نماز تہجد کی اہمیت اورفضیلت

مرتب: خلیل الرحمن چشتی حفظ اللہ

نماز تہجد، لغوی تعریف

تهجد ، باب تَفَعُل سے ہے اور اس کا مادہ (ھ ج د) ہے ۔
هجد ، يهجد (ان) کا مطلب سونا ہے ۔
اور تہجد کا مطلب کچھ سو کر بیدار ہو جاتا ہے ۔
تَهَجُد کا لفظ ، قرآن میں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت: 79 میں استعمال ہوا ہے ۔
نماز تہجد کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں قيام الليل کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔
نماز تہجد کا اہتمام کرنے والے شخص کو مُتَهَجِد کہتے ہیں ۔

شرعی تعریف:

تہجد سے مراد وہ خاص نماز ہے ، جو رات دیر گئے عموماًً سو کر کچھ آرام کر لینے کے بعد ، زیادہ تر آخر شب ادا کی جاتی ہے ۔ رمضان کے آخری عشرے میں سونا ضروری نہیں ہے ۔ نماز تہجد رات کے کسی بھی حصے میں ادا کی جا سکتی ہے ۔ ابتدائی رات میں ، یا درمیانی رات میں ، یا پھر رات کے بالکل آخری حصے میں اذانِ فجر سے ایک دو گھنٹے پہلے اور یہی افضل ترین وقت ہے ۔
تزکیہ نفس یعنی فروغ ذات اور حسین ذات کے حصول کے لئے نماز تہجد ایک اہم عملی تدبیر ہے ۔ ایک ایسے وقت میں ، جب بدن کو آرام مل چکا ہے اور اس کے حقوق پورے ہو چکے ہیں جب بیوی بچوں کو ان کا حق دیا جا چکا ہے ۔ اور جب اللہ کا بندہ اپنے آپ کو تازہ دم محسوس کرتا ہے ، جب دنیا آرام سے سو رہی ہے ۔ ایک بندہ خاص ریاکاری سے بچ کر اللہ کی عبادت کے لیے کھڑا ہو جاتا ہے ، نماز تہجد میں اللہ کی کتاب کی ذوق و شوق سے تلاوت و سماعت ، تسبیحات ، تکبیرات ، حمد ، دعا اور استغفار ، یہ سب چیزیں اُسے اللہ تعالیٰ سے بہت قریب کر دیتی ہیں ۔ یہ نماز تقرب الہی کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے ۔
——————

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت تہجد

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کے لیے اس خاص نماز کی ہدایت کی ہے ۔
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
صلوا باليل والناس نيام [ابن ماجه: 3,251]
”رات کو اُس وقت نماز پڑھو ! جب لوگ سو رہے ہوں۔“
——————

اہتمام نماز تہجد کے لیے تدابیر

جو شخص اس سعادت سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے ، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ عشاء کی نماز کے بعد ، دیگر مشاغل میں اپنے آپ کو مصروف نہ رکھے ۔ عشاء کے بعد کوئی میٹنگ نہ رکھے ، کسی سے ملنے نہ جائے ، دیر تک مطالعہ نہ کرے ، کسی کو رات دیر گئے مدعو نہ کرے (الا یہ کہ کوئی شدید حاجت اور ضرورت ہو ، یا کسی اضطراری صورت حال سے دوچار ہونا پڑے ) عام دنوں اور عام حالات میں ، اپنے ان معمولات پر سختی سے عمل کرے ، ورنہ اندیشہ رہتا ہے کہ آدمی اس نعمت عظمی سے محروم ہو جائے گا ۔

نماز تہجد کے اہتمام کے لیے ضروری ہے کہ مؤمن کو نماز تہجد کی اہمیت اور فضیلت کا علم اور احساس ہو ۔ اہمیت اور فضیلت کے سلسلے میں گفتگو آگے آرہی ہے ۔ اہتمام تہجد کی ایک اور اہم تدبیر یہ بھی ہے کہ مؤمن اپنی موت کو یاد کرتا رہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تم شام کرو تو صبح کا انتظار نہ کرو اور جب تم صبح کر لو تو شام کا انتظار نہ کرو (نہ جانے کب موت آجائے ) اپنی صحت کو اپنی بیماری سے پہلے غنیمت جانو اور اپنی زندگی میں اپنی موت کے لیے کچھ حاصل کر لو ۔ [صحيح بخاري حديث: 6415]
مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ شیطان کے حملوں سے اپنے آپ کو بچائے ۔ جب آدمی سوتا ہے تو شیطان اُس پر تین گرہیں لگا دیتا ہے ۔ اگر مؤمن بیدار ہو کر اللہ کا ذکر کرے تو ایک گرہ کھل جاتی ہے ۔ اور اگر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے اور اگر نماز پڑھ لے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے ۔ پھر وہ اس حال میں صبح کرتا ہے کہ تازہ دم اور پاکیزہ نفس رہتا ہے ورنہ اُس کی صبح اس حال میں ہوتی ہے کہ وہ خبیث النفس اور سستی کا شکار رہتا ہے ۔ [صحيح بخاري: 1142]
مؤمن کو چاہیے کہ سونے سے پہلے سونے کے مسنون اذکار پڑھ لے ۔ بالخصوص آیت الکرسی پڑھ لے تاکہ شیطان کے شر سے محفوظ ہو جائے اور جلد سوکر جلد بیدار ہو جائے ۔
اہتمام تہجد کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ رات میں زیادہ کھا کر نہ سوئے اور دوپہر کے بعد تھوڑی دیر کے لیے قیلولہ ضرور کر لے ۔ یہ قیلولہ نماز تہجد کے لیے اٹھنے میں نہایت مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ مندرجہ بالا تدبیروں کو اختیار کرنے سے اُمید کی جاسکتی ہے کہ انسان نماز تہجد کا با قاعدگی سے اہتمام کر سکے گا ۔
شب بیداری اور سحر خیزی ہمیشہ صالحین کا شعار رہا ہے ۔
علامہ اقبال بطور تحدیث نعمت اپنی سحر خیزی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”زمستانی ہوا میں گرچہ تھی شمشیر کی تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر خیزی“
——————

نوافل کے بارے میں چار (4) اُصولی باتیں

نماز تہجد ایک نفل نماز ہے ۔
بعض علماء کے نزدیک یہ سنت مؤکدہ ہے ۔ [فتاوي شيخ ابن باز]
نوافل کے بارے میں ، چاہے وہ نماز سے متعلق ہوں ، یا روزوں اور انفاق کی فرض صورتوں کے علاوہ کسی اور نفل صورت سے متعلق ہو ، یہ چار اصولی باتیں یاد رکھیے کہ:

(1) نوافل کے اہتمام سے فرائض چھوٹنے کی نوبت نہ آجائے ۔
(2) نوافل کی اہمیت ، آپ کے دل و دماغ پر اتنی زیادہ مسلط نہ ہو جائے کہ آپ کی زبان ، فرائض کی تحقیر یا تخفیف پر اتر آئے ۔
(3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی رخصت کی گنجائش ہے تو کبھی عام معمول کو ترک کر کے ، رخصت پر عمل کیجیے ، تاکہ رخصت کی اس سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ثواب سے بھی آپ محروم نہ رہیں ۔
(4) شریعت محمدی صلى اللہ علیہ وسلم تمام تر حکمت و دانائی پر مشتمل ہے ۔ ایک ہی معاملے میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سے زیادہ سنتیں ثابت ہوں تو مختلف اوقات میں مختلف سنتوں پر عمل کیجیے اور وہ سنت اختیار کیجیے ، جو آپ کی جسمانی اور ذہنی حالت کے لئے ، اس وقت زیادہ مناسب ہو ۔ شریعت محمدی صلى اللہ علیہ وسلم میں ایسی لچک پائی جاتی ہے ، جو ہر زمانے میں ، ہر جگہ اور ہر حالت پر منطبق ہو جاتی ہے ۔
——————

تہجد کے ذریعے صحابہ کی علمی اور روحانی تربیت

ابتداء میں نماز تہجد فرض تھی ۔ یہ ایک علمی اور روحانی تربیت گاہ تھی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نصف شب دو تہائی شب ، یا ایک تہائی شب طویل قیام اللیل کیا کرتے تھے ۔ بارہ سال تک مکے میں یہی معمول رہا ۔ رجب بارہ نبوی میں معراج ہوئی اور اس موقع پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئیں ۔ مکے میں کل نوے (90) سورتیں نازل ہوئیں اور مدینے میں صرف چوبیس (24) سورتیں مکی سورتوں کی تلاوت اور سماعت سے اولین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تربیت کی گئی ۔ وہ اہلِ زبان تھے ۔ اُن ہی کے محاورے میں قرآن نازل کیا گیا تھا ۔ قرآن کی جاذبیت ایسی ہے کہ وہ خود بہ خود انہیں حفظ ہو جاتا ۔ نماز تہجد کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تاکید تھی کہ اس میں قرآن ترتیل کے ساتھ یعنی ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے ۔ اس پر اقومُ قِيلاً کی تاکید مزید تھی ، تاکہ تفقه فى القرآن کے تقاضے پورے کیے جاسکیں ۔
——————

نماز تہجد میں مکی سورتوں کی تلاوت اور سماعت کے مقاصد

نماز تہجد میں مکی سورتوں کی تلاوت اور سماعت کے ذریعے صحابہ رضی اللہ عنہم کی کردار سازی کے مندرجہ ذیل چار (4) مقاصد تھے ۔
(1) عقیدہ توحید کو راسخ کرنا اور عقیدہ توحید کے عقلی نفلی ، آفاقی ، انفسی اور تاریخی دلائل سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسلح کرنا ، تاکہ وہ شرک کا ابطال کرتے ہوئے اور اس کے غیر فطری اور غیر عقلی ہونے کو مشرکین عرب پر ثابت کر دیں ۔
عقیدہ توحید کی جامعیت کو سمجھ کر شرک فی الذات ، شرک فی الصفات بالخصوص شرک فی العلم ، شرک فی الاختیار ، شرک فی العبادۃ اور شرک فی الحکم سے خود بھی بچنا اور دوسروں کو بھی مطمئن اور قائل کر کے شرک سے بچانا ۔
(2) مقام رسالت اور منصب رسالت کو واضح کرنا ، تاکہ وہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے کامل وفادار بن کر دعوت و تبلیغ کا کام کر سکیں ، اور توسیع دعوت کے اگلے مدنی مراحل کی طرف گامزن ہو سکیں ۔

(3) عقیدہ آخرت کو راسخ کرنا اور عقیدہ آخرت کے عقلی ، نقلی ، آفاقی ، انفسی اور تاریخی دلائل سے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسلح کرنا ، تاکہ وہ منکرینِ آخرت کے شکوک و شبہات کو دور کرتے ہوئے پورے اعتماد کے ساتھ دعوت و تبلیغ کا کام کر سکیں ۔ آخرت کے مناظر کو چشم تصور سے دیکھیں ۔ موت ، قیامت ، جنت اور دوزخ کو ایک زندہ حقیقت کی طرح محسوس کریں ، اور اپنے روشن مستقبل کے لیے جان و مال کی قربانی کے لیے تیار ہو جائیں ۔
(4) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں مخالفین کی اذیت رسانیوں پر صبر و تحمل اور برداشت کی صفات پیدا کرنا ، تاکہ وہ مشرک قیادت کے آگے سینہ سپر رہیں اور ان سے مرعوب نہ ہونے پائیں ۔
——————

اسلامی قیادت کی نشو ونما

یہ چاروں مقاصد نماز تہجد کی علمی اور روحانی تربیت گاہ سے حاصل ہوئے ، جس میں اصل مربی خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی نوے (90) مکی سورتیں تھیں ، جنہیں صحابہ یاد کر لیا کرتے تھے ، سمجھتے تھے ، غور وفکر کرتے تھے ، اور دعوت وتبلیغ میں استعمال کرتے تھے ۔ اسی عبادت پر مشتمل تربیت گاہ سے ہو کر حضرت ابو بکر ، حضرت علی ، حضرت عثمان ، حضرت سعد بن ابی وقاص ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت عمار بن یاسر ، حضرت مصعب بن عمیر ، حضرت عبد اللہ بن مسعود ، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر ، حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ عنہم وغیرہ گزرے اور اسی کے نتیجے میں آگے چل کر مدینہ منورہ میں مسلمانوں کو ایک ”عظیم تربیت یافتہ قیادت“ میسر آئی ۔ چنانچہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کی تہجد گزاری کی شان میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ اللَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَائِفَةٌ مِّنَ الَّذِينَ مَعَكَ﴾ [سورة المزمل: 20]
”اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) بلاشبہ آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ کبھی دو تہائی رات کے قریب اور کبھی آدھی رات اور کبھی ایک تہائی رات عبادت میں کھڑے رہتے ہیں ، اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک گروہ بھی آپ کے ساتھ (نماز تہجد میں) یہ عمل کرتا ہے ۔“

——————

فرض نمازوں کے بعد سب سے اہم تہجد ہے

فرض نمازوں کا درجہ سب سے بلند ہے ۔ ایک بندہ مومن کسی فرض نماز کو ترک کرنے ، یا اُسے قضا کرنے کا خیال بھی دل میں نہیں لا سکتا ۔ جو شخص کسی فرض نماز کے وقت کو ضائع کر دیتا ہے ، وہ اگر ساری زندگی بھی نماز پڑھے تو وقت مقررہ کی نماز کا اجر حاصل نہیں کر سکتا ۔ فرض نمازوں کے بعد نوافل کا مقام ہے ، لیکن نوافل میں سب سے اعلیٰ مقام نماز تہجد کا ہے ۔ اس لیے اس کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام کیا جانا چاہیے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أفضل الصلوة بعد الصلوة المكتوبة ، الصلوة فى جوف الليل [صحيح مسلم ، كتاب الصيام ، باب 38 ، حديث: 1,163]
”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز ، درمیانی رات کی نماز (تہجد) ہے۔“

——————

قرآن مجید میں نماز تہجد کا ذکر

قرآن کریم میں آٹھ (8) مقامات پر نماز تہجد کا ذکر آیا ہے ۔
(1) سورۃ بنی اسرائیل آیت: 79
اس میں نماز تہجد کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر فائز کرنے کا وعدہ کیا گیا ۔
(2) سورۃ الفرقان آیت: 64-66
اس میں ﴿عباد الرحمن﴾ کی صفات بیان کی گئیں کہ وہ نماز تہجد کے طویل سجدوں اور طویل قیام میں عذاب جہنم سے پناہ مانگتے ہیں ۔
(3)سورۃ الذاریات آیت: 17

متقین کے لیے نماز تہجد میں التزام استغفار کی وجہ سے جنت کے باغات ، چشموں اور انعامات الہی کا تذکرہ کیا گیا ۔
(4)سورۃ السجدۃ آیت: 15 16
میں بتایا گیا کہ اہل ایمان کے پہلو ، رات کو بستروں سے الگ رہتے ہیں اور وہ خوف اور طمع کے ساتھ اپنے رب کو پکارتے ہیں ۔
(5) سورۃ المزمل آیت: 20
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کہ تمہارا رب تمہارے ﴿قيام الليل﴾ کو جانتا ہے ۔ (یعنی عظیم اجر سے نوازے گا)
اسى سورۃ المزمل کی آیت: 6 میں تہجد کے دو (2) مقاصد بیان کئے گئے ہیں ۔ اس سے نفسِ سرکش پر قابو پایا جا سکتا ہے اور یہ تفقہ فی القرآن کے لئے مناسب و سازگار ہو سکتا ہے ۔
(6) سورۃ الدھر آیت: 26
رات کو طویل سجدوں اور تسبیح کے ساتھ طویل قیام کا حکم دیا گیا ۔
(7) سورۃ الانشراح کی آخری آیت
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ جب آپ فارغ ہو جائیں تو کمر بستہ ہو جائیں اور اپنے رب کی طرف راغب ہو جائیں (اُسی سے لو لگائیں) ۔
(8) سورۃ الزمر آیت: 9 8 تفصیل آگے آرہی ہے ۔
——————

تہجد اور مقام محمود

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جنت میں ایک اعلی ترین درجہ ”مقام محمود“ ہے اور یہ مقام صرف ایک شخص کو دیا جائے گا ۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ مقام مجھے عطاکیا جائے گا ۔“ [صحيح مسلم ، كتاب الصلوة ، حديث: 384 ، عن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ]
اور قرآن مجید میں نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کو نماز تہجد کا حکم دیتے ہوئے بتایا گیا کہ بعید نہیں یہ مقام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا جائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَتَهَجَّدْ بِهِ نَافِلَةً لَّكَ عَسَىٰ أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًامَّحْمُوداً﴾ [بني اسرائيل: 79]
”اور (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) رات کو تہجد پڑھیے ! یہ آپ کے لیے نفل ہے ، بعید نہیں کہ آپ کا رب ،
آپ کو مقام محمود پر فائز کر دے ۔ “
اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مقام محمود کے مقام اور مرتبے کا ، جو نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے ، نماز تہجد کے ساتھ گہرا ربط اور تعلق ہے ۔
——————

نماز تہجد عباد الرحمن کا وظیفہ ہے

نماز تہجد عباد الرحمن کا وظیفہ ہے ۔ یعنی رحمن کے خاص عبادت گزار بندوں کا معمول ہے ، جو اُس کی رحمانیت کے مستحق ہیں ۔
چنانچہ سورۃ الفرقان میں ارشاد ہوا:
﴿وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا 64 وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ ۖ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ‎65‏ إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا﴾
[الفرقان: 64-66]
” (رحمن کے خاص بندے وہ ہیں) جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں جو دعائیں کرتے ہیں: اے ہمارے رب ! جہنم کے عذاب سے ہم کو بچالے ! اس کا عذاب تو جان کو لاگو ہے ۔ وہ تو بڑا ہی بُرا مستقر اور مقام ہے ۔“
◈ معلوم ہوا کہ نماز تہجد میں طویل قیام اور طویل سجدے مطلو ب ہیں ۔ رحمن کے بندے وہ ہیں جو اللہ کی رحمت کے طالب ہیں ۔ اُن کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ سجود اور قیام میں رات گزارتے ہیں ۔

——————

تہجد میں عذاب دوزخ سے نجات کی دعائیں مانگی جائیں

مندرجہ بالا آیت کے الفاظ ﴿وَ الَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ﴾ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تہجد کے وقت ، عذاب دوزخ سے نجات کی دعائیں بھی مانگنی چاہیں ۔
——————

تہجد سے ، تقرب الہی حاصل ہوتا ہے

نماز ، دراصل ﴿ذكر الله﴾ کے یعنی ”اللہ کی یاد“ کا نام ہے ۔ سجدے کی حالت میں اللہ کا قرب اپنی انتہاء پر ہوتا ہے اور دعاؤں سے بھی اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے ۔

◈ مندرجہ ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تہجد میں ذکر یعنی اللہ کی یاد سے بھی ، اللہ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرو بن عبسہ سے فرمایا:

أقرب ما يكون الرب من العبد فى جوف الليل الآخر ، فإن استطعت ، أن تكون ممن يذكر الله فى تلك الساعة ، فكن [ترمذي ، كتاب الدعوات ، باب 119 ، حديث 3,579]
”اللہ تعالیٰ بندے سے سب سے زیادہ قریب ، رات کے آخری حصے میں ہوتا ہے ، لہٰذا اگر تم سے ہو سکے کہ ان بندوں میں سے ہو جاؤ ، جو (اس مبارک وقت) ﴿ذكر الله﴾ یعنی اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو ضرور ہو جاتا !“
◈ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ نماز تہجد میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ شروع سے آخر تک یہ نماز ، ﴿ذكر الله﴾ کے یعنی ”اللہ کی یاد“ سے معمور ہو اور اس کا ادنی حصہ بھی غفلت کی نذر نہ ہو جائے ، تاکہ قربت الہی کی منزلیں آسان ہوتی جائیں ۔

نوافل کے ذریعے سے بھی اللہ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ، جس طرح فرائض کے ذریعہ سے ہوتا ہے ۔ صحیح البخاری کی حدیث قدسی ہے ۔
”میرا بندہ نفل نماز کے ذریعے مجھ سے اتنا قریب ہو جاتا ہے کہ میں اُس سے محبت کرنے لگتا ہوں اور جب میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو میں اُس کا کان بن جاتا ہوں ، جس سے وہ سنتا ہے اور اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں ، جس سے وہ دیکھتا ہے اور اُس کا ہاتھ بن جاتا ہوں ، جس سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کا پاؤں بن جاتا ہوں ، جس سے وہ چلتا ہے ۔“ [صحيح البخاري: 6,502]
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مقرب بندہ اپنی تمام زندگی کو ﴿مَرضَاتِ الله﴾ کے مطابق گذارتا ہے ۔ اُس کی ہر چیز اللہ کی رضا مندی کی خاطر ہوتی ہے ۔ وہ کبھی اللہ کو ناراض نہیں کرتا ۔ اُس کی سماعت ، اُس کی بصارت اور اُس کے ہاتھ پاؤں کا استعمال اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے ۔ یہی ﴿راضية مرضية﴾ کے اور ﴿رضى الله عنهم ورضوا عنه﴾ کا مقام ہے ۔
——————

نماز تہجد ، تشکر وعُبُودِ یت کی مظہر ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں اُس مشہور و معروف روایت میں ، جس میں طوالت قیام کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی سوجن کا ذکر ہے ، سب سے زیادہ قابل غور بات ، اُس کی وہ وجہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے ۔ روایت کے اصل الفاظ یہ ہیں:
قام النبى صلى الله عليه وسلم حتى تورمت قد ماه ، فقيل له: لم تصنع هذا؟ وقد غفرلك ما تقدم من ذنبك وما تأخر ، قال: أفلا اكون عبدا شكورا [صحيح مسلم ، كتاب صفات المنافقين و احكام ، باب 18 ، حديث: 2,819]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل کا اہتمام کیا ، یہاں تک کہ آپ کے پاؤں سوج گئے آپ صلى اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: ”آخر آپ ایساکیوں کرتے ہیں؟ جبکہ آپ کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کر دئیے گئے ہیں ۔“ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ “
﴿عَبْدًا شَكُوراً﴾ کے الفاظ پر غور فرمائیے !
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے قیام اللیل (یعنی نماز تہجد ) کے التزام اور پھر اس کی طوالت کے دو اسباب ، ﴿عبوديت﴾اور ﴿تشكر﴾، بیان فرمائے ہیں ۔
معلوم ہوا کہ نماز تہجد ، تشکر اور عبودیت کا مظہر ہے ۔
——————

نماز تہجد کے دو مقاصد

نماز تہجد کی دو (2) خصوصیات اور اس کے دو (2) بنیا دی مقاصد ہیں ۔

(1) نفس پر قابو پانا
(2) فہم قرآن
نماز تہجد کی پہلی خصوصیت یہ کہ یہ نفس سرکش پر قابو پانے کے لیے بہت ہی کارگر ہتھیار ہے ۔ جب آدمی سو کر اٹھتا ہے تو اس کی ساری تھکن دور ہو جاتی ہے ۔ اور وہ اپنے آپ کو نہایت تازہ دم محسوس کرتا ہے ۔ پھر جب وہ وضو کرتا ہے تو اعضائے بدن بھی نہایت فرحت اور تازگی محسوس کرتے ہیں ۔ اس وقت بیشتر مخلوق سوئی ہوئی ہوتی ہے ۔ ایسے سناٹے میں کھڑے ہو کر نماز کے اندر قرآن کی تلاوت و سماعت انسان کے اندر عجب نشاط کا عالم پیدا کر دیتی ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن خود آپ پر نازل ہو رہا ہے ۔ یہ ﴿اشد وطا﴾ہے ۔
نماز تہجد کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ قرآن فہمی کے لیے ، اس سے زیادہ بہتر اور سازگار ماحول کسی دوسرے وقت میسر نہیں آسکتا ۔ یہ ﴿اقومُ قِیلاً﴾ ہے ۔
اسی لیے قرآن مجید میں ارشاد ہوا ۔
﴿إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُّ وَطْئًا وَأَقْوَمُ قِيلًا﴾ [المزمل: 6]
”در حقیقت رات کا اٹھنا ، نفس پر قابو پانے کے لیے ، بہت کارگر اور قرآن ٹھیک پڑھنے کے لیے زیادہ موزوں ہے۔“
——————

تہجد کے وقت تین اہم کام: دعا ، سوال اور استغفار

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ایک حدیث قدسی ہے ، جس سے تہجد کے وقت کی اہمیت اور اُس کی تین (3) خصوصیات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ فرمایا گیا:
ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا ، حين يبقى ثلث الليل الآخر يقول: من يدعوني؟ فاستجيب له ، من يسألني؟ فأعطية ، من يستغفرني؟ فاغفر له [صحيح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين ، باب 24 ، حديث: 758]
ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات کو ، جب آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے ، قریبی آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے (جیسے اُس کی شان کے لائق ہے ) اور کہتا ہے: ”کون ہے ، جو مجھ سے دعا کرے؟ کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔“ ، ”کون ہے ، جو مجھ سے مانگے؟ کہ میں اس کو عطا کروں ۔“ ، ”کون ہے ، جو مجھ سے مغفرت اور بخشش طلب کرے؟ کہ میں اس کو بخش دوں ۔“
معلوم ہوا کہ یہ وقت ، دعا ، سوال اور طلب مغفرت کے لئے نہایت سازگار ہے ۔
——————

تہجد میں استغفار کا اہتمام کیا جائے

جھٹپٹے کا یہ وقت فہم قرآن ، دعا اور حاجت براری کے لیے تو سازگار ہے ہی لیکن خالق کائنات کہتا ہے کہ طلب مغفرت کے لیے بھی یہی وقت زیادہ موزوں ہے ۔ اللہ کے عذاب سے ڈرنے والے افراد ، ہمیشہ ان مبارک ساعتوں کو ، استغفار کے لیے وقف کیا کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں ۔
قرآن مجید کی سورۃ الذاریات میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ۔
﴿إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ‎15‏ آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ ‎16‏ كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ ‎17‏ وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ‎18‏ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُوم﴾ [الذاريات: 15 19]
”بلاشبہ متقی لوگ (اُس روز) باغوں اور چشموں میں ہوں گے ، جو کچھ ان کا رب اُنہیں دے گا ، اُسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے ، وہ اُس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے (محسن تھے ) ، وہ رات کے پچھلے پہروں میں استغفار کرتے تھے (معافی مانگتے تھے ) ، اور ان کے مال میں سائل اور محروم کے لیے حق تھا ۔“
◈ ان آیات سے معلومات ہوتا ہے کہ (متقی) بننے اور جنت کے مستحق بننے کے لیے تین (3) چیزوں کی ضرورت ہے ۔

(1) نماز تہجد کا اہتمام (اور اس کے لیے راتوں کو کم سونا ) ۔
(2) تہجد کے وقت استغفار کا اہتمام کرنا ۔
(3) سائلین اور محرومین کے لیے دل کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ، کیونکہ یہ ان کا حق ہے ۔
مندرجہ بالاصفات رکھنے والے ہی احسان کے مرتبے پر پہنچ کر محسن کہلاتے ہیں ۔
——————

نماز تہجد کا اہتمام کرنے والے اہل علم اور اہل عقل ہوتے ہیں

اللہ تعالیٰ ناشکرے لوگوں کا ذکر کرتا ہے کہ وہ مصیبت میں اللہ کو پکارتے ہیں ، لیکن جب اللہ انہیں نعمتوں سے نوازتا ہے تو احسان فراموشی پر اتر آتے ہیں اور شرک کرنے لگتے ہیں ۔ یہ دوزخ کی آگ کے مستحق ہیں ۔ ایسے ناشکرے لوگ کیا اُن شکر گزار بندوں کے برابر ہو سکتے ہیں ، جو سجدوں کے ساتھ رات کو کھڑے ہو کر عبادت کرتے ہیں ، آخرت سے ڈرتے ہیں ، علم والے ہیں اور ایسے اہلِ عقل ہیں جو نصیحت کو قبول کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ قرآن مجید کی سورۃ الزمر کی آیت: 9 میں فرماتا ہے:
﴿أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾ [الزمر: 9]

” (ناشکرے مشرک آدمی کے برابر ) کیا وہ شخص ہو سکتا ہے؟ جو سجدوں کے ساتھ قیام اللیل میں قنوت کرتا ہے ، آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا اُمید وار ہے؟ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان سے پوچھیے ! کیا علم والے اور علم نہیں رکھنے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ ہاں نصیحت تو صرف عقل مند لوگ ہی حاصل کر سکتے ہیں ۔“
◈ ان آیات سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں ۔
(1) عقل مند نصیحت کو قبول کرتے ہیں ، جبکہ بے وقوف ٹھکرا دیتے ہیں ۔
(2) اہل توحید عقل مند اور اہل شرک بے وقوف ہوتے ہیں ۔
(3) علم رکھنے والے عقل مند اہل توحید اور جاہل بے وقوفی اہل شرک برابر نہیں ہو سکتے ۔

(4) آخرت سے ڈرنے والے اور اللہ کی رحمت کے اُمید وار نماز تہجد کا اہتمام کرتے ہیں ، جبکہ آخرت فراموش نہ تو نماز تہجد کا اہتمام کرتے ہیں اور نہ اللہ کی رحمت کی امید رکھتے ہیں ۔
——————

نماز تہجد مؤمن کا اعزاز ہے

نماز تہجد مؤمن کے لیے ایک خاص شرف اور اعزاز ہے ۔ مؤمن کی عزت اللہ تعالیٰ کی بے ریا عبادت میں پوشیدہ ہے ، جب کہ وہ دنیا سے بے نیاز ہو کر صرف اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے ۔
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت جبریل علیہ السلام نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا:
يا محمد صلى الله عليه وسلم شرف المؤمن قيام الليل ، وعزه استعناؤه عن الناس [المستدرك للحاكم]
”اے محمد صلى اللہ علیہ وسلم رات کا قیام مؤمن کا شرف ہے اور اُس کی عزت ، اُس کے لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے ۔“
——————

تہجد گذار اور فیاض شخص قابل رشک ہوتا ہے

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ حدیث ہے کہ تہجد گزار شخص اور فیاض شخص دونوں قابلِ رشک ہوتے ہیں ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا حسد إلا فى الدين: رجل آتاه الله القرآن ، فهو يقوم به آناء الليل وآناء النهار ، ورجل آتاه الله مالا ، فهو ينفقه آناء الليل وآناء النهار [صحيح بخاري حديث: 73]

”حسد جائز نہیں ہے ، مگر دو لوگوں کے بارے میں ۔ ایک وہ شخص جسے اللہ نے قرآن سے نوازا ہو اور وہ اس قرآن کے ذریعے دن میں بھی اور رات میں بھی قیام کرتا ہے ۔ دوسرا وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال سے نوازا ہے اور وہ اس مال کے ذریعے سے دن میں بھی اور رات میں بھی خرچ کرتا ہے ۔“
حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جس شخص نے دس آیات کے ساتھ قیام اللیل کیا ، اُس کا نام ﴿غافلين﴾ میں نہیں لکھا جاتا ۔
جس نے سو آیات کے ساتھ قیام کیا ، اُس کا نام ﴿قانتين﴾ یعنی فرماں بردار لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ اور جو شخص ایک ہزار آیات کے ساتھ قیام کرتا ہے اُس کا نام ﴿مقنطرين﴾ یعنی ثواب کے خزانے جمع کرنے والوں میں لکھ دیا جاتا ہے ۔ [ابو: داود حديث: 1398]
——————

نماز تہجد کا اہتمام کرنے والوں کے لیے جنت کے محل

نماز تہجد سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل ہوتا ہے ۔ ایک مؤمن کے درجات میں اضافہ کیا جاتا ہے ۔ اسے جنت میں عالی شان اور نادر محلات عطا کیے جاتے ہیں ۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

بلاشبہ جنت میں ایسے (شفاف شیشوں کے) محل ہیں ، جن کا بیرونی حصہ اندر سے اور اندرونی حصہ باہر سے نظر آتا ہے ۔ یہ محل اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر اُن لوگوں کے لیے تیار کر رکھا ہے جو لوگوں کو کھانا کھلاتے ہیں ، جو نرم گفتگو کرتے ہیں ، جو کثرت سے نفلی روزے رکھتے ہیں ، جو سلام کو عام کرتے ہیں اور جو نماز تہجد کا اہتمام کرتے ہیں ، رات کی ان گھڑیوں میں جب دیگر مخلوق سورہی ہوتی ہے ۔“ [جامع التر مذى ، صفة الجنة ، حديث: 2527]
——————

نماز تہجد میں طویل سجدے اور کثیر ﴿تسبيح﴾ مطلوب ہے

نماز تہجد میں طویل سجدے اور تسبیح کی کثرت مطلو ب ہے ۔ سجدوں کے اندر تسبیح کے اہتمام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی ہے ۔ ﴿تسبيح﴾ دراصل اللہ کی بے عیبی کے اعتراف واظہار کا نام ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ الانسان میں حکم دیتے ہوئے فرمایا:
﴿وَمِنَ اللَّيْلِ فَاسْجُدْ لَهُ وَسَبِّحْهُ لَيْلًا طَوِيلًا﴾ [الانسان: 26]
”اور راتوں کو اُسی کے آگے سر بسجود ہو جائیے اور رات کے طویل حصے میں اُس کی ﴿تسبيح﴾ کئے جائیے ! (یعنی اُس کی بے عیبی کا اعتراف کرتے رہیے )“
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجد میں ، سجدوں کی طوالت پچاس (50) آیات کی تلاوت کے برابر ہوا کرتی تھی ۔ [صحيح مسلم: 1074]
——————

سجدوں میں مندرجہ ذیل ﴿تسبيحات﴾ کا اہتمام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے ۔ ہمیں بھی اس کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
سبحان ربي الأعلى [صحيح مسلم ، كتاب صلاة المسافرين وقصرها حديث: 1,814]
”میں اپنے بر تر رب کی بے عیبی کا اعتراف کرتا ہوں۔“
سبوح قدوس رب الملائكة والروح [صحيح مسلم ، كتاب صلاة حديث نمبر: 1,091]
”نہایت بے عیب اور نہایت مقدس پروردگار کی بے عیبی کا اعتراف ہے ، جو (غلطی نہ کرنے والے ) فرشتوں اور اُن کے سردار جبرئیل علیہ السلام کا آقا ہے ۔“
◈ غور کیجیے جب فرشتوں پر مشتمل اللہ کی ایک مخلوق ایسی ہے ، جو غلطی نہیں کرتی اور کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں کرتی اور اس کے احکامات کی تعمیل کرتی ہے تو اُن کا خالق کس قدر بے عیب ہو گا؟
——————

تہجد میں خوف وطمع سے دعا کرنی چاہیے

آخر شب کی یہ مبارک گھڑیاں ، دعاؤں کے لیے بھی نہایت موزوں ہیں ۔ ایسی دعائیں ، جن میں اللہ کا خوف بھی ہو ، اللہ کے عذاب کا خوف بھی ہو ، الله سے طمع بھی ہو اور اللہ کی جنت کی ابدی نعمتوں کی طمع بھی ہو ، دل کے کسی گوشے میں بھی اللہ کی رحمت سے مایوسی کا معمولی شائبہ تک نہ پایا جاتا ہو ۔ یہ ایسی دعائیں ہیں ، جن میں استکبار اور غرور بھی نہیں پایا جاتا ۔ ظاہر ہے ، یہ ان اہل ایمان ہی کو نصیب ہو سکتی ہیں ، جن کے دل اللہ کی یاد سے معمور ہوتے ہیں اور جن کے سجدوں میں حمد اور تسبیح کے ترانے موجزن ہوتے ہیں ۔
◈ ایسے ہی مومنین کے بارے میں سورۃ السجدۃ میں ارشاد ہوا:
﴿‏ إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ 15‏ تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ﴾ [السجدة: 15 16]
”ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں ، جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے ، تو سجدے میں گر پڑتے ہیں ۔ اور اپنے رب کی ﴿حمد﴾ کے ساتھ اس کی ﴿تسبيح﴾ کرتے ہیں اور ﴿تكبر﴾ نہیں کرتے ، ان کی پیٹھیں ، بستروں سے الگ رہتی ہیں۔ اپنے رب کو ﴿خوف﴾ کے اور ﴿طمع﴾ کے ساتھ پکارتے ہیں۔ اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے ، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“
◈ سورۃ الذاریات اور سورۃ السجدۃ کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ:
(1) اہل ایمان کے لیے صبح سویرے اٹھ جانا بالکل گراں نہیں ہوتا ۔ وہ تہجد کے لیے اٹھ جاتے ہیں ، اور ﴿خوف اور طمع﴾ کے ملے جلے جذبات کے ساتھ ، اپنے رب سے دعائیں مانگتے ہیں ۔
(2) نماز تہجد کا اہتمام کرنے والے ﴿مغرور اور متكبر﴾ نہیں ہو سکتے ۔ وہ اللہ کے عاجز بندے ہوتے ہیں ۔

(3) نیند سے بیدار ہو کر بستروں سے خود کو جدا کر کے وضو کرتے ہیں اور وہ تسبیح کے ساتھ ﴿حمد﴾ کا بھی اہتمام کرتے ہیں ۔
﴿حمد﴾ اللہ کی مثبت صفات کے اظہار کا نام ہے اور تسبیح اللہ سے منسو ب غلط صفات سے براءت کا اظہار ہے ۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی مخصوص دُعا میں بار بار ﴿حمد﴾ کرتے ہیں ، جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔
(4) راہبانہ اور درویشانہ تصور ادیان کے بالکل برعکس ، خدا کے یہ نیک بندے ، دل کھول کر اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ۔ صرف بدنی ریاضت ہی کو عبادت نہیں سمجھتے ، بلکہ مالی ایثار کو بھی تقرب الہی کا ذریعہ گردانتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ شخص جو مال ہی نہیں کماتا اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا رہتا ہے ، وہ بھلا اللہ کی راہ میں کیسے خرچ کر سکتا ہے؟
——————

آخر شب یعنی وقت تہجد ہر دعا قبول ہو جاتی ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
إن فى الليل لساعة لا يوافقها عبد مسلم يسأل الله خيرا من أمر الدنيا والآخرة إلا أعطاه إياه ، وذلك كل ليلة [صحيح مسلم ، صلوة المسافرين ، حديث: 757]
”ہر رات میں ایک گھڑی ایسی ہے ، جب کوئی مسلمان اللہ سے سوال کرے تو اللہ تعالیٰ اُسے دنیا اور آخرت کی وہ مطلوبہ چیز عطا کر دیتا ہے اور یہ گھڑی ہر رات میں ہے ۔“
معلوم ہوا کہ ہر رات کے آخری حصے میں قبولیت دعا کا دروازہ کھل جاتا ہے اور ہر مومن کی ہر جائز دعا قبول کی جاتی ہے ۔ یہ دعا دنیا کی بھی ہو سکتی ہے اور آخرت کی بھی ۔
قیام اللیل کے لیے اٹھنا ، پھر اللہ تعالیٰ سے اُس وقت دعائیں اور مناجات کرنا اس لیے بھی بہت بہتر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ رات کے پچھلے پہر آسمانِ دنیا (نچلے قریبی آسمان ) پر تشریف لاتا ہے (جیسے اس کی شان کے لائق ہے ) اور فرماتا ہے:
انا الملك ! من ذى الذى يدعوني فاستجيب له ، من ذى الذى يسألني فاعطيه ، من ذى الذى يستغفرنى فاغفر له ، فلا يزال كذالك حتى يضيق الفجر
[صحيح بخاري: 1145]
”میں بادشاہ ہوں ! جو مجھے پکارے گا ، میں اُس کی دعا قبول کروں گا ، جو مجھ سے مانگے گا ، میں اسے عطا کروں گا ، جو مجھ سے بخشش طلب کرے گا ، میں اُسے بخش دوں گا ، اور طلوع فجر تک قبولیت کا یہی عالم رہتا ہے ۔“
رمضان میں ہم سحری کے لیے لازما اٹھتے ہیں ۔ فجر کی نماز سے پہلے ، کچھ وقت دعا اور استغفار کے لیے وقف کر دیں تو کتنی خوش نصیبی ہو گی؟
——————

تہجد کے وقت فرشتوں کا نزول ہوتا ہے

ان مبارک گھڑیوں میں نہ صرف اللہ تعالیٰ نچلے آسمان کی طرف نزول فرماتا ہے بلکہ اللہ کے فرشتے بھی نازل ہوتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ۔
الليل مشهودة وذلك أفضل [صحيح مسلم: 755]
”بلاشبہ رات کے آخری حصے کی نماز میں (فرشتوں کو ) حاضر کیا جاتا ہے اور وہی افضل ہے ۔“
انصار کے سردار حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ ایک مشہور صحابی ہیں ۔ ایک رات وہ سورۃ البقرۃ کی تلاوت کر رہے تھے ۔ قریب ہی اُن کا گھوڑا تھا اور اُن کا بیٹا یحیی بھی ۔ تلاوت سے گھوڑا بدکنے لگا ۔ حضرت اُسید رضی اللہ عنہ کو اندیشہ لاحق ہوا کہ کہیں گھوڑا اُن کے بیٹے یحیی کو کچل نہ دے ۔ آسمان کی طرف دیکھا تو انہیں بادلوں کا سائبان نظر آیا ۔ صبح ہوئی تو حضرت اُسید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ
سنایا ۔
آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ فرشتے تھے ، جو تمہاری خوش الحانی سے قریب آگئے تھے ۔ اگر تم پڑھتے رہتے تو لوگ بھی ان فرشتوں کو دیکھ لیتے ۔“ [صحيح بخاري ، حديث: 5,018]
——————

وقت تہجد کیا کرنا چاہیے؟

قرآن و سنت سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت تہجد مندرجہ ذیل اعمال کا اہتمام کرنا چاہیے ۔
طویل قیام: نماز میں ترتیل کے ساتھ قرآءت و تلاوت۔
طویل سجدے: سجدوں میں مسنون تسبیحات اور دعائیں۔
قرآن میں غور و فکر: تفقہ۔
دُعا: خوف و طمع کے جذبات کے ساتھ ۔ سجدوں میں دعا ئیں۔
استغفار: احساس ندامت اور آرزوئے مغفرت کے ساتھ ۔ رکوع و سجود میں استغفار۔
حمد تعریف اور شکر: کثیر تعریف ، بے عیب تعریف ، قیام اور قومہ میں حمد۔
تسبیح: اللہ کی بے عیبی کا اظہار واعتراف ۔ رکوع اور سجود میں تسبیح ۔
استعاذہ: عذاب جہنم سے بچنے کی دعائیں ۔ سجود میں استعاذہ ۔
——————

حضرت داود علیہ السلام کی نماز تہجد

تہجد کی اسی اہمیت اور فضیلت کے پیش نظر اللہ کے تمام رسول اور پیغمبر ، آخر شب کی اس اہم عبادت کا اہتمام کیا کرتے تھے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اللہ کے نزدیک سب سے محبوب نماز حضرت داود علیہ السلام کی نماز ہے ، اور اللہ کے نزدیک سب سے محبوب روزہ حضرت داود علیہ السلام کا روزہ ہے ۔ حضرت داود علیہ السلام نصف رات سوتے تھے اور تہائی رات نماز پڑھتے تھے اور پھر رات کا چھٹا حصہ سوتے تھے ، اسی طرح وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن روزہ نہ رکھتے ۔“
[صحيح بخاري كتاب التهجد ، باب 7 ، حديث: 1,131]
——————

نماز تہجد ہر امت کے خواص اور صالحین کی سنت رہی ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد کی تاکید کرتے ہوئے ، اس کی چار (4) اہم خصوصیات گنوائی ہیں ۔
ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ پچھلی تمام امتوں کے صالحین کی سنت ہے ۔ فرمایا:
عليكم بقيام الليل فإنه داب الصالحين قبلكم ، وهو قربة لكم إلى ربكم ، ومكفرة للسيئات ، ومنهاة عن الإثم [ترمذى ، كتاب الدعوات ، حديث: 3,549]
”قیام اللیل (یعنی نماز تہجد ) کی پابندی کرو ، کیونکہ وہ تم سے پہلے کے صالحین کا طریقہ اور شعار رہا ہے ۔ تمہارے لیے تمہارے رب کی قربت کا وسیلہ ہے ۔ گناہوں کو مٹانے والی ہے ۔ اور معاصی (گناہوں) سے روکنے والی ہے ۔“
——————

نماز تہجد کے لیے اپنے گھر والوں کو بھی جگانا چاہیے

نماز تہجد کے لیے اپنے گھر والوں کو بھی جگانا چاہیے ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی ترغیب دی اور گھر والوں کے ساتھ پڑھنے کی تاکید کی ۔
◈ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب آدمی رات کو اٹھ کر (اپنے ساتھ) اپنی بیوی کو بھی جگاتا ہے ، پھر دونوں مل کر نماز پڑھتے ہیں تو انہیں ﴿الذكرين والذاكرات﴾ میں لکھ دیا جاتا ہے ۔“ [ابوداود: كتاب الصلاة باب قيام الليل حديث: 1,114]
﴿الذاكرين﴾ اور ﴿الذاكرات﴾ سے مراد اللہ کو یاد کرنے والے مرد و خواتین ہیں ۔ ان کا ذکر سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں ہوا ہے ، ان خوش نصیبوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے ۔
——————

بیویوں کی نماز تہجد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مندی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کی نماز تہجد کے بارے میں بھی بہت فکر مند رہتے ۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تہجد کے وقت اللہ کے خزانے نازل ہوتے ہیں ۔ صواحب الحجرات حجرات کی عورتوں کو (یعنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہ کو) کون بیدار کرے گا؟“ [صحيح بخاري: 1,126]
——————

بیٹی اور داماد کی نماز تہجد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مندی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز تہجد کے بارے میں بھی بہت فکر مند رہتے ۔ ایک رات آپ ان کے گھر گئے اور ان سے پوچھا: الا تصليان؟ کیا تم دونوں تہجد کی نماز نہیں پڑھتے؟ [صحيح بخاري: 1,127]
——————

صحابہ رضی اللہ عنہ کی نماز تہجد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکرمندی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی نماز تہجد کے بارے میں بھی بہت فکر مند رہتے ۔ نوجوان صحابی حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اگر عبد اللہ نماز تہجد پڑھنے لگے تو کتنا اچھا آدمی ہو گا؟“ [صحيح بخاري: 1,122]
——————

ایک صحابی رضی اللہ عنہ کی نماز تہجد کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر مندی

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک صحابی کی نماز تہجد کے بارے میں فکر مند ہوتے ہوئے فرمایا: ”فلاں شخص کی طرح نہ ہو جاتا !“
كان يقوم من الليل فترك قيام الليل [صحيح بخاري: 1,152]
”وہ پہلے قیام اللیل کیا کرتا تھا (یعنی تہجد پڑھتا تھا) پھر اس نے قیام اللیل چھوڑ دیا ۔“
معلوم ہوا کہ نفل عمل جب شروع کر دیا جائے تو اُس پر مستقل مزاجی کے ساتھ عمل کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”اللہ تعالیٰ کو وہ عمل پسند ہے ، جو مستقل ہو ، اگرچہ تھوڑا ہو ۔“ [صحيح مسلم كتاب صلاة المسافرين ، حديث: 1,830]

یہ مضمون بھی پڑھیں:

نماز تہجد کے احکام و مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں

اس تحریر کو اب تک 157 بار پڑھا جا چکا ہے۔