فجر کی سنتوں کی قضا کا طریقہ

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : اگر فجر کی سنتیں جماعت سے پہلے ادا نہ کی جائیں تو کیا بعد میں پڑھ لی جائیں ؟ ازراہ کرم جواب عنایت فرما دیں۔
جواب : اگر کسی آدمی کی فجر کی سنتیں کسی سبب کے باعث فوت ہو جائیں یعنی وہ انہیں وقت پرادا نہ کر سکے تو نماز فجر ادا کرنے کے بعد پڑھ سکتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریری سنت سے یہ بات واضح ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث تین اقسام کی ہیں :
➊ قول
➋ فعل
➌ تقریر
تقریر کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عمل سرانجام دیا گیا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہ کیا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منع نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برقرار رکھا ہے۔ وگرنہ غلط کام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم برقرار نہیں رکھ سکتے۔
صحابیٔ رسول قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الصبح ولم يكن ركع الركعتين قبل الفجر فلما سلم رسول الله صلى الله عليه وسلم قام فركع ركعتي الفجر و رسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر اليه فلم ينكر ذلك عليه) [ موارد الظمان 624، ابن خزيمة 1116، مستدرك حاكم 274/1، دارقطني 372/1، بيهقي 483/2، المحلي لابن حزم 112/3، نيل المقصود 1268 ]
”انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی اور نماز فجر سے پہلے دو رکعت سنتیں ادا نہیں کی تھیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا تو انہوں نے کھڑے ہو کر فجر کی دو سنتیں ادا کیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف دیکھ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا انکار نہیں کیا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی شخص کی فجر کی سنتیں فوت ہو جائیں تو وہ نماز فجر کے بعد انہیں ادا کر سکتا ہے۔
علامہ ابوالحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يَدُلُّ عَلَي الْاِذْنِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ صَلَاةِ الْفَجْرِ لِمَنْ فَاتَهُمَا ذٰلِكَ [ حاشية سندهي على ابن ماجه 352/1 ]
”جس آدمی کی فجر سے پہلے دو رکعت فوت ہو جائیں یہ حدیث اسے فجر کی نماز کے بعد ادا کرنے کی اجازت پر دلالت کرتی ہے۔“
علامہ عبیداللہ رحمانی مبارکپوری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :
وَقَالَ ابْنُ الْمَلِكِ : سُكُوْتُهُ يَدُلُّ عَلٰي قَضَاءِ سُنَّةِ الصُّبْحِ بَعْدَ فَرْضِهِ لِمَنْ لَّمْ يُصَلِّهَا قَبْلَهُ وَبِهِ قَالَ الشَّافِعِيُّ [مرعاة المفاتيح 465/3 ]
”ابن الملک نے کہا: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بات پر خاموش رہنا دلالت کرتا ہے کہ صبح کی سنتیں فرض ادا کر لینے کے بعد اس آدمی کے لیے بطور قضا ادا کرنا جائز ہے جس نے یہ سنتیں فرض سے پہلے ادا نہیں کیں اور یہی قول امام شافعی رحمہ اللہ کا ہے۔“
شیح حسین بن محمود الزیدانی نے مشکٰوۃ کے حاشیہ ” المفاتیح“میں، شیح علی بن صلاح الدین نے ” منھل الینابیع شرح المصابیح“ میں اور علامہ زینی نے ”شرح المصابیح“ میں بھی اسی طرح لکھا ہے۔ [ملاحظه هو : مرعاة المفاتيح3/ 465 ]
ہمارے حنفی بھائیوں کا کہنا ہے کہ فرض ادا کرنے کے بعد طلوع شمس تک سنتیں ادا نہیں کر سکتا، وہ اس کی دلیل میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث پیش کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من لم یصل رکعتی الفجر فلیصلھما بعد ما تطلع الشمس [ ترمذي، كتاب الصلاة : باب ما جاء فى اعادتهما بعد طلوع الشمس423 ]
”جس نے فجر کی دو رکعت نہیں پڑھیں وہ انہیں طلوع شمس کے بعد پڑھے۔“
اولاً : یہ روایت ضعیف ہے۔
اس کی سند میں قتادہ بن دعامہ السدوسی مدلس راوی ہے اور یہ روایت معنعن ہے، چنانچہ ضعیف ہے۔
ثانیاً : امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ جن کے حنفی حضرات مقلد ہیں، کے نزدیک اگر فجر کی سنتیں رہ جائیں تو نہ فرضوں کے بعد ادا کرے اور نہ طلوع شمس ہی کے بعد۔
صاحب ہدایہ نے لکھا ہے :
و اذا فاتته ركعتا الفجر لا يقضيها قبل طلوع الشمس لانه يبقٰي نفلا مطلقا و هو مكروةبعد الصبح و لا بعد ارتفاعها عند ابي حنيفة و ابي يوسف [ الهداية 1/ 72، طبع بيروت، باب ادراك الفريضة ]
” اور جب آدمی سے فجر کی دو رکعتیں فوت ہو جائیں تو انہیں سورج نکلنے سے پہلے قضاء نہ کرے۔ اس لئے کہ اب وہ مطلق نفل ہیں اور صبح کی نماز کے بعد نفل ادا کرنا مطلق طور پر مکروہ ہیں اور نہ انہیں سورج نکلنے کے بعد ہی ادا کرے، یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کا موقف ہے۔ “
صاحب ہدایہ کی توضیح سے معلوم ہوا کہ فقہ حنفی میں شیخین کے نزدیک جس کی صبح کی سنتیں رہ جائیں نہ وہ صبح کی نماز کے بعد ادا کرے اور نہ طلوع شمس ہی کے بعد۔ یعنی ان کا موقف صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے اور ضعیف حدیث کے بھی۔ کیونکہ صحیح حدیث کی رو سے فجر کی فوت شدہ سنتیں نماز فجر اداکرنے کے بعد قضا کی جا سکتی ہیں جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اور جن احادیث میں مطلق طور پر نمازِ فجر کے بعد نماز کی ممانعت ہے ان میں سے یہ دو رکعت صحیح حدیث کی رو سے مقید ہیں۔ لہٰذا ان کے ادا کرنے میں کوئی کراہت نہیں۔

اس تحریر کو اب تک 64 بار پڑھا جا چکا ہے۔