تعلیم کی غرض سے استاد کا سوال کرنا

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

« باب إكرام الكبير فى الكلام »
گفتگو میں بڑوں کی تعلیم ہونی چاہیے
❀ «عن سهل بن ابي حثمة، ورافع بن خديج، ان محيصة بن مسعود، وعبدالله بن سهل انطلقا قبل خيبر فتفرقا فى النخل، فقتل عبد الله بن سهل، فاتهموا اليهود فجاء اخوه عبد الرحمن وابنا عمه حويصة ومحيصة إلى النبى صلى الله عليه وسلم فتكلم عبد الرحمن فى امر اخيه وهو اصغر منهم، فقال رسول صلى الله عليه وسلم: كبر الكبر او قال ليبدا الاكبر، فتكلمنا فى امر صاحبهما، فقال رسول صلى الله عليه وسلم:” يقسم خمسون منكم على رجل منهم فيدفع برمته. قالوا امر لم نشهده كيف نحلف قال فتبرئكم يهود بايمان خمسين منهم؟ قالوا: يا رسول الله، قوم كفار قال فواده رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله، قال سهل: فدخلت مربدا لهم يوما فركضتني ناقة من تلك الابل ركضة برجلها برجلها. » [متفق عليه: رواه البخاري 6142، 6143، ومسلم 1669: 2]
حضرت سہل بن ابوحثہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن مسعود اور عبداللہ بن سھل دونوں خیبر کی طرف گئے پھر نخلستان میں الگ ہو گئے، تو عبد اللہ بن سہل قتل کر دیے گئے۔ یہود پر الزام لگایا گیا۔ ان کے بھائی عبدالرحمن اور ان کے چچا کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عبد الرحمن نے اپنے بھائی کے معاملے میں گفتگو شروع کی اور وہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑوں کو گفتگو کا موقع دو“، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: ”بڑے لوگ بات کریں۔“ پھر ان دونوں نے اپنے ساتھی کے معاملے میں گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تم میں سے پچاس آدمی قسم کھا لیں کہ عبد اللہ کو یہود کے کسی شخص نے قتل کیا ہے تو وہ اپنی دیت ادا کرے گا۔“ انھوں نے کہا: ایک ایسے معاملے میں جسے ہم نے نہیں دیکھا ہے؟ قسم کیسے کھائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پھر تو یہود اپنے پچاس آدمیوں سے قسم کھلوا کر تم سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے انھوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! یہ کافر لوگ ہیں، ان کی قسم کا کیا بھروسا؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد اللہ بن سہل کے وارثوں کو دیت اپنی طرف سے ادا کر دی۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک دن میں ان کے باڑے میں گیا تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹی نے مجھے لات ماری۔

❀ «عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اخبروني بشجرة مثلها مثل المسلم تؤتي اكلها كل حين بإذن ربها ولا تحت ورقها، فوقع فى نفسي انها النخلة فكرهت ان اتكلم، وثم ابو بكر وعمر فلما لم يتكلما، قال النبى صلى الله عليه وسلم: هي النخلة فلما خرجت مع ابي قلت: يا ابتاه وقع فى نفسي انها النخلة، قال: ما منعك ان تقولها؟ لو كنت قلتها كان احب إلى من كذا وكذا، قال: ما منعني إلا اني لم ارك ولا ابا بكر تكلمتما فكرهت.» [متفق عليه : رواه البخاري 6144، ومسلم 2811: 64]
حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھے اس درخت کے بارے میں بتاؤ جس کی مثال مسلمان کی سی ہے۔ وہ اپنے رب کے حکم سے سدا پھل دیتا رہتا ہے اور اس کے پتے نہیں جھڑتے۔ میرے دل میں بات آئی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ لیکن میں نے بولنا مناسب نہیں سمجھا کیوں کہ ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما جیسے بڑے لوگ بھی موجود تھے۔ پھر ان دونوں حضرات نے بھی کچھ نہیں کہا۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بتا دیا کہ یہ کھجور کا درخت ہے۔ جب میں اپنے والد کے ساتھ نکلا تو میں نے کہا کہ میرے دل میں یہ بات آئی کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو تمہیں کہنے سے کس نے روکا؟ اگر تم کہہ دیتے تو مجھے اس سے اور اس سے بھی زیادد خوشی ہوتی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اس لیے خاموش رہا کہ میں نے آپ کو اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خاموش دیکھا۔

❀ «عن ابي موسى الاشعري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” إن من إجلال الله إكرام ذي الشيبة المسلم وحامل القرآن غير الغالي فيه والجافي عنه وإكرام ذي السلطان المقسط. » [حسن: رواه أبو داود 4843]
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یقیناً بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں افراط و تفریط سے بچتا ہو اور اسی طرح انصاف پسند حاکم کی عزت کرنا اللہ عزوجل کی عزت کرنے کی طرح ہے۔“

اس تحریر کو اب تک 9 بار پڑھا جا چکا ہے۔