شہید کا جنازہ اور غائبانہ نمازِ جنازہ کی شرعی حیثیت

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

شہید کی نماز جنازہ کا حکم
سوال : کیا شہید کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے؟ دلائل کی رو سے صراحت فرما ممنون فرمائیں۔
جواب : شہید کی نمازِ جنازہ پڑھنا ضروری نہیں البتہ اگر کوئی پڑھ لے تو جائز ہے۔ جو لوگ شہیدِ معرکہ کے جنازے کو ناجائز قرار دیتے ہیں ان کے پیشِ نظر یہ حدیث ہے :
«عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , قال:” كان النبى صلى الله عليه وسلم يجمع بين الرجلين من قتلى احد فى ثوب واحد، ثم يقول: ايهم اكثر اخذا للقرآن؟، فإذا اشير له إلى احدهما قدمه فى اللحد , وقال: انا شهيد على هؤلاء يوم القيامة، وامر بدفنهم فى دمائهم، ولم يغسلوا، ولم يصل عليهم» [بخاري، كتاب الجنائز : باب الصلاة على الشهيد 1343]
”جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں جمع کرتے پھر فرماتے : ”ان میں سے کسے زیادہ قرآن یاد تھا ؟“ جب ان میں سے کسی ایک کی طرف اشارہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لحد میں آگے کر دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں ان پر قیامت کے دن گواہ ہوں گا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے خونوں ہی میں انہیں دفن کر دینے کا حکم دیا، نہ تو انہیں غسل دیا گیا اور نہ ان کا جنازہ پڑھا گیا۔“
ان علماء کا کہنا ہے کہ صحیح بخاری کی یہ حدیث اس بات پر صریح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے شہداء کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ یہ حضرات ان احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے موقع پر شہداء کی نمازِ جنازہ ادا کی۔ کیونکہ وہ صحیح بخاری کی حدیث کے خلاف ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ یہ احادیث تین مختلف اوقات سے تعلق رکھتی ہیں، جن میں سے دو موقعوں کی احادیث کے صحیح ہونے میں کوئی اختلاف نہیں اور اگر کسی نے اختلاف کیا ہے تو محض وہم کی بنا پر کیا ہے۔

➊ پہلا موقع غزوہ اُحد کے علاوہ دوسرے موقع پر شہید ہونے والوں کی نمازِ جنازہ ہے۔ شداد بن الہاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
”ایک دیہاتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور آپ کا تابع ہوگیا، پھر کہنے لگا : ”میں آپ کے ساتھ ہجرت کرتا ہوں۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے بعض صحابہ کو تاکید فرمائی۔ جب ایک جنگ ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ غنیمت حاصل ہوئی۔ آپ نے اسے تقسیم کر دیا، اس کا حصہ بھی نکالا اور اس کا حصہ اس کے ساتھیوں کو دے دیا۔ وہ ساتھیوں کی سواریاں چرایا کرتا تھا۔ جب آیا تو انہوں نے اسے وہ حصہ دے دیا۔ کہنے لگا : ”یہ کیا ہے ؟“ انہوں نے کہا: ”تمہارا حصہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے نکالا ہے۔“ اس نے وہ لے لیا اور لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا، کہنے لگا : ”یہ کیا ہے ؟“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں نے یہ تمہارا حصہ نکالا ہے۔“ کہنے لگا : ”میں اس کے لیے آپ کے پیچھے نہیں چلا بلکہ میں تو اس (مقصد) کے لیے آپ کے پیچھے چلا ہوں کہ مجھے (حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: کہ) یہاں تیر لگے اور میں فوت ہو کر جنت میں داخل ہو جاؤں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اگر تم اللہ سے سچ کہو گے تو اللہ بھی تم سے سچ کا سلوک کرے گا۔“ تھوڑی دیر گزری تھی کہ وہ دشمن سے لڑنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر اسے اٹھا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا اور اسے وہیں تیر لگا تھا جہاں اس نے اشارہ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا یہ وہی ہے ؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: ”ہاں !“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
«صدق الله فصدقه ثم كفنه النبى صلى الله عليه وسلم فى جبة النبى صلى الله عليه وسلم، ثم قدمه فصلى عليه فكان فيما ظهر من صلاته:” اللهم هذا عبدك خرج مهاجرا فى سبيلك فقتل شهيدا انا شهيد على ذلك» [نسائي، كتاب الجنائز : باب الصلاة على الشهداء 1955]
”اس نے اللہ تعالیٰ سے سچ کہا: تو اللہ تعالیٰ نے اس سے سچ کا سلوک کیا۔“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خود اپنے جبے میں کفن دیا، اسے آگے رکھ کر اس پر جنازہ پڑھی۔ جنازے میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو الفاظ ظاہر ہوئے ان میں سے چند یہ تھے :
”اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے، ہجرت کر کے تیری راہ میں نکلا پس شہید ہو کر قتل ہوا میں اس بات پر گواہ ہوں۔“
اس صحیح اور صریح حدیث سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہیدِ معرکہ کا جنازہ خود پڑھایا ہے، اگر اُحد کے شہداء کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ بھی پڑھا ہو تو یہ حدیث ہی شہید کے جنازہ کے سنت ہونے کے لیے کافی دلیل ہے۔ اگر کوئی شخص اعتراض برائے اعتراض کرنا چاہے تو کہہ سکتا ہے : « فصلٰي عليه» کا معنی یہ ہے کہ اس کے لیے دعا کی۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو نمازِ جنازہ سرے سے ختم ہو جاتی ہے کیونکہ میت سامنے رکھ کر صرف دعا نہیں کی جاتی بلکہ نمازِ جنازہ پڑھی جاتی ہے اور اس کے لیے «فصلٰي عليه» کا لفظ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
➋ دوسرا موقع آٹھ سال بعد شہدائے اُحد کی نمازِ جنازہ ہے۔ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
«ان النبى صلى الله عليه وسلم خرج يوما فصلى على اهل احد صلاته على الميت ثم انصرف إلى المنبر , فقال: إني فرط لكم وانا شهيد عليكم، وإني والله لانظر إلى حوضي الآن، وإني اعطيت مفاتيح خزائن الارض او مفاتيح الارض، وإني والله ما اخاف عليكم ان تشركوا بعدي ولكن اخاف عليكم ان تنافسوا فيها » [بخاري، كتاب الجنائز : باب الصلاة على الشهداء 1344]
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن نکلے اور آپ نے اُحد والوں پر اس طرح نمازِ جنازہ پڑھی جس طرح آپ میت پر پڑھتے تھے، پھر واپس منبر کی طرف آئے اور فرمایا : ”میں پہلے جاکر تمہاری ضروریات کا انتظام کرنے والا ہوں اور اللہ کی قسم ! اس وقت میں اپنا حوض دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم ! میں تمہارے متعلق اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے لیکن مجھے ڈر ہے کہ تم ایک دوسرے کے مقابلے پر دنیا میں رغبت کرو گے۔“ دیگر کتب احادیث کی روایات میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جنازہ آٹھ سال بعد پڑھا۔
اس حدیث سے شہید کی نمازِ جنازہ ثابت ہوتی ہے۔ بعض لوگ، جنھوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ شہید کی نمازِ جنازہ کو تسلیم ہی نہیں کرنا،

اس حدیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبرستان میں جا کر شہدائے اُحد کے لیے دعا کی، اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھی کیوں کہ «صلاة» کا معنی دعا بھی ہے۔

مگر گزشتہ حدیث کے الفاظ میں اس تاویل کی گنجائش ہی نہیں۔ الفاظ یہ ہیں :
«فصلٰي علٰي أهل احد صلاته على الميت » یعنی ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد والوں پر اس طرح صلاۃ پڑھی جس طرح میت پر پڑھتے تھے۔“
اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقاعدہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھی تھی۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایا : «صلاته على الميت» کے الفاظ اس تاویل کی تردید کرتے ہیں کہ «صلوٰة» سے مراد دعا ہے۔“ [نيل الأوطار 44/4]
علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل صحیح بخاری سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دفن ہونے سے پہلے کسی وجہ سے نمازِ جنازہ نہ پڑھ سکتے تو قبر پر جا کر صفیں بنا کر نمازِ جنازہ پڑھتے۔
امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«اخبرني من مر مع النبى صلى الله عليه وسلم على قبر منبوذ فامهم وصلوا خلفه”، قلت: من حدثك هذا يا ابا عمرو؟ قال: ابن عباس رضي الله عنهما » [بخاري، كتاب الجنائز : باب الصلاة على القبر بعد ما يدفن 1336]
”مجھے اس شخص نے خبر دی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک الگ تھلگ قبر کے پاس سے گزرا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی امامت کروائی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھی۔ سلیمان فرماتے ہیں : ”میں نے شعبی سے کہا: کہ اے ابو عمرو ! آپ کو یہ حدیث کس نے بیان کی ؟“ تو انہوں نے فرمایا : ”ابن عباس رضی اللہ عنہما نے۔“ ایک اور روایت میں ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
«ان اسود رجلا , او امراة , كان يقم المسجد فمات , ولم يعلم النبى صلى الله عليه وسلم بموته، فذكره ذات يوم , فقال: ما فعل ذلك الإنسان؟ , قالوا: مات يا رسول الله، قال: افلا آذنتموني، فقالوا: إنه كان كذا , وكذا قصته، قال: فحقروا شانه، قال فدلوني على قبره فاتى قبره فصلى عليه» [بخاري، كتاب الجنائز : باب الصلاة على القبر بعد ما يدفن 1337]
”ایک سیاہ مرد یا عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا تو وہ فوت ہو گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی وفات کا علم نہ ہو سکا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اسے یاد کیا اور فرمایا : ”اس آدمی کا کیا ہوا ؟“ لوگوں نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! وہ فوت ہو گیا ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تو تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی ؟“ انہوں نے کہا: ”اس کا واقعہ اس طرح ہوا۔“ گویا انہوں نے اس کے معاملے کو معمولی قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”مجھے اس کی قبر بتاؤ ؟“ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر گئے اور اس کی نمازِ جنازہ پڑھی۔“
صحیح بخاری میں شہدائے اُحد کی آٹھ سال بعد نمازِ جنازہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر پہلے فرصت نہ مل سکے تو کئی سال بعد بھی میت کی نمازِ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے جس میں شہید بھی شامل ہیں اور اگر وہ احادیث ثابت ہوں جن میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے موقع پر بھی شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھی تو آٹھ سال بعد کی نمازِ جنازہ سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے نمازِ جنازہ پڑھی ہو تو کئی سال بعد دوبارہ قبر پر پڑھنا جائز ہے۔
➌ تیسرا موقع جنگِ اُحد کے موقع پر شہدائے اُحد کی نمازِ جنازہ ہے، اس میں شبہ نہیں کہ صحیح بخاری میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے اُحد کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بھی اس مفہوم کی روایت مروی ہے مگر جب دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند سے ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھی ہے تو اسے تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ یہ ثابت شدہ اصول ہے کہ ایک واقعہ کے متعلق جب ایک آدمی یہ بیان کرے کہ یہ واقعہ نہیں ہوا اور دوسرا یہ بیان کرے کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور دونوں سچے ہوں تو اس شخص کی بات تسلیم کی جائے گی جو واقعہ ثابت ہونے کا راوی ہے اور پہلے کے متعلق یہ سمجھا جائے گا کہ اسے علم نہیں ہو سکا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
«وَاَيْضًا اَحَادِيْثُ الصَّلَاةِ قَدْ شَدَّ مَنْ عَضَدَهَا كَوْنُهَا مُثْبِتَةً وَالْاِثْبَاتُ مُقَدَّمٌ عَلَي النَّفْيِ وَهٰذَا مُرَجَّحٌ مُعْتَبَرٌ » [نيل الأوطار 44/4]
”شہدائے اُحد پر نمازِ جنازہ پڑھنے کی احادیث کو قوی قرار دینے والوں کو اس بات سے مزید قوت حاصل ہوتی ہے کہ یہ احادیث جنازے کا اثبات کرتی ہیں اور اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے اور ترجیح کی یہ وجہ ایسی ہے کہ ماننی پڑتی ہے۔“
رہا یہ سوال کہ سیدنا جابر اور انس رضی اللہ عنہما جلیل القدر صحابی ہیں، ان سے یہ بات کیسے مخفی رہ سکتی ہے تو یہ کوئی بعید بات نہیں۔ جنگِ اُحد میں مسلمانوں کو لاحق ہونے والی پریشانی کی حالت میں تمام لوگ اگر جنازے پر نہ پہنچ سکے ہوں اور نہ انہیں اس بات کا علم ہوا ہو تو یہ ممکن ہے۔ خصوصاً سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو اس کا علم نہ ہونا اور جنازے پر نہ پہنچ سکنا تو عین ممکن ہے کیونکہ وہ اُحد کے معرکے میں شریک ہی نہیں ہو سکے جیسا کہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے لکھا ہے :
«وكان جابر قد اطاع اباه يوم احد وقعد لاجل اخواته ثم شهد الخندق وبيعة الشجرة» [سير اعلام النبلاء 190/3]
”اور جابر رضی اللہ عنہ نے احد کے دن اپنے والد کی اطاعت کی تھی اور اپنی بہنوں کی وجہ سے گھر میں رہ گئے تھے، پھر جنگِ خندق میں اور بیعتِ رضوان میں حاضر ہوئے تھے۔“
خود ان کا بیان ہے : ”میں والد صاحب کے منع کرنے کی وجہ سے بدر اور اُحد میں شریک نہیں ہوا، جب وہ شہید ہو گئے تو میں کسی غزوے سے پیچھے نہیں رہا۔“ [مسلم، كتاب الجهاد : باب عدد غزوات النبى صلى الله عليه وسلم 1813]
نیز سیدنا انس رضی اللہ عنہ بھی اس وقت چھوٹی عمر کے بچے تھے۔ جن احادیث میں اُحد کے موقع پر شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے وہ یہ ہیں :
➊ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
« ان رسول الله صلى الله عليه وسلم امر يوم احد بحمزة فسجي ببردة ثم صلٰي عليه فكبر تسع تكبيرات ثم اتي بالقتلٰي يصفون ويصلي عليهم وعليه معهم» [شرح معاني الآثار للطحاوي 290/1]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُحد کے دن حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق حکم دیا تو انہیں ایک چادر کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا پھر آپ نے ان پر نمازِ جنازہ پڑھی اور ان پر نو تکبیریں کہیں۔ پھر دوسرے مقتول لائے گئے، وہ صفوں میں رکھے جاتے تھے اور آپ ان کی نمازِ جنازہ پڑھتے تھے اور ان کے ساتھ حمزہ (رضی اللہ عنہ) کی بھی نمازِ جنازہ پڑھتے تھے۔“
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”اس کی سند حسن ہے، اس کے تمام راوی معروف ثقہ ہیں۔“ [أحكام الجنائز وبدعها ص/82]
➋ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
«لما وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم علٰي حمزة امر به فهيئ الي القبلة ثم كبر عليه تسعا ثم جمع اليه الشهداء كلما اتي بشهيد وضع الٰي حمزة فصلٰي عليه وعلي الشهداء معه حتٰي صلٰي عليه وعلي الشهداء اثنين وسبعين صلاة» [طبراني كبير 107/3]
”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر (نمازِ جنازہ کے لیے) کھڑے ہوئے اور ان کے متعلق حکم دیا تو ان کی تیاری کر کے انہیں قبلہ کی طرف لٹا دیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نو تکبیریں کہیں، پھر دوسرے شہداء کو ان کے ساتھ اکٹھا کیا، جب کوئی شہید لایا جاتا تو حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ لٹا دیا جاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اور اس کے ساتھ دوسرے شہید پر نمازِ جنازہ پڑھتے حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اور دوسرے شہداء پر بہتّر (72) دفعہ نمازِ جنازہ پڑھی۔
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔ [أحكام الجنائز وبدعها ص/104]
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شہیدِ معرکہ کی نمازِ جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی احادیث سے ثابت ہے۔ اگر جنگِ اُحد کے موقع پر شہداء کی نمازِ جنازہ والی احادیث کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو کوئی اشکال ہی نہیں رہتا اور اگر ان کی صحت پر اطمینان نہ بھی ہو تو گلے میں تیر لگنے سے شہید ہونے والے صحابی کی نمازِ جنازہ اور شہدائے اُحد پر آٹھ سال بعد جنازہ والی احادیث کے بعد شہدائے معرکہ کی نمازِ جنازہ سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔
——————

غائبانہ نمازِ جنازہ
سوال : غائبانہ نمازِ جنازہ کی شرعی حیثیت کے متعلق بتا کر عنداللہ ماجور ہوں؟
جواب : غائبانہ نمازِ جنازہ درست ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
«عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نعى النجاشي فى اليوم الذى مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى فصف بهم وكبر عليه اربع تكبيرات » [بخاري، كتاب الجنائز : باب التكبير على الجنائز اربعا 1333]
”سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی موت کی اطلاع اس دن دی جس دن وہ فوت ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر جنازگاہ کی طرف نکلے، ان کی صفیں بنائیں اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔“
اس حدیث سے غائبانہ نمازِ جنازہ کا ثبوت ملتا ہے اور جس شخص کی نمازِ جنازہ میت حاضر ہونے کی صورت میں ہو سکتی ہے، غائب ہونے کی صورت میں بھی ہو سکتی ہے۔ شہید کی نمازِ جنازہ کے مسنون ہونے کے دلائل اوپر گزر چکے ہیں۔ بعض لوگ غائبانہ نمازِ جنازہ کے سرے ہی سے منکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ :

یہ صرف نجاشی ہی کے ساتھ خاص تھا کیونکہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے زمین کے تمام پردے ہٹا دیے گئے اور نجاشی کی میت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے۔

مگر یہ بات درست نہیں۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”یہ روایت اوہام وخیالات میں سے ہے (یعنی اس کی کچھ حقیقت نہیں)۔“ [المجموع 253/5]
رہا نجاشی کے ساتھ خاص ہونا تو یہ بات اس لیے درست نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل امت کے لیے نمونہ ہے۔ ہاں اگر کسی عمل کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وضاحت فرما دی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے تو الگ بات ہے اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی صراحت نہیں فرمائی۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ صرف اس شخص کی غائبانہ نمازِ جنازہ درست ہے جس کی اس علاقے میں نہ پڑھی گئی ہو جہاں وہ فوت ہوا۔ ان کا استدلال ان الفاظ سے ہے جو اس حدیث کی بعض روایات میں آتے ہیں :

« ان اخا لكم قد مات بغير ارضكم »
”تمہارا بھائی تمہارے علاقے سے باہر فوت ہوگیا ہے۔“

ان حضرات کا کہنا ہے کہ نجاشی کی نمازِ جنازہ وہاں نہیں پڑھی گئی تھی۔ ہمارے علم کے مطابق حدیث کے ان الفاظ میں یہ کہیں موجود نہیں کہ نجاشی کی نمازِ جنازہ وہاں کسی نے نہیں پڑھی تھی۔ علاقہ غیر میں فوت ہونے سے یہ بات ضروری نہیں کہ وہاں کوئی بھی مسلمان موجود نہ ہو اور کسی نے بھی نجاشی کی نمازِ جنازہ نہ پڑھی ہو۔ علاقے سے باہر فوت ہونے کی وجہ سے غائبانہ نمازِ جنازہ پڑھنے کی یہ توجیہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے لیے وہاں پہنچنا مشکل ہے۔
——————

یہ تحریر اب تک 46 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply