وصیت، وقف اور صدقہ جاریہ سے متعلق فتاوی

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

320- وصیت میں اگر ورثا پر ظلم ہو تو اسے واپس لے لینا
ایسی وصیت سے رجوع کر لینا نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ تمہارے لیے بہتر بھی ہے اور ورثا کے حق میں زیادہ درست، جبکہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی دلیل بھی ثابت ہے۔
[اللجنة الدائمة: 13977]
——————

321- نگران وصیت (ٹرسٹی) کے لیے اجرت کی تعیین
اللہ تعالیٰ اپنی مقدس کتاب میں یتیموں کے نگرانوں کے متعلق فرماتے ہیں:
«وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ» [النساء: 36]
”اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور قرابت والے کے ساتھ اور یتیموں اور مسکینوں کے۔“
نیز فرمایا:
«وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْيَتَامَىٰ ۖ قُلْ إِصْلَاحٌ لَّهُمْ خَيْرٌ ۖ وَإِن تُخَالِطُوهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ» [البقرة: 220]
”اور وہ تجھ سے یتیموں کے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے ان کے لیے کچھ نہ کچھ سنوارتے رہنا بہتر ہے اور اگر تم انہیں ساتھ ملا لو تو تمہارے بھائی ہیں اور اللہ بگاڑنے والے کو سنوارنے والے سے جانتا ہے۔“
اگر نگران اپنے کاموں کی اجرت یا یتیموں کے مال سے نفع کی کوئی مخصوص شرح لینا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ شرعی حاکم کی طرف رجوع کرے جو شریعت کے مطابق اس کی تعیین کر دے۔ «والله اعلم»
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 103/20]
——————

وقف
322- انسان کا سارا مال اپنی اولاد کے لیے وقف کر دینا
انسان کا سارا مال اپنی اولاد کے لیے وقف کرنا جائز نہیں کیونکہ اس میں طرف داری کا پہلو ہے۔ اس وقف کی وجہ سے بیویوں اور دیگر تمام وارثوں کو شرعی وراثت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ ورثا میں سے جو اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا وہ وراثت (جو اس کا حق تھا) اور منفعت (جو اس کو وقف کی صورت میں حاصل ہوتی) دونوں ہی سے محروم ہو گیا ہے اور جو فائدہ اٹھاتا ہے (وقف کی وجہ سے) وہ شرعی وراثت سے محروم رہتا ہے اور وراثت سے جو حصہ اس کو ملنا تھا اس میں بھی وہ تصرف نہیں کر سکتا، لہٰذا یہ خلاف شرع کام ہے۔
شرعی طریقہ یہ ہے کہ انسان تیسرے حصے کو نیکی کے کاموں میں صرف کرنے کے لیے وصیت کر دے اور ضرورت مند ورثا کے لیے اس کی آمدنی وقف کر دے تاکہ وہ اس سے کھاتے رہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں۔
صحیحین میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مروی ہے کہ جب انہوں نے پوچھا کہ کیا میں اپنے سارے مال کی وصیت کر جاؤں؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے کہا: آدھے کی؟ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: تیسرے حصے کی اور تیسرا حصہ بھی زیادہ ہے۔ [صحيح البخاري، رقم الحديث 1295 صحيح مسلم 1628/5]
امام احمد، ابو داود اور ترمذی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلم نے فرمایا: ”وارث کے لیے وصیت نہیں“ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3565]
[اللجنة الدائمة: 577]
——————

323- اولاد میں سے کچھ کو چھوڑ کر کچھ کے لیے وقف کر دینا
اپنی اولاد میں سے کچھ کو چھوڑ کر کچھ کے لیے وقف کر دینا جائز نہیں کیونکہ اس وقف میں جانبداری ہے جو اس فرمان مصطفی کی وجہ سے حرام ہے کہ ”اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2587 صحيح مسلم 1622/18]
[اللجنة الدائمة: 4412]
——————

324- لڑکیوں کو چھوڑ کر لڑکوں کے لیے وقف کرنا
ہماری رائے کے مطابق وقف اولاد میں سے صرف ضرورت مند کے لیے ہونا چاہیے، چاہے وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں۔ یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہ سکتا ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ مالدار کر دے وہ فقیر کے ساتھ شریک نہ ہوں، اگر یہ ختم ہو جائیں تو اس کی آمدن فقرا پر صدقہ اور مساجد کی تعمیر وغیرہ کی طرح کے نیکی اور اچھائی کے کاموں میں صرف کر دی جائے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 17/20]
——————

325- ایک بیوی اپنے خاوند اور اہل خانہ کو وراثت سے محروم رکھنے کے لیے اپنا سارا مال وقف کرنا چاہتی ہے
اگر مقصد یہ ہے کہ تم اپنی زندگی میں وقف ناجز (نقد اور حاضر مال سے) کرنا چاہتی ہو اور وہ نیکی کے کاموں میں ہو اور ورثا کو محروم کرنے کی نیت سے نہ ہو تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن اگر موت کے بعد وقف کرنا مقصود ہو تو یہ تیسرے حصے یا اس سے کم کی حدود میں رہتے ہوئے غیر وارث کے لیے جائز ہے۔
[اللجنة الدائمة: 19553]
——————

326- میں اپنے فوت شدہ بھائی کے نام پر قرآن کریم کے چند نسخے کسی مسجد میں رکھنا چاہتا ہوں
اگر یہ تیرے مال سے ہے تو جائز ہے اور تجھے بھی تمہارے اس عمل میں اخلاص کی وجہ سے اجر ملے گا اور اگر یہ فوت شدہ کے ترکے سے ہو تو پھر ورثا کی رضا مندی سے جائز ہے اور تمہیں اور فوت شدہ کو تمہارے عمل اور اخلاص کے مطابق ثواب ملے گا۔
[اللجنة الدائمة: 9305]
——————

327- قرآن کریم پڑھنے کے لیے مسجد سے گھر لے جانا
جو قرآن کریم کے نسخے اور کتابیں کسی خاص جگہ پڑھنے اور فائدہ اٹھانے کے لیے وقف ہوں انہیں وہاں سے اٹھا کر لے کر جانا جائز نہیں، خواہ وہ حرم پاک ہو یا کوئی اور جگہ لیکن اگر وہ جگہ بے کار اور بے آباد ہو جائے تو پھر انہیں اس جیسی جگہ یا فائدہ اٹھانے کے لحاظ سے اس سے بہتر کسی جگہ منتقل کرنا جائز ہے لیکن جو چیز مطلقاً فائدہ اٹھانے کے لیے وقف ہو اس سے کسی دوسری جگہ بھی، جیسے گھر وغیرہ میں، نگران کی اجازت سے فائدہ اٹھانا درست ہے، پھر قرآن کریم کے نسخے بے شمار ہیں اور ان کی قیمت بھی انتہائی کم ہے، لہٰذا انہیں ان کی جگہ سے اٹھا کر لے کر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 3863]
——————

328- ضرورت کے لیے ایک مسجد سے دوسری مسجد میں قرآن کریم کے نسخے منتقل کرنے کا حکم
اگر کسی چھوٹی مسجد میں موجود قرآن کریم کے نسخوں کی ضرورت نہ ہو، تو پھر اس مسجد سے، جس میں ضرورت نہیں، ضرورت مند مسجد میں انہیں منتقل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ مقصود بہرحال نمازیوں کا ان سے فائدہ اٹھانا ہے، لیکن امام مسجد کی اجازت ضروری ہے کیونکہ مسجد کی ضرورت کے متعلق وہی بخوبی جانتا ہے۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 15/20]
——————

329- وقف کردہ کتابوں سے اگر فائدہ اٹھایا جانا ممکن نہ رہے تو انہیں فروخت کر نے کا حکم
اگر وقف کردہ کتاب کے اوراق پھٹ جانے یا بوسیدہ ہو جانے کی وجہ سے اس سے فائدہ اٹھانا اور اسے پڑھنا نا ممکن ہو جائے تو اسے بیچ کر اس کے بدلے نئی کتاب خرید لینے میں کوئی حرج نہیں۔
اگر کتاب باقی ہو اس سے فائدہ اٹھانا بھی ممکن ہو اور کوئی آدمی پہلے آدمی ہی کے لیے اجر کی نیت رکھتے ہوئے اسے بدل کر اس سے بہتر کتاب خرید کر دے دے تو پھر بھی کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس نے وقف کو اس سے بہتر میں تبدیل کر دیا ہے، لیکن اگر وہ پہلے وقف کو کالعدم قرار دے کر اپنے لیے اجر مخصوص کرنا چاہتا ہے تو یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں دوسرے پر زیادتی ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلى الدرب: 22/129]
——————

330- پرانی مسجد مسمار کر کے اس کی جگہ پبلک لائبریری قائم کرنا
کسی موجود مسجد کو، خواہ وہ قدیم ہی ہو محض اس غرض سے منہدم کرنا جائز نہیں کہ اس کی جگہ کوئی پبلک لائبریری قائم کر دی جائے، بلکہ اگر وہ مسجد گری ہوئی ہو تب بھی اس کی جگہ عوامی کتب خانہ قائم کرنا جائز نہیں۔ اگر وہ مسجد پرانی ہو تو اس کی مرمت کرنا اور اگر منہدم ہو گئی ہو تو پھر اس کی جگہ نئی مسجد بنانا ضروری ہے، اور اس کی ترمیم و اصلاح کے لیے اگر اس کا کوئی حصہ بیچنا بھی پڑے تو کوئی حرج نہیں۔
وقف شدہ چیز فروخت کی جا سکتی ہے، نہ ہبہ کی جا سکتی ہے اور نہ ورثے میں تقسیم ہی ہو سکتی ہے کیونکہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خیبر میں ملنے والا مال صدقہ کرنا چاہا تو آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”اس کی اصل اس طرح صدقہ کر دو کہ اسے فروخت کیا جائے، نہ ہبہ کیا جائے اور نہ وراثت ہی میں دیا جائے لیکن اس کا پھل خرچ کیا جائے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2746]
یہ ہر وقف کے متعلق عمومی بیان ہے، علما نے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا ہے جب اس کے فوائد کارآمد نہ رہیں، یا اسے ایسی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں اس کی زیادہ ضرورت ہو، اس سے زیادہ فائدہ اٹھایا جائے اور وہ جگہ اس کے لیے زیادہ مناسب ہو، تب اسے، اس کے فائدہ کو باقی رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کی خاطر بیچنا اور دوسری جگہ میں تبدیل کر دینا جائز ہے۔
بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر فاروق کو جب یہ خبر ملی کہ کوفہ میں بیت المال پر نقب زنی ہوئی ہے تو انہوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجا کہ کھجور فروشوں کے بازار میں جو مسجد ہے اسے منتقل کر دیں اور مسجد کے قبلے کی جگہ بیت المال بنا دیں کیونکہ مسجد میں تو کوئی نہ کوئی نمازی ہمیشہ رہتا ہے۔
یہ کام صحابہ کرام کی موجودگی میں ہوا اور اس میں کوئی اختلاف ظاہر نہیں ہوا، لہٰذا یہ اجماع ہے۔ مزید برآں اس کام کی وجہ سے، جب وقف کا مادی وجود اور اس کی شکل وصورت باقی رکھنی ناممکن ہو جائے تو معنوی طور پر تو وہ محفوظ ہو جاتا ہے، لیکن احتیاط کا تقاضا ہے کہ یہ بیع یا تبدیلی گزشتہ جواز کی صورت میں شرعی حاکم یا اس کے نائب کے ہاتھوں ہونی چاہیے تاکہ یہ وقف لوگوں کے ہاتھوں کھلونا بننے سے محفوظ رہے۔
[اللجنة الدائمة: 10483]
——————

331- مسجد کی تعمیر کے لیے وقف مال سے کچھ لے کر مساکین پر خرچ کر دینا
وقف جب کسی متعین اور مقرر چیز کا ہو، جیسے: مسجد وغیرہ، تو اسے اس دوسری جگہ صرف کرنا جائز نہیں سوائے اس کے کہ اس وقف شدہ مسجد کے فوائد ختم ہو جائیں، اس کے ارد گرد آبادی نہ ہونے کے سبب اس میں نماز نہ پڑھی جائے تو پھر اسے متعلقہ سرکاری محکمے کے ذریعے سے دوسری مسجد میں منتقل کر دیا جائے۔
[اللجنة الدائمة: 15920]
——————

332- مسجد کی تعمیر پر خرچ کرنے کے لیے مخصوص رقم کسی بنک میں حفاظت کی غرض سے رکھوانا
اس مصلحت کے پیش نظر جس کا ذکر ہوا، ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 15040]
——————

333- مسجد کے لیے وقف جگہ میں گھر یا دکانیں بنانا
سوال: اگر کوئی مرد یا عورت مسجد کے نام پر کوئی جگہ وقف کرے، کیا اس میں رہائش کے لیے گھر یا کرائے پر دینے کے لیے دکانیں وغیرہ بنانا جائز ہے کہ نہیں؟
جواب: جب کوئی انسان کوئی جگہ مسجد کے نام پر وقف کرتا ہے تو اس کے لیے وہاں امام، مؤذن یا خادم کی رہائش کے لیے مسجد کے تابع گھر تعمیر کرنا جائز ہے یا انہیں کرائے پر دے دیا جائے تاکہ ان کا کرایہ مسجد کی اصلاح و مرمت وغیرہ کے کام آ سکے، اسی طرح کرائے پر دینے کے لیے دکانیں بنانا بھی جائز ہے تاکہ ان کی آمدن سے مسجد کے اخراجات پورے کیے جا سکیں لیکن یہ احتیاط ضروری ہے کہ مسجد کی تعمیر میں جو مصلحت مقصود ہے اسے کوئی نقصان نہ پہنچے مثلاً نمازیوں کے لیے جگہ وغیرہ تنگ نہ ہو جائے۔
[اللجنة الدائمة: 3505]
——————

334- امام مسجد کے لیے مخصوص گھر کرائے پر دینا
امام مسجد کے لیے، امام کے لیے وقف گھر، کرائے پر دینا جائز ہے اور وہ اس کا کرایہ خود رکھ سکتا ہے، جب تک وہ منصب امامت پر فائز ہے۔
[اللجنة الدائمة: 2288]
——————

335- مسجد کے لیے وقف کردہ زمین پر سکول بنانا
مسجد کے لیے وقف کردہ زمین مسجد کے تابع ہوتی ہے لہٰذا اسے سکول میں تبدیل کرنا جائز نہیں کیونکہ اس کام کی وجہ سے وقف، وقف کرنے والے کے مقصد سے تبدیل ہو جاتا ہے لیکن اس جگہ کی وقفیت مسجد کے لیے باقی رکھتے ہوئے وہاں یا مسجد میں بچوں کو پڑھانا ممکن ہے۔
[اللجنة الدائمة: 18050]
——————

336- مسجد کے لیے وقف شدہ زمین پر جب مسجد بنانا نا ممکن ہو تو اسے بیچ کر مسجد بنانے کے لیے کوئی دوسری جگہ خریدنے کا جواز
جب میونسپل کمیٹی کسی زمین پر کوئی اسلامی مرکز قائم کرنے سے روک دے اور اس کی جگہ اس سے زیادہ کوئی متبادل زمین جمعیت کو دے دے تو دوسری جگہ خریدنے کے لیے اور وہاں مسجد اور تعلیم اور دینی سرگرمیوں کے لیے اسلامی مرکز کی تعمیر کے لیے پہلی زمین اور اس میں جو کچھ ہے، سب بیچنا جائز ہے۔
[اللجنة الدائمة: 12985]
——————

337- بیٹے کا اس مسجد کو منہدم کر دینا جسے اس کے والد نے بنایا تھا اور اسے اپنی رہائش کے لیے گھر میں تبدیل کر لینا
بیٹے کے لیے اس مسجد کو گرانا جائز نہیں جسے اس کے والد نے بنایا تھا، خصوصاًً جب اس مسجد کو لوگوں کے نماز پڑھنے کے لیے چھوڑ دیا اور وہ وہاں نماز پڑھتے ہوں کیونکہ اسے وقف سمجھا جائے گا اور وقف وراثت میں تقسیم نہیں ہوتا۔
[اللجنة الدائمة: 8366]
——————

338- ایک مسجد کا مال دوسری مسجد میں منتقل کر نے کا حکم
جب وہ پہلی مسجد جس کے لیے اس نے مال اکٹھا کیا تھا مکمل ہو چکی ہے اور اسے مال کی ضرورت نہیں رہی تو جو باقی مال بچ جائے اسے دوسری مساجد کی تعمیر میں صرف کیا جائے، نیز مسجد کے ساتھ جو اضافی چیزیں ہوتی ہیں جیسے لائبریری، طہارت خانے وغیرہ انہیں بھی بنایا جائے، جس طرح اہل علم نے کتاب الوقف میں اس کے متعلق صریح عبارت میں لکھا ہے۔
پھر یہ مسجد بھی اس مسجد کی جنس سے ہے جس کے لیے اس نے مال خیرات کیا ہے اور یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ مخیر حضرات اپنا زائد مال اللہ تعالیٰ کے کسی گھر کی تعمیر میں خرچ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اگر کوئی ضرورت مند مسجد نہ ہو تو یہ مال مسلمانوں کے لیے اور رفاہ عامہ میں بھی صرف ہو سکتا ہے، جیسے مدارس تعمیر کروانا، راستے بنوانا اور فقراء پر خرچ کرنا۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 14/20]
——————

339- والد کے صدقہ جاریہ کے لیے مسجد بنانا
سوال: جو کوئی اپنے فوت شدہ والد کے لیے مسجد تعمیر کرتا ہے اور کہتا ہے: اے میرے پروردگار ! یہ مسجد میرے فوت شدہ والد کے لیے صدقہ جاریہ ہو۔
جواب: ہاں، یہ اس کے لیے صدقہ جاریہ ہوگا، لیکن اس نے اسے نہیں بنایا بلکہ تم نے اسے بنایا ہے، جب تک اس مسجد میں لوگ نماز پڑھتے رہیں گے اور اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے تو تیرے باپ کو اس کا اجر ملتا رہے گا۔
لیکن میں تجھے اس سے بہتر عمل بتاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم اپنے والد کے لیے دعا کرو اور نیک اعمال اپنے لیے کرو، کیونکہ آنحضرت صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
”جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے تین اعمال کے سوا باقی اعمال منقطع ہو جاتے ہیں اور وہ یہ ہیں: صدقہ جاریہ، علم، جس سے فائدہ اٹھایا جائے، یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔“ [صحيح مسلم 1631/14]
یہاں صدقہ جاریہ سے مراد وہ صدقہ ہے جسے مرنے والا اپنی موت سے پہلے قائم کر جائے۔ اولاد کے متعلق آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا:
”یا اس کی نیک اولاد ہو جو اس کے لیے صدقہ کرے۔“
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے عمل کی نہیں دعا کی راہ سجھائی ہے۔ میں اس سوال کرنے والے بھائی کو یا جس نے سوال کیا ہے یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ میت کے لیے بہ کثرت دعا کرتا رہے اور نیک اعمال اپنے لیے کرے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 2/250]
——————

340- مسجد میں کم استعمال ہونے والی چٹائیوں وغیرہ کو نکالنے کا حکم
جب مسجد میں ان سے بہتر چٹائیاں آ جائیں تو انہیں نکالناجائز ہے، لیکن انہیں قطعی طور پر نکال دینا اور مسجد کو ننگے فرش ہی رکھنا درست نہیں کیونکہ پرانی چٹائیوں کا ہونا، نہ ہونے سے تو بہتر ہے، لیکن اگر اس لیے نکالا جائے کہ ان کے بدلے کوئی بہتر چیز بچھا دی جائے تو کوئی حرج نہیں، اس ضرورت کے پیش نظر جب انہیں نکالیں تو ضائع کرنے کے لیے نہیں بلکہ جو ضرورت مند ہو یا جو چھوٹی مسجد ہو وہاں دے دیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 22/250]
——————

341- میں نے قبرستان کے لیے زمین وقف کی، پھر مجھے اس کی ضرورت پیش آگئی
جو زمین تم نے وقف کی ہے اس کا ایک حصہ بھی واپس لینا جائز نہیں کیونکہ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل کر اس منفعت کیشی کی طرف منتقل ہو چکی ہے جس کے لیے تو نے اسے وقف کیا تھا۔ اگر وہاں دفن کرنے کے لیے اسے استعمال کیا جائے تو بہتر ہے، وگرنہ اسے بیچ کر اس کی قیمت سے اس کی جگہ کوئی دوسری زمین خرید کر اسے قبرستان بنا دیا جائے۔
یہ تصرف اس جگہ کے جج کی معرفت ہو جہاں زمین وقف کی گئی تھی، اللہ سے اجر کی امید رکھ، وہ تجھے اس کا بہتر عوض دے گا، جو تو نے خرچ کیا ہے۔
[اللجنة الدائمة: 1307]
——————

342- قبرستان کے لیے مخصوص جگہ پر مدارس کی تعمیر
قبرستان کو کلاس روم وغیرہ بنانے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، بلکہ قبرستان کی چار دیواری کی جائے اور کسی بھی قسم کے استعمال سے قبروں کی بے حرمتی نہ کی جائے کیونکہ جس طرح زندہ مسلمان کی حرمت ہے، اسی طرح فوت شدہ مسلمان کا بھی تقدس ہے، پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر بیٹھنے اور کسی بھی طرح ان کی بے حرمتی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3225]
لہٰذا مدرسہ ایسی جگہ منتقل کیا جائے جہاں قبریں نہ ہوں۔
[اللجنة الدائمة: 16624]
——————

343- گروی رکھا ہوا گھر وقف کرنا
وقف کی شرط ہے کہ وہ مالک کی خالص ملکیت ہو، اور کسی دوسرے کا اس میں یا اس پر کوئی حق نہ ہو، لہٰذا یہ گھر جب تک کسی شخص یا ادارے کے پاس گروی رکھا ہوا ہے اور رہن کی ادائیگی نہیں ہوتی تب تک اسے وقف کرنا جائز نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 17196]
——————

344- اپنے حصے کی رہن میں رکھی ہوئی زمین کو وقف کرنے کا وعدہ کرنا اور رہن واپس لینے کا ارادہ رکھنا
اگر حقیقت حال ایسے ہی ہے جیسے ذکر ہوا ہے تو پھر یہ وقف صحیح نہیں کیونکہ یہ گروی رکھا ہوا ہے، اور تم نے وقف کو عملا نافذ نہیں کیا بلکہ ان الفاظ میں وعدہ کیا ہے کہ ”میں اپنا حصہ وقف کر دوں گا۔“ اس طرح اگر تم رہن چھٹروانے کے بعد اسے وقف کر دیتے ہو یا کوئی بھی اس میں شریعت کے مطابق تصرف کرتے ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
[اللجنة الدائمة: 2880]
——————

345- رئیل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ فنڈ سے قرض لے کر تعمیر کی گئی عمارتوں کو وقف کرنا جو ابھی تک اس ادارے میں گروی ہیں
اس مسئلے میں علمائے کرام کے درمیان اختلاف ہے جو ایک دوسرے مسئلے پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا رہن قبضے میں لیے بغیر ہی لازم ہو جاتا ہے کہ نہیں؟ جس کا کہنا ہے کہ یہ قبضے میں لیے بغیر لازم نہیں ہوتا، اس کے قول کے مطابق وقف وغیرہ کی طرح تصرفات، جو ملکیت منتقل کر دیتے ہیں، درست ہیں کیونکہ رہن قبضے میں نہیں لیا گیا، اور جس کا یہ قول ہے کہ خواہ رہن میں رکھی گئی چیز قبضے میں نہ بھی لی گئی ہو تب بھی رہن لازم ہو جا تا ہے۔ اس کے مطابق وقف اور اس طرح کے دوسرے ملکیت منتقل کرنے والے تصرفات درست نہیں ہوتے، اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ جب تک بنک کے واجبات ادا نہ کر دیے جائیں تب تک انہیں وقف نہ کیا جائے تاکہ علما کے اختلاف سے بھی نکلنے کی راہ پیدا ہو جائے اور اس حدیث پر بھی عمل ہو جائے کہ مسلمان اپنی شرطوں کی پاسداری کرتے ہیں۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 5349]
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 25/20]
——————

346- ورثا کی اجازت کے بغیر ان کا مال وقف کر دینے کا حکم
یہ باطل کام ہے، کیونکہ میت کا مال اللہ تعالیٰ کی تقسیم کے مطابق ورثا کا حق ہے، جسے ان کی اجازت اور رضا مندی کے بغیر ان سے سلب کرنا جائز نہیں۔
فرمان نبوی ہے: ”کسی مسلمان آدمی کا مال اس کی خوش دلی کے بغیر حلال نہیں۔“ [مسند أحمد 113/5 صحيح الجامع، رقم الحديث 7662]
اور یہ وقف باطل اور نا جائز ہے کیونکہ یہ ظلم ہے اور ناجائز طریقے سے لوگوں کا مال کھانے کے زمرے میں داخل ہے۔
[اللجنة الدائمة: 20305]
——————

347- سائل پر مشتبہ ہو گیا ہے کہ اس کی زمین کے ساتھ وقف زمین کا کچھ حصہ بھی شامل ہو گیا ہے
تمہارے پڑوس میں جو وقف کی زمین ہے اس کے متعلق احتیاط سے کام لو، اور اگر اس زمین کے متعلق تمہیں کچھ شبہ ہے تو اسے وقف کے تابع چھوڑ دو اور اس میں اپنی کوئی چیز کاشت نہ کرو، حدیث شریف میں ہے کہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس میں تجھے شک ہے اسے چھوڑ کر وہ اپنا لو جس میں شک نہیں۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 2518 سنن النسائي، رقم الحديث 5711]
[اللجنة الدائمة: 11185]
——————

348- وقف زمین بیچنا اور خریدنا
وقف اراضی کے مصارف اور فوائد اگر ختم ہو جائیں اور کوئی ان سے فائدہ نہ اٹھاتا ہو تو پھر انہیں بیچ کر ان کی قیمت ایسی چیز میں صرف کی جائے جس سے فائدہ اٹھایا جا تا ہو۔
لیکن اگر ان کے مصالح اور فوائد باقی ہوں تو پھر انہیں بیچنا جائز نہیں اور وہ وقف ہی رہیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ پہلی صورت میں، جس میں انہیں بیچنا جائز ہے، اس مسئلے کے متعلقہ شرعی محکمے کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے تاکہ اوقاف لوگوں کے ہاتھوں کھلونا نہ بنیں، اور پھر ہر کوئی اس کا نگران، یہ دعوی کر کے کہ اس کے فوائد ختم ہو چکے ہیں، اسے اپنی خواہش کے مطابق بیچنا شروع کر دے۔
خلاصہ یہ ہے کہ وقف اراضی کے فوائد جب ختم ہو جائیں تو انہیں بیچنا جائز بلکہ واجب ہے تاکہ وقف سے فائدہ اٹھانا ممکن رہے، لیکن اگر اس کے فوائد ختم نہ ہوں تو پھر یہ سیاسی حالت پر باقی رہیں گی جس پر وہ ہیں۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 23/250]
——————

349- وقف کنویں سے پانی نکالنے کی اجرت لینے کا حکم
اگر تو اس شخص کو حکومت نے مقرر کیا ہے، یا وہ کسی ایسے شہر میں ہے جس کے رہنے والے اس کام میں اس پر راضی ہیں، یا پھر وہ کنواں بےکار پڑا تھا تو یہ آدمی آیا اور اس نے اسے درست کیا اور اس پر پانی نکالنے کے لیے پمپ وغیرہ لگایا اور ضرورت مندوں کو پانی نکال کر دینے لگا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ ایسا آدمی نیک اور اصلاح کرنے والا سمجھا جائے گا اور اگر وہ اس پر اپنے کام کے مطابق اجرت بھی لے لے تو کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر وہ ظالم ہو مثلاًً کوئی آدمی مفت پانی مہیا کرنا چاہتا ہو اور یہ اس سے روکے اور اپنی اجارہ داری قائم کر کے لوگوں سے مال بٹورنا شروع کر دے تو یہ نا جائز ہے اور حکومت اور اہل علاقہ کا فرض بنتا ہے کہ اسے روکیں۔ واللہ اعلم
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 19/20]
——————

350- وقف کی آمدنی پر زکاۃ
وقف کے مال میں کوئی زکاۃ نہیں۔
[ابن باز: مجموع الفتاوى والمقالات: 23/20]
——————

351- فتوی نمبر 351 فتوی نمبر 317 کا تکرار ہے
——————

352- وقف کرنے والے کی شرائط کے خلاف وقف کے مصارف تبدیل کر دینا
وقف کرنے والے کی شرائط کے ساتھ چلنا اور وقف کو اس کے مخصوص کام کے لیے صرف کرنا ضروری ہے اور اسے اس کے علاوہ کسی دوسرے کام میں صرف کرنا جائز نہیں، البتہ یہ کہ اس کے فوائد ختم ہو جائیں، ایسی صورت میں عدالت کی طرف رجوع کیا جائے۔
[اللجنة الدائمة: 16631]
——————

353- زمین وقف کرنے کی سوچ سے رجوع کرنے کا حکم
جب تک اس نے زمین عملا وقف نہیں کی اور یہ محض اس کی سوچ تک محدود تھا اور وہ اسے وقف کرنے میں متردد تھا، پھر اس نے وقف کا خیال چھوڑ کر کوئی دوسرا خیال اپنا لیا تو اس میں کوئی رکاوٹ نہیں، لہٰذا حسب مصلحت وقف کا خیال ترک کر کے کوئی دوسرا خیال اپنا لینا درست ہے اور اپنے محتاج ورثا کے لیے مال چھوڑ جانا وقف کرنے سے بہتر ہے۔ واللہ اعلم
[الفوزان: المنتقى: 97]
——————

اس تحریر کو اب تک 47 بار پڑھا جا چکا ہے۔