نماز میں مقتدی کا امام کو لقمہ دینا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : اگر نماز میں امام بھول جائے تو کیا مقتدی لقمہ دے سکتا ہے ؟
جواب : مسور بن یزید مالکی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ”میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں موجود تھا، آپ نماز میں قرأت کر رہے تھے۔ آپ نے کچھ آیات ترک کر دیں، ان کی قرأت نہ کی۔ ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! آپ نے اس طرح آیت ترک کی ہے “۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم نے مجھے یاد دہانی کیوں نہیں کرائی“۔ [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب الفتح على الإمام فى الصلاة 907، ابن خزيمة 1648، ابن حبان 379]
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں قرأت کی۔ آپ پر قرأت خلط ملط کر دی گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا: ”کیا تم نے ہمارے ساتھ نماز ادا کی ہے ؟“ انہوں نے کہا: ”ہاں !“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہیں کس چیز نے روکا تھا۔“ [ بيهقي 212/3، شرح السنة 1665]
یعنی جب نماز میں مجھ پر قرأت خلط ملط کر دی گئی تو تمہیں لقمہ دینے سے کس چیز نے روکا تھا ؟
امام خطابی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں :
وَفِيْهِ دَلِيْلٌ عَلٰي جَوَازِ تَلْقِيْنِ الْاِمَامِ
”اس حدیث میں امام کو لقمہ دینے کے جواز پر دلیل ہے۔ “
اور علی رضی اللہ عنہ سے نماز میں امام کو لقمہ دینے سے ممانعت والی روایت جو ابوداؤد (908) میں ہے، اس کے بارے میں امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے فرمایا : ”اس کی سند میں ابواسحاق راوی ہے، جس نے حارث سے چار روایات کے علاوہ سماع نہیں کیا اور یہ روایت ان کی سنی ہوئی روایات میں سے نہیں ہے، یعنی منقطع ہے اور ابواسحاق مدلس بھی ہے اور یہ ان کی عن والی روایت ہے اور دوسری علت یہ ہے کہ حارث راوی انتہائی ضعیف ہے۔ “

اس تحریر کو اب تک 50 بار پڑھا جا چکا ہے۔