اچھی اور میٹھی بات صدقہ ہے

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

وَالْكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ
”اچھی اور میٹھی بات بھی صدقہ ہے۔ “ [صحيح بخاري/الجهاد : 2989 ]
فوائد :
کسی کے ساتھ اچھی بات شیریں انداز سے کرنا اس کے دل کی خوشی کا باعث ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کے دل کو خوش کرنا بلاشبہ بہت بڑی نیکی اور عظیم صدقہ ہے۔ اسی لئے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے متبعین کو خوش کلامی اور شیریں گفتاری کی بہت تاکید فرماتے تھے اور بدزبانی و سخت کلامی سے شدت کے ساتھ منع فرماتے تھے۔ یہاں تک کہ بری بات کے جواب میں بری بات کہنے کو بھی ناپسند کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ کچھ بدخصلت یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے اپنی فطری کجروی کی بنا پر آپ کو السام عليكم کہا جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہیں موت آئے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اس گستاخی کے جواب میں فرمایا : تمہیں موت آئے۔ تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کا انداز گفتگو سن کر فرمایا : ” عائشہ ! اپنی زبان پر کنٹرول کرو، نرمی کا رویہ اختیار کرو، سختی اور بدزبانی سے خود کو بچاؤ۔ “ [صحيح بخاري/الجهاد : 6024 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی شان بایں الفاظ بیان کی ہے۔
” مومن بندہ زبان سے حملہ کرنے والا نہیں ہوتا اور نہ ہی لعنت کرنے والا، بدگو اور نہ گالی بکنے والا ہوتا ہے۔ “ [ترمذي/البر والصله : 1977 ]
یعنی مومن کا شیوہ یہ ہونا چاہئے کہ اس کی زبان سے لعن طعن اور گالی گلوچ نہ نکلے بلکہ اختلاف و نزاع کے موقع پر گالیاں بکنے کو منافق کی نشانیاں بتایا گیا ہے۔ [صحيح بخاري/الايمان : 34 ]
ہمیں چاہئے کہ خوش کلامی کے ذریعے دوسروں کے دل جیتیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہماری بدزبانی اور سخت کلامی کی وجہ سے لوگ کنارہ کش رہیں۔

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔