تین دن سے زیادہ بول چال چھوڑنا حلال نہیں

تحریر : فضیلۃ الشیخ عبدالسلام بن محمد حفظ اللہ

وعن ابي ايوب رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذى يبدا بالسلام ‏‏‏‏ متفق عليه
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” کسی مسلمان کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اپنا منہ ادھر کر لے اور وہ ادھر کر لے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔“ [بخاري و مسلم]
تخریج : [بخاري 6077] ، [مسلم البروالصلة35] و غیرهما دیکھئے [تحفة الاشراف 3/98 ]

فوائد :
➊ تین راتوں سے زیادہ حلال نہ ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ تین راتوں سے زیادہ آپس میں بول چال چھوڑ دینا حرام ہے۔ کیونکہ بات چیت چھوڑ دی تو سارے حقوق ہی ضائع کر دیئے جو ایک دوسرے پر واجب تھے مثلاً سلام، قبول دعوت، عیادت، چھینک کا جواب وغیرہ۔
تین رات تک باہمی گفتگو چھوڑنا جائز ہے کیونکہ ناراضگی اور غصہ انسانی فطرت ہے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے اتنی رعایت دی گئی ہے تاکہ پہلے دن غصے میں ٹھہراؤ آ جائے دوسرے دن انسان کچھ سوچے تیسرے دن واپس لوٹ آئے عموماً تین دنوں میں غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ قطع تعلق کرے گا تو قطع حقوق لازم آئے گا۔
➌ قطع تعلق جو حرام ہے سلام کہنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا يكون لمسلم ان يهجر مسلما فوق ثلاثة فإذا لقيه سلم عليه ثلاث مرار كل ذلك لا يرد عليه فقد باء بإثمه [ ابوداود 4913 ]
”کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔ پس جب وہ اسے ملے تو اسے تین دفعہ سلام کہے اگر ( دوسرا آدمی ) ہر دفعہ اسے جواب نہیں دیتا تو وہ اس کے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔ “
امام احمد رحمہ الله نے فرمایا کہ اگر دوسرے بھائی کو اس کے بات نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو صرف سلام سے قطع تعلق ختم نہیں ہو گا بلکہ پہلے جیسے تعلقات بحال کرنے سے ختم ہو گا۔ مگر اوپر والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام وہ صورت ہے جس میں دونوں ملتے ہیں مگر منہ پھیر لیتے ہیں اور سلام تک نہیں کہتے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ اخوت دینی جس تعلق کا تقاضا کرتی ہے وہ پہلے تعلقات مکمل بحال کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
➍ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کسی کے ساتھ بول چال بند کر دینا جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کے جنگ تبوک میں پیچھے ره جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطع کلام مخلص ساتھیوں کے لئے ہے جن پر بات چیت چھوڑنے سے اثر پڑتا ہو اور وہ حق کی طرف پلٹ آنے والے ہوں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفار اور منافقین سے بات چیت ترک نہیں فرمائی کفار اور منافقین کے ساتھ قطع تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے نہیں۔ البتہ مخلص مسلمانوں سے ظاہری عتاب ترک کلام سے ہوتا ہے دل سے قطع تعلق نہیں ہوتا۔

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply