قریب المرگ کے سرہانے قرآن پاک رکھنا کیسا ہے؟

ماہنامہ السنہ جہلم

جواب: بدعت ہے ۔ بے اصل عمل ہے ، اسلاف امت اس سے ناواقف تھے ۔
رمضان المبارک میں تکمیل قرآن کے موقع پر لائٹیں لگانا کیسا ہے؟
جواب: رمضان المبارک میں تکمیل قرآن کریم کے موقع پر مسجد میں لائٹنگ کرنا بدعت اور منکر ہے ۔ خیر القرون میں اس کا وجود نہیں ملتا ، بعد کی ایجاد ہے ۔ وقت اور مال کا ضیاع ہے ، مجوسیوں سے مشابہت ہے ۔
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (508۔597ھ) لکھتے ہیں:
وقد صاروا يوقدون النيران الكثيرة للختمة فيجمعون بين السنة تضييع المال والتشبه بالمجوس والتسبب إلى اجتماع النساء والرجال بالليل للفساد ويريهم إبليس أن فى هذا إعزازا للإسلام وهذا تلبيس عظيم لأن إعزاز الشرع باستعمال المشروع .
”تکمیل قرآن کے موقع پر چکاچوند روشنیوں کا اہتمام کرتے ہیں اور مال کا ضیاع ، مجوس سے مشابہت اور رات میں مردوزن کے اختلاط جیسے کئی فسادات کا موجب بنتے ہیں ۔ شیطان یہ چکمہ دیتا ہے کہ یہ عمل اسلام کی سربلندی کا باعث ہے ۔ یہ شیطان کی ملمع سازی ہے ، کیوں کہ اسلام کی سربلندی مشروع ذرائع سے ہی ممکن ہے ۔“ [تلبيس إبليس ، ص 138]
علامہ ابن الحاج رحمہ اللہ (م: 737 ھ) لکھتے ہیں:
ولا يزاد فى ليلة الختم شيء زائد على ما فعل فى أول الشهر ، لأنه لم يكن من فعل من مضى بخلاف ما أحدثه بعض الناس اليوم من زيادة وقود القناديل الكثيرة الخارجة عن الحد المشروع لما فيها من إضاعة المال والسرف والخيلاء سيما إذا انضاف إلى ذالك ما يفعله بعضهم من وقود الشمع وما يركر فيه ، فإن كان فيه شيء من الفضة أو الذهب فاستعماله محرم لعدم الضرورة إليه وإن كان بغيرهما ، فهو إبضاعة مال وسرف وخيلاء .
”جو کچھ آغاز رمضان میں کیا جاتا ہے ، تکمیل قرآن کی رات اس سے زائد کچھ نہیں کیا جا سکتا ، کیوں کہ یہ اسلاف امت کی مخالفت ہے ۔ آج کل بعض لوگوں نے اس فانوس اور رو شنیوں کا انتظام شروع کر دیا ہے ، جس سے شرعی حدود پر زد آتی ہے ، کیوں کہ اس میں مال کا ضیاع ، اسراف اور فخر و تکبر ہے ۔ بعض لوگ خصوصی طور پر شمعیں وغیرہ روشن کرتے ہیں اور ان موم بتیوں میں طرح طرح کی چیزیں گاڑی جاتی ہیں ، یہ اور بھی قبیح عمل ہے ۔ اگر تو سونا چاندی گاڑیں ، تو یہ ممنوع اور حرام ہے اور اگر کوئی اور قیمتی چیز گاڑیں ، تو مال کے ضیاع ، اسراف و تنبذیر اور تفاخر کا باعث ہے ۔ “
[ المدخل: 302/2]
اس عمل میں مذاہب باطلہ کی پیروی ہے ، لہٰذا اس سے اجتناب ضروری ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔