کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

زمین پر ناجائز قبضہ کرنے والے کی سزا
سوال : کیا کسی کی جائیداد پر ناجائز قبضہ کر لینا جرم ہے؟ اور اس کی سزا کیا ہے؟
جواب : یہ عمل ناجائز ہے اور حرام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا :
«فان دماء کم و اموالکم و اعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یوم کم ھذا فی شھر کم ھذا فی بلد کم ھذا» [بخاري، كتاب العلم : باب قول النبى رب مبلغ اوعي من سامع67، مسلم1679مسند احمد5/ 40، ارواء الغليل5/ 278]
”بے شک تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے تمھارا یہ آج کا دن حرمت والا ہے۔ جو تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں واقع ہوا ہے۔“
امام نودی رحمہ اللہ فرما تے ہیں :
”اس ساری گفتگو سے مراد مالوں، جانوں اور عزتوں کی حرمت کی شدت کے ساتھ تاکید ہے اور ان کی پامالی سے ڈرانا ہے۔“ [شرح مسلم للنودي 11/ 141]
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لا یاخذن احدکم متاع اخیہ لا عبا و لا جادا و من اخذ عصا اخیہ فلیردھا» [ابوداؤد، كتاب الأدب : باب من ياخز الشئ على المزاح 5003، ترمذي 2160]
”تم میں سے کوئی شخص بھی ہر گز اپنے بھائی کا سامان نہ لے، نہ ہنسی و مذاق کرتے ہوئے اور نہ سنجیدگی کے ساتھ اور جس نے اپنے بھائی کی لاٹھی پکڑ لی اسے چاہیے کہ وہ واپس کر دے۔“
سیدنا ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«لا يحل لمسلم ان ياخذ عصا اخيه بغير طيب نفس منه قال ذلك لشدة ما حرم الله من مال المسلم على المسلم» [ابن حبان، كتاب الجنايات : باب ذكر الخبر الدال على ان۔۔۔۔۔۔۔الخ 5978، الموراد، مسند احمد 425/5، بيهقي 100/6، مجمع الزوائد 171/4، غاية المرام ص/262]
”مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کی لاٹھی اس کی رضا مندی کے بغیر لے۔“ (راوی حیدث نے) کہا: ”اللہ تعالیٰ نے مسلمان کا مال مسلمان پر حرام کرنے میں شدت اختیار کی ہے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا۔“
اس مفہوم کی کئی ایک صحیح روایات اور بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی شدت اور سختی کے ساتھ مسلمان کے مال کو مسلمان پر حرام قرار دیا ہے حتٰی کہ ایک لکڑی بھی مسلمان کی اجازت کے بغیر لینے سے منع کر دیا ہے۔ حضرات وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا، آپ کے پاس دو آدمی زمین کے جھگڑے میں آئے۔ ایک نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! اس نے میری زمین پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تیرے گواہ کہاں ہیں ؟“ اس نے کہا: ”میرے پاس گواہ نہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”پھر اس کی قسم ہو گی۔“ امراء القیس نے کہا: ”پھر تو قسم کھا کر یہ زمین لے جا ئے گا۔“آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تیرے لئے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔“ جب وہ قسم کھانے کے لئے کھڑا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس نے ظلم سے زمین چھین لی وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔“ [احمد 317/4 شرح معاني الأثار 248/4]
سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہون نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :
«من ظلم من الارض شيئا طوقه من سبع ارضين» [بخاري، كتاب المظالم : باب إثم من ظلم شيئا من الأرض 2452، مسلم، كتاب المسافاة : باب تحريم الظلم وغصب الأرض وغيره 1610]
‘جس نے زمین میں سے ذرا بھی ظلم کیا اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں کا طوق پہنا دے گا۔
ابوسلمہ بیان کرتے ہیں کہ ان کا لوگوں کے درمیان جھگڑا تھا انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : اے ابوسلمہ زمین کی جھگڑوں سے اجتناب کرو۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جس نے ایک بالشت برابر زمین ظلم سے حاصل کی تو زمین کا وہ حصہ سات زمینوں تک اس کے گلے طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔“ [بخاري، كتاب المظلم : باب اذا اذن له او احله ولم بين كم هو 2453]
سیدنا عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« من اخذ من الارض شيئا بغير حقه حسف به يوم القيامة الي سبع ارضين» [كتاب المظالم : باب اذا ان اذن له او احله 2454]
”جس شخص نے زمین میں سے کچھ بھی ناحق لیا تو اسے قیامت والے دن اس کے بدلے سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔“
یعلی بن مروہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے :
«ايما رجل ظلم شبرا من الارض شيئا بغير حقه خسف به يوم القيامة الي سبع ارضين ثم يطوقه يوم القيامه حتي يقضي بين الناس » [ابن حبان، 1167، الموراد، طبراني كبير 270/22 مسند احمد 4 / 173، مجمع الزوائد 4/ 170]
”جس شخص نے بھی زمین میں سے ایک بالشت برابر ظلم کیا اللہ تعالیٰ اسے سات زمینوں تک دھنسا دے گا پھر قیامت والے دن وہ اسے لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک طوق پہنائے گا۔
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
« اعظم الغلول عند الله يوم القيامة ذراع ارض يسرقه رجل فيطوقه من سبع ارضين » [فتح الباري 105/5]
”اللہ کے ہاں قیامت والے دن سب سے بڑی خیانت ایک ہاتھ زمین ہو گی جسے آدمی چوری کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ساتھ زمینوں تک طوق پہنائے گا۔“
قاضی شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”غصب کرنے والا گناہ گار ہے اور وہ چیز جو اس نے غصب کی ہے اسے واپس کرنا اس پر واجب ہے، کسی مسلمان کا مال اس کی رضا مندی کے بغیر حلال نہیں“ [الدرر البهية ص/88]
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”غاصب اس لیے گناہ گار ہے کہ اس نے اپنے غیر کا مال باطل طریقے سے کھایا ہے یا اس پر زیادتی کرتے ہوئے غالب ہو گیا ہے“ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ”اپنے مالوں کو آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ۔“ [الروضة الندية 149/2]
مذکورہ بالا صحیح دلائل سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی زمین، اس کے مال و متاع پر ناجائز تصرف و قبضہ کرنا حرام ہے اور کبیرہ گناہ ہے، اگر کوئی شخص کسی کی زمین پر قبضہ کر کے کاشتکاری کرے یا مکان تعمیر کرے تو اس سے زمین واپس لی جائے گی اور اسے صرف اس کے اخراجات ادا کر دیے جائیں گے۔

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔