پیٹ بھر کر کھانے کی مذمت

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن المقدام بن معد يكرب رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏ما ملا ابن آدم وعاء شرا من بطن ‏‏‏‏ اخرجه الترمذي وحسنه.
”مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابن آدم نے کوئی برتن نہیں بھرا جو اس کے پیٹ سے بڑا ہو۔ “ (اسے ترمذی نے روایت کیا اور حسن قرار دیا ہے )
تخریج : صحیح [ترمذي 2380] [حاكم 4/121] [احمد 4/132] [ابن حبان 1349] مسند احمد میں اس کی سند یوں ہے :
حدثنا ابوالمغيره قال حدثنا سليمان بن سليم الكناني قال حدثنا يحيي بن جابر الطائي قال سمعت المقدام بن معديكرب قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم
”شیخ البانی نے اس سند کو صحیح متصل اور حدیث کو صحیح قرار دیا ہے تفصیل کے لئے دیکھئے ارواء الغلیل [7/41-42] ترمذی نے فرمایا : حسن صحیح ہے۔ حاکم نے اس پر سکوت فرمایا ذہبی نے فرمایا قلت : صحيح
اس حدیث کا بقیہ حصہ یہ ہے :
بحسب ابن آدم اكلات يعمن صلبه فان كان لا محالة فثلث لطعامه وثلث لشرابه وثلث للنفس
”ابن آدم کو چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں سو اگر اسے ضرور ہی کھانا ہو تو تیسرا حصہ کھانے کے لئے اور تیسرا پینے کے لیے اور تیسرا سانس کے لیے۔ “
صحیح ابن حبان میں ہے :
فان كان فاعلا لا محالة . . . الخ
اور ابن ماجہ میں ہے :
فان غلبت الآدمي نفسه فثلث للطعام وثلث للشراب وثلث للنفس [صحيح ابن ماجه 2704]
”سو اگر آدمی پر اس کا نفس غالب آ جائے تو تیسرا حصہ کھانے کے لئے کرے تیسرا پینے کے لئے اور تیسرا سانس کے لئے۔ “
فوائد :
➊ اس حدیث میں پیٹ بھر کر کھانے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ آدمی کے بدن کے لئے بھی نقصان دہ ہے اور اس کے دین کے لیے بھی۔ ضرورت سے زائد کھانا مختلف بیماریوں کا باعث ہے انسان کی طبیعت کو بوجھل کرتا ہے جس سے وہ آسانی کے ساتھ اللہ کے احکام ادا نہیں کر سکتا۔
➋ ابنِ رجب نے فرمایا : ابن ابی ماسویہ طبیب نے یہ حدیث پڑھی تو کہنے لگا اگر لوگ اس پر عمل کریں تو بیماریوں سے محفوظ رہیں اور ہسپتال اور دوا فروشوں کی دکانیں بے کار ہو جائیں۔ [توضيح]
عرب کے مشہور طبیب حارث بن کلدہ نے کہا: ”معدہ بیماری کا گھر ہے اور پرہیز علاج کا اصل ہے۔“
➌ زیادہ کھانے سے پانی زیادہ پینے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس کے نتیجے میں نیند زیادہ آتی ہے پیشاب اور پاخانے کی حاجت زیادہ ہوتی ہے۔ آدمی کی عمر عزیز کا بیشتر حصہ انہی چیزوں میں برباد ہو جاتا ہے۔
➍ زیادہ کھانے سے حرص بڑھتی ہے۔ جسے پورا کرنے کے لئے آدمی زیادہ سے زیادہ وقت کھانے پینے کی چیزیں مہیا کرنے میں صرف کرتا ہے۔ سب سے پہلے تو اتنی آمدنی ہو کہ نفس کی حرص پوری ہو سکے پھر چیزیں خریدنا پھر لذیذ سے لذیذ کھانوں کی تیاری، غرض اس برے برتن کو بھرتے بھرتے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
➎ زیادہ کھانے سے پیٹ میں فضول مادے جمع ہو جاتے ہیں، فاسد بخارات پیدا ہو کر دماغ کو چڑھتے ہیں۔ میدے اور آنتوں میں زہریلے مادے اور خمیر پیدا ہو کر مختلف امراض کا باعث بنتے ہیں شوگر، بلڈ پریشر، السر، دل کی شریانوں میں رکاوٹ وغیرہ بسیار خوری کا ہی نتیجہ ہیں۔ آہستہ آہستہ پیٹ پھولنے لگتا ہے اور جسم موٹا ہو جاتا ہے جو خود ایک بیماری اور مصیبت ہے معنوی نقصان یہ ہوتا ہے کہ طبیعت سست ہو جاتی ہے دل کی روشنی بجھ جاتی ہے، ہمت پست ہو جاتی ہے اور موٹا ہونے کے باوجود کمزور ہو جاتا ہے۔
➏ مقوی اور لذیذ کھانے زیادہ سے زیادہ کھانے کے نتیجے میں شہوت بڑھتی ہے۔ حرص کی وجہ سے طبیعت پر پہلے ہی ضبط نہیں ہوتا۔ چنانچہ ہر وقت گناہ میں مبتلا ہونے کے خطرے سے دوچار رہتا ہے۔
➐ ان تمام بیماریوں کا علاج کم کھانا ہے۔ جس سے حرص کم ہوتی ہے۔ طبیعت ہوشیار، دماغ بے دار، دل روشن، جسم ہلکا پھلکا اور قوی ہو جاتا ہے اکثر بیماریاں قریب نہیں پھٹکتیں اللہ کی اطاعت کے لیے بہت سا وقت نکل آتا ہے۔ تہجد اور دوسرے اعمال آسانی سے کر سکتا ہے۔ گناہوں کی رغبت کم ہو جاتی ہے۔ نفس امارہ مایوس رہتا ہے۔
➑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسان کے لئے چند لقمے کافی قرار دیے اور وہ بھی چھوٹے کیونکہ ایک روایت میں لقيمات کا لفظ بھی آیا ہے۔ [صحيح ابن ماجه 2705]
اكلاتٌ یا لقيماتُ جمع مؤنث سالم ہے جو نکرہ ہے اور الف لام سے خالی ہے عام طور پر یہ جمع قلت کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کا اطلاق تین سے دس تک ہوتا ہے۔ اگر صبر ہو سکے تو یہ بہترین مقدار ہے جو آدمی کے لیے کافی ہے اگر نفس غالب ہو تو آخری حد یہ بیان فرمائی کہ ایک حصہ کھانے سے ایک پینے سے پر کرنے کے بعد تیسرا حصہ سانس کے لئے خالی رکھے اس سے زیادہ کھائے گا تو یہ اسراف ہے۔
➒ بعض صوفیاء نے بھوک کی فضیلت بیان کرتے کرتے بات یہاں تک پہنچا دی کہ اللہ کی نعمتوں کو ہی ترک کر دیا۔ کسی نے دودھ پینا چھوڑ دیا کسی نے لذیذ کھانا چھوڑ دیا۔ یہ طریقہ بھی اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا [7-الأعراف:31] ”کھاؤ پیو اور اسراف نہ کرو۔ “ یہ بھی اسراف ہے کہ اپنے نفس کو بھوک کے عذاب میں رکھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان لنفسك عليك حقا [صحيح بخاري]
یقیناً تمہارے نفس کا تم پر حق ہے اور یہ اسراف ہے کہ اس برے برتن کو بھرتا ہی رہے۔

اس تحریر کو اب تک 56 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply