نماز کے لیے زبان سے نیت کرنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا نماز کے لیے زبان سے نیت کی جا سکتی ہے اور کیا کسی صحابی کے عمل سے اس کا ثبوت ملتا ہے ؟
جواب : نیت کا معنی قصد اور ارادہ ہے۔ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ قصد و ارادہ دل کا فعل ہے نہ کہ زبان کا۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
اَلنِّيَّةُ هِيَ الْقَصْدُ وَالْعَزْمُ عَلٰي فِعْلِ الشَّيْءِ وَمَحَلُّهَا الْقَلْبُ لَا تَعَلُّقَ لَهَا بِاللِّسَانِ اَصْلًا [ اغاثة اللهفان 156 ]
”نیت کسی کام کے قصد اور پختہ ارادے کا نام ہے اور اس کا محل دل ہے اور زبان کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔“
مولانا انور شاہ کاشمیری حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فَالنِّيَّةُ اَمْرٌ قَلْبِيٌّ ”نیت دل کا معاملہ ہے۔“ [ فيض الباري 8/1 ]
لہٰذا اگر نمازی نے دل سے نیت کر لی تو تمام ائمہ کے نزدیک اس کی نماز صحیح ہو گی۔ زبان سے نیت کے اظہار کی ضرورت نہیں ہے اور نہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین رحمۃ اللہ علہیم سے ثابت ہی ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كَانَ اِذَا قَامَ اِلَي الصَّلَاةِ قَالَ : اَللهُ اَكْبَرُ وَلَمْ يَقُلْ شَيْئًا قَبْلَهَا وَلَا تَلَفَّظَ بِالنِّيَّةِ اَلْبَتَّةَ وَلَا قَالَ اُصَلِّيْ لِلهِ صَلَاةَ كَذَا مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ اَرْبَعَ رَكْعَاتٍ اِمَامًا اَوْ مَأْمُوْمًا وَلَا قَالَ اَدَاءً وَلَا قَضَاءً وَ لَا فَرْضَ الْوَقْتِ وَهٰذِهِ عَشْرُ بِدَعٍ لَمْ يَنْقُلْ عَنْهُ اَحَدٌ قَطُّ بِاِسْنَادٍ صَحِيْحٍ وَّلَا ضَعِيْفٍ وَّلَا مُسْنَدٍ وَلَا مُرْسَلٍ لَفْظَةً وَاحِدَةً مِنْهَا اَلْبَتَّةَ بَلْ وَلَا عَنْ اَحَدٍ مِّنْ اَصْحَابِهِ وَلَا اِسْتَحْسَنَهُ اَحَدٌ مِنَ التَّابِعِيْنَ وَلَا الْأَئِمَّةُ الْأَرْبَعَةُ [زاد المعاد : 201/1 ]
”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور اس سے پہلے کچھ نہ کہتے اور نہ زبان سے نیت کرتے اور نہ یوں کہتے کہ میں چار رکعت فلاں نماز، منہ طرف قبلہ کے، امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہو اور نہ ادا، قضا یا فرض وقت کا نام لیتے۔ یہ دس بدعات ہیں۔ اس بارے میں ایک لفظ بھی کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سندِ صحیح یا سندِ ضعیف یا مرسل سے قطعاً نقل نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی ایک سے بھی ایسا منقول نہیں اور نہ کسی تابعی نے اسے پسند کیا اور نہ ائمہ اربعہ نے۔“
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی حنفی لکھتے ہیں :
وحال آنكه از آن سرور عليه وعلي آله الصلاة والسلام ثابت است نه بروايت صحيح ونه بروايت ضعيف ونه از اصحاب كرام وتابعين عظام كه بزبان نيت كرده باشند بلكه چوں اقامت مي گفتند تكبير تحريمه ميفرمودند پس نيت بزبان بدعت باشد [ مكتوبات دفتر اول، حصه سوم، مكتوب : 186، صفحه : 73 ]
”زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند بلکہ ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف اللہ اکبر کہتے تھے۔ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔“
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وَلَوْ مَكَثَ أَحَدُهُمْ عُمَرَ نُوْحٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ يُفَتِّشُ هَلْ فَعَلَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ اَوْ اَحَدٌ مِّنْ اَصْحَابِهِ شَيْئًا مِنْ ذٰلِكَ لَمَا ظَفَرَ بِهِ اِلَّا اَنْ يُّجَاهِرَ بِالْكِذْبِ الْبُحْتِ وَطَ فِيْ هٰذَا خَيْرٌ لَسَبَقُوْنَا اِلَيْهِ وَلَدَلُّوْنَا عَلَيْهِ [ كما فى إغاثة اللهفان 158/1 ]
”اگر کوئی انسان سیدنا نوح علیہ السلام کی عمر کے برابر تلاش کرتا رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہو گا سوائے سفید جھوٹ بولنے کے، اگر اس میں بھلائی ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب سے پہلے کرتے اور ہمیں بتا کر جاتے۔ “

یہ تحریر اب تک 23 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply