کسی کے سودے پر سودا کرنا

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

. . . لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ. . .
” کوئی آدمی اپنے دوسرے بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے۔ “ [صحيح بخاري/البيوع : 2140]
فوائد :
ہمارا معاشرہ خرید و فروخت کے اعتبار سے بہت افراط و تفریط کا شکار ہے۔ ایک شخص اپنا سامان بیچ رہا ہے یا کوئی شخص کچھ خرید رہا ہے تو کسی کو اس امر کی اجازت نہیں ہے کہ وہ درمیان میں کود پڑے اور ان کی خرید و فروخت کو خراب کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث بالا میں امر کی وضاحت کی ہے کہ کسی آدمی کو اپنے دوسرے بھائی کی خرید و فروخت میں مداخلت کی اجازت نہیں۔ ایک دوسری حدیث میں مزید وضاحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے اور کسی بھی مومن کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرے۔ “ [صحيح مسلم/النكا ح : 1414]
ایک روایت میں بھاؤ پر بھاؤ لگانے کی ممانعت کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري/الشروط : 2727]
ہاں اگر خریدنے والا اس سے دستبردار ہو جائے تو پھر کسی دوسرے کو وہ چیز خریدنے کی اجازت ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو عنوان قائم کیا ہے۔ اس میں اس کی صراحت ہے۔ [صحيح بخاري، البيوع : باب 58]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان سے صحیح مسلم کی ایک حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں اجازت دینے یا ترک کرنے کی صراحت ہے۔ [فتح الباري ص 446 ج 4]
اس طرح کچھ سودا خراب کرنے کے لیے بھاؤ زیادہ لگا دیتے ہیں حالانکہ ان کا مقصد چیز خریدنا نہیں ہوتا، چنانچہ احادیث میں اس کی ممانعت ہے۔ [صحيح بخاري/البيوع : 2142]

اس تحریر کو اب تک 24 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply