قبر والی مسجد میں نماز کا حکم

تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

قبر والی مسجد میں نماز کا حکم
سوال: جن مسجدوں میں قبریں بنی ہوئی ہوں ان میں نماز پڑھنے کا حکم کیا ہے؟
جواب: ان میں نماز پڑھنا درست نہیں ، بلکہ اس نماز کو دہرانا ضروری ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
الأرض كلها مسجد إلا المقبرة والحمام [مسند احمد 92/3 و سنن ابي داؤد ، كتاب الصلاة ، باب فى المواضع التى لا تجوز فيها الصلاة ، ح 492 ۔ وسنن الترمذي ، كتاب الصلاة باب ما جاء ان الأرض كلها مسجد الا المقبرة والحمام ح 317 حدیث صحیح ہے ۔ ]
”سوائے قبرستان اور حمام کے ساری زمین مسجد ہے ۔“
اس حدیث کو امام احمد اور اہل سنن نے روایت کیا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ وغیرہ نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔
امام ابن ابی شیبہ اور امام عبد الرزاق نے اپنے اپنے مصنف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے ، حضرت انس رضی اللہ عنہ جو فرماتے ہیں کہ:
رآني عمر وأنا أصلي إلى قبر ، فجعل يقول: يا أنس القبر وفي لفظ: القبر امامك ، فنهاني [مصنف ابن ابي شيبة 155/2 كتاب الصلاة باب 665 ح 7575/7574 و مصنف عبد الرزاق 404/1 ، ح 1581]
”حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک قبر کے پاس نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے انس ! یہ قبر ہے ۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں وارد ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اے انس ! تمہارے سامنے قبر ہے ۔ اس طرح انہوں نے مجھے اس جگہ نماز ادا کرنے سے روک دیا ۔“
امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام بزار نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:
أن النبى صلى الله عليه وسلم نهى أن يصلى بين القبور
[صحيح ابن حبان 88/6 ، 2315 والبزار (كشف الاستار) 221/1 ح 444 ، 443]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے درمیان نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ۔“
اکثر فقہاء نے لفظ جمع کو بنیاد بناتے ہوئے اس بات کی اجازت دی ہے کہ جہاں ایک قبر یا دو قبریں ہوں تو وہاں نماز پڑھی جاسکتی ہے ۔ اور بعض فقہاء نے یہ علت بیان کی ہے کہ قبروں والی جگہ پر نماز پڑھنے سے اس لیے ممانعت آئی ہے کہ وہاں مردوں کے پیپ اور ان کے جسموں کے سڑنے گلنے کی وجہ سے جو بو آتی ہے اس وجہ سے یہ جگہ نا پاک سمجھی جاتی ہے ۔
لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں ان فقہاء کا تعاقب کیا ہے ، جیسا کہ آپ کی کتاب ”اقتضاء الصراط المستقيم“ (ص 332) اور کتاب ”الاختیارات“ (ص 44) اور کتاب ”مجموع الفتاوی“ (521/4) (290/11) (502/17) میں مذکور ہے ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے روکنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کہیں لوگ ان قبروں کو بتوں کی طرح پوجنے نہ لگ جائیں ، اور یہی وہ علت ہے جس نے اکثر و بیشتر لوگوں کو یا تو شرک اکبر میں مبتلا کر دیا ہے یا پھر شرک اصغر میں ۔ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس
مسئلہ پر ان احادیث سے استدلال کیا ہے جن میں قبروں کو مساجد بنانے کی ممانعت آئی ہے ، جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔
ألا فلا تتخذوا القبور مساجد فإنى أنهاكم عن ذلك [صحيح مسلم كتاب المساجد ومواضع الصلاة باب 3 ح 532]
”خبردار ! قبروں کو مسجد (سجدہ گاہ) نہ بنانا ، میں تم کو اس سے روک رہا ہوں ۔“
اس حدیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت جندب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے روایت کیا ہے ۔ چنانچہ اگر یہاں (قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے ممانعت کی) علت نجاست کا خطرہ ہوتی تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء علیہ السلام کی قبروں کو مسجد بنانے سے نہ روکتے ۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں فرمایا:
لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبياءهم مساجد [صحيح مسلم حواله سابقه ، ح 529]
”کہ یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو ، اس لیے کہ انہوں نے اپنے انبیاء علیہ السلام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔“
اور صحیح مسلم میں حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ
ألا وان من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور انبياءهم وصالحيهم مساجد [صحيح مسلم ، ح 532]
”سنو ! تم سے پہلے لوگوں نے اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو مسجد (سجدہ گاہ) بنا لیا تھا ۔ (لیکن تم کبھی بھول کر بھی ایسا نہ کرنا ۔ ۔ الخ“ )
اور یہ تو بالکل واضح بات ہے کہ انبیاء علیہ السلام کے جسم مبارک گلتے سڑتے نہیں ہیں ، جیسا کہ حدیث میں وارد ہے ، چنانچہ زمین بھی ناپاک نہیں ہوتی ۔ تو اب یہ بات ظاہر ہو گئی کہ ان قبروں کے پاس نماز پڑھنے سے اس لیے روکا گیا ہے کہ اس میں غلو و افراط کا اندیشہ ہے اور یہ خطرہ بھی پیش نظر تھا کہ کہیں لوگ ان قبروں کو بتوں اور مورتیوں کی طرح پوجنا نہ شروع کر دیں ۔ واللہ اعلم !

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔