، وعطست فشمتها، فرجعت إلى امي، فاخبرتها فلما جاءها، قالت: عطس عندك ابني فلم تشمته، وعطست فشمتها، فقال: إن ابنك عطس فلم يحمد الله فلم اشمته، وعطست فحمدت الله، فشمتها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: ” إذا عطس احدكم فحمد الله، فشمتوه فإن لم يحمد الله فلا تشمتوه “.» [صحيح: رواه مسلم 2992.]
حضرت ابوبردہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: میں ابو موسی کے پاس گیا اور وہ فضل ابن عباس کی بیٹی کے گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے چھینک ماری، اور انھوں نے میری چھینک کا جواب نہیں دیا اور بنت فضل نے چھینک ماری تو انھوں نے ان کی چھینک کا جواب دیا۔ میں اپنی ماں کے پاس گیا اور انھیں اس کی خبر دی۔ پھر جب وہ میری ماں کے پاس آئے تو میری ماں نے پوچھا: میرے بیٹے نے آپ کے سامنے چھینکا، تو آپ نے اس کی چھینک کا جواب نہیں دیا۔ اور بنت فضل نے چھینک ماری تو آپ نے ان کی چھینک کا جواب دیا (اس کی کیا وجہ ہے؟)تو ابو موسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یقینا تمھارے بیٹے نے چھینک ماری اور اس نے الحمد للہ نہیں کہا، اس لیے میں نے اس کی چھینک کا جواب نہیں دیا۔ اور بنت فضل نے چھینک ماری اور اس نے الحمد للہ کہا۔ تو میں نے اس چھینک کا جواب دیا۔ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے ”جب تم میں سے کوئی شخص چھینک مارے، پھر الحمد للہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب دو۔ پھر اگر وہ الحمد للہ نہ کہے تو اس کی چھینک کا جواب نہ دو۔

✿ «عن أبى هريرة قال عطس رجلان عند النبى صلى الله عليه وسلم احدهما أشرف من الاخر فعطس الشريف فلم يحمدالله فلم يشمته النبى صلى الله عليه وسلم وعطس الآخر فى فحمد الله فشمته النبى صلى الله عليه وسلم قال فقال الشريف عطست عندك فلم تشمتني وعطس هذا عندك فشمته قال فقال إن هذا ذكرالله فذكرته وانك نسيت الله فنسيتك .» [حسن: رواه أحمد 8346، والبخاري فى الأدب المفرد 932.]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ دو آدمیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چھینک ماری۔ ان میں سے ایک دوسرے کے مقابلے میں زیادہ شریف تھا۔ جو شریف تھا، اس نے چھینک ماری اور الحمد للہ نہیں کہس تو نبی کریم نے اس کی چھینک کا جواب نہیں دیا اور دوسرے نے چھینک ماری اور اس نے الحمد للہ کہا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی چھینک کا جواب دیا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس شریف نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا: میں نے آپ کے ہاں چھینک ماری لیکن آپ نے میری چھینک کا جواب نہیں دیا۔ اور اس نے چھینک ماری تو آپ نے اس کی چھینک کا جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اس شخص نے اللہ کا ذکر کیا تو میں نے بھی اس کا ذکر کیا۔ اور تم الله کو بھول گئے تو میں بھی تمہیں بھول گیا۔
——————

«باب كم مرة يشعت العاطس»
چھینکنے والے کا جواب کتنی مرتبہ دیا جائے۔
✿ «عن سلمة بن الاكوع أن أباه حدثه انه سمع النبى صلى الله عليه وسلم و عطس رجل عنده فقال له يرحمك الله ثم عطس أخرى فقال له رسول الله: الرجل مزكوم .» [صحيح: رواه مسلم 2993.]
حضرت سلمہ بن اکوع سے روایت ہے کہ ان کے والد نے بیان کیا انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ کے پاس ایک شخص نے چھینک ماری، تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا: «يرحمك الله» (اللہ تم پر رحم فرمائے) پھر اس نے دوسری مرتبہ چھینک ماری، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا: آدمی زکام سے متاثر ہے۔
——————

«باب خفض الصوت وتخمير الوجه عند العطاس»
چھینک کے وقت آواز کو پست رکھنا اور چہرے کو چھپانا چاہیے
✿ «عن ابي هريرة، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا عطس وضع يده، او ثوبه على فيه، وخفض او غض بها صوته.» [حسن: رواه أبو داود 5029. والترمذي 2745، وأحمد 9662]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب چھینکتے تو اپنا ہاتھ یا اپنا کپڑا چہرے پر رکھتے۔ اور اپنی آواز کو پست کر لیتے۔
——————

«باب من تثاءب فليضع بيده على فمه»
جمائی لینے والے کو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھنا چاہیے۔
✿ «عن ابي هريرة، عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: إن الله يحب العطاس، ويكره التثاؤب، ‏‏‏‏ فإذا عطس احدكم وحمد الله كان حقا على كل مسلم سمعه ان يقول له: يرحمك الله، واما التثاؤب فإنما هو من الشيطان، ‏‏‏‏ فإذا تثاؤب احدكم فليرده ما استطاع، فإن احدكم إذا تثاءب ضحك منه الشيطان.» [صحيح: رواه البخاري 6226]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقینا اللہ تعالی چھینک کو پسند کرتا ہے، اور جمائی کو نا پسند فرماتا ہے۔ پس جب تم میں سے کوئی شخص چھینک دے اور الحمد للہ کہے، تو ہر مسلمان جس نے اس کو سنا اس پر ضروری ہے کہ اس کے حق میں «يرحمك الله» (اللہ تم پر رحم فرمائے) کہے، اور جہاں تک جمائی کا سوال ہے وہ تو شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کوئی جمائی لے تو اس کو اپنی استطاعت کے مطابق دور کرے۔ کیوں کہ جب تم جمائی لیتے ہو تو شیطان اس پر ہنستا ہے۔

✿ «عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال تثاؤب من الشيطان فاذا تثاؤب أحدكم فليكظم ما استطاع.» [صحيح: رواه مسلم 2994.]
حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمائی شیطان کی طرف سے ہے۔ جب تم میں سے کسی کو جمائی آجائے، تو اپنی استطاعت بھر اس کو روکے۔

✿ «عن أبى بي سعيد الخدري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ” إذا تثاءب احدكم فليضع فليمسك بيده على فيه، فإن الشيطان يدخل. وفي لفظ: إذا تثاءب احدكم فى الصلاة فليكظم ما استطاع فان الشيطان يدخل.» [صحيح: رواه مسلم 2995: 57 باللفظ الأول. ورواه 2995: 59 باللفظ الثاني.]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جمائی لے، تو اس کو اپنا ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لینا چاہیے، کیوں کہ شیطان داخل ہوتا ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: جب تم میں سے کسی کو نماز کی حالت میں جمائی آئے، تو اسے اپنے استطاعت بھر روکے۔ کیوں کہ شیطان داخل ہوتا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply