ورثا کے لیے وصیت

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

295- ایسی وصیت نافذ کرنے کا حکم جو لکھی ہوئی ہو نہ اس پر گواہ بنائے گئے ہوں۔
اگر ورثا اس کی تصدیق کر دیں تو پھر کوئی حرج نہیں لیکن اگر وہ اس کی تکذیب کریں تو پھر یہ ثابت نہیں ہو گی۔
لیکن کیا ان کے لیے اس کی تکذیب جائز ہے کہ نہیں؟ اگر انہیں علم ہو کہ اس کی خبر دینے والا قابل اعتماد ہے تو پھر انہیں اس کی تکذیب نہیں کرنی چاہیے لیکن ان پر تصدیق کرنا بھی لازمی نہیں۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب انہیں یقین ہو کہ وہ قابل اعتماد ہے تو پھر وصیت نافذ کرنی چاہیے لیکن اگر انہیں اس معاملے میں شک ہو، مثلاً یہ آدمی مرنے والے کا دوست ہو اور انہیں خدشہ ہو کہ اس شخص نے یہ بات محض اس کی محبت جتلانے کے لیے کہی ہو، تو ضروری نہیں کہ وہ تصدیق کریں۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 21/191]
——————

296- مال کے علاوہ کسی چیز کی وصیت کا حکم
وہ وصیت جس کا ذکر اس فرمان نبوی میں ہے کہ کسی مسلمان کے پاس کوئی چیز ہو اور وہ اس کے متعلق کوئی وصیت کرنا چاہتا ہو تو اس کو یہ حق حاصل نہیں کہ دو راتیں بھی ایسے گزارے کہ وہ اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو،، اس کا تعلق مال کے ساتھ ہے، البتہ جس وصیت کا تعلق لوگوں کو بھلائی کی نصیحت کرنے کے ساتھ ہو، اسے اشتہارات کی صورت میں یا کتابوں میں لکھ کر انسان کی زندگی میں بھی تقسیم کیا جائے اور اس کے مرنے کے بعد بھی۔
[ابن عثیمين: لقاء الباب المفتوح: 13/210]
——————

297- وصیت کے متعلق ایک مسئلہ
ایسے مال کی وصیت کا حکم جو انسان کی ملکیت نہ ہو بلکہ اس پر قرض ہو اور وہ اس سے بری الذمہ ہونے کے لیے اس کی وصیت کر دے۔
اول: تم پر لازم ہے کہ حقدار تک اس کا حق پہنچانے کے لیے اس کی تلاش کرو، اس سے اس کے متعلق پوچھو جس کو آپ کے خیال میں اس کی کوئی خبر ہو سکتی ہے، اگر آپ تلاش بسیار اور مکمل کوشش کے باوجود اس کا پتا لگانے میں ناکام ہو جاتے ہیں اور آپ کو کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے تو اس کے لیے ثواب کی نیت رکھتے ہوئے اس رقم کا صدقہ کر دیں لیکن جب وہ آ جائے اور اپنے حق کا مطالبہ کرے تو اس کا حق ادا کر دو اور جو تم نے صدقہ کیا تھا وہ تمھاری طرف سے ہو جائے گا، اگر تم اس کے کسی قریبی یا رشتے دار کو جانتے ہو جو اس کا حق اس تک پہنچا دے گا تو اس کا وہ وحق اس کے اس عزیز یا رشتے دار کو دے دو جو اس تک پہنچا دے، اگر تمہیں خبر ہو کہ وہ فوت ہو چکا ہے تو وہ مال اس کے ورثا کو دے دو، اگر یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں اور تم اس کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تو جس طرح ہم نے ذکر کیا ہے، اس کی طرف سے اس کے لیے ثواب کی نیت رکھتے ہوئے اسے صدقہ کر دو، اگر اس کے بعد وہ آ جائے تو پھر تم پر اس کا حق لوٹانا واجب ہے اور وہ صدقہ تمہارے لیے ہو جائے گا۔
[الفوزان: المنتقى: 107]
——————

298- وصیت نویسی
مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی وصیت عدالت میں لکھوا دے، یا کسی معروف اور قابل اعتماد خط کے حامل، دین کے طالب علم کے پاس لکھوا دے تاکہ وہ اسے شری قواعد کے مطابق جاری کرے، اور وصیت اپنے لڑکے لڑکیوں میں سے اس کے ہاتھ میں دے جس میں اچھائی، امانتداری اور قوت تنفیذ دیکھے۔
[اللجنة الدائمة: 17782]
——————

299- وصیت نافذ نہ کرنے کا حکم
ولی (ٹرسٹی) پر واجب ہے کہ وہ شری وصیت کو روبہ عمل لائے۔ اگر وصی (وہ شخص جس کو وصیت کی گئی ہے) وصیت نافذ نہ کرے یا اس کی تنفیذ میں کوئی خرابی کرے تو ولی پر بوجھ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«فَمَن بَدَّلَهُ بَعْدَ مَا سَمِعَهُ فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى الَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ» [البقرة: 181]
”پھر جو شخص اسے بدل دے، اس کے بعد کہ اسے سن چکا ہو تو اس کا گناہ انھی لوگوں پر ہے جو اسے بدلیں، یقیناً اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔“
[اللجنة الدائمة: 10954]
——————

300- وصیت میں طرف داری
مفسرین وصیت میں طرف داری کی مختلف انواع ذکر کرتے ہیں جو درج ذیل ہیں:
(1) وہ تیسرے حصے سے زیادہ کی وصیت کر جائے۔ ایسی صورت میں ورثا کو اجازت ہے کہ تیسرے حصے سے زیادہ وصیت نافذ نہ کریں۔
(2) بعض ورثا کو چھوڑ کر بعض کے لیے وصیت کر جائے۔ یہ وصیت باقی شرعی احکام کے پابند اور اچھے برے کی تمیز رکھنے والے ورثا کی رضا کے بغیر نافذ نہیں ہوگی۔
(3) بعض ورثا کے لیے بعض سے زیادہ وصیت کر جائے۔ اس کا بھی وہی حکم ہے جو اس سے پہلی صورت کا حکم ہے۔ اسی طرح اگر مرض الموت میں ایسی چیز وقف کر جائے جو تیسرے حصے سے زیادہ ہو، یا وہ بعض ورثا کو چھوڑ کر بعض کے حق میں ہو تو اس کا بھی علما کے صحیح قول کے مطابق یہی حکم ہے۔ صحیحین میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے جب اپنی بیماری میں اپنے سارے مال یا آدھے مال کی وصیت کرنا چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیسرے حصہ کی کر لو اور یہ بھی زیادہ ہے۔“ [صحيح مسلم 1629/10]
آخری مسائل کی دلیل یہ فرمان نبوی ہے:
”اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565 سنن الترمذي، رقم الحديث 2120]
[ابن باز: مجموع الفتاوى و المقالات: 79/20]
——————

301- مال تیسرے حصے کی وصت
سوال: جب اس نے وصیت کی اور مال کے تیسرے حصے کا اندازہ لگایا۔ وہ رقم وفات کے وقت اس کے مال کے تیسرے حصے سے بڑھ گئی، ایسی حالت میں وفات کے وقت جو تیسرا حصہ بنتا تھا اس کا اعتبار کیا جائے گا؟
جواب: اگر حقیقت حال وہی ہے جس کا سوال میں ذکر ہوا ہے کہ جس نے جس دن وصیت کی تھی، اس کی وفات کے وقت اس دن کے اندازے سے تیسرا حصہ زیادہ ہو گیا تو اس میں اس کی وفات کے دن اس کے مال کے تیسرے حصے کا اعتبار کیا جائے گا نہ کہ اس دن کے اندازے کے مطابق جس دن اس نے تیسرے حصے کی وصیت کی تھی، کیونکہ وصیت، وصیت کرنے والے کی وفات کے بعد واجب تنفیذ ہوتی ہے، اس سے پہلے نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 3695]
——————

302- سارے مال کی وصیت
مناسب یہ ہے کہ آپ اپنے مال کے تیسرے حصے یا اس سے کم کی وصیت کریں، پھر اسے کسی مناسب پیداواری زمین کے ذریعے سے زیر استعمال لائیں اور اس کی آمدن نیکی اور اچھائی کے کاموں میں صرف کریں۔ مثال کے طور پر مساجد تعمیر کروائیں، غریب رشتے داروں اور دیگر ناداروں پر صدقہ وغیرہ کریں، جب اولاد میں سے کسی کا سلسلہ نسل چل نکلے اور ان میں سے کسی کو ضرورت ہو تو وہ بھی بقدر ضرورت اس میں داخل ہو سکتے ہیں۔ تیسرے حصے کے بعد باقی مال ورثا کا ہوگا، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو اس کی وصیت کی۔
[اللجنة الدائمة: 7742]
——————

303- ورثا کے لیے وصیت
ورثا کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”یقیناً اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565 سنن الترمذي، رقم الحديث 2120]
[اللجنة الدائمة: 10799]
——————

304- اسلام میں وارث کے لیے وصیت کی ممانعت کی حکمت
اسلام نے وارث کے لیے وصیت کرنے سے منع کیا ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وراثت کی حدود متعین کی ہیں۔ ارشاد ہے:
«تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎ ﴿١٣﴾ ‏ وَمَن يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ» [النساء: 14,13]
”یہ اللہ کی حد میں ہیں اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے وہ اسے جنتوں میں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہیں، ان میں ہمیشہ رہنے والے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے تجاوز کرے وہ اسے آگ میں داخل کرے گا، ہمیشہ اس میں رہنے والا ہے اور اس کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔“
اگر کسی انسان کی ایک بیٹی یا حقیقی بہن ہو تو بیٹی کو صاحب فرض (متعین حصے کی مالک) ہونے کی بنا پر نصف مال ملے گا اور بہن کو عصبہ ہونے کی بنا پر باقی ماندہ۔ اگر ایسی صورت حال میں وہ شخص اپنی بیٹی کے لیے ایک تہائی حصے کی وصیت کر جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوگا کہ بیٹی دو تہائی حصے لے لے گی اور بہن صرف تہائی حصہ، یہ اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز ہے۔
اسی طرح اگر اس کے دو بیٹے ہوں تو مال ان دونوں کے درمیان آدھا آدھا تقسیم ہو گا۔ اگر وہ ایک کے لیے ایک تہائی کی وصیت کر جاتا ہے تو مال ان کے درمیان تین تہائیوں میں تقسیم ہو گا (یعنی کل مال کے تین حصے ہوں گے جن میں دو حصے وصیت والا لے جائے گا اور ایک حصہ دوسرا) اور اس میں حدود اللہ سے تجاوز ہے، اس لیے یہ حرام ہے، نیز اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو پھر وراثت میں حصوں کی تعیین بلا فائدہ ہوتی، لوگ جس طرح چاہتے کھلواڑ کرتے، ہر کوئی جس کے لیے چاہتا وصیت کر جاتا اور ترکے سے اس کا حصہ بڑھ جاتا اور جسے چاہتا محروم کر دیتا اور اس کا حصہ وراثت سے کم ہو جاتا۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 1/249]
——————

305- فوت شدہ بیٹے کے بیٹوں (یتیم پتوں) کے لیے وصیت
تمہارے لیے تمہارے فوت شدہ بیٹے کی اولاد کے لیے تیسرے حصے کی یا اس سے کم وصیت کرنا جائز ہے، کیونکہ وہ تمہارے وارث نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 18918]
——————

306- وراثت میں بعض بیٹوں کو محروم رکھنے کی وصیت
یہ وصیت جائز نہیں کیونکہ یہ شریعت اور عدل کی روح کے خلاف ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خصوصاً اولاد کے درمیان قائم کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یقیناً اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565 سنن الترمذي، رقم الحديث 2120]
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام تحفے میں دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے ہر بیٹے کو اس جیسا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو واپس لے لو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2586 صحيح مسلم 1622/9]
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں:
”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2587]
تو میرے والد نے اس صدقے سے رجوع کر لیا۔
اگر کوئی ایسی شرعی دلیل ہو جو ان دونوں کے کفر کا ثبوت مہیا کرے جیسے تمھاری وفات کے وقت ان کا تارک نماز ہوتا تو پھر وراثت میں ان کا کوئی حصہ نہیں چاہے تم وصیت نہ بھی کرو کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”مسلمان کافر کا وارث بنتا ہے نہ کافر مسلمان ہی کا۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 6764 صحيح مسلم 1614/1]
[اللجنة الدائمة: 1581]
——————

307- رضا کارانہ طور پر اپنی نعش پوسٹ مارٹم کے لیے دینے کی وصیت کرنا
اس آدمی کے لیے یہ وصیت کرنا جائز نہیں کہ مرنے کے بعد اس کی نعش پوسٹ مارٹم کے لیے کسی سائنسی طبی ادارے یا یونیورسٹی کو دے دی جائے۔
[اللجنة الدائمة: 9421]
——————

308- یتیم کی کفالت کرنے کی وصیت کرنا
تمہارے لیے تمہارے بعد یتیم کی کفالت کی وصیت کرنا جائز ہے جو ایک تہائی مال سے ہو۔
[اللجنة الدائمة: 14224]
——————

309- لڑکی کی اس کے چچا زاد کے ساتھ شادی کرنے کی وصیت کرنا
یہ مذکورہ وصیت نافذ کرنا لازمی نہیں، کیونکہ آپ کا فرمان ہے:
”کنواری کا نکاح اس کی اجازت لیے بغیر نہ کیا جائے۔“
اور دوسرے الفاظ یہ ہیں:
”کنواری سے اس کا والد اجازت لے، اور اس کی اجازت اس کی خاموشی میں ہے۔“
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 102/20]
——————

310- کسی انسان کا مرنے کے بعد اپنی طرف سے قرآن خوانی کروانے کی وصیت کرنا
میت کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس کی طرف سے نیت کر کے قرآن خوانی کے لیے لوگوں کو اجرت پر منگوانا بدعت ہے، لہٰذا یہ جائز ہے نہ درست، کیونکہ فرمان نبوی ہے:
”جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا دین نہیں تو وہ مردود ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 60]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”جس نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسا کام پیدا کیا جو اس میں نہیں تو وہ مردود ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2697 صحيح مسلم 1718/17]
اس میت نے قاری کو اجرت کے طور پر دینے کی جو وصیت کی ہے، اسے اس کی طرف سے نیکی کے کاموں میں صرف کر دیا جائے، جس کی اولاد فقیر ہو ان پر ان کی ضرورت کے مطابق خرچ کر دیا جائے، اسی طرح جو قرآن کریم کے طلبا اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے بچے ہیں، ان میں جو ضرورت مند ہیں، ان پر خرچ کر دیا جائے کیونکہ وہ اس مالی معاونت کے مستحق ہیں، اسی طرح باقی اچھائی کے کام ہیں۔
[اللجنة الدائمة: 1207]
——————

311- مرنے کے بعد کھانے کی محفلیں سجانے کی وصیت کا حکم
مرنے کے بعد کھانے کی محفلیں سجانے کی وصیت کرنا بدعت ہے اور جاہلیت کا کام، اسی طرح میت کے گھر والوں کا ایسی محافل قائم کرنا بھی شریت کی رو سے ناپسندیدہ ہے، خواہ مرنے والا وصیت کرے، کیونکہ حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
”ہم میت کے گھر اکٹھ کرنا اور دفن کرنے کے بعد کھانا بنانا نوحہ شمار کرتے تھے۔“ [سنن ابن ماجه، رقم الحديث 1612]
نیز یہ اہل میت کے لیے کھانا پکا کر ان کی دلداری اور معاونت کے بھی خلاف ہے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے، کیونکہ وہ اس پریشانی کی وجہ سے مشغول ہوتے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”آل جعفر کے لیے کھانا بناؤ، کیونکہ ان پر جو مصیبت اتری ہے، اس کی وجہ سے وہ مشغول ہیں۔“
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 98/20]
——————

312- کسی مخصوص جگہ دفن کرنے کی وصیت
سب سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ اس نے وہ جگہ کیوں منتخب کی ہے؟ ممکن ہے اس نے کسی جھوٹے مزار یا ایسے مزار کے پہلو میں دفن ہونا منتخب کیا ہو جہاں شرک ہوتا ہے، یا اس جیسا کوئی حرام سبب ہو تو تب اس کی وصیت نافذ کرنا جائز نہیں، اگر وہ مسلمان ہو تو اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے لیکن اگر اس نے اس مقصد کے لیے نہیں بلکہ کسی دوسری غرض سے یہ وصیت کی ہے کہ اسے اس شہر یا علاقے میں منتقل کر دیا جائے، جہاں وہ رہتا رہا ہے تو ایسی وصیت پر عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں، اگر اس میں مال کا ضیاع نہ ہو۔ اگر اس میں مال کا ضیاع ہو اور اس کو نقل کرنے پر بہت زیادہ مال خرچ ہوتا ہو تو تب اس وصیت پر عمل نہ کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی زمین، اگر مسلمانوں کی ہے، تو ایک ہی ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 13/249]
——————

313- بیوی کو وراثت سے محروم کرنا
سوال: ایک آدمی نے وصیت لکھی: جب میں فوت ہو جاؤں تو جو ترکہ میں چھوڑوں وہ میرے حقیقی بھائیوں کا ہو گا اور میری بیوی کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔
جواب: یہ حرام کام ہے کیونکہ اس میں کچھ ورثا کے لیے وصیت ہے اور کچھ کو محروم رکھا گیا ہے اور یہ کام اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز اور چیرہ دستی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بیوی کا بھی حصہ رکھا ہے، اگر اس کے خاوند کی اولاد ہو تو اس کا آٹھواں حصہ ہوگا اور اگر اس کی اولاد نہ ہو تو پھر اس کا چوتھا حصہ ہو گا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”یقیناً اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دیا ہے، لہٰذا وارث کے لیے وصیت نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565 سنن الترمذي، رقم الحديث 2120]
یہ ظالمانہ وصیت ہے اور وصیت کرنے والا گنہگار ہے، اگر وہ زندہ ہے تو اسے پھاڑ د ے اور اس کے ورثا پر لازم ہے کہ اس کا مال اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ ضوابط کے مطابق تقسیم کریں، بیوی کو اس کا مکمل حصہ دیں اور ان کو بھی ان کا پور ا حصہ دیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 14/249]
——————

314- اعضاء بدن عطیہ کرنے کی وصیت
ہمارے خیال میں یہ موت سے پہلے جائز ہے نہ مرنے کے بعد ہی، چاہے مرنے والا ان کی وصیت ہی کیوں کر جائے اور کہے: جب میں مر جاؤں تو میری آنکھوں کا شفاف حصہ (کارینا) یا میرا گردہ یا جگر وغیرہ کسی کو دے دینا۔
ایسی وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ حرام کام کی وصیت ہے اور حرام کام کی وصیت نافذ نہیں کی جاتی۔ علماء کرام نے اس کا ذکر کیا ہے، دیکھیں فقہ حنبلی کی کتاب ”الا قناع“ کتاب الجنائز، فصل: میت کو غسل دینا۔ وہاں اس کی تفصیل آپ کو مل جائے گی۔
علماء کرام نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ میت کے اعضاء میں سے کوئی چیز بھی لینا جائز نہیں، چاہے اس نے اس کی وصیت ہی کیوں نہ کی ہو۔ انہوں نے اس حدیث مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلیل لی ہے کہ ”کسی میت کی کوئی ہڈی توڑنا اس کو زندہ حالت میں توڑنے کے مانند ہی ہے۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3607 سنن ابن ماجه، رقم الحديث 1616]
یہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے؟ آپ اپنی ذات کے متعلق آزاد ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا» [النساء: 129]
”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بےحد مہربان ہے۔“
جان کو قتل کرنے کا یہ مفہوم نہیں کہ آپ چھری لے کر اپنے نفس کو ذبح کر دیں بلکہ ہر وہ کام جو جان کو نقصان پہنچانے کا سبب ہو وہ قتل نفس میں شامل ہے۔
بطور دلیل یہ حدیث نبوی بھی پیش خدمت ہے:
حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی جنگی مہم میں بھیجا۔ ایک رات آپ جنبی (ناپاک) ہو گئے، وہ ایک خنک رات تھی، انہوں نے تییم کیا اور اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی۔ جب وہ لوٹ کر بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے تو آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
کیا تم نے اپنے ساتھیوں کو جنابت میں نماز پڑھا دی؟
وہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! مجھے یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان یاد آیا:
«وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا» [النساء: 29]
”اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو، بے شک اللہ تم پر ہمیشہ سے بے حد مہربان ہے۔“
رات بہت زیادہ سرد تھی لہٰذا میں نے تییم کیا اور نماز پڑھا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 334]
اقرار کرتے ہوئے یا انکار؟ اقرار کرتے ہوئے، کیونکہ اگر انکار کرتے تو تنبیہ فرما دیتے۔
لہٰذا میں کہتا ہوں: زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی اعضا منتقل کرنا حرام ہے۔
[ابن عثيمين: لقاء الباب المفتوح: 20/173]
——————

315- ایک عورت نے وصیت کی کہ اس کی طرف سے نماز پڑھی جائے اور روزے رکھے جائیں
جہاں تک میت کی طرف سے نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کی وصیت کرنے کا تعلق ہے تو اس پر عمل نہ کیا جائے کیونکہ روزہ اور نماز بدنی اعمال ہیں جن میں نیابت نہیں ہوتی لیکن اگر اس پر نذر کے روزے ہوں تو پھر انہیں اس کی طرف سے رکھا جائے کیونکہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
”جو اس حالت میں مر جائے کہ اس کے ذمے نذر کا روزہ ہو تو اس کا ولی اس کی طرف سے اسے رکھے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 1952 صحيح مسلم 1147/153]
لہٰذا نذر کا روزہ میت کی طرف سے رکھا جائے اور اس کا ولی اسے اس کی طرف سے رکھے لیکن جو نماز اور روزہ اصل شریعت کی وجہ سے لاگو ہوتا ہے اس میں نیابت نہیں ہوتی کیونکہ یہ بدنی عمل ہے اور انسان سے مطلو ب ہے کہ وہ خود اسے ادا کرے۔
[الفوزان: المنتقى: 105]
——————

316- بیٹے کے ہوتے ہوئے (یتیم) پوتے کے لیے وصیت کرنا
سوال: میرا ایک چچا تھا اور اس کا ایک بیٹا تھا، میرا یہ چچا اپنے والد۔ میرے دادا سے پہلے فوت ہو گیا۔ میرے دادا نے اپنی وفات سے پہلے اپنے دوسرے بیٹے کے بیٹے۔ میرے چچا زاد کے لیے اپنے مال کے تیسرے حصے کی وصیت کر دی حالانکہ میرا والد موجود تھا۔
کیا اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہے کہ نہیں اور اگر اس پر عمل نہ کیا جائے تو کیا میرا یہ پچا زاد میرے باپ کے ساتھ میرے دادا کے چھوڑے ہوئے مال سے وارث ہوگا؟
جواب: وصیت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے:
(1) وہ ایک تہائی مال کے برابر یا اس سے کم ہو۔ اگر تیسرے حصے سے زیادہ ہو تو درست نہیں ہو گی البتہ یہ کہ ورثا اس کے مرنے کے بعد اس کی اجازت دے دیں۔
(2) وہ وارث کے لیے نہ ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے، لہٰذا کسی وارث کے لیے وصیت نہیں۔“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565 سنن الترمذي، رقم الحديث 2120]
اور علما کا اس پر اجماع اور اتفاق ہے۔
تمھارا یہ چچا زاد بھائی جس کا تم نے ذکر کیا ہے وہ چونکہ اپنے چچا (تمہارے باپ) کی وجہ سے محبوب (وراثت سے محروم) ہے لہٰذا اس کے لیے جو وصیت ہے وہ غیر وارث کے لیے وصیت ہے اور یہ ایک تہائی یا اس سے کم کی حدود میں جائز ہے۔
[الفوزان: المنتقى: 106]
——————

317- اگر وصیت ترکہ تقسیم ہونے کے بعد ملے؟
سوال: مرنے والے نے اپنے مال کا تیسرا حصہ وقف کر دینے کی وصیت کی تھی، وہ وصیت کم ہوگئی اور ترکہ تقسیم ہو گیا۔ ایک عرصے کے بعد وہ دوبارہ مل گئی؟
جواب: اس صورت کا حکم یہ ہے کہ ہر وارث کے حصے سے تیسرا حصہ لیا جائے، پھر اس وصیت کے مطابق اس وقف کو عمل میں لایا جائے۔ یہ اس صورت میں ہے جب اس نے اپنے مال کا ایک تہائی حصہ وقف کرنے کی وصیت کی ہو یا یہ وصیت کی ہو کہ اس کے مال کا تیسرا حصہ فقرا وغیرہ پر صرف کیا جائے۔
اگر وہ وقف، حالت صحت میں کسی حاضر اور موجود چیز کا ہو، یعنی وقف ناجز ہو تو پھر اس مکمل وقف پر عمل کیا جائے گا، مثال کے طور پر اگر وہ کوئی زمین ہو تو ورثا اس سے اپنے ہاتھ اٹھا لیں کیونکہ اس کا وقف ہونا ثابت ہو چکا ہے، اسی طرح اس نے کوئی زمین مسجد وغیرہ بنانے کے لیے وقف کی ہو تو وہ زمین ورثا سے چھین کر اسی کام کے لیے استعمال کی جائے جس کے لیے وقف کرنے والے نے وقف کی تھی، لہٰذا وصیت اور وقف ناجز (موجود وقف) کے درمیان فرق سمجھنا نہایت ضروری ہے۔ وصیت وہ ہوتی ہے جو موت کے بعد ثابت ہو۔
مثلاً اگر کوئی شخص اپنا گھر وقف کرنے کی وصیت کرتا ہے تو یہ وصیت اس کی موت کے بعد رو بہ عمل ہو گی، ایک تہائی یا اس سے کم مال کی ہوگی، کسی وارث کے لیے نہیں ہو گی اور وصیت کرنے والے کو اسے منسوخ کرنے، واپس کرنے اور کم یا زیادہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے لیکن موت کے بعد صرف تیسرے حصے کے برابر یا اس سے کم نافذ کی جائے گی لیکن جو وقف ناجز (موجود) ہوتا ہے وہ فورا نافذ ہو جاتا ہے، وقف کرنے والا اس میں تصرف کرنے کا مالک نہیں ہوتا، نہ وہ اسے واپس ہی لے سکتا ہے، خواہ کل کا کل مال ہی اس میں صرف کیوں نہ ہو جائے لیکن اگر وہ یہ کام مرض الموت میں کرے تو پھر ایک تہائی سے زیادہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا، یعنی کل ترکے کے ایک تہائی کے برابر۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 23/249]
——————

318- باپ وصیت کیے بغیر فوت ہو گیا
اگر حقیقت حال ایسے ہی ہے تب تیسرا حصہ نکالنا ضروری نہیں۔ اگر ورثا میں معاملہ فہم اور سمجھدار افراد ترکے سے کوئی چیز رضا کارانہ طور پر نکال دیں جو میت کے لیے صدقہ ہو تو یہ بہتر ہے۔
[اللجنة الدائمة: 6541]
——————

اس تحریر کو اب تک 37 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply